دین جائے ایمان بکے ۔۔۔ پیسا ملنا چاہیئے
ہمارے ہاں بعض لوگ دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ حیوانوں سے بھی بد تر ہوتے ہیں۔
SUKKUR:
بس پیسا ملنا چاہیے! خواہ خدا اور رسول ہی کو بیچ کر ملے، انسانیت کا خون بہا کر ملے، عزت و حمیت فروخت کر کے ملے یا دوسروں کو عذاب ناک موت کی ٹکٹکی پر چڑھا کر ملے، بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بعض لوگ دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے کارنامے دیکھیے تو معلوم پڑے گا خبیث ان کے سامنے معصوم پڑتے ہیں۔ آپ ان کی صورتوں پر طاری حلیمی دیکھیے گا، ان کی نمازیں پڑھنا اور تسبیح شماری دیکھیے گا، ان کے روزے رکھنا دیکھیے گا تو آپ کو محسوس ہوگا فرشتے ان کے آگے پانی بھرتے ہیں لیکن اندر جھانکیے گا تو پتا چلے گا کہ یہ ابلیس کی آل ہیں۔ ایسے ہی انسان نما چند ابلیسوں کا سراغ نعمان پورہ میں ملا ہے جو حرام اور حلال مردہ جان وروں کی آنتوں، ہڈیوں اور چربی سے گھی تیار کرنے والی فیکٹری قائم کیے ہوئے تھے۔
معلوم ہوا کہ یہ آلِ اِبلیس یہاں دو سال سے یہ خباثت کا کار و بار جاری رکھے ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں خلقِ خدا کو یہ حرام زہر کھلا چکے ہیں۔ یہ جعل سازی کا کارخانہ نعمان پورہ پولیس سے محض سو گز کے فاصلے پر قائم تھا گویا، مسجد کے زیرِ سایہ خرابات عملی طور پر سرگرم رہی ہے۔ اس نام نہاد فیکٹری سے اس قدر شدید اور ناگوار بو اٹھتی تھی کہ اہلِ علاقہ کا ناک میں دم تھا۔ بارہا کی شکایات کے بعد چند روز قبل جب اس فیکٹری پر چھاپہ مارا گیا تو بھید کھلا کہ ایک نابکار اپنے ساتیوں کی مدد سے یہاں مال تیار کر کے آزاد کشمیر، پشاور اور راول پنڈی میں واقع متعدد ہوٹلوں کو گھی دکھائی دینے والا یہ زہریلا مواد سستے داموں سپلائی کرتا رہا ہے۔
چھاپے کے دوران کام کرنے والے دو افراد پولیس کے ہاتھ چڑھ گئے اور جیسا کہ اس طرح کے چھاپوں میں ہوتا ہے کہ مالک فرار ہونے میں اکثر کام یاب ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہوا۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں گرفتار شدگان اور ان کے سرغنے محمد رفیق کا تعلق صوبۂ خیبر پختون خوا کے علاقے سوات سے ہے۔ چھاپے کے موقع پر گھی کے نصف درجن ٹین کے کنستر تیار تھے اور بڑی مقدار میں گندا مواد تیاری کے مراحل میں تھا۔ فیکٹری کے اندر بدبو کی شدت ناقابلِ برداشت تھی اور سارے میں غلیظ ہڈیاں، گلی سڑی آنتیں اور گندی چربی کے انبار لگے ہوئے تھے۔ تیار شدہ مال کے کنستروں پر چسپاں کیے جانے والے ''من پسند، فوجی، جہاں پسند، غازی'' اور دیگر معروف گھی کمپنیوں کے لیبل بھی بڑی تعدا میں موجود تھے۔
چھاپے کے موقع پر اہل علاقہ، انجمن تاجران نعمان پورہ اور صحافیوں کی خاصی تعداد بھی موجود تھی۔ چھاپہ مارا گیا تو دو کار کن نادر خان اور خان محمد خان بڑی تن دہی سے اپنا شیطانی فریضہ ادا کرنے میں مصروف تھے، ان دونوں کا تعلق بھی سوات سے نکلا ہے۔ بہ قول تحصیل دار ممتاز کاظمی، چھاپے کو رکوانے کے لیے بڑے شیطان رفیق (اس کے نام کے ساتھ ''محمد'' لکھتے ہوئے مناسب نہیں لگتا) نے فون پر انہیں بھاری رشوت کی پیش کش بھی کی تاہم جسے دھتکار دیا گیا۔ جب کہ گرفتار ہونے والے افراد کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر باغ اور نعمان پورہ کے مختلف مقامات، ندی نالوں اور ذبح خانوں سے پھینکا جانے والا مواد اکٹھا کر تے تھے، ان میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی تھی کہ ہڈی، آنت یا چڑبی کسی حلال جان ور کی ہے یا کسی مرے ہوئے کتے بلی وغیرہ کی ہے۔
