سعودی عرب کا سلامتی کونسل پر عدم اعتماد

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ،اس کے دس غیر...

سلامتی کونسل نے جمعرات کو پانچ غیر مستقل ارکان کا انتخاب کیا جس میں سعودی عرب بھی پہلی بار رکن منتخب ہوا۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ،اس کے دس غیر مستقل ارکان بھی ہیں جن کو دو دو سال کی رکنیت تفویض کی جاتی ہے۔ ان کی مدت ختم ہونے کے بعد نئے اراکین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ منتخب ہونے والے 5 غیر مستقل ارکان میں چاڈ، چلی، لیتھوانیا اور نائجیریا کے ساتھ سعودی عرب کو بھی پہلی بار سلامتی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا لیکن سفارتی حلقوں کو اس وقت تعجب ہوا جب سعودی عرب نے اپنی نشست لینے سے انکار کر دیا۔ جمعرات کو ہونے والے اس انتخاب میں اقوامِ متحدہ کے 193 ارکان نے مذکورہ پانچوں ممالک کو بلا مقابلہ منتخب کیا تھا۔ منتخب ہونے والے ان پانچ ممالک نے آذربائیجان، گوئٹے مالا، مراکش، پاکستان اور ٹوگو کی جگہ لی ہے۔ نئے ارکان کی دو سالہ مدت یکم جنوری 2014ء سے شروع ہوگی۔ اقوامِ متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلمی کا کہنا تھا کہ ہمارا انتخاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نے طویل مدت سے اعتدال پسندی کی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور ہم تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔

اس کے ایک روز بعد ہی سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دہرا معیار ہے جس کی وجہ سے دنیا میں امن کے لیے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی جائیں۔ تاہم اس حوالے سے مزید وضاحت نہیں کی گئی کہ سعودی مملکت کن اصلاحات کا تقاضا کر رہی ہے۔ البتہ سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب اس وقت تک 15 رکنی سلامتی کونسل کا حصہ نہیں بنے گا جب تک اس میں مناسب اصلاحات نہیں کی جاتیں جو اس تنظیم کو عالمی امن و سلامتی کا تحفظ کرنے کے قابل بنائیں۔ دوسری طرف سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے کہا ہے کہ ابھی تک سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی نشست چھوڑنے کے حوالے سے باضابطہ آگاہ نہیں کیا۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم سعودی عرب کی پریشانی میں برابر کے شریک ہیں اور ہم شام کے معاملے پر ریاض سے بات چیت کر رہے ہیں۔ جب کہ روس نے سعودی عرب کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حیران کن ہے۔


بعض سفارتی مبصرین کے حوالے سے عالمی میڈیا میں خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ سلامتی کونسل پر سعودی عرب نے جس عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اس میں یقیناً حق بجانب ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں فلسطین کا مسئلہ گزشتہ سات دہائیوں سے لٹکا ہوا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ پورا خطہ کشیدگی کا شکار ہے بلکہ اس تنازعے کی وجہ سے علاقے میں کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ایک طرف اقوام متحدہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی مخالفت کرتی ہے دوسری طرف اسرائیل کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں جوہری ہتھیاروں کا انبار موجود ہے مگر سلامتی کونسل کی طرف سے اس حوالے سے آج تک کوئی تادیبی اقدام نظر نہیں آتا۔ جہاں تک سلامتی کونسل میں اصلاحات کی بات کا تعلق ہے تو یہ درست ہے، عرصے سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے کا سوال ہے تو اس کے امیدواروں میں برازیل، جاپان اور جرمنی کے علاوہ بھارت بہت نمایاں ہیں۔ لیکن اگر ان ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہو جائے تو کیا عالمی مسائل کو منصفانہ طور پر حل کرا دیں گے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

بالخصوص بھارت جو خود پینسٹھ سال سے جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیے بیٹھا ہے اور اس مقبوضہ وادی میں اس نے سات لاکھ سے زاید فوج جھونک رکھی ہے جو آزادی کا نام لینے والے کشمیری مسلمانوں کو بے دریغ قتل و غارتگری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اب تک ہلاک کیے جانے والے کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ ہزاروں کو لاپتہ کر دیا گیا لیکن نہ تو اقوام متحدہ کو کشمیر کے بارے میں منظور کردہ اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کی توفیق ہوئی ہے نہ ہی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے حامل ملکوں کو اس حوالے سے کسی قسم کی تشویش لاحق ہے مگر جہاں پر مغربی ممالک کے مفاد یا دلچسپی کا معاملہ اٹھتا ہے سلامتی کونسل فی الفور اقدام کرتی ہے۔ اس کی مثالیں انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے قیام اور سوڈان میں تیل کے ذخائر سے مالامال جنوبی علاقے کو علیحدہ ملک بنانا ہے۔ یوگو سلاویہ کے بحران کے دوران بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں بھی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل خاطرخواہ کردار ادا نہیں کر سکیں۔ عراق اور پھر افغانستان پر امریکا اور نیٹو ممالک کے حملے کو قانونی جواز بھی اقوام متحدہ نے ہی دیا۔

اگر اقوام متحدہ قانونی چھتری مہیا نہ کرتی تو ان ممالک میں کشت و خون نہ ہوتا۔ یہ سب اس عالمی ادارے کے دہرے معیار کے بیّن ثبوت جن کی طرف سعودی عرب نے اشارہ کرتے ہوئے احتجاجاً سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے امریکا کی مشرق وسطی کی پالیسیوں کے حوالے سے خاصے سخت اختلافات پیدا ہو چکے ہیں خصوصاً مصر اور شام کے بارے میں امریکی پالیسیوں پر سعودی عرب کے امریکا سے تعلقات گزشتہ دو برس سے کشیدہ ہیں۔ نیز ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات استوار کرنے کی کوششوں پر بھی سعودی عرب کو تحفظات ہیں جسے سعودیہ خطے میں اپنا حریف تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب نے گزشتہ ماہ اپنی ناراضگی کا اظہار اس انداز سے کیا تھا جب اس کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چند روز بعد جب امریکی صدر بارک اوباما نے ایرانی صدر حسن روحانی سے واشنگٹن میں ملاقات کی تو سعودی عرب کی ناراضگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہرحال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت بطور احتجاج چھوڑنے کا اعلان کر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا ہے۔ اس سے طاقتور ملکوں پر یہ ضرور آشکار ہوا کہ ان کی من مانی پالیسیوں پر ان کے دوستوں اور اتحادیوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
Load Next Story