ذیابیطس ساری عمر کا مرض نہیں
جس فرد کے خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ ہو، ضروری نہیں کہ وہ ذیابیطس کا مریض ہو
''انسداد علامات کا تعلق انسداد سبب سے نہیں '' یہی وجہ ہے کہ اطبا کے ایک طبقہ نے ذیابیطس شکری کو لاعلاج قرار دیا۔
علامات کو روکنے کی ادویہ کا استعمال کیا جاتا رہا ، مگر اصل سبب (لبلبے کی افزائش) کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ۔ مثلاً گردے کے درد کا ایک سبب گردے کی پتھری ہے۔ اگر درد کے دوران مخدر ادویہ (اوپائیڈ انلجاسک) دی جائیں اور پتھری کو ریزہ ریزہ کر کے نکالنے کی ادویہ نہ دی جائیں تو درد میں وقتی آرام ضرور آئے گا مگر ٹھہر کے دوبارہ درد شروع ہوجاتا ہے۔
اسی طرح آج کل ذیابیطس شکری کے مبتلا حضرات کو کڑوی اشیاء کا بے جا استعمال کرایا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ گاہے اس دوا کا اثر ، انسولین کی پیداوار پر ہوگا یا نہیں۔ اس سے یہ ضرور ہوتا ہے کہ خون کی مٹھاس کچھ عرصے کے لئے کم ہوجاتی ہے جس سے مریض کو وقتی مسرت محسوس ہوتی ہے مگر جب خون 'ڈی ٹاکسی فائی' ہوتاہے تو اپنی اصلی حالت میں آ جاتاہے جو معتدل سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ لہذا کچھ عرصے کے بعد اشخاص خود کو عمری مریض تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کیفیت کو مرض نہیں کہتے بلکہ استحالہ کی خرابی (میٹا بولک ایرر) کہا جاتا ہے۔ اس خرابی کے بد اثرات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے مگر خون میں چینی کی مقدار بڑھنے کی وجہ کو صرف ذیابیطس قرار دینا ٹھیک نہیں۔
خون میں مٹھاس بڑھنے کے اسباب
1۔زیادہ میٹھی اشیاء کا استعمال،2۔ معدے ، آنتوں کا گلوکوز کو ہضم نہ کرنا، 3۔وزن،4۔ دماغی و جسمانی مشقت، 5۔ بول آور ادویہ کا استعمال،6۔نشاستہ دار غذائیں، 7۔ورزش نہ کرنا،8۔ غذا میں چربی یا گھی کا زیادہ استعمال،9۔ آرام کی کمی،10۔ سٹیرائیڈ کا استعمال ۔
وضاحت: جس طرح زیادہ کڑوی غذا کا استعمال خون کو کچھ عرصہ کے لئے کڑوا کردیتا ہے، اسی طرح میٹھی اشیاء کا استعمال خون کو میٹھا کر دیتا ہے۔ معدے میں کبھی خامرات (انزائیمس) معتدل نہیں رہ پاتے اس لئے مختلف غذا میں موجود گلوکوز کو اسی شکل میں جگر کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں خون کی تولید اعتدال سے زیادہ میٹھی ہو جاتی ہے۔ انسان کے گوشت کی غذا ہونے کے ناتے جتنا حجم زیادہ ہوگا ۔ اسی لحاظ سے خون میں گلوکوز کی مقدار وافر ہوگی جو مقدار عام طور پر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ بی ۔ ایم ۔ آئی 18.5 - 24.5 کے لئے ہے۔ اگر کسی کا بی۔ ایم۔ آئی اس حد سے کم ہے تو اس کے گلوکوز کی مقدار بھی تبدیل ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ فلاں شخص کو ذیابیطس ہے یا نہیں ، پہلے بی ۔ ایم۔ آئی کو لازمی ملحوظ خاطر رکھناچاہیے۔
