خواب مرتے نہیں

1573 میں فرانسیسی سفارتخانے کے ایک رکن فلپ ڈوفریسنی کینی نے لکھا ہے کہ ان تین مہینوں میں کہ جب ...

1573 میں فرانسیسی سفارتخانے کے ایک رکن فلپ ڈوفریسنی کینی نے لکھا ہے کہ ان تین مہینوں میں کہ جب وہ استنبول میں تھا سلطان صرف دو مرتبہ جمعے کی نماز ادا کرنے کے لیے محل سے نکلا۔ ایڈرین محل میں کبھی کبھار تفریح کر نے کے علاوہ سلیم سارا سال توپ کاپی سرائے ہی میں رہا کرتا تھا اور بیشتر وقت حرم میں گزارتا تھا۔ سفیر کونسٹینٹینو گارزونی لکھتاہے کہ ''سلیم ہر رات سیرا لیو (حرم سرا) میں جاتا ہے۔ وہ اپنے با غات میں بنے ایک دروازے سے حرم سرا کو جاتا ہے ۔'' گارزونی کے بقول حرم میں ڈیڑھ سو عورتیں رہتی تھیں، جن میں سلطان کی بیویاں، کنیزیں، خاتون خدمتگار اور دیگر خادمائیں شامل تھیں۔ حرم کی عورتوں کو دو الگ الگ طبقوں میں بانٹا گیا تھا۔ زیریں طبقہ خادمائوں پر مشتمل تھا، جو زیادہ تر حرم کے روزمرہ گھریلو کام نمٹاتی تھیں۔ ان عورتوں کو ان کی ہنرمندی اور تجربے کی بنیاد پر مختلف منصب دیے گئے تھے۔ نو آموزوں کو چیراک اور تجربہ کاروں کو کلفا یا استا کہا جاتا تھا۔ کنیزوں کو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی دی جاتی تھی اور ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی تنخواہیں بہت زیادہ ہوتی تھیں۔ سلطان ان عورتوں سے شاذ و نادر ہی جسمانی تعلق قائم کرتا تھا، تاہم اس امر کا ہمیشہ امکان ہوتا تھا ۔

حرم کی عورتوں کا اعلیٰ ترین طبقہ گیڈیکیلر کہلاتا تھا۔ ان کا انتخاب ان کے حسن و جمال اور دیگر صلاحیتوں کی بنا پر کیا جاتا تھا۔ وہ عموماً موسیقار، مغنیہ اور رقاصہ ہوتی تھیں۔ پہلے ان لڑکیوں کو حرم کی بڑی عمر کی عورتوں سے تربیت دلوائی جاتی تھی۔ ان عورتوں کو کایا کا دن کہا جاتا تھا۔ وہ سلطان سے ان لڑکیوں کو متعارف کروائے جانے کے لیے انھیں لباس پہناتیں اور ہدایات دیتیں۔ اگر سلطان ان میں سے کسی کو اپنی کنیز کے طور پر منتخب کرلیتا تو اسے ''گوزدے'' کا خطاب دے دیا جاتا، جس کا لفظی مطلب ہے ''منتخب عورت''۔ اس کے بعد اس عورت کو الگ رہائشی کمرہ مل جاتا اور حمام کی نگران، لباسوں کی نگران اور خزانے کی نگران اسے سلطان سے ملنے کے لیے تیار کرواتیں۔ اگر وہ سلطان کی منظور نظر بن جاتی تو اسے ''اقبال'' کا خطاب مل جاتا۔ مغرب میں ایسی عورتوں کو اوڈے لسک (Odelisque) کہا جاتا ہے، جو ترک لفظ "ODE" یعنی ''کمرہ'' سے بنایا گیا ہے۔ اوڈے لسک میں کمرہ سے مراد سلطان کی خواب گاہ ہوتی ہے۔ اگر سلطان کی منظور نظر ''ہاسیکی'' اس کے بچے کو جنم دیتی اور اگر وہ سلطان کا سب سے بڑا زندہ بیٹا ہوتا تو اس عورت کو ''بیر نجی کا دن'' کا خطاب مل جاتا۔ اگر اس کا بیٹا باپ کے بعد تخت نشیں ہوتا تو اسے ''والدہ سلطان'' کا خطاب ملتا۔

1605 سے 1607 تک استنبول میں وینس کے سفیر رہنے والے اوٹا ویانو بون نے توپ کا پی سرائے کے حرم کا تفصیلی احوال بیان کیا ہے۔ بون بتاتا ہے کہ کیسے نوجوان لڑکیوں کو سلطان کے حرم میں داخل کیا جاتا۔ اس کے بعد ''انھیں ترکی زبان بولنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے کے لیے اسکول بھیجا جاتا۔ اس کے علاوہ انھیں سینا پرونا اور مختلف ساز بجانے بھی سکھائے جاتے تھے'' وہ بتاتا ہے کہ ''انھیں کئی کئی گھنٹے تفریح کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس دوران وہ باغوں میں چہل قدمی کرتیں اور طرح طرح کے کھیل کھیلا کرتی تھیں''۔ سلیم کے حرم کی سربراہ نور بانو تھی، جو اس کے سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد مراد کی ماں ہونے کی وجہ سے ''پہلی بیوی'' کے خطاب کی حامل تھی، وہ سلیم کی ''ہاسیکی'' یعنی منظور نظر تھی اور وہ اسے بہت پیار کرتا تھا جیسا کہ سفیر جیکو پوسورانزو نے 1566 میں لکھا ہے کہ ''کہا جاتا ہے سلطان اپنی ہاسیکی کو اس کی ذہانت اور حسن و جمال کی وجہ سے بہت زیادہ چاہتا ہے۔'' 1559 میں فاطمہ کی پیدائش کے بعد نور بانو نے سلیم کے کسی بچے کو جنم نہیں دیا۔ سلطان بننے کے بعد سلیم نے اپنے حرم میں بہت سی کنیزوں کو شامل کرلیا تھا، جن کے بطن سے اس کے مزید آٹھ بچے پیدا ہوئے۔


