نبض کیسے امراض کا پتہ دیتی ہے
تشخیصی آلات کی موجودگی کے باوجود نبض کا طریقہ آج بھی قابل اعتبار ہے
پاکستان میں مختلف طریقہ ہائے علاج رائج ہیں۔ ہرطریقہ علاج میں تشخیص کے الگ پیرامیٹرز ہیں۔ طب میں تشخیص کے اہم ذرائع نبض وقارورہ ہیں۔اگرچہ اس کے علاوہ بھی تشخیص کے کچھ ذرائع ہیں لیکن وہ ثانوی ہیں۔ نبض کے بارے میں اکابرین فن کے اقوال قابل غور ہیں۔
بقراط کا قول'' نبض ایک خاموشی اعلانچی ہے اور باطنی حالات کو بہ آواز بلند بتاتی ہے لیکن جو حکماء اس پر دسترس نہ رکھتے ہوں ان کے لیے گونگی ہے''۔ جالینوس کا قول ہے ''نبض بیماری کی پیچیدگیوں کو طبیب کے سامنے رکھ دیتی ہے''۔ رازی کا قول ہے '' نبض ایک ایسا آلہ ہے جس سے جسم کے تمام حالات کا علم ہو جاتاہے اور جسم کے تمام مفرد اعضاء کے حالات بتلاتی ہے۔ افلاطون کا قول ہے ''نبض کبھی خطا نہ کرنے والا پیغامبر ہے''۔
مختلف لوگوں کی نبض مختلف ہوتی ہے۔ ہم نبض کی موٹائی، پتلا پن، سستی، تیزی، نرمی وسختی، بلندی اور پستی، تنگی و کشادگی ہی کو بھانپتے ہیں۔ یہ مختلف صورتیں ہی نبض کی زبان ہیں۔ مثال کے طورپر جس مریض کی نبض سخت ہوگی، بلند ہوگی یعنی ہاتھ رکھتے ہی انگلیوں کو چھونے لگے گی، رفتار میں تیزی ہو گی، اگر اسے دبانے کی کوشش کی جائے گی تو انگلیوں کو اْوپر کی طرف اْٹھائے گی۔ ایسی نبض جسم میں خشکی کے غلبہ کا اظہار کرے گی۔ مزاج دریافت کرنے کابہترین ذریعہ نبض اور قارورہ ہی ہیں۔
نبض کے بانیوں میں شیخ الرئیس بوعلی سینا، ذکریا اور رازی جیسی عظیم شخصیات ہیں انہوں نے دینی فریضہ سمجھ کر اس فن میں تحقیقات کیں۔ ان کی خدمات کو عالم انسانیت قیامت تک فراموش نہیں کر سکتا۔ انہی کی تحقیقات پر آج ایلوپیتھی اور سرجری کا بلندو بالا ایوان کھڑا نظرآتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طب اسلامی ماں اور باقی سب طریقہ ہائے علاج اس کی اولاد ہیں۔تاریخ میں امراض کی تشخیص کے بارے بھی بہت سے آلات ایجاد ہوئے لیکن متروک ہوتے رہے۔اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ بھی نئے سے نئے دریافت ہو رہے ہیں۔
نبض سے تشخیص کا عمل آج بھی اسی طرح زندہ اور مقبول عام ہے۔ اگر نبض کے ذریعے تشخیص کا ذریعہ ناقص ہوتا تو اب تک یہ کب کامتروک ہو چکا ہوتا۔ یہ توعام سی بات ہے کہ چیزیں خشکی سے سخت ہوتی ہیں، تن جاتی ہیں اور ان میں سکڑاؤ اور تیزی آجاتی ہے۔ نبض نے ہمیں یہ بتایا کہ مریض کوخشکی نے بیمار کر رکھاہے، خشکی سے خون میں کیا تبدیلی آتی ہے، خون گاڑھا ہوجاتا ہے، اس میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ شریانیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
