فکر انگیز خطبہ حج
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جو صرف صاحب حیثیت افراد پر فرض ہے۔ ہر مسلمان خواہ صاحب حیثیت ہو یا نہ ہو حج کرنے...
HYDERABAD:
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جو صرف صاحب حیثیت افراد پر فرض ہے۔ ہر مسلمان خواہ صاحب حیثیت ہو یا نہ ہو حج کرنے کی تمنا رکھتا ہے۔ حج میں اسلام کے تمام ارکان کی روح موجود ہے، نماز کی طرح اﷲ کا ذکر بھی ہے، زکوٰۃ کی طرح اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا عزم اور روزہ کی طرح نفس پر قابو پانے کی تربیت بھی شامل ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ ''جس شخص نے اس طرح حج کیا کہ ہر بری بات اور برے عمل سے دور رہا تو وہ بیت اﷲ سے یوں پاک ہوکر لوٹے گا گویا کہ وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو''۔ اﷲ تعالیٰ عرفات میں موجود حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے میرے بندوں کو دیکھو کس طرح پراگندہ بال اور غبار آلود ہوکر میرے پاس آئے ہیں۔ عرفات کی فضیلت یہ بھی ہے کہ حضرت آدمؑ اور بی بی حوا جنت سے نکالے جانے کے بعد عرفات کے میدان میں ملے جہاں اﷲ تعالیٰ نے ان کی لغزش کی معافی قبول فرمائی تھی۔
حج ایک طرح سے مسلمانوں کی عالمگیر عبادت ہے جہاں دنیا کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مختلف النسل، مختلف الزبان ، مختلف رنگت، مزاج و مراتب، مختلف مسلکوں اور عادات و اطوار کے افراد ایک ہی طرح کے لباس میں، ایک ہی سمت میں، ایک ہی طریقے کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت اور بندگی کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔ سب کی زبان سے یہ ہی الفاظ ادا ہورہے ہوتے ہیں لبیک اللھم لبیک، جو ان کے اتحاد و اتفاق اور ملت واحد ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے ہیں، سب ایک امام کی پیروی کرتے ہیں، ایک ہی زبان اور اشارے پر لاکھوں افراد رکوع و سجود بجا لاتے ہیں، ایک ہی سمت میں رواں دواں ایک ہی طریقہ و ترتیب سے منیٰ کے کیمپوں میں پہنچ کر رہائش و عبادت کرنا، پھر عرفات کی طرف کوچ کرنا، نظم و ضبط اور صبر و تحمل سے امام کا خطبہ سننا، رات کو مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے عبادت میں شب بسری کرنا، اس کے بعد منیٰ میں پہنچ کر شیطان کو کنکریاں مارنے جیسے مشقت آمیز ارکان میں نظم و ضبط اور صبروتحمل کی تربیت بھی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی ہے۔ ایسا مظاہرہ مسلمانوں کے نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق اور یگانگت کو ظاہر کرتا ہے، ان میں زبان، نسل، وطن کا اختلاف مٹ جاتا ہے اور ایک اﷲ و رسول کے ماننے والوں کی عالمگیر جماعت وجود پاتی ہے جس سے دشمنوں اور سازشیوں کے دلوں میں ان کا رعب و دبدبہ پیدا ہوتا ہے۔ تمام قوموں و نسلوں کے لوگوں کا قلبی اور روحانی اتحاد کے ساتھ ملنا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی و محبت اور ہمدردی و تعاون کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اور وہ جسد واحد کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ مظاہرہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
حاجی 9 ذی الحج کو عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ حج کا سب سے اہم رکن وقوف عرفات ہے جہاں مسجد نمرہ میں امام صاحب بصیرت افروز خطبہ دیتے ہیں، یہ خطبہ مسلم و غیر مسلموں کے لیے ایک عالمی نشریہ کی حیثیت رکھتا ہے، جو محض تنبیہ پندو نصیحت نہیں بلکہ اصلاح و عمل اور غور و فکر کی تعلیم سے مزین ہوتا ہے۔
