آزادی مارچ کس سمت جائے گا
مولاناصاحب اقتدارکی منزل تک جانے کے لیے جواربوں کا زادراہ خرچ کررہے ہیں عوام حیران ہیں کہ یہ بھاری زادراہ آیاکہاں سے؟
مولانا فضل الرحمن اپنی ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں یعنی اسلام آباد۔ دکھ اس بات کا ہے کہ مولانا اپنی منزل سے بھٹک گئے ہیں۔ مولانا صاحبان مولوی صاحبان کی اصلی منزل اسلام ہے، اسلام آباد نہیں۔ اسلام آباد میں جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس قدر دنیا دار ہے کہ صرف ''پیشہ ور'' ہی اس منزل تک پہنچنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
شریف آدمی اس منزل پر دو بول پڑھ کر اپنا رخ بدل لیتا ہے۔ اقتدار سرمایہ دارانہ جمہوریت کی وہ غلاظت بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ شریف آدمی اس کے قریب بھی جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جھوٹ، بے ایمانی، دھوکا، دولت کا حصول اس سفر میں ہمسفر بنے رہتے ہیں۔
مولانا صاحب اقتدارکی منزل تک جانے کے لیے جو اربوں کا زاد راہ خرچ کر رہے ہیں عوام حیران ہیں کہ یہ بھاری زاد راہ آیا کہاں سے؟ مولانا نہ جاگیردار ہیں نہ بڑے سرمایہ دار، پھر زاد راہ کا بھاری سرمایہ کون خرچ کر رہا ہے اورکیوں خرچ کر رہا ہے؟ یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ جو سرمایہ کار ہیں وہ اقتدار چاہتے ہیں۔ اقتدار وہ نشہ ہے جو نشہ بازوں کو بھی اندھا بنا دیتا ہے ممکنہ طور پر جو سرمایہ دار اس مہم پر بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ خود سامنے اس لیے نہیں آرہے ہیں کہ کچھ سزا یافتہ ہیں کچھ انڈر ٹرائل اور عوام میں اس قدر بدنام ہیں کہ عوام کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ سیاست اور سرمایہ دارانہ جمہوریت اگرچہ ایک عیاری ہے لیکن چوروں اور ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور چور ڈاکو بھی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مختلف ملکوں میں اقتدار کی مدت مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اقتدارکی مدت پانچ سال ہے۔ اس آئینی مدت کو پورا کرنے کا حق ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ابھی اقتدار میں آئے لگ بھگ چودہ ماہ ہو رہے ہیں۔ آئین کے مطابق حکومت کو ابھی ساڑھے تین سال حکومت کرنے کا حق ہے اور مولانا صاحب ساڑھے تین سال پہلے ہی حکومت گرانے کے لیے آگئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں جوکسی حوالے سے بھی مناسب ہے نہ جائز۔
اگر ایک بار بے وجہ محض حصول اقتدار کے لیے حکومتوں کو قبل از وقت گرانے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو انتخابات وغیرہ غیر ضروری ہوکر رہ جائیں گے۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر چور ڈاکو بھی سختی سے عمل کرتے ہیں۔ سیاستدان تو معتبر اور قابل لوگ ہوتے ہیں اگر آج کسی سیاستدان کی بات مان لی جائے تو پھر کل کیا ہو گا؟
مولانا کا مارچ اسلام آباد پہنچ گیا ہے مولانا نے کہا ہے کہ مارچ بھی ہو گا، جلسہ بھی ہو گا اور دھرنا بھی ہو گا۔ ہم دو تین دن اسلام آباد میں بیٹھ کر عمران خان کو مہلت دیں گے۔ اگر عمران خان نے استعفیٰ نہ دیا تو پھر فیصلہ عوام کریں گے۔ ہمارا آخری مسکن ڈی چوک ہو گا یا شاہراہ دستور۔ اس کا فیصلہ ''عوام'' کریں گے۔ اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو ملک میں افراتفری ہو گی۔ ہم سرینڈر نہیں کریں گے، ہم کو حتمی طور پر حکومت سے استعفیٰ لینا ہے اور لڑ کر لینا ہے آرام سے نہیں لینا ہے۔ عوام نے نیازی کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کر دیا ہے۔ جدھر میرا کنٹینر جائے گا عوامی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو آزادی مارچ مزید سخت ہو جائے گا۔
احتساب کے نام پر ڈرامے اب مزید نہیں چل سکیں گے۔ حکومت ناجائز ہے اور یہ بات ہم ساری دنیا تک پہنچائیں گے۔ عوام کے جذبے کا مقابلہ حکومت نہیں کرسکتی۔ تمام قافلے اپنے وقت اور ترتیب کے ساتھ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ''کب اور کیا کرنا ہے'' اکرام درانی نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد سیر کے لیے نہیں بلکہ وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے آئے ہیں۔ ہم یہاں سے اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وزیر اعظم کو گھر کا راستہ نہیں دکھائیں گے۔