سینے میں جلن اور درد ہونے لگتا ہے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے، اسی مزاج میں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ اس مزاج میں خشکی سے بواسیر ہوتی ہے۔جوڑوں کا شدید درد ہوتاہے۔ اسی طرح صفراوی اور گرمی کی نبض اور رطوبات و بلغم کی زیادتی کی نبض کے پیرامیٹرز مخصوص ہیں جو مرض کی تشخیص کابہت جلد، مو ثر اور بہترین ذریعہ ہیں۔ ہماری سائنس میں خشکی کاعلاج گرمی پیدا کرنا ہے۔ اب ہم جب خشکی کے مریض کو گرم ادویہ اور اغذیہ تجویز کردیں گے تو اس کے سرسے لے کر پاؤں تک کی تمام تکلیف دہ بیماریا ں اور علامات رفع ہوجائیں گی۔ گرمی سے گاڑھا خون پتلا ہوجائے گا۔ تنگ شریانیں کشادہ ہوناشروع ہوجائیں گی۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ طبیب کے پاس مریض آتاہے، اسے بخار ہے، سردی لگ رہی ہے، سردرد ہے، چکر آرہے ہیں، اسے زکام لگا ہوا ہے، فلو کا شکار ہے، قے باربار آ رہی ہے۔ اسہال لگے ہوئے ہیں ہیضہ کا شکار ہے، بے چینی سے لوٹ پوٹ ہو رہاہے تو یہ ساری کی ساری علامات جسم میں رطوبت کی زیادتی ، اعصابی ودماغی سوزش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس میں نبض کشادہ ہوگی، نرم ہوگی، دبانے سے دب جائے گی، لمبائی میں چھوٹی ہوگی، دبانے سے نیچے جا کر ملے گی، وجود میں موٹی ہوگی، اس حالت میں ہم رطوبات اور اعصابی سوزش کو ختم کرنے کیلیے لونگ، دارچینی اور جلوتری کا سفوف دیں گے۔
لونگ دار چینی کا جوشاندہ دیں گے، سردی نہیں لگے گی، سردرد بھی ختم ہوجائیگا، بخار بھی جاتا رہے گا، الٹیاں بھی رک جائیں گی، اسہال بھی رک جائیں گے، چکر بھی نہیں آئیں گے، ہیضہ ختم ہو جائے گا، یعنی ایک ہی دوائی سے سر سے لے کر پاؤں تک کی تکلیف دہ علامات رک جائیں گی۔میرے ایک دوست ڈاکٹر ہرجمعہ کو مجھے ملنے آتے۔ ایک روز نہ آئے، تین دن بعد آئے۔ میں نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔کہنے لگے: ہمارا ایک عزیز بچہ اسہال میں مبتلا ہے، پانچ دن سے زیر علاج ہے۔ اسہال نہیں رک رہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحبکو تین پڑیاں دیں۔
انھوں نے ایک پڑیادی تو اسہال رک گئے۔ بچے کو گھر لے آئے اور باقی پڑیاں بھی کھلادیں۔پچیس سال قبل ڈاکٹر جاوید اقبال ، ماہر امراض قلب، کے بیٹے کے معدے میں درد شروع ہوا۔ ڈاکٹروں نے سارے ٹیسٹ کئے جو نارمل تھے۔ معدہ کے سارے ڈاکٹروں نے مل کر کوشش کی مگر پیٹ درد نہ رکا۔ انہوں نے ایک بزرگ سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے فرمایا کہ صبح لے آؤ، قارورہ ساتھ لانا، ہمارے حکیم کو دکھانا۔
ڈاکٹر صاحب صبح کے وقت اسے میرے پاس لے آئے۔ میں نے قارورہ دیکھا جس میں سرخی غالب تھی جوخشکی وتیزابت کی نشاندہی ہے۔ نبض دیکھی اور دوائی بنانے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ آپ نے کیا تشخیص کی؟ میں نے کہا: معدے کے مسکولر ٹشوز میں ذرا سا سکڑاؤ ہے اس لیے دوران خون میں رکاوٹ سے درد ہو رہا ہے۔ان کے بیٹے نے دوائی کھائی تو شام تک اس کا درد رک گیا ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک 20 سالہ لڑکی پر بے ہوشی طاری ہو گئی، مکمل جسم ساکت ہوگیا۔ پندرہ دن اسے DHQ ہسپتال فیصل آباد میں رکھا گیا، ٹیسٹ نارمل تھے۔ ڈاکٹر صاحبان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ پندرہ دن بعد یہ کہہ کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا کہ ہمیںکوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ لڑکی کو اس وقت بھی غذا کی نالیاں لگی ہوئی تھیں، ڈاکٹروں نے انہی کے ذریعے غذا فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ ایک طبیب نے مجھے اس بچی کے بارے میں بتایا۔میں نے مریضہ کی نبض کا بغور مشاہدہ کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس بچی کو ہسٹریا کا اچانک اٹیک ہوا ہے یا کوئی صدمہ پہنچا ہے جس سے دماغ میں خون کی ترسیل وسپلائی میں کمی آگئی۔ اب دماغ کو خون حسب ضرورت نہیں مل رہا۔
میں نے اسے محرک دماغ ادویہ دیں اور اغذیہ بتائیں، پرہیز بتایا اور بھیج دیا۔ دس دن گزرے تو بچی ہوش میں آگئی۔ اگلے پندرہ دنوں میں اس کے بازو، ٹانگوں اور جسم میں حرکت آگئی۔پھر دو ماہ بعد میرے مطب میں چل کر آئی۔ نبض سے تشخیص کی تعریف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں لیبارٹری ٹیسٹ بالکل مسترد کررہا ہوں۔میں خود زیادہ تر مریضوں کو حسب ضرورت لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا کہتا ہوں بالخصوص سیمن ٹیسٹ، عورت کے بانجھ پن میں ان کے ہارمونز ٹیسٹ وغیرہ۔ طب علم الابدان، علم التشخیص اور علم العلاج کا خزانہ ہے۔ ایلوپیتھی میں بھی کچھ خوبیاں ہیں جن کی بدولت وہ زندہ ہے۔ اس لیے کسی بھی طریقہ علاج پہ بے جا تنقید کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔
طب میں قارورہ سے تشخیص کا ذریعہ آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ امام بخاری بیمار ہوئے، ان کا قارورہ طبیب کے پاس لایا گیا۔ طبیب نے قارورہ دیکھ کر حیرت انگیز انکشاف کیا کہ یہ جس مریض کا قارورہ ہے اس نے اتنے سال سے سالن نہیں کھایا۔ جب امام بخاری کو بتایا گیا تو انہوں نے تصدیق کی۔''جب میں نے یہ حدیث پڑھی کہ مومن کا ان چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز پر کوئی حق نہیں، رہنے کیلیے مکان، تن ڈھانپنے کیلیے لباس اور کھانے کے لیے خشک روٹی اور پانی۔ اس حدیث میں سالن کا ذکر نہیں۔ اس حدیث کو جاننے کے بعد میں نے سالن نہیں کھایا''۔
پانی ، حرارت اور ہو اہی زندگی اور نشوونما کی روح رواں ہیں۔ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کی صحت کا دارومدار بھی حرارت، پانی اور ہوا پر ہے۔ ان کا اعتدال صحت ہے اور کمی بیشی مرض ہے۔ نبض کے ذریعہ مزاج معلوم کیا جاتاہے۔ جسم کے موسم کے بگڑجانے کا نام مرض ہے۔ انسانی بدن کے موسم کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ ہم نبض کے ذریعے جسم کا موسم معلوم کرتے ہیں اور ادویہ سے جسم کا موسم نارمل کردیتے ہیں، یوں جسم تن درست ہوجاتاہے۔ الغرضیکہ نبض دل کی حرکات، بدنی حرارت اور مزاج کی کیفیات بیان کر کے ایک ماہر طبیب کو امراض کی تشخیص میں خاطر خواہ معاونت فراہم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
