بچیوں کے ساتھ درندگی کا یہ کھیل کب تک جاری رکھنا ہے

حوا کی بیٹی کے ساتھ ظلم اور زیادتی زمانۂ جاہلیت کے دور کی تمام تر یادیں ذہن کے پردے پر فلم کی طرح چلا دیتی ہے۔


Noor Muhammad Soomro October 19, 2013
صد افسوس! کہ اس جدید دور میں بھی اس ظلم کا نہ تو خاتمہ ہو سکا اور نہ ہی کسی مؤثر قانون پر عمل درآمد۔ فوٹو: فائل

آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کبھی کہیں حوا کی بیٹی کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہوتی ہے تو زمانۂ جاہلیت کے دور اور اس کی تمام تر یادیں ذہن کے پردے پر اس طرح چلنا شروع ہو جاتی ہیں کہ جیسے فلم چل رہی ہو اور افسوس ہوتا ہے کہ انسان آج بھی اسی قتل و غارت اور حوا کی بیٹی کے ساتھ ظلم کرنے میں مصروف ہے لیکن صد افسوس! کہ اس جدید دور میں بھی اس ظلم کا نہ تو خاتمہ ہو سکا اور نہ ہی کسی مؤثر قانون پر عمل درآمد؛ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

6 اگست کی پر آشوب صبح کو اخبارات میں چھپنے والی خبر نے ضلع رحیم یار خان کے ہر باسی پر قیامت ڈھا دی اور دو روز سے اپنی بیٹی کی گم شدگی کا صدمہ سہنے والے والدین کے پانو تو جیسے زمین ہی میں گڑ گئے لیکن وہ جیسے تیسے تھانہ پکا لاڑاں پہنچے اور وہاں پر موجود ایک معصوم کلی کی لاش دیکھ کر تو ان کے ہوش اڑ گئے کیوں کہ وہ لاش ان کی معصوم اقراء کی تھی۔ تخلیق انسان کے وقت حکم عدولی کرنے والا فرشتوں کا سردار جب حکم عدولی کی پاداش میں لعین قرار پایا تو اس نے اللہ رب العزت کو کہا کہ وہ ہمیشہ قدم قدم پر اس کے بندوں کو راہ حق سے بھٹکاتا رہے گا۔

یوں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کے ساتھ شیطان موجود ہے اور وہ اپنے کہے کے مطابق انسان کو بھٹکا رہا ہے۔ اس بہکاوے میں آ کر انسان شیطانیت کے آخری درجے تک پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچ کر وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے کہ جس کو دیکھ کر انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ ایسا ہی دل خراش واقعہ ''یومِ آزادی'' سے دس دن قبل یعنی 4 اگست 2013 کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے نواحی علاقے اور کار و باری مرکز خان بیلہ میں پیش آیا جہاں پر ہنستی کھیلتی ایک نو یا دس سالہ اقراء دکان سے سودا لینے کے بعد گھر واپس جا رہی تھی کہ اسے راستے میں اغوا کر لیا گیا۔



جب وہ دو تین گھنٹوں تک واپس نہ پہنچی تو اس کی والدہ نے اس کے والد محمد حنیف اور اپنے بیٹے حافظ خادم حسین کو اطلاع کی جس پر وہ اسے تلاش کرتے رہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سورج غروب کیا ہوا کہ والدین کی آسوں اور امیدوں کا سورج بھی ڈوب گیا چناں چہ اقراء کے گھر میں دبی دبی سسکیوں نے آہوں اور پھر دھاڑوں کی صورت اختیار کر لی اور پورے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ آہ و بکا کے دوران گھر کے افراد بچی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اقراء نے نہ ملنا تھا، نہ ملی۔ مجبوراً پولیس کو مطلع کرنا پڑا۔ پولیس نے اغواء کے خدشے کے پیشِ نظر اقراء کے ورثاء کو احتیاط برتنے اور خاموشی سے اقراء کی تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ دوسرے دن تھانہ پکا لاڑاں پولیس کو موری منچن برانچ سے ایک لاوارث بچی کی لاش ملی۔ تیسرے دن 6 اگست کو اخبارات میں خبر چھپی تو ورثاء تھانہ پکا لاڑاں پہنچ گئے۔

پولیس نے سرد خانے میں رکھی لاش ورثا کو دکھائی تو درد ناک منظر دیکھ کر ورثاء سمیت موقع پر موجود لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ تیسری کلاس کی ایک معصوم بچی کو نہ صرف بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا بل کہ قتل سے قبل اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے علاوہ اس کے کان' ناک اور ہونٹ کاٹ کر چہرہ مسخ کر دیا گیا۔ قتل کی اس لرزہ خیز واردات کے محرکات کیا ہیں؟ ایک 10 سالہ بچی کو اس طرح ظلم و بربریت کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس کا تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا لیکن اس انسانیت سوز واقعہ کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ اس افسوس ناک موقع پر باپ پر غشی کا دورہ پڑ گیا اور بھائی دیوانہ وار بہن سے لپٹ گیا۔

ظالموں نے اقراء کے گلے میں بجلی کے تار کا پھندا ڈالا تھا اور اس کے دوپٹے سے اس کے ہاتھ الٹے باندھ کر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور چہرہ مسخ کرنے کے لیے کالے کروڈ آئل سے چہرہ لیپ دیا تاکہ لاش پہچانی نہ جا سکے۔ دن بھر اور رات تک پانی میں سڑتی سلگتی لاش ظلم کی ایک ایسی تصویر بنی ہوئی تھی جسے کوئی بھی شخص دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ضروری قانونی کارروائی کے بعد جب معصوم اقراء کو گھر لایا گیا تو ماں اور بہنیں حیرت و یاس کی تصویریں بن گئیں' انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس دنیا میں اس طرح کا ظلم اور درندگی بھی ہوتی ہے۔

