اتفاق

آج ہم سب پریشان ہیں۔ گھر کے اندر بھی پریشان ہیں اور گھر کے باہر بھی۔ سڑکوں پر بھی، بازاروں میں بھی...


Moosa Raza Afandi October 19, 2013
[email protected]

آج ہم سب پریشان ہیں۔ گھر کے اندر بھی پریشان ہیں اور گھر کے باہر بھی۔ سڑکوں پر بھی، بازاروں میں بھی، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں بھی، خانقاہوں ، شہروں ، دیہاتوں، اسکولوں کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے اندر بھی، مقدس مقامات پر بھی اور گناہ گاروں کی چاردیواریوں کے اندر بھی نہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی اور تفریح گاہوں میں بھی، غرض کوئی جگہ ایسی آپ کو نہیں ملے گی جہاں لوگ کہہ سکیں کہ وہ پریشان نہیں ہیں۔

پریشان صرف ناقابل برداشت مہنگائی کے باعث نہیں ہیں بلکہ ہم مجموعی طور پر اس وقت ایک پریشان قوم ہیں۔ شاید ہم قوم بھی نہیں بلکہ صرف روایتاً سمجھتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں۔ نہ تو ہم اب تک ایک قوم بن سکے اور نہ ایک ملک کے باشندے ہی۔ ہم پہلے دن سے یعنی بدقسمتی سے جب سے ملک بنا ہے انتشار کا شکار ہیں۔ ہم بکھرے ہوئے ہی رہے ہیں۔ ہم مختلف حصوں میں بکھرے ہی رہے ہیں اور کبھی مجموعی طور پر اتفاق سے نہیں رہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے اندر ایسی کونسی خرابی ہے جس کی وجہ سے ہم یکجائی سے اب تک محروم ہیں اور اس نعمت کو ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس کا جواب شاید اتنی آسانی سے سمجھایا بھی نہ جاسکے۔ آئیے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی انگنت پریشانیوں کی وجہ سمجھ سکیں۔ اگر یہ ایک فرد واحد کی پریشانی ہوتی تو کسی سائیکٹرسٹ کے ساتھ مشاورت سے علاج ممکن تھا لیکن یہ مسئلہ ایک پوری قوم کا ہے۔ طب کی بے پناہ ترقی نے اب تک قوموں کی نفسیات درست کرنے کا علاج دریافت نہیں کیا۔ اس کے برعکس یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کو نفسیاتی بیمار بنانیوالوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کی زندہ مثال اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مظلوم اور بے بس لوگ ہیں جن کی بدنصیبی پر سوائے ان کے کوئی رونے والا نہیں ہے۔

پاکستانی اس وقت بُری طر ح پٹ رہے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں اپنی نظروں میں خود بھی گرگئے ہیں۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ وہ کئی اور طرح سے بھی ہر وقت کسی نہ کسی بلا میں گرفتار رہتے ہیں کبھی فرقہ واریت کی بلا کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں کبھی صوبائی اور لسانی عصبیتوں کی بلا ہلاک کردیتی ہے اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کی بلا نے تو قصہ ہی تمام کردیا ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے؟ دوسرے ملکوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ مثلاً ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان ہے جس میں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں جو مزاج کے لحاظ سے بڑی حد تک ہماری طرح کے لوگ ہی ہیں۔ ان کی روایات اور رسم و رواج مذہب کے فرق کو چھوڑ کر بڑی حد تک ہماری طرح ہی ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کے مسلمانوں کی نسبت اب بھی زیادہ ہے وہ سارے کے سارے ہندستانی کہلاتے ہیں۔

امریکا میں پچاس سے زائد ریاستیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ اسقدر تنوع اور اختلافات اور مختلف ترجیحات کے باوجود امریکا متحدہ ریاست ہائے امریکا ہی کہلاتا ہے، اختلافات اور قبیح قسم کے اختلافات تو انگلستان کے اندر بھی موجود ہیں لیکن سبھی برطانوی کہلاتے ہیں، حتیٰ کہ وہاں کے پاکستانی نژاد شہری بھی اپنے آپکو برطانوی شہری ہی سمجھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہا ں تک کہ افغانستان جیسا ملک بھی جس کے اندر قبائلی معاشرہ کی جھلکیاں اب تک موجود ہیں آہستہ آہستہ اتحادوں کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کچھ ہی عرصہ تک وہ بھی پاکستان کو ہرطرح سے پیچھے چھوڑ جائے گا۔کبھی ہم نے سوچا ایسا کیوں ہے۔ آخر ہمارے اندر ایسی کیا خرابیاں ہیں جو ہمیں ایک قوم بننے سے روک رہی ہیں اور ہم یہ سب کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی قابل رحم حالت تک بے بسی محسوس کر رہے ہیں یہ ناصرف افسوس کا مقام ہے بلکہ ایک انہونی قسم کی بد بختی اور بدنصیبی ہے۔

ہم نے وقت سے آگے نکلنے کی کوشش کی اور منیر نیازی کے مطابق وقت سے آگے نکلنے کی سزا یہ ہے کہ آدمی اکیلا رہ جاتا ہے اس سے بھی بڑھ کر اکیلے آدمی کی سز ا وہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ سے بھی متفق نہیں رہ سکتا۔ یعنی اتفاق نامی شے اس کی زندگی سے مفقود ہوجاتی ہے ان معروضی حالات پر اگر ذرا سا بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگوں کو یکجائی کی ضرورت ہے اتفاق کی ضرورت ہے ہم نے اپنے آپ کو بہت ساری اکائیوں میں بانٹ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نہ صرف قومی اور ملکی سطح پر اکیلے رہ گئے ہیں بلکہ خاندانی اور گھریلو سطح پر بھی اکیلے رہ گئے ہیں اور بالکل نہیں سمجھ پا رہے کہ پھر یکجا کیسے ہو سکتے ہیں۔کیا یک جائی ایک مشکل کام ہے۔ نہیں ہرگز نہیں یہ بالکل مشکل کام نہیں ہے بس اس کے لیے دل گردہ چاہیے جو معاف کرسکے۔ ہم لوگوں کو معاف نہیں کرتے اس لیے لوگ بھی ہمیں معاف نہیں کرتے ۔ اگر ہم اپنے اندر معاف کرنے کا حوصلہ پیدا کرلیں تو شاید لوگ بھی ہمیں معاف کرنے پر راضی ہوجائیں۔ معاف کرنے سے ہمارے درمیان سے انتشار چھٹ جائے گا اور اتفاق پیدا ہوگا۔ اتفاق کا دوسرا نام اتحاد ہے اور جس نے ہمیں خدا کے حکم سے یہ ملک بنا کردیا تھا اسے قائم رکھنے کے لیے اس نے جو تین سنہری اصول بتلائے تھے ان میں پہلا اصول اتحاد تھا ۔ کیا ہمارا اتفاق ناممکن ہے؟ ۔خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں