شعور کی اشد ضرورت
مذہب کی سمجھ بھی انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن میں تعلیم سے شعور اجاگر ہوتا ہے۔
لیاقت پور کے نزدیک ٹرین میں آگ لگ جانے کا سانحہ معمولی نہیں ہے، ترقی کے اس دور میں بھی ہم تعلیمی اور سماجی لحاظ سے خاصے پیچھے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ڈگریاں دلوانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ اس طرح انھیں اچھی ملازمتیں مل جائیں گی لیکن سماج میں رہنے کے انداز بھولتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب تعلیم دلوانے کا رواج نہیں ہے اور سماجی اور مذہبی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہیں کہ نہ تو اپنے اردگرد کے ماحول میں بسنے والے لوگوں اور حیاتی زندگی کی فکر ہے اور نہ ہی پہلے کلمے کی خبر ہے۔ یہ ایک المیہ ہے۔
ہم سب کچھ سرکاری اداروں پر رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ ہماری بھی سماجی اور مذہبی لحاظ سے کچھ ذمے داری ہے مذہب کی سمجھ بھی انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن میں تعلیم سے شعور اجاگر ہوتا ہے ورنہ تعلیم انگریزی زبان میں موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر بڑے بڑے امتحانات میں بھاری فیسیں دے کر بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتی لیکن افسوس ہم نے مذہب اور تعلیم کو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
''ہم کراچی سے لاہور جا رہے تھے خواتین کے مخصوص حصے میں تھے، تب ہی ایک اسٹیشن پر ٹرین رکی، غالباً روہڑی یا حیدرآباد تھا، مسافر ڈبے میں داخل ہوئے ان میں سے ایک صاحب نے دھڑا دھڑ سامان دھکیلنا شروع کر دیا ان کے سامان میں چند بڑے نیلے رنگ کے پلاسٹک کے کین بھی تھے جن میں کراچی والے تو پانی بھی بھرتے ہیں البتہ وہ مخصوص کین کیمیکل کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں جن کے خالی ڈبے ردی پیپر والے لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں اب ظاہر ہے کہ وہ کین پانی سے بھرے نہ تھے ان صاحب نے ان میں سے ایک کین خواتین کے حصے میں بڑی عجلت میں سیٹوں کے نیچے گھسیڑنے کی کوششیں کی کیونکہ وہاں کچھ جگہ خالی تھی اس ہڑبونگ میں تو خیال نہ رہا لیکن جب ٹرین چلنی شروع ہوئی تو احساس ہوا کہ اگر خدانخواستہ دھکے سے یہ کین گر گیا اور اس کا ڈھکنا کھل گیا تو اس میں موجود کیمیکل نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔ صاحب کا اصرار تھا کہ اس کین میں کوئی کیمیکل نہیں ہے۔ سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہے؟ کہا تیل ہے، پوچھا گیا کہ اتنی دور تیل لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال بحث طویل ہوئی۔ صاحب سمجھ گئے کہ دال گلنے والی نہیں لہٰذا انھوں نے وہ کین وہاں سے ہٹا دیا لیکن وہ انجانا خطرہ مستقل اس ڈبے میں موجود رہا تھا۔''
