وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا باہمی تعلق
وفاقی حکومت تو مختلف ہتھکنڈوں سے میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے کنٹرول کرلیتی ہے جس کا غصہ بھی صوبائی حکومت پرہی نکلتا ہے۔
RAWALPINDI:
آج کل میدان سیاست گرم ہے۔ مولانا کے دھرنے اور اس میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت نے تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ اس کی ایک سال کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے کہ عوام کے پاس جایا جا سکے۔
ایک سال کے دوران تحریک انصاف نے خود ہی حالات برے ہونے کا اتنا شور مچایا ہے کہ اب یہی شور ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ تحریک انصاف نے خود ہی اتنا ڈپریشن پھیلا دیا ہے کہ اب تحریک انصاف والے خود ہی اس ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامیان کو بھی صورتحال کا اندازہ ہو گیا ہے۔لیکن اب اس خراب صورتحال کی ذمے داری کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش بھی جاری ہے۔
تحریک انصاف کے حامی دانشور اور سوشل میڈیا پر متحرک ٹیم ایک منظم حکمت عملی کے تحت یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس بری کارکردگی کی ساری ذمے داری تحریک انصاف کی پنجاب حکومت اور عثمان بزدار پر ڈال دی جائے۔ اس ضمن میں گزشتہ چھ ماہ سے ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی عثمان بزدار کی حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی ۔ اس لیے ہماری کارکردگی بری ہے۔ اس بیانیہ کو بنانے میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کے اپنے دوست ہی یہ بیانیہ بنا رہے ہیں۔
آج بھی ملک کا جو سیاسی منظر نامہ ہے اس میں خود ہی تحریک انصاف کے حامی بار بار کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ تو ممکن نہیں البتہ پنجاب میں تبدیلی ممکن ہے۔ جس بات کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہیں ہے اس کو فسانے کا محور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وہ دانشور جو عمران خان اور تحریک انصاف کے گن گاتے تھکتے نہیں ہیں جب حکومت کی ڈیلیو ری کی بات آجائے تو سارا ملبہ پنجاب اور عثمان بزدار پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی صورتحال ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف پنجاب حکومت خود ہی پلیٹ میں رکھ کر اپوزیشن کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تا کہ جان بچ جائے۔ لیکن ابھی تک اپوزیشن بھی بہت سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور تحریک انصاف کے اس ٹریپ میں نہیں آرہی ہے۔
ایسی صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آج تحریک انصاف جن مسائل اور ناکامیوں کا شکار ہے، اس کی ذمے دار تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ہے یا مرکزی حکومت ہے۔ یہ درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کافی حد تک خود مختاری مل گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ملک پر معاشی کنٹرول وفاقی حکومت کا ہی ہے۔ جب تک وفاقی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی صوبوں کی کارکردگی اچھی ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک بری وفاقی حکومت کی موجودگی میں کوئی صوبہ اچھی کارکردگی دکھا سکے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ن لیگ کی مرکزی حکومت کی کارکردگی ا چھی تھی اسی لیے پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ ورنہ جب مرکز میں پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی تو پنجاب میں شہباز شریف بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے۔ اسی لیے انھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔
آپ دیکھیں آج تحریک انصاف پر سب سے زیادہ تنقید بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ پر ہو رہی ہے۔ کیا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافے کا ذمے دار بھی عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا ہر گھر میں بجلی اور گیس کے بلوں کی وجہ سے جو چیخ و پکار ہے اس کا ذمے دار تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بے شک اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جتنے مرضی اختیارات مل گئے ہوں لیکن آج بھی بجلی ،گیس اور پٹرول قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کو ہی حاصل ہے۔ کل بھی لوڈ شیڈنگ کی ذمے دار وفاقی حکومت تھی، آج اس کی ذمے داری پنجاب حکومت پر کیسے عائد کی جا سکتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اس ایک سال میں ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا ہے۔ کئی ادویات ایسی ہیں جن کی قیمتوں میں دو سو گنا سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں ایک وفاقی وزیر کو فارغ بھی کیا گیا۔ ادویات کی قیمتوں کو واپس لانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ڈریپ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی جیسے ادارے وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ لیکن اگر اس ایک سال میں ادویات مہنگی ہوئی ہیں تو اس کا ذمے دار کسی صوبائی حکومت کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے میرے تحریک انصاف کے دوست آج مہنگی ادویات کا ذمے دار عثمان بزدار کو قرار نہیں دے سکتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی سارے بڑے ٹیکس وفاقی حکومت اکٹھے کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس بھی ٹیکس لگانے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن ایک تو ان ٹیکسوں کی تعداد بہت کم ہے دوسرا ان کا حجم بھی بہت کم ہے۔ آج بھی صوبائی حکومتیں اپنی حکومت چلانے کے لیے وفاق سے اپنا حصہ ملنے کی محتاج ہیں۔ جیسے جیسے وفاق سے حصہ ملتا ہے ویسے ویسے صوبے میں خرچ کیے جاتا ہے۔ تمام ترقیاتی منصوبے وفاق سے ملنے والے حصے سے مشروط ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں تحریک انصاف کی حکومت مقررہ ہدف تو دور کی بات ہے پہلے سے بھی بہت کم ٹیکس اکٹھا کر سکی ہے۔