دماغی مشقت کرنے والے حضرات اس لئے شوگر چیک کر کے مایوسی کا شکار ہوتے ہیںکہ گلوکوز دماغ اور گوشت کی غذا میں شامل ہے۔ لہذا جب بھی دماغی محنت کی جائے گی تو دماغ لبلبے کو راغب کرتا ہے کہ انسولین کو روکے اور گلوکا گون کی مقدار خون میں بڑھائے تا کہ اپنی غذا حاصل کر سکے۔ یہی حال ورزش کے 2 گھنٹے تک جسمانی گوشت کا ہے۔ یہ بھی اپنی غذا کے حصول کے لئے ایسا ہی کرتا ہے ۔ زیادہ عرصے کسی افراز کو روکنے سے وہ عضو اپنے افراز کو روک ہی لیتا ہے۔ جیسے زیادہ سونے سے یا فارغ رہنے سے دماغ کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔
بول آورادویہ (Diuretics) انسولین کی مزاحمت بڑھا دیتی ہے اور اس کے افراز کو کم کرتی ہے ۔ یہی حال وزن کم کرنے والی ادویہ کا بھی ہے۔ سست حضرات اور وہ جو ورزش نہیں کرتے ان کی گلوکوز کی مقدار زیادہ اس لئے رہتی ہے کہ جسم گلوکوز کو جزو بدن زیادہ نہیں بناتا جب کہ غذا میں بے اعتدالی کی وجہ سے خون میں گلوکوز زیادہ پہلے ہی سے ہوتاہے اور چربی ایسے اشخاص میں وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ انسولین کی مزاحمت کا سبب بنتی ہے اور خلیات انسولین سے متاثر نہیں ہوتے۔ آرام کی کمی کا سبب تقریباًوہی ہے جو دماغی مشقت میں بیان کیا گیا۔سٹیرائیڈ ادویہ بھی انسولین کی مزاحمت کا سبب بنتی ہیں۔ یہ فیصلہ تو ہو چکا ہے کہ ہر شخص جس کے خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ ہو ذیابیطس کا مریض نہیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ بلاوجہ پرہیز کرکے ضعف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ذیابیطس کی علامات
پہلے بی ایم آئی چیک کرکے فیصلہ کیا جائے کہ واقعی ذیابیطس ہے، اگر درج ذیل علامات پائی جائیں:
1۔ رات کو بول کا زیادہ افراز جس کا قوام لیس دار ہو کہ یہ بلغمی مرض ہے۔ 2۔ جسم میں خارش، 3۔ براز کا قبض کی طرف مائل ہونا، 4۔ پیاس کی شدت 5۔ جلد کا پیلا مائل ہونا بوجہ کمی خون، 6۔ ٹرائی گلسرائیڈ (فاصد چربی) کی زیادتی 7۔ نظر میں دھندلا پن 8۔ زخم کا دیر سے مندمل ہونا۔ 9۔ جسمانی گوشت میں کھچاؤ، 10۔ چڑاچڑاپن، 11۔گلوکوز 250 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے زیادہ۔
ذیابیطس کا علاج
یہ خراب گمان کہ ذیابیطس تا عمر رہتا ہے، لاعلاج ہے، دراصل معالج کی ناواقفیت کی دلیل ہے۔ سوائے موت کے ہر روگ کا علاج رب نے پیدا فرمایا ہے ۔ طریقہ علاج اور ابتلائے تکلیف کا پُر استقامت ہونا ہر مرض/ روگ میں لازمی ہے ۔ جو حضرات اس نظریے کے قائل نہیں ان کے لئے انسولین اسٹیم سیل تھراپی حاضر ہے۔ جس طرح کچھ خامرات کی کمی کی وجہ سے ہاضمے کی خرابی ہوتی ہے ۔کچھ معدنیات کی کمی کی وجہ سے قلت ِ خون ہو جاتا ہے، اسی طرح کچھ اجزاء کی کمی سے یہ خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ لہذا ذیابیطس والے حضرات میں محققانہ طور پر ان اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے:
کرومیم، زنک، وٹامنز بی ، ای، ڈی، میگنیشیم، فالک ایسڈ، بائیو ٹن، لائی سین، کارنی ٹین ۔ ان اجزاء کا دھیان رکھنا ضرور ہے۔
