قید سے فرار
14سالہ فلپائنی لڑکا جس نے مدد کا انتظار کرنے کے بجائے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا
PESHAWAR:
اب بھی کبھی کبھار کیون لنسمن کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور ماضی کے ہولناک دنوں میں لے جاتے ہیں۔
وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے سے گھر کے بیڈ روم میں محفوظ ہے، جس کی دیوار پر گٹار لٹکا ہے اور بلیاں سو رہی ہیں۔ وہ ہائی اسکول میں اپنی کلاسوں' دوستوں کے ساتھ کھیلے جانے والے فٹ بال مقابلوں اور ان تمام سرگرمیوں کو بھول جاتا ہے' جو کہ امریکی ریاست ورجنیا کے شہر لینچ برگ میں رہنے والے لڑکوں کا معمول ہیں۔ اپنے خوابوں میں وہ خود کو پہلے کی طرح بھوک اور خوف کے عالم میں فلپائنی عسکریت پسندوں کی قید میں پاتا ہے۔
یہ 2011ء کی بات ہے' جب کیون کی عمر 14 برس تھی۔ وہ اپنی ماں' گرفا کے ساتھ اپنے ننھیال جنوبی فلپائن کے جزیرے ٹکٹابون گیا تھا، جہاں اس کی ماں پلی بڑھی تھی۔ کیون نے دو ہفتے شفاف نیلے پانی میں تیراکی کرتے اور تازہ ناریل کے ساتھ پکی ہوئی خوراک کھا کے گزارے۔
اس نے اپنے کزنوں کو انگریزی کے کچھ الفاظ بھی سکھائے اور ان کی مقامی زبان کو بھی تھوڑا بہت سیکھنے کی کوشش کی۔ گرفا کم سنی میں ہی اپنی بڑی بہن کے ساتھ امریکہ چلی گئی تھی، جس کی شادی ایک امریکن نیول افسر سے ہوئی تھی۔ لیکن اسے اپنے خاندان سے ملنا اچھا لگتا تھا۔ لیب ٹیکنیشن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ پیسے جمع کرتی رہتی تھی، تاکہ اپنے بیٹے کیون کے ساتھ آبائی گھر جا سکے۔ گرفا جانتی تھی کہ وہ علاقہ کئی دہائیوں کی غربت اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا اور غیر ملکی سیاحوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ کیونکہ وہ اپنے مسلمان خاندان کو ملنے جا رہی تھی، اس لئے محفوظ رہے گی۔
11 جولائی کی رات سونے سے پہلے کیون سوچ رہا تھا کہ اگلے دن کی فلائٹ سے وہ امریکہ واپس چلا جائے گا۔ وہ اپنے والد اور دوستوں کی کمی محسوس کر رہا تھا اور اسے یہ بھی علم تھا کہ نئی جماعت میں داخلے کا وقت آ گیاہے۔ وہ گھر جانے کے لئے تیار تھا۔ ابھی اندھیرا باقی تھا جب کیون نے اپنی ماں کی چلاتی ہوئی آواز سنی' جو اسے بھاگنے کا کہہ رہی تھی۔ گرفا کی آنکھ کچھ دیر پہلے کھلی تھی ا ور اس نے اندھیرے میں درجن بھر لوگوں کے ہیولے دیکھے تھے، جو ان کی جھونپڑی کی طرف دوڑ رہے تھے۔
کیون اورگرفا فوراً ساحل کی طرف بھاگے لیکن تیز روشنی میں دیکھ لئے گئے' جو ان کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔ روشنی کی چمک میں انہوں نے فوجی وردیوں میں ملبوس سپاہیوں کو دیکھا' جنہوں نے ان پر رائفلیں تان رکھی تھیں۔ سپاہیوں نے گرفا' کیون اور کیون کے 21 سالہ کزن کو تین سپیڈ بوٹس میں سے ایک میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ کشتیوں کو ساحل سے دھکیلا گیا اور جلد ہی انہوں نے رفتار پکڑ لی۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد افق پر پہاڑ اور گھنے جنگل پر مشتمل جزیرہ نظر آنے لگا۔ ساحل پر وردی میں ملبوس کچھ اور سپاہی بھی ان سے آ ملے۔ گرفا نے اغوا کاروں سے سوال پوچھنے کی کوشش کی' مگر وہ اس کی زبان نہیں بولتے تھے۔ سارا دن کیون اور اس کی ماں گن پوائنٹ پر ریت پر بیٹھے کپکپاتے رہے۔ وہ بچوں کو ساحل پر کھیلتے' پانی میں ڈبکیاں لگاتے اور ہنستے کھیلتے دیکھ سکتے تھے۔
