مذاکرات مگر کن سے

ملک میں حشر برپا ہے، لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں، قاتلوں کے رعونت بھرے بیانات گولیاں بن کر ماتم گساروں کے...

latifch910@yahoo.com

ملک میں حشر برپا ہے، لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں، قاتلوں کے رعونت بھرے بیانات گولیاں بن کر ماتم گساروں کے سینوں میں اتر رہے ہیں لیکن ہمارے بعض ''امن پسند'' سیاستدان اور مذہبی شخصیات اب بھی عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر بضد ہیں۔ عمران خان صاحب نے تو وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ براہ راست طالبان سے مذاکرات کی قیادت کریں۔ اب میاں صاحب اس اپیل یا مطالبے کا کیا جواب دیں گے، میں تو اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں، وہی جانتے ہیں البتہ جو صف ماتم خیبر پختوخوا اور دوسرے صوبوں کے شہروں میں بچھی ہے، وہاں سے اٹھنے والی چیخیں اور آہ وبکا مجھے اور عوام کو ضرور سنائی دے رہی ہیں۔ ایسے پرسوز اور دل ہلا دینے والے ماحول میں صلح کی باتیں کرنے والوں کے لیے حفیظ جالندھری نے کہا تھا، سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں۔

خان صاحب اور بعض دوسرے سیاستدان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو راگ بسنت بہار الاپ رہے ہیں، اسے سن کر مجھ پنجاب کے دیہات میں سنائی جانے والی ایک حکایت نما کہانی یاد آ رہی ہے۔ یہ کہانی برمحل بھی ہے اور حسب حال بھی' آپ کو بھی سناتا چلوں۔ کسی گاؤں کے چوہدری کے پانچ بیٹوں میں سے ایک اعلیٰ تعلیم حاصل کر گیا، باقی کوئی میٹرک اور کوئی انڈر میٹرک رہ کر کھیتی باڑی کرتے یا گاؤں کے جھگڑے وغیرہ نبٹانے کے لیے پنچایت منعقد کرتے تھے۔ ان کا گاؤں میں اچھا خاصا رعب ٹہکا تھا۔ چوہدری کا تعلیم یافتہ صاحبزادہ یورپ سے بڑی ڈگری لے کر گاؤں آیا تو اس نے اچھا خاصا جشن منایا۔ بیٹا ملازمت کرنا چاہتا تھا' والد نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ چوہدریوں کے بیٹے ملازمت نہیں سیاست کرتے ہیں' تم گاؤں میں رہو' لوگوں سے رابطے بڑھاؤ' الیکشن لڑو اور پھر وزیر وغیرہ بنو۔ بیٹا مان گیا۔

چوہدری صاحب دشمن دار تھے۔ کچھ عرصے کے بعد دوسرے گاؤں میں لڑائی ہوئی۔ مخالفوں نے چوہدری کے ایک بیٹے کی اچھی خاصی مرمت کی۔ وہ لہولہان گھر آیا تو اس کے نیم خواندہ بھائیوں نے بندوقیں اٹھا لیں۔ اسی اثناء میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائی صاحب آ گئے، اس نے سارا ماجرا سنا اور پھر والد اور بھائیوں کو سمجھایا کہ تم جو کچھ کرنے جا رہے ہو، یہ غیر قانونی اور نقصان دہ ہے' اگر دشمن کا کوئی آدمی مارا گیا تو تم پھانسی لگ جاؤ گے، ہم میں سے کوئی مارا گیا تو ہم یہ صدمہ کیسے برداشت کریں گے ، بہتر یہی ہے کہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائیکی جائے۔ چوہدری صاحب نے بیٹے کی تجویز مان لی او اپنے مخالفوں پر پرچہ کرا دیا۔ مخالفین نے پہلے ضمانت قبل از گرفتاری کرا ئی، پھر اسے کنفرم ضمانت میں تبدیل کرا لیا۔ یوں وہ ایک دن کے لیے بھی حوالات میں بند نہ ہوئے۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انھوں نے چوہدری کے دوسرے بیٹے کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ اسے گھر لایا گیا تو تعلیم یافتہ اور مہذب صاحبزادے نے پھر قانونی کارروائی کا مشورہ دیا۔ دوبارہ پرچہ درج ہوا۔ انھوں نے پھر ضمانتیں کرا لیں۔ دشمن مزید شیر ہو گئے۔ اب چوہدری کے بیٹے گاؤں سے باہر نکلتے ہوئے گھبرانے لگے۔


انھوں نے اپنے ساتھ محافظ رکھنے شروع کر دیے۔ ایک دن دشمنوں نے چوہدری کے تیسرے بیٹے کی دھنائی کر دی۔ تعلیم یافتہ صاحبزادہ اب بھی امن کی تلقین کرتا رہا، پھر پرچے اور پھر ضمانتوں کا کھیل شروع ہو گیا۔ تیسرے بیٹے کی دھنائی کے بعد چوہدری کا رعب داب اور دبدبہ ختم ہو گیا۔ دوسرے گاؤں والوں کی بات چھوڑیں' اپنے گاؤں والے بھی مذاق اڑانے لگے۔ کمی کمینوں نے بھی اسلحہ لے لیا اور وہ گلیوں میں اس کی نمائش کرنے لگے۔ ایک روز چوتھے بیٹے کو بھی دشمنوں نے قابو کر لیا۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ نیم خواندہ بھائیوں نے بندوقیں اٹھا لیں۔ پڑھا لکھا بیٹا سر جھکائے کھڑا تھا۔ چوہدری غصے سے کانپتے ہوئے بولا ''دشمن کی جرات نہیں تھی کہ ہم پر ہاتھ اٹھاتا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کا جواب بہت سخت ہو گا لیکن جب اسے پتہ چلا کہ ہم بزدل ہو گئے تو وہ شیر ہو گئے اور ہمیں سٹرکوں پر گھیر کر مارنے لگے، یہ اس لیے ہوا کہ میرے تعلیم یافتہ بیٹے نے امن اور قانون کی تلقین کی تھی لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ دیہات میں زندہ رہنے کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اب دشمن سے جنگ لازم ہوگئی ہے'' چوہدری نے اپنے نیم خواندہ بیٹوں کو حکم دیا کہ اس نیک کام پر جانے سے پہلے پڑھے لکھے بھائی کی ٹھکای کرو اور اس کے بعد دشمنوں سے نبٹا جائے گا ''۔

پھر چوہدری اور اس کے ناخواندہ بیٹے گھوڑوں پر بیٹھے اور میدان کارزار میں پہنچ کر اپنے اوپر واجب الادا قرض چکا دیا۔ اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ تہذیب' شائستگی اور امن پسندی کی تلقین حالت جنگ سے پہلے ہوتی ہے ، دوران جنگ نہیں۔ جب قانون شکن' بدعہد' منہ زور اور بدتہذیب لوگ حد سے بڑھ جائیں، بے گناہوں کا خون پانی سے سستا ہو جائے تو تلوار نہ اٹھانا بزدلی سے بھی آگے کی کوئی منزل ہوتی ہے جس کے لیے ڈکشنری میں بھی شاید کوئی لفظ نہیں ہے۔ اگر تلوار نہ اٹھائی جائے تو تہذیبیں ختم ہو جاتی ہیں۔ رومن ایمپائر ہنوں کے ہاتھوں ختم ہوئی، ہنی ہال نے یورپ کو تاراج کیا اور منگولوں نے عباسی خلافت کا وقار مٹی میں ملا دیا۔ یہ سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

عمران خان صاحب انتہائی مہذب' تعلیم یافتہ' محب وطن اور شائستہ شخص ہیں۔ مہذب انسان ہونے کے ناتے وہ خون خرابے سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں، ان کی قدر کی جانی چاہیے۔ شاید اسی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ انھیں یقین ہے کہ طالبان بھی بات مان لیں، اس طرح امن قائم ہو جائے گا۔ طالبان کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہوں گے جو دل سے مذاکرات اور امن چاہتے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اور منظر پیش کر رہے ہیں۔ طالبان میں اگر کوئی گروہ مذاکرات اور امن چاہتا ہے تو وہ ابھی تک منظر عا م پر نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اپنی تنظیم میں اس گروپ کی پوزیشن کمزور ہے اور فیصلہ سازی پر اس کی گرفت نہیں ہے۔ منہ زور اور قاتل گینگ طاقتور ہے اور چالاک بھی ہے۔ وہ ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت کو تقسیم کر کے اپنا مشن کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے پاس معلومات بھی زیادہ ہوں گی کیونکہ ان کے رابطے اونچے لوگوں تک ہیں لیکن زمین پر بسنے والے ہم جیسے عامی ہر روز لاشیں گرتی دیکھ رہے ہیں' اب تو قاتل چہرہ بھی نہیں چھپاتا۔ اخباروں میں ٹیلی فون کر کے بتاتا ہے کہ واردات اس نے کی ہے۔

ملک میدان جنگ بنا ہوا ہے لیکن المیہ یہ کہ اس جنگ میں صرف ایک فریق بہادری سے لڑ رہا ہے، دوسرا فریق گھبراہٹ اور مایوسی کا شکار ہے۔ اس میدان جنگ کا تقاضا ہے کہ امن اور مذاکرات کی گردان کرنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو چوہدری نے اپنے پڑھے لکھے بیٹے کے ساتھ کیا تھا' سچی بات ہے جو جنگ نہیں لڑسکتا تو کوئی بات نہیں' وہ خود کو اس سے الگ کر کے یورپ چلا جائے۔ پاکستانیوں کو آزاد کر دیں، پھر عوام جانیں اور دہشت گرد۔
Load Next Story