بقراط کا قول'' نبض ایک خاموشی اعلانچی ہے اور باطنی حالات کو بہ آواز بلند بتاتی ہے لیکن جو حکماء اس پر دسترس نہ رکھتے ہوں ان کے لیے گونگی ہے''۔ جالینوس کا قول ہے ''نبض بیماری کی پیچیدگیوں کو طبیب کے سامنے رکھ دیتی ہے''۔ رازی کا قول ہے '' نبض ایک ایسا آلہ ہے جس سے جسم کے تمام حالات کا علم ہو جاتاہے اور جسم کے تمام مفرد اعضاء کے حالات بتلاتی ہے۔ افلاطون کا قول ہے ''نبض کبھی خطا نہ کرنے والا پیغامبر ہے''۔
مختلف لوگوں کی نبض مختلف ہوتی ہے۔ ہم نبض کی موٹائی، پتلا پن، سستی، تیزی، نرمی وسختی، بلندی اور پستی، تنگی و کشادگی ہی کو بھانپتے ہیں۔ یہ مختلف صورتیں ہی نبض کی زبان ہیں۔ مثال کے طورپر جس مریض کی نبض سخت ہوگی، بلند ہوگی یعنی ہاتھ رکھتے ہی انگلیوں کو چھونے لگے گی، رفتار میں تیزی ہو گی، اگر اسے دبانے کی کوشش کی جائے گی تو انگلیوں کو اْوپر کی طرف اْٹھائے گی۔ ایسی نبض جسم میں خشکی کے غلبہ کا اظہار کرے گی۔ مزاج دریافت کرنے کابہترین ذریعہ نبض اور قارورہ ہی ہیں۔
نبض کے بانیوں میں شیخ الرئیس بوعلی سینا، ذکریا اور رازی جیسی عظیم شخصیات ہیں انہوں نے دینی فریضہ سمجھ کر اس فن میں تحقیقات کیں۔ ان کی خدمات کو عالم انسانیت قیامت تک فراموش نہیں کر سکتا۔ انہی کی تحقیقات پر آج ایلوپیتھی اور سرجری کا بلندو بالا ایوان کھڑا نظرآتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طب اسلامی ماں اور باقی سب طریقہ ہائے علاج اس کی اولاد ہیں۔تاریخ میں امراض کی تشخیص کے بارے بھی بہت سے آلات ایجاد ہوئے لیکن متروک ہوتے رہے۔اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ بھی نئے سے نئے دریافت ہو رہے ہیں۔
نبض سے تشخیص کا عمل آج بھی اسی طرح زندہ اور مقبول عام ہے۔ اگر نبض کے ذریعے تشخیص کا ذریعہ ناقص ہوتا تو اب تک یہ کب کامتروک ہو چکا ہوتا۔ یہ توعام سی بات ہے کہ چیزیں خشکی سے سخت ہوتی ہیں، تن جاتی ہیں اور ان میں سکڑاؤ اور تیزی آجاتی ہے۔ نبض نے ہمیں یہ بتایا کہ مریض کوخشکی نے بیمار کر رکھاہے، خشکی سے خون میں کیا تبدیلی آتی ہے، خون گاڑھا ہوجاتا ہے، اس میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ شریانیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
سینے میں جلن اور درد ہونے لگتا ہے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے، اسی مزاج میں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ اس مزاج میں خشکی سے بواسیر ہوتی ہے۔جوڑوں کا شدید درد ہوتاہے۔ اسی طرح صفراوی اور گرمی کی نبض اور رطوبات و بلغم کی زیادتی کی نبض کے پیرامیٹرز مخصوص ہیں جو مرض کی تشخیص کابہت جلد، مو ثر اور بہترین ذریعہ ہیں۔ ہماری سائنس میں خشکی کاعلاج گرمی پیدا کرنا ہے۔ اب ہم جب خشکی کے مریض کو گرم ادویہ اور اغذیہ تجویز کردیں گے تو اس کے سرسے لے کر پاؤں تک کی تمام تکلیف دہ بیماریا ں اور علامات رفع ہوجائیں گی۔ گرمی سے گاڑھا خون پتلا ہوجائے گا۔ تنگ شریانیں کشادہ ہوناشروع ہوجائیں گی۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ طبیب کے پاس مریض آتاہے، اسے بخار ہے، سردی لگ رہی ہے، سردرد ہے، چکر آرہے ہیں، اسے زکام لگا ہوا ہے، فلو کا شکار ہے، قے باربار آ رہی ہے۔ اسہال لگے ہوئے ہیں ہیضہ کا شکار ہے، بے چینی سے لوٹ پوٹ ہو رہاہے تو یہ ساری کی ساری علامات جسم میں رطوبت کی زیادتی ، اعصابی ودماغی سوزش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس میں نبض کشادہ ہوگی، نرم ہوگی، دبانے سے دب جائے گی، لمبائی میں چھوٹی ہوگی، دبانے سے نیچے جا کر ملے گی، وجود میں موٹی ہوگی، اس حالت میں ہم رطوبات اور اعصابی سوزش کو ختم کرنے کیلیے لونگ، دارچینی اور جلوتری کا سفوف دیں گے۔
لونگ دار چینی کا جوشاندہ دیں گے، سردی نہیں لگے گی، سردرد بھی ختم ہوجائیگا، بخار بھی جاتا رہے گا، الٹیاں بھی رک جائیں گی، اسہال بھی رک جائیں گے، چکر بھی نہیں آئیں گے، ہیضہ ختم ہو جائے گا، یعنی ایک ہی دوائی سے سر سے لے کر پاؤں تک کی تکلیف دہ علامات رک جائیں گی۔میرے ایک دوست ڈاکٹر ہرجمعہ کو مجھے ملنے آتے۔ ایک روز نہ آئے، تین دن بعد آئے۔ میں نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔کہنے لگے: ہمارا ایک عزیز بچہ اسہال میں مبتلا ہے، پانچ دن سے زیر علاج ہے۔ اسہال نہیں رک رہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحبکو تین پڑیاں دیں۔
انھوں نے ایک پڑیادی تو اسہال رک گئے۔ بچے کو گھر لے آئے اور باقی پڑیاں بھی کھلادیں۔پچیس سال قبل ڈاکٹر جاوید اقبال ، ماہر امراض قلب، کے بیٹے کے معدے میں درد شروع ہوا۔ ڈاکٹروں نے سارے ٹیسٹ کئے جو نارمل تھے۔ معدہ کے سارے ڈاکٹروں نے مل کر کوشش کی مگر پیٹ درد نہ رکا۔ انہوں نے ایک بزرگ سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے فرمایا کہ صبح لے آؤ، قارورہ ساتھ لانا، ہمارے حکیم کو دکھانا۔
ڈاکٹر صاحب صبح کے وقت اسے میرے پاس لے آئے۔ میں نے قارورہ دیکھا جس میں سرخی غالب تھی جوخشکی وتیزابت کی نشاندہی ہے۔ نبض دیکھی اور دوائی بنانے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ آپ نے کیا تشخیص کی؟ میں نے کہا: معدے کے مسکولر ٹشوز میں ذرا سا سکڑاؤ ہے اس لیے دوران خون میں رکاوٹ سے درد ہو رہا ہے۔ان کے بیٹے نے دوائی کھائی تو شام تک اس کا درد رک گیا ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک 20 سالہ لڑکی پر بے ہوشی طاری ہو گئی، مکمل جسم ساکت ہوگیا۔ پندرہ دن اسے DHQ ہسپتال فیصل آباد میں رکھا گیا، ٹیسٹ نارمل تھے۔ ڈاکٹر صاحبان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ پندرہ دن بعد یہ کہہ کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا کہ ہمیںکوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ لڑکی کو اس وقت بھی غذا کی نالیاں لگی ہوئی تھیں، ڈاکٹروں نے انہی کے ذریعے غذا فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ ایک طبیب نے مجھے اس بچی کے بارے میں بتایا۔میں نے مریضہ کی نبض کا بغور مشاہدہ کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس بچی کو ہسٹریا کا اچانک اٹیک ہوا ہے یا کوئی صدمہ پہنچا ہے جس سے دماغ میں خون کی ترسیل وسپلائی میں کمی آگئی۔ اب دماغ کو خون حسب ضرورت نہیں مل رہا۔
میں نے اسے محرک دماغ ادویہ دیں اور اغذیہ بتائیں، پرہیز بتایا اور بھیج دیا۔ دس دن گزرے تو بچی ہوش میں آگئی۔ اگلے پندرہ دنوں میں اس کے بازو، ٹانگوں اور جسم میں حرکت آگئی۔پھر دو ماہ بعد میرے مطب میں چل کر آئی۔ نبض سے تشخیص کی تعریف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں لیبارٹری ٹیسٹ بالکل مسترد کررہا ہوں۔میں خود زیادہ تر مریضوں کو حسب ضرورت لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا کہتا ہوں بالخصوص سیمن ٹیسٹ، عورت کے بانجھ پن میں ان کے ہارمونز ٹیسٹ وغیرہ۔ طب علم الابدان، علم التشخیص اور علم العلاج کا خزانہ ہے۔ ایلوپیتھی میں بھی کچھ خوبیاں ہیں جن کی بدولت وہ زندہ ہے۔ اس لیے کسی بھی طریقہ علاج پہ بے جا تنقید کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔
طب میں قارورہ سے تشخیص کا ذریعہ آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ امام بخاری بیمار ہوئے، ان کا قارورہ طبیب کے پاس لایا گیا۔ طبیب نے قارورہ دیکھ کر حیرت انگیز انکشاف کیا کہ یہ جس مریض کا قارورہ ہے اس نے اتنے سال سے سالن نہیں کھایا۔ جب امام بخاری کو بتایا گیا تو انہوں نے تصدیق کی۔''جب میں نے یہ حدیث پڑھی کہ مومن کا ان چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز پر کوئی حق نہیں، رہنے کیلیے مکان، تن ڈھانپنے کیلیے لباس اور کھانے کے لیے خشک روٹی اور پانی۔ اس حدیث میں سالن کا ذکر نہیں۔ اس حدیث کو جاننے کے بعد میں نے سالن نہیں کھایا''۔
پانی ، حرارت اور ہو اہی زندگی اور نشوونما کی روح رواں ہیں۔ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کی صحت کا دارومدار بھی حرارت، پانی اور ہوا پر ہے۔ ان کا اعتدال صحت ہے اور کمی بیشی مرض ہے۔ نبض کے ذریعہ مزاج معلوم کیا جاتاہے۔ جسم کے موسم کے بگڑجانے کا نام مرض ہے۔ انسانی بدن کے موسم کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ ہم نبض کے ذریعے جسم کا موسم معلوم کرتے ہیں اور ادویہ سے جسم کا موسم نارمل کردیتے ہیں، یوں جسم تن درست ہوجاتاہے۔ الغرضیکہ نبض دل کی حرکات، بدنی حرارت اور مزاج کی کیفیات بیان کر کے ایک ماہر طبیب کو امراض کی تشخیص میں خاطر خواہ معاونت فراہم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