بلاشبہ آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے قافلے اور اس کے عمائدین راستے میں ہیں۔ ایک دو روز میں جب پورا قافلہ اسلام آباد پہنچ جائے گا تو پھر حکومت گرانے کی کارروائی شروع ہو جائے گی۔ مولانا نے کہا ہے کہ عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تو مارچ اور سخت ہو جائے گا۔ مولانا کی یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو پھر ملک میں ''افراتفری'' ہو گی اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مولانا مارچ کو کس سمت لے جانا چاہ رہے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مولانا بار بار یہ بات کر رہے ہیں کہ فیصلہ ''عوام'' کریں گے۔ مولانا یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مارچ میں وعدے اور اطلاع کے مطابق نہ مسلم لیگ (ن) نے شرکت کی نہ پیپلز پارٹی نے شرکت کی۔ یہ مارچ صرف اور صرف جے یو آئی کا شو ہے جس میں جے یو آئی کے کارکن شریک ہیں لہٰذا اس مارچ کو پاکستان کے عوام کا مارچ کہنا سرے سے غلط ہے۔ ہاں یہ ضرور دکھائی دیتا ہے کہ اس مارچ کی مالی مدد مولانا کے سیاسی دوست بہت فراخ دلی سے کر رہے ہیں۔ بقول رہنما جے یو آئی مارچ میں 80 ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں۔ اگر واقعی اس مارچ میں 80 ہزار سے زیادہ عوام شریک ہیں تو ان کے رہنے، کھانے، پینے کا انتظام کس طرح ہو رہا ہے اور اس مارچ پر خرچ ہونے والا سرمایہ کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر پاکستان کے عوام کو غورکرنا چاہیے۔
پاکستانی حکومت اس وقت کشمیر کے حوالے سے ساری دنیا میں بھارت کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند تحریک چلا رہی ہے۔ کیا اس موقع پر ملک میں افراتفری سے بھارت کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا؟ یہ سوال ایسا ہے جس پر عوام کو غور کرنا چاہیے۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر خدانخواستہ مارچ کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا مارچ کے مددگار فضل الرحمن کو وزیر اعظم بنا دیں گے؟ یہ ہرگز ممکن نہیں، تو پھر اس سارے شو میں فضل الرحمن کا کردار کیا ہو گا۔ جے یو آئی کے کارکن فضل الرحمن سے کیا خوش رہیں گے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر آج ہی کارکنوں اور رہنماؤں کو غور کر لینا چاہیے۔
شریف آدمی اس منزل پر دو بول پڑھ کر اپنا رخ بدل لیتا ہے۔ اقتدار سرمایہ دارانہ جمہوریت کی وہ غلاظت بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ شریف آدمی اس کے قریب بھی جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جھوٹ، بے ایمانی، دھوکا، دولت کا حصول اس سفر میں ہمسفر بنے رہتے ہیں۔
مولانا صاحب اقتدارکی منزل تک جانے کے لیے جو اربوں کا زاد راہ خرچ کر رہے ہیں عوام حیران ہیں کہ یہ بھاری زاد راہ آیا کہاں سے؟ مولانا نہ جاگیردار ہیں نہ بڑے سرمایہ دار، پھر زاد راہ کا بھاری سرمایہ کون خرچ کر رہا ہے اورکیوں خرچ کر رہا ہے؟ یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ جو سرمایہ کار ہیں وہ اقتدار چاہتے ہیں۔ اقتدار وہ نشہ ہے جو نشہ بازوں کو بھی اندھا بنا دیتا ہے ممکنہ طور پر جو سرمایہ دار اس مہم پر بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ خود سامنے اس لیے نہیں آرہے ہیں کہ کچھ سزا یافتہ ہیں کچھ انڈر ٹرائل اور عوام میں اس قدر بدنام ہیں کہ عوام کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ سیاست اور سرمایہ دارانہ جمہوریت اگرچہ ایک عیاری ہے لیکن چوروں اور ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور چور ڈاکو بھی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مختلف ملکوں میں اقتدار کی مدت مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اقتدارکی مدت پانچ سال ہے۔ اس آئینی مدت کو پورا کرنے کا حق ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ابھی اقتدار میں آئے لگ بھگ چودہ ماہ ہو رہے ہیں۔ آئین کے مطابق حکومت کو ابھی ساڑھے تین سال حکومت کرنے کا حق ہے اور مولانا صاحب ساڑھے تین سال پہلے ہی حکومت گرانے کے لیے آگئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں جوکسی حوالے سے بھی مناسب ہے نہ جائز۔