ٹیکس محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے مالی مشکلات کا شکا رہیں۔ کوئی صوبہ بھی کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کر سکا ہے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ دور میں شہباز شریف کو وافر مقدار میں فنڈز میسر تھے۔ اسی لیے وہ بڑے بڑے ترقیا تی منصوبے بنانے کی پوزیشن میں تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ پنجاب کے پاس وفاق سے فنڈز آرہے ہیں لیکن پنجاب حکومت خرچ نہیں کر رہی ہے۔ میرے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ جیسے جیسے وفاقی حکومت کی ٹیکس محصولات میں کمی ہوتی ہے، ویسے ویسے صوبائی حکومت کی کارکردگی متاثر ہوتی جاتی ہے۔
آج ملک میں معاشی بحران کی بات کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ملک میں ایک سال میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کی ذمے داری کسی بھی طرح کسی صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ میڈیا میں جو بحران ہے اس کی ذمے داری بھی کسی صوبائی حکومت پر عائد نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی ذمے داربھی وفاقی حکومت ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا نقصان صوبائی حکومت کو زیادہ ہو رہا ہے۔
وفاقی حکومت تو مختلف ہتھکنڈوں سے میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے کنٹرول کر لیتی ہے جس کا غصہ بھی صوبائی حکومت پر ہی نکلتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کا غصہ بھی بیچاری پنجاب حکومت پر نکل جاتا ہے۔ جب ہم لکھنے والے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں تو غصہ کہیں اور نکالتے ہیں۔ حتیٰ کے میڈیا میں تحریک انصاف کے دوست بھی جب بے بس ہوجاتے ہیں توپنجاب حکومت پر غصہ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس لیے بات سمجھنے کی ہے کہ جب تک مرکزی حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہوگی تب تک صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہو سکتی۔ جب تک وفاقی حکومت کی ڈیلیو ری ٹھیک نہیں ہو گی، پنجاب، کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی ڈیلیو ری بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ باقی آپ کی مرضی ۔ ان سب حالات کے باجود عثمان بزدار کی حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی وہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگلے کسی کالم میں وفاقی حکومت کی اس کارکردگی کے باوجود عثمان بزدار کی کارکردگی پر لکھوں گا ۔ شائد تحریک انصاف کے دوستوں کو سمجھ آجائے۔
آج کل میدان سیاست گرم ہے۔ مولانا کے دھرنے اور اس میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت نے تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ اس کی ایک سال کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے کہ عوام کے پاس جایا جا سکے۔
ایک سال کے دوران تحریک انصاف نے خود ہی حالات برے ہونے کا اتنا شور مچایا ہے کہ اب یہی شور ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ تحریک انصاف نے خود ہی اتنا ڈپریشن پھیلا دیا ہے کہ اب تحریک انصاف والے خود ہی اس ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامیان کو بھی صورتحال کا اندازہ ہو گیا ہے۔لیکن اب اس خراب صورتحال کی ذمے داری کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش بھی جاری ہے۔
تحریک انصاف کے حامی دانشور اور سوشل میڈیا پر متحرک ٹیم ایک منظم حکمت عملی کے تحت یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس بری کارکردگی کی ساری ذمے داری تحریک انصاف کی پنجاب حکومت اور عثمان بزدار پر ڈال دی جائے۔ اس ضمن میں گزشتہ چھ ماہ سے ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی عثمان بزدار کی حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی ۔ اس لیے ہماری کارکردگی بری ہے۔ اس بیانیہ کو بنانے میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کے اپنے دوست ہی یہ بیانیہ بنا رہے ہیں۔
آج بھی ملک کا جو سیاسی منظر نامہ ہے اس میں خود ہی تحریک انصاف کے حامی بار بار کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ تو ممکن نہیں البتہ پنجاب میں تبدیلی ممکن ہے۔ جس بات کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہیں ہے اس کو فسانے کا محور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وہ دانشور جو عمران خان اور تحریک انصاف کے گن گاتے تھکتے نہیں ہیں جب حکومت کی ڈیلیو ری کی بات آجائے تو سارا ملبہ پنجاب اور عثمان بزدار پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی صورتحال ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف پنجاب حکومت خود ہی پلیٹ میں رکھ کر اپوزیشن کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تا کہ جان بچ جائے۔ لیکن ابھی تک اپوزیشن بھی بہت سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور تحریک انصاف کے اس ٹریپ میں نہیں آرہی ہے۔
ایسی صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آج تحریک انصاف جن مسائل اور ناکامیوں کا شکار ہے، اس کی ذمے دار تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ہے یا مرکزی حکومت ہے۔ یہ درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کافی حد تک خود مختاری مل گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ملک پر معاشی کنٹرول وفاقی حکومت کا ہی ہے۔ جب تک وفاقی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی صوبوں کی کارکردگی اچھی ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک بری وفاقی حکومت کی موجودگی میں کوئی صوبہ اچھی کارکردگی دکھا سکے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ن لیگ کی مرکزی حکومت کی کارکردگی ا چھی تھی اسی لیے پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ ورنہ جب مرکز میں پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی تو پنجاب میں شہباز شریف بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے۔ اسی لیے انھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔
آپ دیکھیں آج تحریک انصاف پر سب سے زیادہ تنقید بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ پر ہو رہی ہے۔ کیا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافے کا ذمے دار بھی عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا ہر گھر میں بجلی اور گیس کے بلوں کی وجہ سے جو چیخ و پکار ہے اس کا ذمے دار تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بے شک اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جتنے مرضی اختیارات مل گئے ہوں لیکن آج بھی بجلی ،گیس اور پٹرول قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کو ہی حاصل ہے۔ کل بھی لوڈ شیڈنگ کی ذمے دار وفاقی حکومت تھی، آج اس کی ذمے داری پنجاب حکومت پر کیسے عائد کی جا سکتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اس ایک سال میں ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا ہے۔ کئی ادویات ایسی ہیں جن کی قیمتوں میں دو سو گنا سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں ایک وفاقی وزیر کو فارغ بھی کیا گیا۔ ادویات کی قیمتوں کو واپس لانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ڈریپ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی جیسے ادارے وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ لیکن اگر اس ایک سال میں ادویات مہنگی ہوئی ہیں تو اس کا ذمے دار کسی صوبائی حکومت کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے میرے تحریک انصاف کے دوست آج مہنگی ادویات کا ذمے دار عثمان بزدار کو قرار نہیں دے سکتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی سارے بڑے ٹیکس وفاقی حکومت اکٹھے کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس بھی ٹیکس لگانے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن ایک تو ان ٹیکسوں کی تعداد بہت کم ہے دوسرا ان کا حجم بھی بہت کم ہے۔ آج بھی صوبائی حکومتیں اپنی حکومت چلانے کے لیے وفاق سے اپنا حصہ ملنے کی محتاج ہیں۔ جیسے جیسے وفاق سے حصہ ملتا ہے ویسے ویسے صوبے میں خرچ کیے جاتا ہے۔ تمام ترقیاتی منصوبے وفاق سے ملنے والے حصے سے مشروط ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں تحریک انصاف کی حکومت مقررہ ہدف تو دور کی بات ہے پہلے سے بھی بہت کم ٹیکس اکٹھا کر سکی ہے۔
ٹیکس محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے مالی مشکلات کا شکا رہیں۔ کوئی صوبہ بھی کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کر سکا ہے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ دور میں شہباز شریف کو وافر مقدار میں فنڈز میسر تھے۔ اسی لیے وہ بڑے بڑے ترقیا تی منصوبے بنانے کی پوزیشن میں تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ پنجاب کے پاس وفاق سے فنڈز آرہے ہیں لیکن پنجاب حکومت خرچ نہیں کر رہی ہے۔ میرے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ جیسے جیسے وفاقی حکومت کی ٹیکس محصولات میں کمی ہوتی ہے، ویسے ویسے صوبائی حکومت کی کارکردگی متاثر ہوتی جاتی ہے۔
آج ملک میں معاشی بحران کی بات کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ملک میں ایک سال میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کی ذمے داری کسی بھی طرح کسی صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ میڈیا میں جو بحران ہے اس کی ذمے داری بھی کسی صوبائی حکومت پر عائد نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی ذمے داربھی وفاقی حکومت ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا نقصان صوبائی حکومت کو زیادہ ہو رہا ہے۔
وفاقی حکومت تو مختلف ہتھکنڈوں سے میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے کنٹرول کر لیتی ہے جس کا غصہ بھی صوبائی حکومت پر ہی نکلتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کا غصہ بھی بیچاری پنجاب حکومت پر نکل جاتا ہے۔ جب ہم لکھنے والے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں تو غصہ کہیں اور نکالتے ہیں۔ حتیٰ کے میڈیا میں تحریک انصاف کے دوست بھی جب بے بس ہوجاتے ہیں توپنجاب حکومت پر غصہ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس لیے بات سمجھنے کی ہے کہ جب تک مرکزی حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہوگی تب تک صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہو سکتی۔ جب تک وفاقی حکومت کی ڈیلیو ری ٹھیک نہیں ہو گی، پنجاب، کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی ڈیلیو ری بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ باقی آپ کی مرضی ۔ ان سب حالات کے باجود عثمان بزدار کی حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی وہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگلے کسی کالم میں وفاقی حکومت کی اس کارکردگی کے باوجود عثمان بزدار کی کارکردگی پر لکھوں گا ۔ شائد تحریک انصاف کے دوستوں کو سمجھ آجائے۔