سیرت النبیؐ چیدہ چیدہ واقعات پہلا حصہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتداسے ہی نہایت صالح طبیعت والے اورکفروشرک اورہر قسم کے فحشا ومنکر سے پاک اورمنزہ تھے۔
PESHAWAR:
اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 571 عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ نبی کریم کی زندگی محیر العقول واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے، ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے در پیش آئیں ''ارھاصات'' کہلاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک عجیب واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال پیش آیا، جب ان کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے ان کا دل دھویا تھا، اسے شق صدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مجلس میں کیا تھا جب کہ قبیلہ بنی عامرکے ایک بوڑھے شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات سنانے کی خواہش کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میرا شِیر خواری اور بچپن کا ابتدائی زمانہ بنی سعد بن بکر میں گزرا، ایک دن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ سفید پوش آدمیوں (فرشتوں) کی ایک ٹولی نے جن کے ہاتھوں میں سونے کی تھالی میں (زمزم کی) برف بھری تھی، مجھے پکڑ لیا، میرے ساتھی ڈرکر بھاگ گئے، انھوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور (میرے سینے یا پیٹ کے) اندرونی اجزا نکال کر (زمزم کی) برف (کے پانی) سے اچھی طرح دھویا اور پھر اپنی جگہ رکھ دیا، یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، دوسرے نے میرے سینے میں ہاتھ ڈالا اور دل کو نکالا اور اس سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: ''یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے'' پھر دل کو (سونے کی) طشت میں زمزم (کی برف) کے پانی سے دھویا ، پھر اپنے ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تو اچانک ایک نور کی مہر اس کے ہاتھوں میں آگئی، اس نے مہر دل پر لگائی تو وہ نور سے بھرگیا، پھر دل کو جوڑکر اپنے مقام پر رکھ دیا۔ اب تیسرے نے سینے سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو زخم مندمل ہوگیا ، میں اٹھ کھڑا ہوا تو تینوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی نے یہ منظر دیکھا تو دوڑکر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ کچھ سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کردیا ہے، یہ سنتے ہی وہ فوراً وہاں گئے اور دیکھا کہ بچے کے چہرہ کا رنگ فق ہے، اس واقعے سے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ محسوس ہوا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی والدہ کے پاس پہنچانے کے لیے مکہ روانہ ہوگئے اور حضرت آمنہ سے سارا حال بیان کیا۔
یہ سن کر حضرت آمنہ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خدا کی قسم ! اس پر آسیب کا کوئی اثر نہ ہوگا، بلکہ یہ بچہ تو بڑی شان والا ہے۔
نبی کریمؐ کے لیے صادق اور امین کا خطاب:
اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ساری زندگی شرک وگمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا ، چنانچہ تمام ہی انبیا کرام اپنی نبوت ورسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان وقبیلے اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پائے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔
اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی نبوت ورسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک وبت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بالکل پاک اور منزہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راستبازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ ''الصادق یا الامین'' کہہ کر پکارتے تھے، جیساکہ ابن ہشام کی روایت میں ہے کہ:
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد کامل ہوگئے اور مروت وحسن خلق، حسب ونسب، حلم و برد باری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رذیلہ (بری عادات و خصلت) سے ''انتہا درجے دور ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اصحابہ و بارک وسلم ''(الصادق) الامین'' کے نام سے مشہور ہوگئے۔
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو ''اساف و نائلہ'' (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے، ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔
''میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے، اس لیے دوبارہ ان کو چھوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ''کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔'' حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ''اللہ کی قسم! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا کلام اتارا۔ (مستدرک حاکم۔۔جلد 3صفحہ 216)
ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھانا لا کر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکارکیا، وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔
خلاصہ یہ کہ تمام انبیا کرام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتدا سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اورکفروشرک اور ہر قسم کے فحشا و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔
مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے، وہ لکھتی ہے:
پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے، وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے ''الامین'' (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا، کوئی صف اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اورکوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں، ایک ذات جو مجسم صدق ہو، اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے، ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو۔
جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول:
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہوولعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا، باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بے حیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بد اعمال عرب معاشرے میں نہایت ہی پسند کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا، اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آئے۔
دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوئے ہوں، خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے، اس دوران نہ صرف خود ایسی بد اعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراہیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ہر قسم کی بے حیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔
(جاری ہے)
اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 571 عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ نبی کریم کی زندگی محیر العقول واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے، ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے در پیش آئیں ''ارھاصات'' کہلاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک عجیب واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال پیش آیا، جب ان کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے ان کا دل دھویا تھا، اسے شق صدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مجلس میں کیا تھا جب کہ قبیلہ بنی عامرکے ایک بوڑھے شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات سنانے کی خواہش کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میرا شِیر خواری اور بچپن کا ابتدائی زمانہ بنی سعد بن بکر میں گزرا، ایک دن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ سفید پوش آدمیوں (فرشتوں) کی ایک ٹولی نے جن کے ہاتھوں میں سونے کی تھالی میں (زمزم کی) برف بھری تھی، مجھے پکڑ لیا، میرے ساتھی ڈرکر بھاگ گئے، انھوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور (میرے سینے یا پیٹ کے) اندرونی اجزا نکال کر (زمزم کی) برف (کے پانی) سے اچھی طرح دھویا اور پھر اپنی جگہ رکھ دیا، یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، دوسرے نے میرے سینے میں ہاتھ ڈالا اور دل کو نکالا اور اس سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: ''یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے'' پھر دل کو (سونے کی) طشت میں زمزم (کی برف) کے پانی سے دھویا ، پھر اپنے ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تو اچانک ایک نور کی مہر اس کے ہاتھوں میں آگئی، اس نے مہر دل پر لگائی تو وہ نور سے بھرگیا، پھر دل کو جوڑکر اپنے مقام پر رکھ دیا۔ اب تیسرے نے سینے سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو زخم مندمل ہوگیا ، میں اٹھ کھڑا ہوا تو تینوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی نے یہ منظر دیکھا تو دوڑکر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ کچھ سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کردیا ہے، یہ سنتے ہی وہ فوراً وہاں گئے اور دیکھا کہ بچے کے چہرہ کا رنگ فق ہے، اس واقعے سے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ محسوس ہوا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی والدہ کے پاس پہنچانے کے لیے مکہ روانہ ہوگئے اور حضرت آمنہ سے سارا حال بیان کیا۔
یہ سن کر حضرت آمنہ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خدا کی قسم ! اس پر آسیب کا کوئی اثر نہ ہوگا، بلکہ یہ بچہ تو بڑی شان والا ہے۔
نبی کریمؐ کے لیے صادق اور امین کا خطاب:
اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ساری زندگی شرک وگمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا ، چنانچہ تمام ہی انبیا کرام اپنی نبوت ورسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان وقبیلے اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پائے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔
اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی نبوت ورسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک وبت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بالکل پاک اور منزہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راستبازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ ''الصادق یا الامین'' کہہ کر پکارتے تھے، جیساکہ ابن ہشام کی روایت میں ہے کہ:
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد کامل ہوگئے اور مروت وحسن خلق، حسب ونسب، حلم و برد باری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رذیلہ (بری عادات و خصلت) سے ''انتہا درجے دور ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اصحابہ و بارک وسلم ''(الصادق) الامین'' کے نام سے مشہور ہوگئے۔
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو ''اساف و نائلہ'' (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے، ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔
''میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے، اس لیے دوبارہ ان کو چھوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ''کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔'' حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ''اللہ کی قسم! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا کلام اتارا۔ (مستدرک حاکم۔۔جلد 3صفحہ 216)
ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھانا لا کر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکارکیا، وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔
خلاصہ یہ کہ تمام انبیا کرام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتدا سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اورکفروشرک اور ہر قسم کے فحشا و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔
مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے، وہ لکھتی ہے:
پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے، وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے ''الامین'' (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا، کوئی صف اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اورکوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں، ایک ذات جو مجسم صدق ہو، اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے، ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو۔
جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول:
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہوولعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا، باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بے حیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بد اعمال عرب معاشرے میں نہایت ہی پسند کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا، اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آئے۔
دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوئے ہوں، خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے، اس دوران نہ صرف خود ایسی بد اعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراہیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ہر قسم کی بے حیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔
(جاری ہے)