ان میں چھ لڑکے تھے۔ اس کے باوجود نور بانو ہی اس کی منظور نظر رہی جیسا کہ 1573 میں سفیر اینڈریا بیڈورا نے اس کے بارے میں لکھا ''اسے ہاسیکی کہا جاتا ہے اور بادشاہ اسے بہت محبت کرتا ہے''۔ تیسری پہاڑی پر واقع پرانے محل ''ایسکی سرائے'' کو ''آنسوئوں والا محل'' بھی کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں مرحوم سلطانوں کے حرموں کی عورتیں اور ان کے بچے رہا کرتے تھے۔ جو عورتیں کسی سلطان کی بیویاں یاکنیزیں رہی ہوتی تھیں وہ عموماً اپنی زندگی کے باقی سارے ایام پرانے محل میں گزارتی تھیں، تاہم جو عورتیں اوڈے لسک نہیں ہوتی تھیں، انھیں عثمانی حکام سے بیاہ دیا جاتا تھا۔ بون بتاتا ہے کہ اگر وہ کوئی قانون شکنی کرتیں تو انھیں کتنی سخت سزا ملتی تھی۔ ''حرم سرا کی عورتوں کو غلطی کرنے پر بہت سخت سزا ملتی ہے۔ ان کی نگران انھیں بری طرح پیٹتی ہیں۔ اگر وہ نافرمان، کندہ ناتراش اور غیر مہذب ثابت ہوتیں تو انھیں سلطان کے واضح احکامات کے تحت پرانے حرم میں بھیج دیا جاتا تھا۔ انھیں مسترد شدہ، ٹھکرائی ہوئی اور پست تصور کیا جاتا تھا، ان کے پاس جو کچھ ہوتا چھین لیا جاتا۔ اگر ان پر ساحرہ ہونے کا شبہ ہوتا تو ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر اور ایک بوری میں بند کرکے رات کے وقت سمندر میں غرق کر دیا جاتا تھا۔

مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ان پر مسلط حکمران علم، فکر اور عوام کی خوشحالی و فلاح و بہبود کے بجائے عیاشیوں میں غرق رہے۔ مسلم دنیا میں فکری گھٹن، جبر کی صورتحال المتوکل کی تخت نشینی کے بعد پیدا ہوئی اور رہی سہی کسر المنصور کی تخت نشینی کے بعد پوری ہوگئی۔ ان دونوں اور بعد میں آنے والے مسلم حکمرانوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی، تنگ نظری، رجعت پرستی، قدامت پرستی، انتہاپسندی، فرقہ واریت کو فروغ دے کر مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھونٹ دیا اور اسے زندہ درگور کردیا۔ مسلم بادشاہ، سلطان، آمر مسلم خردافروزی اور روشن خیالی کی لاشوں کو نوچتے رہے، وہ تخت و تاج، ہیرے جواہرات تو جیتتے رہے لیکن عوام ہارتے رہے۔ عوام ان کی عیاشیوں اور عیش و عشرت کی خاطر ایندھن بنتے رہے، جلتے سلگتے رہے، راکھ بنتے رہے، ان کی راکھ اڑتی رہی اور پھر فضا اتنی آلودہ ہوگئی کہ کچھ نظر نہ آنے لگا۔ ایک طرف تخت و تاج اور ہیر ے جواہرات تھے تو دوسری طرف چاروں طرف بکھری راکھ۔ آخر میں نہ تخت و تاج رہے اور نہ ہی ہیرے جواہرات، صرف اجڑی برباد ماتم کرتی قبریں ان کا مقدر بنی۔

عوام کے خوابوں کو روندا اور کچلا جاتا رہا، انسان مرتے ہیں لیکن خواب نہیں مرتے، خواب ایک نسل سے دوسری نسل تک خودبخود منتقل ہوجاتے ہیں۔ انسان کو اندھا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے خوابوں کو اندھا نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف تو دنیا بھر کے معاشرے اپنے اندھیروں سے نجات حاصل کررہے تھے تو ہم جہل کے سیاہ اندھیرے اپنے معاشروں پر طاری کرنے میں مصروف تھے۔ آج وہی سب کچھ ایک بار پھر ماضی کی طرح ہمارے معاشرے میں دہرایا جارہا ہے۔ خرد افروزی اور روشن خیالی کی ننگی لاشیں چاروںطرف بکھری پڑی ہیں اور ان کے چاروں طرف وحشی، جنونی، قہقہے لگارہے ہیں، ماضی میں ممنوعہ کتابیں اور مصنف دونوں کو زندہ جلادیا جاتا رہا، لیکن پھر بھی نئے خیالات پیدا ہوتے رہے۔ انسان کو غلام بنایا جاسکتا ہے، اس کو زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے لیکن اس کی سو چ کو نہ تو غلام بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح ہمارا معاشرہ بھی روشن خیال اور خوشحال و تعلیم یافتہ ہوگا اور اس پر خرد افروزی کا راج ہوگا، اس لیے کہ خواب کبھی نہیں مرتے انسان مرتے ہیں۔
Load Next Story