شہید وطن حکیم محمد سعید
17 اکتوبر 1998ء کا وہ منحوس دن میں کبھی نہیں بھول سکتی، جب صبح دس بجے میں اپنے کالج ...
KARACHI:
17 اکتوبر 1998ء کا وہ منحوس دن میں کبھی نہیں بھول سکتی، جب صبح دس بجے میں اپنے کالج (گورنمنٹ ویمن کالج ناظم آباد) پہنچی تو اسٹاف روم میں ایک گمبھیر سناٹے نے میرا خیر مقدم کیا، میری کلاس شروع ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا، لہٰذا میں ایک صوفے پر چپ چاپ بیٹھ گئی اور ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی۔ خدا خیر کرے۔۔۔۔ میرے دل نے کہا۔۔۔۔ اچانک میری دوست نے مجھے اپنے پاس بلایا تشویش ناک اور افسردہ لہجے میں بتایا کہ ''حکیم سعید کو قتل کر دیا گیا''۔ اس دن پورے کالج کا ماحول اداسی میں ڈوبا ہوا تھا۔
ہم لوگ دو بجے جب گھر جانے کے لیے کالج سے باہر نکلے تو سوچ رہے تھے کہ یقینا دوسرے دن حکومت کی جانب سے سوگ کی اپیل کی جائے گی کہ ایک قیمتی گوہر نایاب دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، جو واقعتاً مسیحا تھا لیکن افسوس کہ اگلے دن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ نہ کاروبار بند رکھنے کی اپیل، نہ کوئی یوم سوگ۔۔۔۔!! کچھ بھی نہیں، بس اہل دل رو رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ جب بھی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا کوئی ادنیٰ سا کارکن دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے تو کئی کئی دن سوگ منایا جاتا ہے، مارکیٹیں جبراً بند کروائی جاتی ہیں لیکن جب وہ شخص نشانہ بنا جس نے مسیحائی کی ایک تاریخ پاکستان میں رقم کی تو اس کا سوگ کسی جماعت نے نہیں منایا، اس مخلص انسان کا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان سے سچی محبت کرتا تھا۔
اس عظیم انسان کے علم میں یہ بات تھی کہ بڑے بڑے لوگوں نے اپنے تعلقات کی بدولت اربوں روپے کے قرضے لیے اور ہضم کر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قرضے وصول کر لیے جائیں اور سیاستدان اپنی لوٹی ہوئی خفیہ دولت وطن واپس لے آئیں تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس یہی جرم تھا ان کا کہ سچ بیان کر دیا۔۔۔۔ اور پھر گولیوں کا زہر ان کی رگوں میں اتار دیا گیا۔ اتنے فہمیدہ، بردبار اور دانشور نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ ان کے سچ کی پذیرائی کی جائے گی، وہ یہ کیوں بھول گئے کہ پاکستان نام کی چراگاہ صرف جنگلی جانوروں کے لیے بنی ہے۔
حکیم محمد سعید جیسے لوگ روز پیدا نہیں ہوتے۔صرف ان کا ادارہ ہمدرد زندہ ہے جسے ان کی ہونہار صاحبزادی سعدیہ راشد نہایت کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ حکیم صاحب کی ذات سے جڑی بے شمار یادیں ہیں جنھیں میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ وہ ایک مینارۂ نور اور علم و آگہی کا منبع تھے۔ بندر روڈ پر پاکستان آنے کے بعد نہایت مختصر سی جگہ سے مسیحائی کا سنگ بنیاد رکھنے والے ایک محب وطن شخص نے اپنی ذات اپنی مسیحائی اور انسانی ہمدردی سے جو خدمات اپنے ادارے کے لیے انجام دیں اسے لوگ بھولے نہیں ہیں۔ میری آنکھوں میں آج بھی وہ مناظر زندہ ہیں، جب دوا خانے میں ایک الگ حصہ گراؤنڈ فلور پہ مرہم پٹی کا تھا۔ وہاں آنیوالے کسی بھی مریض سے علاج معالجے کے عوض کوئی رقم نہیں لی جاتی تھی۔ خواہ زخمیوں یا پٹی کروانے والوں کو کئی کئی ہفتوں تک علاج کی ضرورت ہو، دوا، مرہم پٹی سب مفت ۔۔۔۔۔ اور تو اور کسی حکیم یا طبیبہ نے نسخے میں بلڈٹیسٹ، شوگر ٹیسٹ یا پیشاب کا ٹیسٹ لکھ کر دیا ہے تو لیبارٹری والے اس کی کوئی اضافی رقم نہیں لے سکتے تھے۔ کیا آج کا کوئی بھی معالج ایسا سوچ بھی سکتا ہے۔ آج تو یہ حال ہے کہ چھینک آئے، بلغم نکلے یا نزلہ زکام ہو۔ معالج سب سے پہلے مختلف ٹیسٹ کروانے کو کہتے ہیں کہ ان کی من پسند لیبارٹری اس خدمت کا انھیں باقاعدہ معاوضہ ادا کرتی ہے۔
جس زمانے میں حکیم صاحب سندھ کے گورنر تھے۔ ان ہی دنوں میرے آدھے سر میں شدید تر درد رہنے لگا تھا اور سر ہر وقت بھاری رہتا تھا۔ کئی جگہ علاج کروایا، کوئی افاقہ نہ ہوا۔ پھر کسی کی صلاح پر عباسی شہید اسپتال میں ان ڈاکٹر کو دکھایا جنھیں بعد میں دہشتگردوں نے اسی لیے قتل کر دیا کہ وہ بہت سے رفاہی کام کرتے تھے۔ انھوں نے دماغ کے کئی ایکسرے کروائے اور بتایا کہ سر کے دائیں جانب پانی جمع ہے جسے انجکشن کے ذریعے نکالا جائے گا بلکہ اس نیک انسان نے دو دن بعد کا وقت بھی دے دیا ہے اور بتایا کہ تین نشستوں میں یہ پانی نکالا جائے گا۔۔۔۔میں یہ سب سن کر پریشان ہو گئی۔ فوراً والد صاحب کو بتایا، انھوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور فوراً حکیم سعید صاحب سے رابطہ کرنے کو کہا۔ میں نے کہا کہ وہ اب مطب میں کہاں بیٹھتے ہوں گے۔ وہ تو اب گورنر سندھ ہیں لہٰذا اب عام آدمی کی دسترس سے وہ بہت دور ہیں لیکن والد صاحب نے بتایا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ اب بھی باقاعدگی سے بالکل پہلے کی طرح ہفتے میں دو دن مطب میں بیٹھتے ہیں اور انھوں نے کبھی ناغہ نہیں کیا لہٰذا میں اگلے ہی دن ان کے مطب پہنچی، باری آنے پر اپنی تکلیف بتائی تو انھوں نے انتہائی شفقت سے کہا ۔۔۔۔ ''اتنی تکلیف تھی تو پہلے کیوں نہیں آئیں؟''
''آپ گورنر جو بن گئے ہیں، سوچا اب آپ سے ملاقات ممکن ہی نہیں''۔ میں نے ادب سے کہا۔ انھوں نے مسکرا کر الٹا مجھ سے سوال کر ڈالا۔ ''ارے بھئی! گورنر بننے سے مطب کا کیا واسطہ؟ میں نے تو ایک دن بھی مطب کو نظرانداز نہیں کیا''۔ پھر انھوں نے مجھے صرف دو دوائیں دیں اور کہا ''گھبرانا نہیں، نزلے کا پانی کنپٹی کے پاس جمع ہو گیا ہے۔ ٹھنڈی چیزیں بالکل نہ کھانا اور ایک ہفتے بعد پھر آنا''۔ بعد میں ایکسرے ہوئے تو پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ جب میں نے وہ ایکسرے عباسی شہید اسپتال لے جا کر متعلقہ ڈاکٹر صاحب کو دکھائے تو وہ حیران رہ گئے اور برملا کہنے لگے کہ ''حکیم صاحب کی کیا بات ہے وہ تو نبض پر ہاتھ رکھ کے مرض کی تشخیص کر لیتے ہیں۔'' میرا بیٹا راحیل جب دو سال کا تھا تو وہ دودھ کی بوتل ختم کرتے ہی بری طرح رونے لگتا تھا۔
میں نے حکیم صاحب کو بتایا تو دوا دینے کے بجائے کہنے لگے ''دودھ میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا جائفل کا ڈال کر جوش دے لو پھر پلاؤ، اس سے اپھارہ نہیں ہو گا''۔ اور واقعی یہ نسخہ بہت کارگر ہوا۔ اسی طرح دائمی قبض سے نجات کے لیے انھوں نے سناء مکی+ گلاب کی پتیاں+ مصری ہم وزن ملا کر پیس کر رکھنے کو کہی جسے رات کو سونے سے پہلے ایک چھوٹا چمچہ مع دس قطرے روغن بادام یا زیتون کے تیل کے نیم گرم پانی سے لینے کی ہدایت کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھوک کے بغیر لقمہ نہ توڑیں، لیکن جب تین دن تک بھوک نہ لگے تو معالج سے ضرور رابطہ کریں۔ اسی طرح انھوں نے نیبو کی شکنجبین اور گلقند بنانے کی ترکیب بھی مجھے بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ گلقند آفتابی زیادہ تاثر رکھتا ہے۔ ان کے سب نسخے مجھے زبانی یاد ہیں۔ وہ ہماری یادوں میں زندہ ہیں اور رہیں گے۔
حکیم محمد سعید دہلوی جب گورنر بنے تو اس دوران کراچی شہر میں انھوں نے پانچ نجی یونیورسٹیاں قائم کروائیں۔ وہ صرف کراچی ہی میں مطب نہیں کرتے تھے، بلکہ دیگر بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی اور پشاور بھی جایا کرتے تھے۔ دو دو دن ہر شہر کو دیتے تھے۔ شہادت سے چند ماہ پہلے جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو ملک کی صورت حال پہ تبصرہ کرتے ہوئے افسردگی سے کہنے لگے ''ہم بھٹک گئے ہیں، پاکستان اس لیے تو نہیں بنا تھا کہ یہاں ہم ایک دوسرے سے لڑیں اور گلے کاٹیں، افسوس کہ آج ہم مسلمان ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ کیونکہ ہمارے لیڈروں نے ہمیں مہاجر، مکڑ، پٹھان، پنجابی اور سندھی میں تقسیم کر دیا ہے۔ مجھے آنے والے دنوں سے خوف آتا ہے خدا رحم کرے''۔
لیکن خدا کی رحمت بھی ان ہی قوموں پر نازل ہوتی ہے جو تعصب سے بالاتر ہوتے ہیں جو آدمی نہیں بلکہ انسان ہوتے ہیں۔ انسان ہونے کا مطلب ہے انسانیت برتنا دوسروں کے کام آنا نہ کہ زبان، مسلک علاقہ اور برادری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنا اور ان کے گلے کاٹنا۔ حکیم محمد سعید جیسے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں اور انتہا پسند مذہبی جنونی آسیب کی طرح ہم پر مسلط ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے بھی خوف آتا ہے اس ملک کے مستقبل سے۔