یہ عدم مساوات کیوں
اگر ریاست کو حقیقی فلاحی ریاست بنانا ہے تو پھر یہ پرانا و بوسیدہ گلا سڑا نظام حکومت تبدیل کرنا ہو گا۔
اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی شہری کو اگر تمام بنیادی سہولیات فراہم کر سکتا ہے تو وہ فقط جمہوری نظام ہی فراہم کر سکتا ہے۔
میں ذکر کر رہا ہوں حقیقی جمہوری نظام حکومت کا۔ میں اس سرمایہ داری نظام حکومت کا تذکرہ نہیں کر رہا جو نظام حکومت دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے اور تمام تر جبر و استحصال رواں رکھنے کے باوجود جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ یہ نظام حکومت فقط پسماندہ ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کو امریکا و انگلستان سمیت اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
اس نظام حکومت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ نظام حکومت سماج میں عدم مساوات نہ صرف پیدا کرتا ہے بلکہ عدم مساوات کی خلیج کو مزید وسعت دیتا چلا جاتا ہے، جس کا نتیجہ سامنے یہ آتا ہے کہ سماج تضادات کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ تضاد ہمیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظر آتا ہے۔
ایک صبح ، ایک نجی ٹیلی ویژن پر ایک خبر دیکھ و سماعت کر رہا تھا خبرکا متن یہ تھا کہ تھرپارکر کے اسپتال میں ایک خاتون اپنی آغوش میں ایک معصوم سے نونہال کی میت رکھے بیٹھی تھی اور عام لوگ اس خاتون کو چندے کے طور پر پیسے دے رہے تھے، اس خاتون کو اس خیرات کی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ اس کا بچہ جوکہ اسپتال میں علاج کی غرض سے لایا گیا تھا جہاں وہ بچہ انتقال کر گیا تھا البتہ وہ خاتون چندے کے پیسے کی اس لیے طلب گار تھی کہ اسے اپنے نونہال کی میت اپنے گوٹھ لے کر جانا تھی۔ تھرپارکر کے اس اسپتال میں ایمبولینس موجود تھی مگر اسپتال کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ اسپتال میں موجود ایمبولینس فقط مریضوں کو منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اسے میت کی منتقلی کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیتے یہ ستم اس لیے بھی قابل افسوس ناک ہے کہ اس وقت بھی صوبہ سندھ میں جو سیاسی جماعت تیسری مدت کے لیے حکومتی امور چلا رہی ہے وہ سیاسی جماعت اپنے دور حکومت کو عوامی حکومت کا نام دیتی ہے۔
عام شہریوں کو حاصل شدہ سہولیات کا عالم یہ ہے کہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں کتے کے کاٹنے کی غرض سے جس ویکسین کی علاج کے لیے ضرورت ہوتی ہے وہ ویکسین مناسب مقدار میں موجود نہیں ہے۔ ہاں میت کی غرض سے استعمال ہونے والی ایمبولینس کی قلت کا یہ عالم ہے کہ فقط چند روز قبل ہی ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ ایک لڑکے کی میت کو موٹر سائیکل پر لے جایا جا رہا تھا کہ وہ موٹرسائیکل حادثے کا شکار ہو گئی اور موٹر سائیکل پر میت لے جانے والے بھی خالق حقیقی سے جا ملے یہ مختصر کیفیت ہم نے بیان کر دی ہے۔
اب ان واقعات کے برعکس جو حالات ہیں، کون ہے جو اس صداقت سے انکارکر سکے کہ اسی ملک کے دوسرے صوبے کے شہر لاہور میں ایک پوش علاقے میں پالتو کتوں کے علاج کی غرض سے دس سے زائد نجی کلینک موجود ہیں جہاں ایک کتے کو چیک کرنے کی فیس ہے پانچ سے سات ہزار روپے ہے گویا ادویات سمیت ایک پالتو کتے کو اگر ان کلینکس میں لے جایا جائے تو کم و بیش کل اخراجات کا تخمینہ ہے۔
آٹھ سے دس ہزار روپے جس کا دوسرا مطلب ہے ایک گھریلو ملازمت کرنے والے محنت کش کی ایک ماہ کی اجرت کے مساوی کیونکہ کیفیت یہی ہے کہ گھر میں کام کرنے والے ملازم کو بمشکل آٹھ سے دس ہزار روپے ہی حاصل ہو پاتے ہیں جب کہ پالتو کتے پر ماہانہ اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ ہے 30 سے 35 ہزار روپے ہے گویا گھر میں کام کرنے والے چار ملازمین کی ماہانہ اجرت کے مساوی۔ یہ عدم مساوات فقط یہاں تک ہی محدود نہیں ہے تعلیمی میدان میں بھی دیکھ لیں، اس وقت ملک میں تین قسم کا تعلیمی نظام رائج ہے۔
اول حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکول جہاں عام تاثر یہ ہے کہ سو فیصد مفلس والدین کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دوم نجی تعلیمی ادارے جہاں متوسط طبقے کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں کیونکہ یہ متوسط طبقہ جیسے تیسے ان اسکولوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے البتہ سوم وہ اسکول کالج و یونیورسٹیاں جہاں فقط اہل ثروت اور مراعات یافتہ طبقے کے حضرات کے بچے ہی تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ان تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنا عام غریب آدمی تو کیا متوسط طبقے کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔
ذکر اگر انصاف کے حوالے سے کیا جائے تو یہاں بھی عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب سانحہ 12 مئی 2007ء کے 55 شہدا کے لواحقین و سانحہ بلدیہ فیکٹری کے شہدا کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں مگر انصاف شاید اب بھی ان لوگوں سے کوسوں دور ہے جب کہ مراعات یافتہ طبقہ سنگین ترین سزائیں پانے کے باوجود نہ صرف جیلوں میں تمام سہولیات حاصل کر لیتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھی روانہ ہو جاتا ہے جب کہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی مختلف عدالتوں میں 15 سے 18 لاکھ مقدمات التوا کا شکار ہیں لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ کیا یہ سماجی تضاد و عدم مساوات کا یہ سلسلہ مزید برداشت کرنا ہے یا ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے؟
اگر ریاست کو حقیقی فلاحی ریاست بنانا ہے تو پھر یہ پرانا و بوسیدہ گلا سڑا نظام حکومت تبدیل کرنا ہو گا اور ایسا نظام حکومت لانا ہو گا جس میں سب کو تعلیم، خوراک، پوشاک، رہائش، روزگار و انصاف مل سکے مگر یہ سب ممکن تو ہے مگر طویل جدوجہد کا طالب ہے یہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تمام لوگوں کو بلا استثنیٰ۔
میں ذکر کر رہا ہوں حقیقی جمہوری نظام حکومت کا۔ میں اس سرمایہ داری نظام حکومت کا تذکرہ نہیں کر رہا جو نظام حکومت دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے اور تمام تر جبر و استحصال رواں رکھنے کے باوجود جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ یہ نظام حکومت فقط پسماندہ ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کو امریکا و انگلستان سمیت اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
اس نظام حکومت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ نظام حکومت سماج میں عدم مساوات نہ صرف پیدا کرتا ہے بلکہ عدم مساوات کی خلیج کو مزید وسعت دیتا چلا جاتا ہے، جس کا نتیجہ سامنے یہ آتا ہے کہ سماج تضادات کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ تضاد ہمیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظر آتا ہے۔
ایک صبح ، ایک نجی ٹیلی ویژن پر ایک خبر دیکھ و سماعت کر رہا تھا خبرکا متن یہ تھا کہ تھرپارکر کے اسپتال میں ایک خاتون اپنی آغوش میں ایک معصوم سے نونہال کی میت رکھے بیٹھی تھی اور عام لوگ اس خاتون کو چندے کے طور پر پیسے دے رہے تھے، اس خاتون کو اس خیرات کی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ اس کا بچہ جوکہ اسپتال میں علاج کی غرض سے لایا گیا تھا جہاں وہ بچہ انتقال کر گیا تھا البتہ وہ خاتون چندے کے پیسے کی اس لیے طلب گار تھی کہ اسے اپنے نونہال کی میت اپنے گوٹھ لے کر جانا تھی۔ تھرپارکر کے اس اسپتال میں ایمبولینس موجود تھی مگر اسپتال کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ اسپتال میں موجود ایمبولینس فقط مریضوں کو منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اسے میت کی منتقلی کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیتے یہ ستم اس لیے بھی قابل افسوس ناک ہے کہ اس وقت بھی صوبہ سندھ میں جو سیاسی جماعت تیسری مدت کے لیے حکومتی امور چلا رہی ہے وہ سیاسی جماعت اپنے دور حکومت کو عوامی حکومت کا نام دیتی ہے۔
عام شہریوں کو حاصل شدہ سہولیات کا عالم یہ ہے کہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں کتے کے کاٹنے کی غرض سے جس ویکسین کی علاج کے لیے ضرورت ہوتی ہے وہ ویکسین مناسب مقدار میں موجود نہیں ہے۔ ہاں میت کی غرض سے استعمال ہونے والی ایمبولینس کی قلت کا یہ عالم ہے کہ فقط چند روز قبل ہی ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ ایک لڑکے کی میت کو موٹر سائیکل پر لے جایا جا رہا تھا کہ وہ موٹرسائیکل حادثے کا شکار ہو گئی اور موٹر سائیکل پر میت لے جانے والے بھی خالق حقیقی سے جا ملے یہ مختصر کیفیت ہم نے بیان کر دی ہے۔
اب ان واقعات کے برعکس جو حالات ہیں، کون ہے جو اس صداقت سے انکارکر سکے کہ اسی ملک کے دوسرے صوبے کے شہر لاہور میں ایک پوش علاقے میں پالتو کتوں کے علاج کی غرض سے دس سے زائد نجی کلینک موجود ہیں جہاں ایک کتے کو چیک کرنے کی فیس ہے پانچ سے سات ہزار روپے ہے گویا ادویات سمیت ایک پالتو کتے کو اگر ان کلینکس میں لے جایا جائے تو کم و بیش کل اخراجات کا تخمینہ ہے۔
آٹھ سے دس ہزار روپے جس کا دوسرا مطلب ہے ایک گھریلو ملازمت کرنے والے محنت کش کی ایک ماہ کی اجرت کے مساوی کیونکہ کیفیت یہی ہے کہ گھر میں کام کرنے والے ملازم کو بمشکل آٹھ سے دس ہزار روپے ہی حاصل ہو پاتے ہیں جب کہ پالتو کتے پر ماہانہ اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ ہے 30 سے 35 ہزار روپے ہے گویا گھر میں کام کرنے والے چار ملازمین کی ماہانہ اجرت کے مساوی۔ یہ عدم مساوات فقط یہاں تک ہی محدود نہیں ہے تعلیمی میدان میں بھی دیکھ لیں، اس وقت ملک میں تین قسم کا تعلیمی نظام رائج ہے۔
اول حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکول جہاں عام تاثر یہ ہے کہ سو فیصد مفلس والدین کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دوم نجی تعلیمی ادارے جہاں متوسط طبقے کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں کیونکہ یہ متوسط طبقہ جیسے تیسے ان اسکولوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے البتہ سوم وہ اسکول کالج و یونیورسٹیاں جہاں فقط اہل ثروت اور مراعات یافتہ طبقے کے حضرات کے بچے ہی تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ان تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنا عام غریب آدمی تو کیا متوسط طبقے کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔
ذکر اگر انصاف کے حوالے سے کیا جائے تو یہاں بھی عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب سانحہ 12 مئی 2007ء کے 55 شہدا کے لواحقین و سانحہ بلدیہ فیکٹری کے شہدا کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں مگر انصاف شاید اب بھی ان لوگوں سے کوسوں دور ہے جب کہ مراعات یافتہ طبقہ سنگین ترین سزائیں پانے کے باوجود نہ صرف جیلوں میں تمام سہولیات حاصل کر لیتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھی روانہ ہو جاتا ہے جب کہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی مختلف عدالتوں میں 15 سے 18 لاکھ مقدمات التوا کا شکار ہیں لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ کیا یہ سماجی تضاد و عدم مساوات کا یہ سلسلہ مزید برداشت کرنا ہے یا ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے؟
اگر ریاست کو حقیقی فلاحی ریاست بنانا ہے تو پھر یہ پرانا و بوسیدہ گلا سڑا نظام حکومت تبدیل کرنا ہو گا اور ایسا نظام حکومت لانا ہو گا جس میں سب کو تعلیم، خوراک، پوشاک، رہائش، روزگار و انصاف مل سکے مگر یہ سب ممکن تو ہے مگر طویل جدوجہد کا طالب ہے یہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تمام لوگوں کو بلا استثنیٰ۔