کیون حیرت سے سوچ رہا تھا کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے۔ جب رات ڈھلنے لگی تو انہیں پہاڑوں کی طرف لے جایا گیا۔ تینوں مغوی گارے میں ننگے پاؤں گرتے پڑتے سپاہیوں کے پیچھے چل رہے تھے' جو ماچس کی تیلیوں سے جنگل میں راستے کا ایک حصہ روشن رکھے ہوئے تھے۔ کیون نے صرف نیکر پہن رکھی تھی ' جس میں وہ رات کو سویا تھا۔ وہ تھکے ہارے تکلیف دہ حالت میں رات بھر چلتے رہے۔ اگلی دوپہر وہ جنگل کے درمیان میں رک گئے جو کہ اتنا گھنا تھا کہ وہ سورج کو بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔
یہاں عسکریت پسندوں کا کیمپ تھا' جہاں انہیں وردی میں ملبوس مزید سپاہی دکھائی دیئے۔ ایک کمانڈر نے گرفا کو اس کی مقامی زبان میں بتایا کہ وہ ایک علیحدہ ریاست کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اگر اس کے شوہر نے ایک سو ملین ڈالر رقم تاوان کے طور پر ادا نہ کی تو وہ اسے اور کیون کو قتل کر دیں گے۔ ''اتنی رقم تو فلپائنی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے'' گرفا نے جواب دیا۔'' 10 ملین'' ، کمانڈر نے سختی سے کہا۔ گرفا نے اوپر آسمان کی طرف، جو پتوں میں تھوڑا سا نظر آ رہا تھا' اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''اگر تم اس ستارے کو حاصل کر سکتے ہو تو میرا شوہر بھی 10 ملین ڈالر حاصل کر سکتا ہے۔''
لینچ برگ میں کیون کا 50 سالہ باپ، ہیکو لنسمن نرسنگ ہوم میں دیکھ بھال کرنے والے کاریگر کی حیثیت سے اپنے کام میں مصروف تھا، جب اس کی سالی کا فون آیا، جسے فلپائن میں مقیم اس کے خاندان نے اطلاع دی تھی کہ گرفا اور کیون کو اغوا کر لیا گیاہے۔ پہلے پہل ہیکو کو یقین نہ آیا، پھر وہ سخت صدمے کی کیفیت میں چلا گیا۔ اسے FBI کی طرف سے بھی تصدیقی کال موصول ہوئی۔ انہیں اپنی تحقیقات کی خاطر آنے والے دنوں کے لیے ہیکو کے گھر رہنا تھا۔
اگلے دن دوبارہ فون کی گھنٹی بجی، اس دفعہ فلپائنی لہجہ سنائی دیا۔ ہیکوکو آدمی کی بات مشکل سے ہی سمجھ آ رہی تھی اور دوسری طرف آدمی بھی ہیکو کی جرمن لہجے والی انگریزی کو سمجھنے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔ تاہم ہیکو نے اتنا سمجھ لیا کہ اس سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہیکو کی گزر بسر خوف اور دہشت زرہ فون کالوں پر ہونے لگی۔ وہ خوفزدہ تھا کہ اگر کوئی غلط بات اس کے منہ سے نکل گئی تو اس کی بیوی اور بیٹے کی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ بعض اوقات اسے دن میں دو دو، تین تین کالیں موصول ہوتیں اور پھر کچھ دن خاموشی میں گزر جاتے۔ کبھی اس کی گرفا سے فون پر بات کرائی جاتی تھی، وہ گرفا اور کیون کو تکلیف کی وجہ سے آہ و زاری کرتے ہوئے سن سکتا تھا۔ ایک دفعہ خوف کی اذیت اور محتاط بات چیت سے تنگ آ کر وہ اغوا کاروں کے سامنے پھٹ پڑا اور انہیں بتایا کہ وہ لاکھوں ڈالر جمع نہیں کر سکتا۔ ''میں میل گبن (مشہور امریکی ادکار ) نہیں ہوں اور نہ ہی ہالی وڈ میں رہتا ہوں۔ میں دفاتر میں دیکھ بھال کا کام کرتا ہوں' بجلی کے قمقمے تبدیل کرتا ہوں اور ٹائلٹ ٹھیک کراتا ہوں۔''
کئی ہفتے گزر گئے۔ امریکی اہلکار اس بات کے قائل ہو گئے کہ گرفا اور کیون کو فلپائن کی عسکریت پسند تنظیم ابو سیاف نے پکڑ رکھا ہے۔ یہ گروپ پہلے بھی اغوا اور دوسری شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔ گھنے جنگل میں کیون اپنی ماں اور کزن کے ساتھ 5x6 کے چھڑیوں سے بنے ہوئے کیبن میں رہتا تھا' جسے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا۔ 5فٹ 8 انچ کے قد کے ساتھ کیون کیبن میں کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ قیدیوں کو دن چڑھے مختلف چیزوں کے آمیزے سے تیار شدہ کیک یا تھوڑا سا چاول کا سوپ دیا جاتا اور شام کو ان تینوں کے لئے چاول کی ایک پلیٹ دی جاتی تھی۔ بعض اوقات وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں' لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ گرفا اور کیون دونوں اسی طرح کی کوئی ناقص خوراک کھا کے بیمار پڑ گئے۔ وقت گزاری کے لئے وہ عسکریت پسندوں کو بم بناتے اور بندوقیں صاف کرتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ اپنے اردگرد جنگل میں نظر آنے والے جانوروں کو بھی دیکھتے جن میں بندر' چوہے' پرندے اور مینڈک شامل تھے۔ گرفا مینڈکوں کو اس خوف سے بھگا دیتی تھی کہ کہیں زہریلے سانپ نہ ان کے پیچھے کیبن میں آ جائیں۔ تاہم ان کو فاصلے پر گھومتے پھرتے دیکھنا اسے پسند تھا' کیونکہ یہ اسے مستقل یاد دلاتا کہ آزاد ہونا کیسا ہوتا ہے۔
کچھ دنوں بعد ایک نئے مغوی کو کیمپ میں لایا گیا۔ کیون' گرفا اور کیون کے کزن کو دوبارہ چلنے کے لئے کہا گیا اور بالآخر انہیں اسی سائزکے ایک لکڑی کے کمرے میں دھکیل دیا گیا' جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی اور اس میں مچھروں کی بھنبھناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ ایک ہفتے بعد انہوںنے کچھ فاصلے پر شدید گولہ باری کی آواز سنی۔ گرفا نے اغوا کاروں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سے جانا کہ حکومتی فوجی دوسرے کیمپ پر بمباری کر رہے ہیں اور دوسرے مغویوں کو چھڑا لیا گیا ہے۔ وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ آزادی قریب ہے۔ اڑھائی ماہ گزر گئے' تب ایک دن عسکریت پسندوں نے گرفا کو بتایا کہ اسے آزاد کیا جا رہا ہے۔ اس نے قید میں کیون کے ساتھ اپنا آخری کھانا کھایا مگر خوف نے ان کی بھوک چھین لی۔
گرفا کو زبردستی پہاڑ سے نیچے اتار کر دریا میں موجود ایک کشتی میں بٹھا دیا گیا۔ جیسے ہی کشتی چلی' اس نے سوچا کہ وہ مجھے سمندر میں غرق کر دیں گے۔ ایک دو گھنٹوں بعد کشتی ساحل سے جا لگی۔ ''تم آزاد ہو'' ، اغوا کاروں نے اسے بتایا کہ تاوان ادا کر دیا گیا ہے۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی گھروں کی طرف جا کر دروازوں پر دستک دینے لگی۔ وہ مدد کے لئے درخواست کرتی رہی' بالآخر اسے ایک ایسا شخص مل گیا جو اس کی بات سمجھ سکتا تھا۔ پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں وہ آدھی رات تک بیٹھی رہی' جب FBI کے دو اہلکار پہنچے۔ جب انہوں نے گرفا کو نام سے پکارا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گے۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب وہ محفوظ ہے۔ ہیکو اپنے گھر میں تھا جب گرفا نے اسے کال کی۔ دونوں کی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔ انہیں اگرچہ اس بات کی تسلی تھی کہ گرفا آزاد ہو گئی ہے، لیکن وہ کیون کے بار ے میں پریشان تھے کیونکہ ابھی تاوان کی کچھ رقم ادا کی گئی تھی۔ گرفا نے اپنے بیٹے کے بغیر گھر لوٹنے سے انکار کر دیا۔ اس نے عسکریت پسندوں سے بات چیت کے لئے اپنا قیام منیلا (فلپائن کا دارالحکومت) میں رکھا۔ ہیکو نے تاوان کی ادائیگی کے لئے مزید رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے خاندان کے سارے اثاثے بیچ ڈالے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے بھی دستبردار ہو گیا۔ اس نے ان کاموں میں غیر معمولی عجلت سے کام لیا' کیونکہ عسکریت پسندوں نے دھمکی دی تھی کہ انہیں اگرچند دنوں میں مزید رقم نہ ملی تو وہ کیون کا سرقلم کر دیں گے۔
گرفا کے جانے کے بعد کیون کا وقت آہستگی سے کٹنے لگا۔ دن بڑے سے بڑے ہوتے چلے گئے اور پھر اس کی ماںکے جانے کے تقریباً ایک ماہ بعد اغوا کار اس کے کزن کو بھی لے گئے۔ اسے آزاد کر دیا گیا یا قتل؟ کیون کو کچھ پتا نہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور وقفہ درمیان میں آیا۔ ایک دن کیون نے دیکھا کہ صرف ایک گارڈ پاس پھر رہا تھا۔ اسے فرار ہونے کے لئے یہ موزوں وقت لگا۔ وہ ادھر مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اسے یرغمال بنے تقریباً پانچ ماہ گزر چکے تھے۔ جب گارڈ سیڑھیوں سے اوپر گیا' کیون دروازے سے رینگتا ہوادوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جب اس نے گارڈ کے واپس آتے قدموں کی چاپ سنی' وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ رہائشی حصے سے دور رہتے ہوئے، درختوں کے پیچھے چھپ کر دریا کی طرف بھاگتا رہا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا، اسے کمزوری اور طویل قید کی وجہ سے دوڑتے ہوئے دشواری پیش آ رہی تھی۔ وہ اپنی گلابی ربڑ کے جوتوں پر گرتا پڑتا بھاگتا رہا، جو اسے اغوا کاروں نے فراہم کئے تھے، لیکن وہ کہیں نہ رکا۔ کئی گھنٹوں بعد وہ ایک دشوار گزار پہاڑی پر یہ دیکھنے کے لئے رکا کہ وہ کہاں تھا' پھر وہ سمندر کی سمت مڑ گیا۔ جزیرے سے نکلنا اس کا ہدف تھا۔ رات ڈھل چکی تھی اور پورا چاند جگمگا رہا تھا۔ کیون کو ایک خالی جھونپڑی نظر آئی، وہ تھوڑی دیر سستانے کے لئے اس میں چھپ گیا۔ وہاں بوٹوں کا ایک جوڑا نظر آیا، اس نے انہیں پھٹے ہوئے زخمی پاؤں میں پہنا ا ور دوبارہ دوڑ لگا دی۔