ان کے انکشاف کے مطابق ''تیار شدہ مال''، جسے وہ لوگ گھی کا نام دے رہے تھے، کنستروں میں بھر کر کر ان پر معروف برینڈز کے لیبل لگا کر راول پنڈی اور پشاور بھیجا جاتا رہا ہے اور حرام خوری کا یہ سلسلہ گذشتہ دو برس سے تسلسل کے ساتھ جاری تھا، رفیق سرغنہ اس سے کتنے کروڑ روپے بنا چکا ہو گا، اس کا کوی علم نہیں اور اب جب کہ وہ فرار بھی ہو چکا ہے تو اس کی گرفتاری کے امکانات بھی معدوم ہو گئے کیوں کہ ہمارے ہاں یہ ریت چلی آرہی ہے کہ سرغنوں کا پیچھا کم ہی کیا جاتا ہے اور ''کمیوں'' کو دھر لیا جاتا ہے۔
یہ گھی سستے اور بعض حالات میں اچھے ہوٹلوں میں بھی کھانوں میں استعمال ہو تا ہے، اب تک خدا جانے کتنے معصوم لوگوں کو یہ حرام کھلایا جا چکا ہوگا۔ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ کس جانور کی ہڈیاں، انتڑیاں یا چربی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کا گندا زہر آلود اور جان لیوا گھی بنی پساری میں تیار کیا جا تا رہا ہے۔
جہاں سے باغ بلدیاں نے ان کو فیکٹری دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور کیا جب کہ ذرائع کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نعمان پورہ اور باغ کے مختلف ذبح خانوں سے گندہ خون جمع کر کے اس سے چنے کے چھلکے رنگ کر چائے کی پتی کے نام پر فروخت کی جا تی ہے۔ بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے! خواہ دین و ایمان فروخت کر کے ملے، انسانیت کا خون بہا کر ملے، عزت و حمیت بیچ کر ملے یا دوسروں کی جان سے کھیل کر ملے، بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے۔
بس پیسا ملنا چاہیے! خواہ خدا اور رسول ہی کو بیچ کر ملے، انسانیت کا خون بہا کر ملے، عزت و حمیت فروخت کر کے ملے یا دوسروں کو عذاب ناک موت کی ٹکٹکی پر چڑھا کر ملے، بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بعض لوگ دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے کارنامے دیکھیے تو معلوم پڑے گا خبیث ان کے سامنے معصوم پڑتے ہیں۔ آپ ان کی صورتوں پر طاری حلیمی دیکھیے گا، ان کی نمازیں پڑھنا اور تسبیح شماری دیکھیے گا، ان کے روزے رکھنا دیکھیے گا تو آپ کو محسوس ہوگا فرشتے ان کے آگے پانی بھرتے ہیں لیکن اندر جھانکیے گا تو پتا چلے گا کہ یہ ابلیس کی آل ہیں۔ ایسے ہی انسان نما چند ابلیسوں کا سراغ نعمان پورہ میں ملا ہے جو حرام اور حلال مردہ جان وروں کی آنتوں، ہڈیوں اور چربی سے گھی تیار کرنے والی فیکٹری قائم کیے ہوئے تھے۔
معلوم ہوا کہ یہ آلِ اِبلیس یہاں دو سال سے یہ خباثت کا کار و بار جاری رکھے ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں خلقِ خدا کو یہ حرام زہر کھلا چکے ہیں۔ یہ جعل سازی کا کارخانہ نعمان پورہ پولیس سے محض سو گز کے فاصلے پر قائم تھا گویا، مسجد کے زیرِ سایہ خرابات عملی طور پر سرگرم رہی ہے۔ اس نام نہاد فیکٹری سے اس قدر شدید اور ناگوار بو اٹھتی تھی کہ اہلِ علاقہ کا ناک میں دم تھا۔ بارہا کی شکایات کے بعد چند روز قبل جب اس فیکٹری پر چھاپہ مارا گیا تو بھید کھلا کہ ایک نابکار اپنے ساتیوں کی مدد سے یہاں مال تیار کر کے آزاد کشمیر، پشاور اور راول پنڈی میں واقع متعدد ہوٹلوں کو گھی دکھائی دینے والا یہ زہریلا مواد سستے داموں سپلائی کرتا رہا ہے۔