اگر ایک بار بے وجہ محض حصول اقتدار کے لیے حکومتوں کو قبل از وقت گرانے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو انتخابات وغیرہ غیر ضروری ہوکر رہ جائیں گے۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر چور ڈاکو بھی سختی سے عمل کرتے ہیں۔ سیاستدان تو معتبر اور قابل لوگ ہوتے ہیں اگر آج کسی سیاستدان کی بات مان لی جائے تو پھر کل کیا ہو گا؟
مولانا کا مارچ اسلام آباد پہنچ گیا ہے مولانا نے کہا ہے کہ مارچ بھی ہو گا، جلسہ بھی ہو گا اور دھرنا بھی ہو گا۔ ہم دو تین دن اسلام آباد میں بیٹھ کر عمران خان کو مہلت دیں گے۔ اگر عمران خان نے استعفیٰ نہ دیا تو پھر فیصلہ عوام کریں گے۔ ہمارا آخری مسکن ڈی چوک ہو گا یا شاہراہ دستور۔ اس کا فیصلہ ''عوام'' کریں گے۔ اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو ملک میں افراتفری ہو گی۔ ہم سرینڈر نہیں کریں گے، ہم کو حتمی طور پر حکومت سے استعفیٰ لینا ہے اور لڑ کر لینا ہے آرام سے نہیں لینا ہے۔ عوام نے نیازی کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کر دیا ہے۔ جدھر میرا کنٹینر جائے گا عوامی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو آزادی مارچ مزید سخت ہو جائے گا۔
احتساب کے نام پر ڈرامے اب مزید نہیں چل سکیں گے۔ حکومت ناجائز ہے اور یہ بات ہم ساری دنیا تک پہنچائیں گے۔ عوام کے جذبے کا مقابلہ حکومت نہیں کرسکتی۔ تمام قافلے اپنے وقت اور ترتیب کے ساتھ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ''کب اور کیا کرنا ہے'' اکرام درانی نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد سیر کے لیے نہیں بلکہ وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے آئے ہیں۔ ہم یہاں سے اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وزیر اعظم کو گھر کا راستہ نہیں دکھائیں گے۔
بلاشبہ آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے قافلے اور اس کے عمائدین راستے میں ہیں۔ ایک دو روز میں جب پورا قافلہ اسلام آباد پہنچ جائے گا تو پھر حکومت گرانے کی کارروائی شروع ہو جائے گی۔ مولانا نے کہا ہے کہ عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تو مارچ اور سخت ہو جائے گا۔ مولانا کی یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو پھر ملک میں ''افراتفری'' ہو گی اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مولانا مارچ کو کس سمت لے جانا چاہ رہے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مولانا بار بار یہ بات کر رہے ہیں کہ فیصلہ ''عوام'' کریں گے۔ مولانا یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مارچ میں وعدے اور اطلاع کے مطابق نہ مسلم لیگ (ن) نے شرکت کی نہ پیپلز پارٹی نے شرکت کی۔ یہ مارچ صرف اور صرف جے یو آئی کا شو ہے جس میں جے یو آئی کے کارکن شریک ہیں لہٰذا اس مارچ کو پاکستان کے عوام کا مارچ کہنا سرے سے غلط ہے۔ ہاں یہ ضرور دکھائی دیتا ہے کہ اس مارچ کی مالی مدد مولانا کے سیاسی دوست بہت فراخ دلی سے کر رہے ہیں۔ بقول رہنما جے یو آئی مارچ میں 80 ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں۔ اگر واقعی اس مارچ میں 80 ہزار سے زیادہ عوام شریک ہیں تو ان کے رہنے، کھانے، پینے کا انتظام کس طرح ہو رہا ہے اور اس مارچ پر خرچ ہونے والا سرمایہ کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر پاکستان کے عوام کو غورکرنا چاہیے۔
پاکستانی حکومت اس وقت کشمیر کے حوالے سے ساری دنیا میں بھارت کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند تحریک چلا رہی ہے۔ کیا اس موقع پر ملک میں افراتفری سے بھارت کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا؟ یہ سوال ایسا ہے جس پر عوام کو غور کرنا چاہیے۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر خدانخواستہ مارچ کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا مارچ کے مددگار فضل الرحمن کو وزیر اعظم بنا دیں گے؟ یہ ہرگز ممکن نہیں، تو پھر اس سارے شو میں فضل الرحمن کا کردار کیا ہو گا۔ جے یو آئی کے کارکن فضل الرحمن سے کیا خوش رہیں گے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر آج ہی کارکنوں اور رہنماؤں کو غور کر لینا چاہیے۔