اس سال میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں اپنے 33 ویں مسلسل خطاب میں مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے جو بصیرت افروز اور فکر انگیز خطبہ دیا اس کا ایک ایک لفظ حکمرانوں، اشرافیہ، فوجی سربراہوں، دانشوروں، طلبا، صحافیوں، علما کرام، سیاستدانوں، تاجروں و صنعتکاروں سے لے کر عام مسلمانوں کے لیے دعوت فکر اور اصلاح احوال کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ جس میں انھوں نے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مصائب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی معیشت، معاشرت، سیاست، دفاع اور تعلیم کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کی کوتاہیوں، بداعمالیوں اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کا تخاطب خاص طور پر حکمران، اشرافیہ، سیاستدان، علما و مشائخ، دانشور اور صحافی تھے۔ امام صاحب نے خطبہ میں فرمایا کہ اسلامی ممالک کے سربراہان عوام کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ان کے لیے دین پر عمل کرنا آسان بنائیں، کسی انسان کا ناحق خون کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
علما تقویٰ اور اخلاص اختیار کریں، شریعت کو نافذ کرنے سے کامیابی قدم چومے گی۔ امت اس وقت کٹھن اور مشکل دور سے گزر رہی ہے، ہمیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کو اپنایا جائے تو دنیا سے معاشی بحران ختم ہوجائے گا۔ مسلمان حکمرانوں کے پاس اقتدار اﷲ کی امانت ہے، وہ اپنے عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ مسلمان حکمرانوں کو آزمائشوں سے بچتے ہوئے دشمنوں کی چالوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ظلم کرنے والے مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ مسلمان منشیات اور نشہ آور اشیا سے خود کو دور رکھیں، آخرت میں اس کی سخت پکڑ ہوگی۔ مسلمانوں نے اپنے تعلیمی نظام میں ایسی چیزیں شامل کرلی ہیں جن کی ہمارے یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی، ہم اس وجہ سے الحاد کا شکار ہیں۔ مسلمان اپنے دشمنوں کے پھیلائے جانے والے جال سے بچیں، اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، تفرقے سے بچیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو جدید مواصلاتی نظام سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے اجتماعی برائی یا زیادتی کی وجہ نہ بننے دیں۔ مسلم دنیا کی افواج پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے پاس جو طاقت ہے وہ اﷲ کی طرف سے دی گئی امانت ہے۔
ہمارے اپنے کچھ عناصر اپنے مفادات کے لیے تباہی و انتشار پھیلاکر امت سے خیانت کر رہے ہیں۔ مسلمان اپنی قوت جمع کرکے رکھیں اس کا شیرازہ بکھرنے نہ دیں۔ اﷲ کی زمین پر فساد پھیلانے والے اﷲ کے دشمن ہیں۔ ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو بھی اسلامی شعار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اپنے دشمنوں کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی تجارت کو فروغ دے کر سود کے نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کے عقائد بگاڑنے کے لیے عالمی میڈیا مصروف ہے، فحاشی و عریانی عروج پر ہے۔ مسلمان ممالک کے چینلز تعمیری کردار ادا کریں۔ اسلامی حکومتوں کو اپنے لوگوں کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ خون خرابے کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی، غذائی قلت اور صحت جیسے مسائل ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرکے اور مشترکہ وسائل کو بروئے کار لاکر اتحاد و یکجہتی سے ہی حل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان عورتیں جس آزادی کے پیچھے دوڑ رہی ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے۔ کچھ مسلمان حکمران خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں وہ راہ راست پر آجائیں۔ آج کل قربانی، حج و عمرہ ہمارے مذہب سے زیادہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے، جس کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے، تو باقی نہیں ہے
مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے اپنے خطبے میں جو منظرکشی کی ہے، اس میں ہر شخص کو اپنا چہرہ اور کردار صاف نظر آرہا ہے، کاش ہم اپنی اصلاح احوال کرسکیں۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جو صرف صاحب حیثیت افراد پر فرض ہے۔ ہر مسلمان خواہ صاحب حیثیت ہو یا نہ ہو حج کرنے کی تمنا رکھتا ہے۔ حج میں اسلام کے تمام ارکان کی روح موجود ہے، نماز کی طرح اﷲ کا ذکر بھی ہے، زکوٰۃ کی طرح اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا عزم اور روزہ کی طرح نفس پر قابو پانے کی تربیت بھی شامل ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ ''جس شخص نے اس طرح حج کیا کہ ہر بری بات اور برے عمل سے دور رہا تو وہ بیت اﷲ سے یوں پاک ہوکر لوٹے گا گویا کہ وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو''۔ اﷲ تعالیٰ عرفات میں موجود حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے میرے بندوں کو دیکھو کس طرح پراگندہ بال اور غبار آلود ہوکر میرے پاس آئے ہیں۔ عرفات کی فضیلت یہ بھی ہے کہ حضرت آدمؑ اور بی بی حوا جنت سے نکالے جانے کے بعد عرفات کے میدان میں ملے جہاں اﷲ تعالیٰ نے ان کی لغزش کی معافی قبول فرمائی تھی۔
حج ایک طرح سے مسلمانوں کی عالمگیر عبادت ہے جہاں دنیا کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مختلف النسل، مختلف الزبان ، مختلف رنگت، مزاج و مراتب، مختلف مسلکوں اور عادات و اطوار کے افراد ایک ہی طرح کے لباس میں، ایک ہی سمت میں، ایک ہی طریقے کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت اور بندگی کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔ سب کی زبان سے یہ ہی الفاظ ادا ہورہے ہوتے ہیں لبیک اللھم لبیک، جو ان کے اتحاد و اتفاق اور ملت واحد ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے ہیں، سب ایک امام کی پیروی کرتے ہیں، ایک ہی زبان اور اشارے پر لاکھوں افراد رکوع و سجود بجا لاتے ہیں، ایک ہی سمت میں رواں دواں ایک ہی طریقہ و ترتیب سے منیٰ کے کیمپوں میں پہنچ کر رہائش و عبادت کرنا، پھر عرفات کی طرف کوچ کرنا، نظم و ضبط اور صبر و تحمل سے امام کا خطبہ سننا، رات کو مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے عبادت میں شب بسری کرنا، اس کے بعد منیٰ میں پہنچ کر شیطان کو کنکریاں مارنے جیسے مشقت آمیز ارکان میں نظم و ضبط اور صبروتحمل کی تربیت بھی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی ہے۔ ایسا مظاہرہ مسلمانوں کے نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق اور یگانگت کو ظاہر کرتا ہے، ان میں زبان، نسل، وطن کا اختلاف مٹ جاتا ہے اور ایک اﷲ و رسول کے ماننے والوں کی عالمگیر جماعت وجود پاتی ہے جس سے دشمنوں اور سازشیوں کے دلوں میں ان کا رعب و دبدبہ پیدا ہوتا ہے۔ تمام قوموں و نسلوں کے لوگوں کا قلبی اور روحانی اتحاد کے ساتھ ملنا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی و محبت اور ہمدردی و تعاون کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اور وہ جسد واحد کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ مظاہرہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
حاجی 9 ذی الحج کو عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ حج کا سب سے اہم رکن وقوف عرفات ہے جہاں مسجد نمرہ میں امام صاحب بصیرت افروز خطبہ دیتے ہیں، یہ خطبہ مسلم و غیر مسلموں کے لیے ایک عالمی نشریہ کی حیثیت رکھتا ہے، جو محض تنبیہ پندو نصیحت نہیں بلکہ اصلاح و عمل اور غور و فکر کی تعلیم سے مزین ہوتا ہے۔