معصوم اقراء کا آخر قصور کیا تھا کہ ایک ننھی سی جان کو اس درندگی' بربریت اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت بھی شرم سے منہ چھپاتی پھر رہی ہے ۔۔۔ کیوں؟ یہ سوال ابھی تک تشنۂ جواب ہے۔ تھانہ شیدانی میں پولیس کارروائی کا آغاز ہوا۔ بچی کے باپ نے اپنے ہی بھائی کے بیٹوں پر شک کا اظہار کیا۔ تدفین پر ہونے والی چہ می گوئیوں کی بنیاد پر ملزمان نور احمد' حضور بخش' ایاز احمد' فیاض احمد ولد عبدالغنی نے از خود پولیس اور مدعی پارٹی کے دباؤ اور الزام سے پہلے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی جس کی وجہ سے اقراء کے والدین کا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔

پولیس کے مسائل اور روایتی انداز تفتیش کی وجہ سے اس روح فرسا واقعہ کا منطقی انجام حصول انصاف کا منتظر ہے۔ اقراء کی معصوم روح اپنا قصور پوچھنے کے لیے بھٹک رہی ہے۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ اس کے ورثا کو مسلسل عذاب و انتظار کی زد پر لیے ہوئے ہے۔ ماں اور بہنیں آخری عدالت کی طرف ہاتھ اٹھائے انصاف کی طلب گار ہیں۔ فی الوقت باضابطہ طور پر کوئی ملزم مجرم بن کر سامنے نہیں آیا۔ تفتیش کب مکمل ہو گی؟ اس دل خراش واقعہ کی حقیقت کب عیاں ہو گی؟ مجرم کب عدالت کے کٹہرے میں لائے جائیں گے؟ یہ تمام سوال ہنوز تشنۂ جواب ہیں۔

وزیر اعلیٰ' وزیر اعظم' صدر اور عدالت عالیہ تک شاید یہ واقعہ نہ پہنچا ہو لیکن جو ادارے اور جو لوگ اس واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں' انہیں اس سلسلے میں اللہ کے حضور سرخرو ہونا چاہیے۔ ادھر معصوم اقراء کے قتل کی تفتیش کرنے والی پولیس ٹیم کی قیادت خود ایس پی رحیم یار خان تنویر حسین تنیو کر رہے ہیں اور انہوں نے اقراء کے ورثاء کو یقین دلایا ہے کہ ملزم بہت جلد پولیس کی حراست مین ہوں گے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

 



جب کہ مبینہ طور پر علم میں آیا ہے کہ اقراء کے بھائی کے مقامی خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ یا پھر کسی لڑکی کے اقراء کے بھائی کے ساتھ کوئی تعلقات تھے' یا مبینہ طور پر ان کے رشتے کی بات چلی اور ختم ہو گئی تھی اور اسی شبہے میں پولیس نے اس لڑکی کے بھائی کو حراست میں لے لیا تھا اور دو روز تک پوچھ گچھ بھی کی تھی لیکن اقراء کے ورثاء کے مطابق اسے دو روز بعد ہی چھوڑ دیا گیا تھا جب کہ مقتولہ کے ورثاء نے مبینہ طور پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق ایس ایچ او شہنشاہ چانڈیو کی تفتیش میں اس بات کا عندیہ ملتا تھا کہ شاید مبینہ طور پر لڑکی کا بھائی اقراء کے قتل میں ملوث ہے۔

بہ ہرحال تا حال اقراء کے قاتلوں کا کچھ پتا نہیں چل سکا اور پولیس کی روایتی سرد مہر تفتیش کی بہ دولت اقراء کے والدین کو بھی کچھ آس امید نظر نہیں آتی۔ اسی لیے مقتولہ کے والد محمد حنیف' بھائی خادم حسین اور والدہ کا کہنا ہے کہ اگر پولیس ملزموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتی تو انہیں سزا دینے کا اختیار دیا جائے۔

ایک طرف تو پورے ملک میں نابالغ اور معصوم لڑکیوں کے ساتھ زیادتیوں کے پے در پے واقعات میڈیا کی بہ دولت منظر عام پر آ رہے ہیں اور دوسری طرف سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں جب کہ اسلامی تعلیمات میں اس بابت واضح بتایا جا چکا ہے پھر بھی اگر اس قانون کو ختم کیا جاتا ہے تو عام آدمی یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ یہ درندہ صفت انسان نما بھیڑیے اس معاشرے میں کیا گل کھلائیں گے اور پھر ان کے ظلم اور بربریت سے سادہ لوح' معصوم اور شریف لوگ کیسے بچ سکیں گے۔ خدانخواستہ یہ قانون کالعدم ہوگیا تو سماج مین کیا تباہی آئے گی اس کا تصور ہی دل دہلا دینے کو کافی ہے۔ پولیس کو ہر زاویے سے تفتیش کرنا ہو گی تاکہ اصل مجرم بے نقاب ہو کر کیفر کردار تک پہنچ سکیں اور کسی بے گناہ کو کال کوٹھڑی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ب ہرحال یہ کیس ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ ' ایس پی تنویر احمد تنیو اور موجودہ ایس ایچ او تھانہ شیدانی مسلم ضیاء کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں