یمنی حکومت اور جنوبی یمن کے جنگجوؤں میں معاہدہ
یمنی حکومت اور مخالفین کے مابین سمجھوتے سے جنوبی یمن میں استحکام کا ایک نیا دروازہ کھلے گا۔
ABBOTTABAD:
یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور جنوب کے علیحدگی پسندوںمیں شراکت اقتدار کا سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اس ضمن میں سعودی حکومت نے اپنا کردار ادا کیا تاکہ اس تنازعے کے شعلوں کو سرد کیا جا سکے ۔
جنوبی یمن میں جہاں علیحدگی پسند قوتوں نے ملک کے عبوری دارالحکومت عدن پر قبضہ کر لیا تھا اس کے نتیجے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کی توجہ حوثی باغیوں کے ساتھ لڑائی سے ہٹ گئی تھی اور یمن کے مکمل طور پر ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ یمنی حکومت اور مخالفین کے مابین سمجھوتے سے جنوبی یمن میں استحکام کا ایک نیا دروازہ کھلے گا۔
سمجھوتے پر دستخطوں کے موقعے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں ان کو وزارتیں دینے کی شق بھی شامل ہے نیز عدن میں ان کی حکومت واپس کر دی جائے گی۔ جنوبی یمن کے قضیے کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے مارٹن گریفتھ نے سمجھوتے پر فریقین کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے اس سے زیادہ شدید خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی یمن کے لوگوں کی بات سننا سیاسی کوششوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علیحدگی پسندوں نے اگست کے مہینے میں عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، بعد میں ایران نواز حوثی باغیوں نے ان کے مرکز اقتدار سے 2014 میں بے دخل کر دیا تھا۔ پھران برسرپیکار دستوں کو سعودی حکومت کی بالواسطہ حمایت حاصل ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں بالآخر ڈیل پر دستخط ثبت ہوئے۔
دستخطوں کی تقریب کے موقعے پر یمن کے جلاوطن صدر عبدالرب منصور ہادی اور علیحدگی پسندوں کے لیڈر الزبیدی دونوں موجود تھے جب کہ دستخط مثبت کرنے کی تقریب سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوئی۔ اس افہام و تفہیم کے نتیجے میں اتحادیوں کو آپس میں برسرپیکار رہنے کے بجائے حوثیوں کے ساتھ لڑنے کا موقع ملے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ فیلو الزبتھ کینڈل نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں قیام عمل کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی اتحاد جو سعودی حکومت کے زیرقیادت عمل میں آیا ہے اس میں متحدہ عرب امارات کی شرکت بھی موجود ہے۔
یو اے ای نے 2015 میں بھی عدن میں حوثی باغیوں پر قابو پانے کی کوشش کی تھی اس کے ساتھ ہی صدر ہادی کو وہاں سے فرار ہو کر سعودی عرب پہنچنے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔ 1990 سے پہلے جنوبی علاقے کو آزادی میسر تھی چنانچہ وہ اپنی سابقہ حیثیت بھر سے اختیار کرنا چاہتا ہے۔
یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور جنوب کے علیحدگی پسندوںمیں شراکت اقتدار کا سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اس ضمن میں سعودی حکومت نے اپنا کردار ادا کیا تاکہ اس تنازعے کے شعلوں کو سرد کیا جا سکے ۔
جنوبی یمن میں جہاں علیحدگی پسند قوتوں نے ملک کے عبوری دارالحکومت عدن پر قبضہ کر لیا تھا اس کے نتیجے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کی توجہ حوثی باغیوں کے ساتھ لڑائی سے ہٹ گئی تھی اور یمن کے مکمل طور پر ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ یمنی حکومت اور مخالفین کے مابین سمجھوتے سے جنوبی یمن میں استحکام کا ایک نیا دروازہ کھلے گا۔
سمجھوتے پر دستخطوں کے موقعے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں ان کو وزارتیں دینے کی شق بھی شامل ہے نیز عدن میں ان کی حکومت واپس کر دی جائے گی۔ جنوبی یمن کے قضیے کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے مارٹن گریفتھ نے سمجھوتے پر فریقین کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے اس سے زیادہ شدید خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی یمن کے لوگوں کی بات سننا سیاسی کوششوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علیحدگی پسندوں نے اگست کے مہینے میں عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، بعد میں ایران نواز حوثی باغیوں نے ان کے مرکز اقتدار سے 2014 میں بے دخل کر دیا تھا۔ پھران برسرپیکار دستوں کو سعودی حکومت کی بالواسطہ حمایت حاصل ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں بالآخر ڈیل پر دستخط ثبت ہوئے۔
دستخطوں کی تقریب کے موقعے پر یمن کے جلاوطن صدر عبدالرب منصور ہادی اور علیحدگی پسندوں کے لیڈر الزبیدی دونوں موجود تھے جب کہ دستخط مثبت کرنے کی تقریب سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوئی۔ اس افہام و تفہیم کے نتیجے میں اتحادیوں کو آپس میں برسرپیکار رہنے کے بجائے حوثیوں کے ساتھ لڑنے کا موقع ملے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ فیلو الزبتھ کینڈل نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں قیام عمل کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی اتحاد جو سعودی حکومت کے زیرقیادت عمل میں آیا ہے اس میں متحدہ عرب امارات کی شرکت بھی موجود ہے۔
یو اے ای نے 2015 میں بھی عدن میں حوثی باغیوں پر قابو پانے کی کوشش کی تھی اس کے ساتھ ہی صدر ہادی کو وہاں سے فرار ہو کر سعودی عرب پہنچنے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔ 1990 سے پہلے جنوبی علاقے کو آزادی میسر تھی چنانچہ وہ اپنی سابقہ حیثیت بھر سے اختیار کرنا چاہتا ہے۔