اس سال میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں اپنے 33 ویں مسلسل خطاب میں مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے جو بصیرت افروز اور فکر انگیز خطبہ دیا اس کا ایک ایک لفظ حکمرانوں، اشرافیہ، فوجی سربراہوں، دانشوروں، طلبا، صحافیوں، علما کرام، سیاستدانوں، تاجروں و صنعتکاروں سے لے کر عام مسلمانوں کے لیے دعوت فکر اور اصلاح احوال کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ جس میں انھوں نے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مصائب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی معیشت، معاشرت، سیاست، دفاع اور تعلیم کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کی کوتاہیوں، بداعمالیوں اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کا تخاطب خاص طور پر حکمران، اشرافیہ، سیاستدان، علما و مشائخ، دانشور اور صحافی تھے۔ امام صاحب نے خطبہ میں فرمایا کہ اسلامی ممالک کے سربراہان عوام کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ان کے لیے دین پر عمل کرنا آسان بنائیں، کسی انسان کا ناحق خون کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
علما تقویٰ اور اخلاص اختیار کریں، شریعت کو نافذ کرنے سے کامیابی قدم چومے گی۔ امت اس وقت کٹھن اور مشکل دور سے گزر رہی ہے، ہمیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کو اپنایا جائے تو دنیا سے معاشی بحران ختم ہوجائے گا۔ مسلمان حکمرانوں کے پاس اقتدار اﷲ کی امانت ہے، وہ اپنے عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ مسلمان حکمرانوں کو آزمائشوں سے بچتے ہوئے دشمنوں کی چالوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ظلم کرنے والے مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ مسلمان منشیات اور نشہ آور اشیا سے خود کو دور رکھیں، آخرت میں اس کی سخت پکڑ ہوگی۔ مسلمانوں نے اپنے تعلیمی نظام میں ایسی چیزیں شامل کرلی ہیں جن کی ہمارے یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی، ہم اس وجہ سے الحاد کا شکار ہیں۔ مسلمان اپنے دشمنوں کے پھیلائے جانے والے جال سے بچیں، اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، تفرقے سے بچیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو جدید مواصلاتی نظام سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے اجتماعی برائی یا زیادتی کی وجہ نہ بننے دیں۔ مسلم دنیا کی افواج پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے پاس جو طاقت ہے وہ اﷲ کی طرف سے دی گئی امانت ہے۔
ہمارے اپنے کچھ عناصر اپنے مفادات کے لیے تباہی و انتشار پھیلاکر امت سے خیانت کر رہے ہیں۔ مسلمان اپنی قوت جمع کرکے رکھیں اس کا شیرازہ بکھرنے نہ دیں۔ اﷲ کی زمین پر فساد پھیلانے والے اﷲ کے دشمن ہیں۔ ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو بھی اسلامی شعار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اپنے دشمنوں کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی تجارت کو فروغ دے کر سود کے نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کے عقائد بگاڑنے کے لیے عالمی میڈیا مصروف ہے، فحاشی و عریانی عروج پر ہے۔ مسلمان ممالک کے چینلز تعمیری کردار ادا کریں۔ اسلامی حکومتوں کو اپنے لوگوں کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ خون خرابے کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی، غذائی قلت اور صحت جیسے مسائل ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرکے اور مشترکہ وسائل کو بروئے کار لاکر اتحاد و یکجہتی سے ہی حل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان عورتیں جس آزادی کے پیچھے دوڑ رہی ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے۔ کچھ مسلمان حکمران خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں وہ راہ راست پر آجائیں۔ آج کل قربانی، حج و عمرہ ہمارے مذہب سے زیادہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے، جس کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے، تو باقی نہیں ہے
مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے اپنے خطبے میں جو منظرکشی کی ہے، اس میں ہر شخص کو اپنا چہرہ اور کردار صاف نظر آرہا ہے، کاش ہم اپنی اصلاح احوال کرسکیں۔