چھاپے کے دوران کام کرنے والے دو افراد پولیس کے ہاتھ چڑھ گئے اور جیسا کہ اس طرح کے چھاپوں میں ہوتا ہے کہ مالک فرار ہونے میں اکثر کام یاب ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہوا۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں گرفتار شدگان اور ان کے سرغنے محمد رفیق کا تعلق صوبۂ خیبر پختون خوا کے علاقے سوات سے ہے۔ چھاپے کے موقع پر گھی کے نصف درجن ٹین کے کنستر تیار تھے اور بڑی مقدار میں گندا مواد تیاری کے مراحل میں تھا۔ فیکٹری کے اندر بدبو کی شدت ناقابلِ برداشت تھی اور سارے میں غلیظ ہڈیاں، گلی سڑی آنتیں اور گندی چربی کے انبار لگے ہوئے تھے۔ تیار شدہ مال کے کنستروں پر چسپاں کیے جانے والے ''من پسند، فوجی، جہاں پسند، غازی'' اور دیگر معروف گھی کمپنیوں کے لیبل بھی بڑی تعدا میں موجود تھے۔
چھاپے کے موقع پر اہل علاقہ، انجمن تاجران نعمان پورہ اور صحافیوں کی خاصی تعداد بھی موجود تھی۔ چھاپہ مارا گیا تو دو کار کن نادر خان اور خان محمد خان بڑی تن دہی سے اپنا شیطانی فریضہ ادا کرنے میں مصروف تھے، ان دونوں کا تعلق بھی سوات سے نکلا ہے۔ بہ قول تحصیل دار ممتاز کاظمی، چھاپے کو رکوانے کے لیے بڑے شیطان رفیق (اس کے نام کے ساتھ ''محمد'' لکھتے ہوئے مناسب نہیں لگتا) نے فون پر انہیں بھاری رشوت کی پیش کش بھی کی تاہم جسے دھتکار دیا گیا۔ جب کہ گرفتار ہونے والے افراد کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر باغ اور نعمان پورہ کے مختلف مقامات، ندی نالوں اور ذبح خانوں سے پھینکا جانے والا مواد اکٹھا کر تے تھے، ان میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی تھی کہ ہڈی، آنت یا چڑبی کسی حلال جان ور کی ہے یا کسی مرے ہوئے کتے بلی وغیرہ کی ہے۔
ان کے انکشاف کے مطابق ''تیار شدہ مال''، جسے وہ لوگ گھی کا نام دے رہے تھے، کنستروں میں بھر کر کر ان پر معروف برینڈز کے لیبل لگا کر راول پنڈی اور پشاور بھیجا جاتا رہا ہے اور حرام خوری کا یہ سلسلہ گذشتہ دو برس سے تسلسل کے ساتھ جاری تھا، رفیق سرغنہ اس سے کتنے کروڑ روپے بنا چکا ہو گا، اس کا کوی علم نہیں اور اب جب کہ وہ فرار بھی ہو چکا ہے تو اس کی گرفتاری کے امکانات بھی معدوم ہو گئے کیوں کہ ہمارے ہاں یہ ریت چلی آرہی ہے کہ سرغنوں کا پیچھا کم ہی کیا جاتا ہے اور ''کمیوں'' کو دھر لیا جاتا ہے۔
یہ گھی سستے اور بعض حالات میں اچھے ہوٹلوں میں بھی کھانوں میں استعمال ہو تا ہے، اب تک خدا جانے کتنے معصوم لوگوں کو یہ حرام کھلایا جا چکا ہوگا۔ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ کس جانور کی ہڈیاں، انتڑیاں یا چربی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کا گندا زہر آلود اور جان لیوا گھی بنی پساری میں تیار کیا جا تا رہا ہے۔
جہاں سے باغ بلدیاں نے ان کو فیکٹری دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور کیا جب کہ ذرائع کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نعمان پورہ اور باغ کے مختلف ذبح خانوں سے گندہ خون جمع کر کے اس سے چنے کے چھلکے رنگ کر چائے کی پتی کے نام پر فروخت کی جا تی ہے۔ بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے! خواہ دین و ایمان فروخت کر کے ملے، انسانیت کا خون بہا کر ملے، عزت و حمیت بیچ کر ملے یا دوسروں کی جان سے کھیل کر ملے، بس ۔۔۔۔ پیسا ملنا چاہیے۔