ابھی چند برسوں پہلے ہی یہ کسی نے احوال سنایا تھا ، اس کی سنجیدہ نوعیت کا احساس اب ہو رہا ہے، ہمارے یہاں ٹرین کے سفر کو اس طرح لیا جاتا ہے گویا گھوڑا گاڑی پر سواری جاری ہو، سب کچھ مسافروں کے ہمراہ ہی لاد لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مسافروں کو اپنے ہمراہ گیس کے چولہے لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن کچھ عرصہ قبل بھی ڈبے میں چائے بنانے کے لیے مٹی کے تیل کے چولہے میں آگ بھڑک گئی تھی، کیا اجازت ہے اور کیا نہیں۔ یہ معاملہ تو ہم سرکار پر ڈال دیتے ہیں لیکن انسانی رویوں میں خودغرضی، مطلب پرستی کو کس حد تک نظرانداز کر سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ تبلیغی جماعتیں اپنے رب سے محبت کی جستجو میں رائے ونڈ کا رخ کرتی ہیں اس سے ریلوے کو ہر گز نقصان نہیں ہوتا کیونکہ بہت سے حضرات یہ طویل سفر دقتوں میں گزارتے ہوئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ پورا کرایہ ادا کرتے ہیں کیونکہ اکثر انھیں سیٹیں اور برتھ نہیں ملتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ہمراہ پورا وہ سامان بھی ہوتا ہے جو انھیں دوسرے مسافروں کے مقابلے میں ذرا مختلف کرتا ہے۔ مثلاً خیمے، چولہے، چھوٹے موٹے استعمال کے برتن وغیرہ وغیرہ۔ بات اہم ہے تو ان چولہوں کی جو عام طور پر ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے اس افسوسناک واقعے میں اموات 74 تک اور زخمی چالیس کے قریب ہیں، ڈرائیور کے مطابق یہ آگ شارٹ سرکٹ سے نہیں ہوئی ہے، بقول اس کے ورنہ ٹرین میں اتنے بلاسٹ سے بڑے شعلے نہ نکلتے۔ یہ معاملہ شارٹ سرکٹ کا ہے یا مسافروں کی غفلت کا دونوں لحاظ سے یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے جس میں اتنی جانوں کا ضیاع ہوا۔ خاص کر بزنس کلاس میں جو مسافر اے سی کی ٹھنڈک میں بند ہو کر سفر کرتے ہیں اس اذیت ناک ماحول میں کس کرب سے گزرے خدا ہی جانتا ہے۔
چند سال پیشتر تک کراچی کے اسٹیشن پر اسکینر نصب تھا جس سے مسافر اپنا سامان گزار کر ہی ٹرین تک پہنچتے تھے، سنا ہے کہ وہ اسکینر اب ناکارہ ہو چکا ہے۔ ٹرینوں کی حالت اس وقت بھی بری تھی جب اس کا ٹکٹ چھ سات سو روپے تھا اور اب بھی جب یہ پندرہ سو روپے سے آگے بڑھ چکا ہے، پہلے بھی لوگ گدھا گاڑی کی مانند مسافر ٹرین میں اپنا سامان ٹھونستے تھے اور آج بھی یہی حال ہے۔ پہلے زمانے میں مٹی کے تیل کے چولہوں کا رواج تھا اور آج کے دور میں گیس کے چولہے چل رہے ہیں۔
عوام ہو یا حکومت کے ادارے سب اپنی اپنی راہوں پر گامزن ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور باتیں بنانے کی بجائے اپنی راہوں کو ایک شاہراہ کی راہ دیں۔ ضرورت ہے کہ مسافروں میں احساس ذمے داری اور توجہ کے لیے واٹس ایپ، فیس بک اور ایف ایم ریڈیو سروس کے علاوہ اشتہاری مہمات چلاتے رہنا چاہیے تا کہ لوگوں میں احساس اور شعور اجاگر ہو کہ نہ صرف ٹرین بلکہ بسوں اور ویگنوں میں بھی سفر کرنے کے دوران نہ صرف مسافروں کو بلکہ ان کے ڈرائیورز حضرات کو بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسٹیشن پر اسکینر مشینوں اور دوسری حفاظتی تدابیر کو ہمہ وقت تیار رکھا جائے اور اس سلسلے میں کوئی عذر نہ قبول کیا جائے کیونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم سماجی طور پر پوری ذمے داری سے اپنے فرائض کو انجام دیں۔
یہ پابندی کسی ایک محکمے یا ادارے کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملت کے ایک ایک فرد پر عائد ہے اور اچھی کوشش کرتے رہنے کا عمل ضایع نہیں جاتا بالکل اسی طرح جیسے آج گاؤں کا ایک ان پڑھ شخص بھی جانتا ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا اور ڈینگی بخار ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جو جان لے لیتا ہے اور ہر انسان کی جان کی حفاظت کرنا نہ صرف اس کا بلکہ ہمارا بھی فرض ہے۔
دوسری جانب تعلیم دلوانے کا رواج نہیں ہے اور سماجی اور مذہبی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہیں کہ نہ تو اپنے اردگرد کے ماحول میں بسنے والے لوگوں اور حیاتی زندگی کی فکر ہے اور نہ ہی پہلے کلمے کی خبر ہے۔ یہ ایک المیہ ہے۔
ہم سب کچھ سرکاری اداروں پر رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ ہماری بھی سماجی اور مذہبی لحاظ سے کچھ ذمے داری ہے مذہب کی سمجھ بھی انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن میں تعلیم سے شعور اجاگر ہوتا ہے ورنہ تعلیم انگریزی زبان میں موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر بڑے بڑے امتحانات میں بھاری فیسیں دے کر بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتی لیکن افسوس ہم نے مذہب اور تعلیم کو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
''ہم کراچی سے لاہور جا رہے تھے خواتین کے مخصوص حصے میں تھے، تب ہی ایک اسٹیشن پر ٹرین رکی، غالباً روہڑی یا حیدرآباد تھا، مسافر ڈبے میں داخل ہوئے ان میں سے ایک صاحب نے دھڑا دھڑ سامان دھکیلنا شروع کر دیا ان کے سامان میں چند بڑے نیلے رنگ کے پلاسٹک کے کین بھی تھے جن میں کراچی والے تو پانی بھی بھرتے ہیں البتہ وہ مخصوص کین کیمیکل کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں جن کے خالی ڈبے ردی پیپر والے لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں اب ظاہر ہے کہ وہ کین پانی سے بھرے نہ تھے ان صاحب نے ان میں سے ایک کین خواتین کے حصے میں بڑی عجلت میں سیٹوں کے نیچے گھسیڑنے کی کوششیں کی کیونکہ وہاں کچھ جگہ خالی تھی اس ہڑبونگ میں تو خیال نہ رہا لیکن جب ٹرین چلنی شروع ہوئی تو احساس ہوا کہ اگر خدانخواستہ دھکے سے یہ کین گر گیا اور اس کا ڈھکنا کھل گیا تو اس میں موجود کیمیکل نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔ صاحب کا اصرار تھا کہ اس کین میں کوئی کیمیکل نہیں ہے۔ سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہے؟ کہا تیل ہے، پوچھا گیا کہ اتنی دور تیل لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال بحث طویل ہوئی۔ صاحب سمجھ گئے کہ دال گلنے والی نہیں لہٰذا انھوں نے وہ کین وہاں سے ہٹا دیا لیکن وہ انجانا خطرہ مستقل اس ڈبے میں موجود رہا تھا۔''
ابھی چند برسوں پہلے ہی یہ کسی نے احوال سنایا تھا ، اس کی سنجیدہ نوعیت کا احساس اب ہو رہا ہے، ہمارے یہاں ٹرین کے سفر کو اس طرح لیا جاتا ہے گویا گھوڑا گاڑی پر سواری جاری ہو، سب کچھ مسافروں کے ہمراہ ہی لاد لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مسافروں کو اپنے ہمراہ گیس کے چولہے لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن کچھ عرصہ قبل بھی ڈبے میں چائے بنانے کے لیے مٹی کے تیل کے چولہے میں آگ بھڑک گئی تھی، کیا اجازت ہے اور کیا نہیں۔ یہ معاملہ تو ہم سرکار پر ڈال دیتے ہیں لیکن انسانی رویوں میں خودغرضی، مطلب پرستی کو کس حد تک نظرانداز کر سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ تبلیغی جماعتیں اپنے رب سے محبت کی جستجو میں رائے ونڈ کا رخ کرتی ہیں اس سے ریلوے کو ہر گز نقصان نہیں ہوتا کیونکہ بہت سے حضرات یہ طویل سفر دقتوں میں گزارتے ہوئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ پورا کرایہ ادا کرتے ہیں کیونکہ اکثر انھیں سیٹیں اور برتھ نہیں ملتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ہمراہ پورا وہ سامان بھی ہوتا ہے جو انھیں دوسرے مسافروں کے مقابلے میں ذرا مختلف کرتا ہے۔ مثلاً خیمے، چولہے، چھوٹے موٹے استعمال کے برتن وغیرہ وغیرہ۔ بات اہم ہے تو ان چولہوں کی جو عام طور پر ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے اس افسوسناک واقعے میں اموات 74 تک اور زخمی چالیس کے قریب ہیں، ڈرائیور کے مطابق یہ آگ شارٹ سرکٹ سے نہیں ہوئی ہے، بقول اس کے ورنہ ٹرین میں اتنے بلاسٹ سے بڑے شعلے نہ نکلتے۔ یہ معاملہ شارٹ سرکٹ کا ہے یا مسافروں کی غفلت کا دونوں لحاظ سے یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے جس میں اتنی جانوں کا ضیاع ہوا۔ خاص کر بزنس کلاس میں جو مسافر اے سی کی ٹھنڈک میں بند ہو کر سفر کرتے ہیں اس اذیت ناک ماحول میں کس کرب سے گزرے خدا ہی جانتا ہے۔
چند سال پیشتر تک کراچی کے اسٹیشن پر اسکینر نصب تھا جس سے مسافر اپنا سامان گزار کر ہی ٹرین تک پہنچتے تھے، سنا ہے کہ وہ اسکینر اب ناکارہ ہو چکا ہے۔ ٹرینوں کی حالت اس وقت بھی بری تھی جب اس کا ٹکٹ چھ سات سو روپے تھا اور اب بھی جب یہ پندرہ سو روپے سے آگے بڑھ چکا ہے، پہلے بھی لوگ گدھا گاڑی کی مانند مسافر ٹرین میں اپنا سامان ٹھونستے تھے اور آج بھی یہی حال ہے۔ پہلے زمانے میں مٹی کے تیل کے چولہوں کا رواج تھا اور آج کے دور میں گیس کے چولہے چل رہے ہیں۔
عوام ہو یا حکومت کے ادارے سب اپنی اپنی راہوں پر گامزن ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور باتیں بنانے کی بجائے اپنی راہوں کو ایک شاہراہ کی راہ دیں۔ ضرورت ہے کہ مسافروں میں احساس ذمے داری اور توجہ کے لیے واٹس ایپ، فیس بک اور ایف ایم ریڈیو سروس کے علاوہ اشتہاری مہمات چلاتے رہنا چاہیے تا کہ لوگوں میں احساس اور شعور اجاگر ہو کہ نہ صرف ٹرین بلکہ بسوں اور ویگنوں میں بھی سفر کرنے کے دوران نہ صرف مسافروں کو بلکہ ان کے ڈرائیورز حضرات کو بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسٹیشن پر اسکینر مشینوں اور دوسری حفاظتی تدابیر کو ہمہ وقت تیار رکھا جائے اور اس سلسلے میں کوئی عذر نہ قبول کیا جائے کیونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم سماجی طور پر پوری ذمے داری سے اپنے فرائض کو انجام دیں۔
یہ پابندی کسی ایک محکمے یا ادارے کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملت کے ایک ایک فرد پر عائد ہے اور اچھی کوشش کرتے رہنے کا عمل ضایع نہیں جاتا بالکل اسی طرح جیسے آج گاؤں کا ایک ان پڑھ شخص بھی جانتا ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا اور ڈینگی بخار ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جو جان لے لیتا ہے اور ہر انسان کی جان کی حفاظت کرنا نہ صرف اس کا بلکہ ہمارا بھی فرض ہے۔