طب یونانی علاج : دانہ میتھی 5گرام، انسولین مزاحمت کم کرتی ہے۔ گلیگا آفی شینالیس یا کریلے کے بیج 15 گرام، برنجا سف 10 گرام کا قہوہ ۔
طب مغربی ادویہ: سلفونائیل یوریا کے گروپ کی ادویہ انسولین سے متعلق ہیں مگر لااعتدالی سے خون میں گلوکوز زیادہ کم ہونے سے بے ہوشی ، دل کا دورہ، خطرناک نتائج ہو جاتے ہیں۔ اس لئے انہیں بغیر معالج کے استعمال سے گریز لازم ہے۔
خاص ورزشیں: پس چی موٹن، آسانا ( برائے لبلبہ، گردے اور جگر )،'' ہَل آسانا (گردے اور جگر کو مضبوط کرتا ہے )،سُپٹاوَجر آسانا (لبلبے کے لئے خاص ہے )۔
انتباہ اور پرہیز: عوام کی اکثریت مغربی طب والی مختلف ادویہ روزانہ استعمال کرتی ہے جس سے جسم کو ان ادویہ کی عادت ہو جاتی ہے اور ان ادویہ کے بغیر لبلبہ انسولین کا افراز نہیں کرتا ، وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عمری مریض ہیں۔ تیل، بڑے کا گوشت اور میٹھی اشیاء سے پرہیز لازمی کرنا چاہیے۔
احتیاط: ہر شخص جو مطمئین ہو کہ عمر بھر ذیابیطس ، دل کے عارضے اور معدے کے عوارض سے محفوظ رہے اس کے لئے درج ذیل تدابیر پیش ہیں:
1۔ روزانہ کچھ میل پنجوں پر جسم کو سہارا دیتے ہوئے ہلکی رفتار سے دوڑنا،2۔ سستی سے پرہیز ،3۔ رات کا کھانا کم مقدار میں استعمال کرنا اور چالیس قدم چلنا۔ 4۔ دفتر میں کام کرنے والے حضرات کو چاہیے کہ صرف ایک وقت کی چائے میں شکر کا استعمال کریں، باقی اوقات پھیکی چائے پئیں۔ 5۔ متذکرہ وٹامنز کا استعمال کریں، 6۔ معدے پر اچھے اثرات کے لئے ترپھلہ + جن سنگ 5 گرام ہمراہ دودھ استعمال کریں۔
علامات کو روکنے کی ادویہ کا استعمال کیا جاتا رہا ، مگر اصل سبب (لبلبے کی افزائش) کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ۔ مثلاً گردے کے درد کا ایک سبب گردے کی پتھری ہے۔ اگر درد کے دوران مخدر ادویہ (اوپائیڈ انلجاسک) دی جائیں اور پتھری کو ریزہ ریزہ کر کے نکالنے کی ادویہ نہ دی جائیں تو درد میں وقتی آرام ضرور آئے گا مگر ٹھہر کے دوبارہ درد شروع ہوجاتا ہے۔
اسی طرح آج کل ذیابیطس شکری کے مبتلا حضرات کو کڑوی اشیاء کا بے جا استعمال کرایا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ گاہے اس دوا کا اثر ، انسولین کی پیداوار پر ہوگا یا نہیں۔ اس سے یہ ضرور ہوتا ہے کہ خون کی مٹھاس کچھ عرصے کے لئے کم ہوجاتی ہے جس سے مریض کو وقتی مسرت محسوس ہوتی ہے مگر جب خون 'ڈی ٹاکسی فائی' ہوتاہے تو اپنی اصلی حالت میں آ جاتاہے جو معتدل سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ لہذا کچھ عرصے کے بعد اشخاص خود کو عمری مریض تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کیفیت کو مرض نہیں کہتے بلکہ استحالہ کی خرابی (میٹا بولک ایرر) کہا جاتا ہے۔ اس خرابی کے بد اثرات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے مگر خون میں چینی کی مقدار بڑھنے کی وجہ کو صرف ذیابیطس قرار دینا ٹھیک نہیں۔
خون میں مٹھاس بڑھنے کے اسباب
1۔زیادہ میٹھی اشیاء کا استعمال،2۔ معدے ، آنتوں کا گلوکوز کو ہضم نہ کرنا، 3۔وزن،4۔ دماغی و جسمانی مشقت، 5۔ بول آور ادویہ کا استعمال،6۔نشاستہ دار غذائیں، 7۔ورزش نہ کرنا،8۔ غذا میں چربی یا گھی کا زیادہ استعمال،9۔ آرام کی کمی،10۔ سٹیرائیڈ کا استعمال ۔
وضاحت: جس طرح زیادہ کڑوی غذا کا استعمال خون کو کچھ عرصہ کے لئے کڑوا کردیتا ہے، اسی طرح میٹھی اشیاء کا استعمال خون کو میٹھا کر دیتا ہے۔ معدے میں کبھی خامرات (انزائیمس) معتدل نہیں رہ پاتے اس لئے مختلف غذا میں موجود گلوکوز کو اسی شکل میں جگر کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں خون کی تولید اعتدال سے زیادہ میٹھی ہو جاتی ہے۔ انسان کے گوشت کی غذا ہونے کے ناتے جتنا حجم زیادہ ہوگا ۔ اسی لحاظ سے خون میں گلوکوز کی مقدار وافر ہوگی جو مقدار عام طور پر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ بی ۔ ایم ۔ آئی 18.5 - 24.5 کے لئے ہے۔ اگر کسی کا بی۔ ایم۔ آئی اس حد سے کم ہے تو اس کے گلوکوز کی مقدار بھی تبدیل ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ فلاں شخص کو ذیابیطس ہے یا نہیں ، پہلے بی ۔ ایم۔ آئی کو لازمی ملحوظ خاطر رکھناچاہیے۔
دماغی مشقت کرنے والے حضرات اس لئے شوگر چیک کر کے مایوسی کا شکار ہوتے ہیںکہ گلوکوز دماغ اور گوشت کی غذا میں شامل ہے۔ لہذا جب بھی دماغی محنت کی جائے گی تو دماغ لبلبے کو راغب کرتا ہے کہ انسولین کو روکے اور گلوکا گون کی مقدار خون میں بڑھائے تا کہ اپنی غذا حاصل کر سکے۔ یہی حال ورزش کے 2 گھنٹے تک جسمانی گوشت کا ہے۔ یہ بھی اپنی غذا کے حصول کے لئے ایسا ہی کرتا ہے ۔ زیادہ عرصے کسی افراز کو روکنے سے وہ عضو اپنے افراز کو روک ہی لیتا ہے۔ جیسے زیادہ سونے سے یا فارغ رہنے سے دماغ کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔
بول آورادویہ (Diuretics) انسولین کی مزاحمت بڑھا دیتی ہے اور اس کے افراز کو کم کرتی ہے ۔ یہی حال وزن کم کرنے والی ادویہ کا بھی ہے۔ سست حضرات اور وہ جو ورزش نہیں کرتے ان کی گلوکوز کی مقدار زیادہ اس لئے رہتی ہے کہ جسم گلوکوز کو جزو بدن زیادہ نہیں بناتا جب کہ غذا میں بے اعتدالی کی وجہ سے خون میں گلوکوز زیادہ پہلے ہی سے ہوتاہے اور چربی ایسے اشخاص میں وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ انسولین کی مزاحمت کا سبب بنتی ہے اور خلیات انسولین سے متاثر نہیں ہوتے۔ آرام کی کمی کا سبب تقریباًوہی ہے جو دماغی مشقت میں بیان کیا گیا۔سٹیرائیڈ ادویہ بھی انسولین کی مزاحمت کا سبب بنتی ہیں۔ یہ فیصلہ تو ہو چکا ہے کہ ہر شخص جس کے خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ ہو ذیابیطس کا مریض نہیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ بلاوجہ پرہیز کرکے ضعف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ذیابیطس کی علامات
پہلے بی ایم آئی چیک کرکے فیصلہ کیا جائے کہ واقعی ذیابیطس ہے، اگر درج ذیل علامات پائی جائیں:
1۔ رات کو بول کا زیادہ افراز جس کا قوام لیس دار ہو کہ یہ بلغمی مرض ہے۔ 2۔ جسم میں خارش، 3۔ براز کا قبض کی طرف مائل ہونا، 4۔ پیاس کی شدت 5۔ جلد کا پیلا مائل ہونا بوجہ کمی خون، 6۔ ٹرائی گلسرائیڈ (فاصد چربی) کی زیادتی 7۔ نظر میں دھندلا پن 8۔ زخم کا دیر سے مندمل ہونا۔ 9۔ جسمانی گوشت میں کھچاؤ، 10۔ چڑاچڑاپن، 11۔گلوکوز 250 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے زیادہ۔
ذیابیطس کا علاج
یہ خراب گمان کہ ذیابیطس تا عمر رہتا ہے، لاعلاج ہے، دراصل معالج کی ناواقفیت کی دلیل ہے۔ سوائے موت کے ہر روگ کا علاج رب نے پیدا فرمایا ہے ۔ طریقہ علاج اور ابتلائے تکلیف کا پُر استقامت ہونا ہر مرض/ روگ میں لازمی ہے ۔ جو حضرات اس نظریے کے قائل نہیں ان کے لئے انسولین اسٹیم سیل تھراپی حاضر ہے۔ جس طرح کچھ خامرات کی کمی کی وجہ سے ہاضمے کی خرابی ہوتی ہے ۔کچھ معدنیات کی کمی کی وجہ سے قلت ِ خون ہو جاتا ہے، اسی طرح کچھ اجزاء کی کمی سے یہ خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ لہذا ذیابیطس والے حضرات میں محققانہ طور پر ان اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے:
کرومیم، زنک، وٹامنز بی ، ای، ڈی، میگنیشیم، فالک ایسڈ، بائیو ٹن، لائی سین، کارنی ٹین ۔ ان اجزاء کا دھیان رکھنا ضرور ہے۔
طب یونانی علاج : دانہ میتھی 5گرام، انسولین مزاحمت کم کرتی ہے۔ گلیگا آفی شینالیس یا کریلے کے بیج 15 گرام، برنجا سف 10 گرام کا قہوہ ۔
طب مغربی ادویہ: سلفونائیل یوریا کے گروپ کی ادویہ انسولین سے متعلق ہیں مگر لااعتدالی سے خون میں گلوکوز زیادہ کم ہونے سے بے ہوشی ، دل کا دورہ، خطرناک نتائج ہو جاتے ہیں۔ اس لئے انہیں بغیر معالج کے استعمال سے گریز لازم ہے۔
خاص ورزشیں: پس چی موٹن، آسانا ( برائے لبلبہ، گردے اور جگر )،'' ہَل آسانا (گردے اور جگر کو مضبوط کرتا ہے )،سُپٹاوَجر آسانا (لبلبے کے لئے خاص ہے )۔
انتباہ اور پرہیز: عوام کی اکثریت مغربی طب والی مختلف ادویہ روزانہ استعمال کرتی ہے جس سے جسم کو ان ادویہ کی عادت ہو جاتی ہے اور ان ادویہ کے بغیر لبلبہ انسولین کا افراز نہیں کرتا ، وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عمری مریض ہیں۔ تیل، بڑے کا گوشت اور میٹھی اشیاء سے پرہیز لازمی کرنا چاہیے۔
احتیاط: ہر شخص جو مطمئین ہو کہ عمر بھر ذیابیطس ، دل کے عارضے اور معدے کے عوارض سے محفوظ رہے اس کے لئے درج ذیل تدابیر پیش ہیں:
1۔ روزانہ کچھ میل پنجوں پر جسم کو سہارا دیتے ہوئے ہلکی رفتار سے دوڑنا،2۔ سستی سے پرہیز ،3۔ رات کا کھانا کم مقدار میں استعمال کرنا اور چالیس قدم چلنا۔ 4۔ دفتر میں کام کرنے والے حضرات کو چاہیے کہ صرف ایک وقت کی چائے میں شکر کا استعمال کریں، باقی اوقات پھیکی چائے پئیں۔ 5۔ متذکرہ وٹامنز کا استعمال کریں، 6۔ معدے پر اچھے اثرات کے لئے ترپھلہ + جن سنگ 5 گرام ہمراہ دودھ استعمال کریں۔