وہ گھاٹیوں اور پہاڑوں کے ساتھ لڑکھڑا کر بھاگتے ہوئے ساحل سے قریب تر ہو رہا تھا۔ کچھ جگہوں پر اس نے لوگوں کو کاشت کاری کرتے ہوئے د یکھا، لیکن اس خوف سے ان سے دور رہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے حامی ہو سکتے تھے۔ ابھی رات باقی تھی' جب اسے ایک کھیت پار کرتے ہوئے دیکھ لیا گیا۔ ایک کسان نے اسے پکارا تو کیون نے بھاگنا شروع کر دیا۔ لیکن آدمی کے پاس بندوق تھی' جس کی وجہ سے اسے رکنا پڑا۔ ''تم ادھر کیا کر رہے ہو؟'' کسان نے پوچھا۔ خوف کی وجہ سے تھکے ہارے کیون نے آدمی کو سب حقیقت بتا دی۔ کیون محتاط انداز میں کسان کے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر گیا، جس نے کہا کہ وہ اسے پولیس کے حوالے کرے گا۔ کیا وہ اس پر اعتبار کر سکتا تھا؟ وہ آسانی سے پولیس کے بجائے عسکرست پسندوں کو بھی بلا سکتا تھا۔ پھر کیون کو ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔
10دسمبر کو لینچ برگ میں ہیکو اپنی ڈیوٹی پر مصروف تھا جب اسے کال موصول ہوئی کہ کیون آزادہو گیا ہے۔ ہیکو نے کرسمس منانے کا سوچا بھی نہیں تھا، لیکن اس سہ پہر اس نے گرفا' کیون اور اس کے کزن، جسے آزاد کر دیا گیا تھا' کے لیے 100 ڈالر کی سجاوٹ کی چیزیں خریدیں' ایک درخت لگایا اور چاروں طرف تحائف کے ڈھیر لگا دیئے۔ کیون نے، جو اپنے آبائی شہر سے آدھی دنیا دور تقریباً اپنی زندگی ہار چکا تھا، واپس اپنے گھر میں قدم رکھا جو کرسمس کی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔
اب بھی کبھی کبھار کیون لنسمن کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور ماضی کے ہولناک دنوں میں لے جاتے ہیں۔
وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے سے گھر کے بیڈ روم میں محفوظ ہے، جس کی دیوار پر گٹار لٹکا ہے اور بلیاں سو رہی ہیں۔ وہ ہائی اسکول میں اپنی کلاسوں' دوستوں کے ساتھ کھیلے جانے والے فٹ بال مقابلوں اور ان تمام سرگرمیوں کو بھول جاتا ہے' جو کہ امریکی ریاست ورجنیا کے شہر لینچ برگ میں رہنے والے لڑکوں کا معمول ہیں۔ اپنے خوابوں میں وہ خود کو پہلے کی طرح بھوک اور خوف کے عالم میں فلپائنی عسکریت پسندوں کی قید میں پاتا ہے۔
یہ 2011ء کی بات ہے' جب کیون کی عمر 14 برس تھی۔ وہ اپنی ماں' گرفا کے ساتھ اپنے ننھیال جنوبی فلپائن کے جزیرے ٹکٹابون گیا تھا، جہاں اس کی ماں پلی بڑھی تھی۔ کیون نے دو ہفتے شفاف نیلے پانی میں تیراکی کرتے اور تازہ ناریل کے ساتھ پکی ہوئی خوراک کھا کے گزارے۔
اس نے اپنے کزنوں کو انگریزی کے کچھ الفاظ بھی سکھائے اور ان کی مقامی زبان کو بھی تھوڑا بہت سیکھنے کی کوشش کی۔ گرفا کم سنی میں ہی اپنی بڑی بہن کے ساتھ امریکہ چلی گئی تھی، جس کی شادی ایک امریکن نیول افسر سے ہوئی تھی۔ لیکن اسے اپنے خاندان سے ملنا اچھا لگتا تھا۔ لیب ٹیکنیشن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ پیسے جمع کرتی رہتی تھی، تاکہ اپنے بیٹے کیون کے ساتھ آبائی گھر جا سکے۔ گرفا جانتی تھی کہ وہ علاقہ کئی دہائیوں کی غربت اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا اور غیر ملکی سیاحوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ کیونکہ وہ اپنے مسلمان خاندان کو ملنے جا رہی تھی، اس لئے محفوظ رہے گی۔
11 جولائی کی رات سونے سے پہلے کیون سوچ رہا تھا کہ اگلے دن کی فلائٹ سے وہ امریکہ واپس چلا جائے گا۔ وہ اپنے والد اور دوستوں کی کمی محسوس کر رہا تھا اور اسے یہ بھی علم تھا کہ نئی جماعت میں داخلے کا وقت آ گیاہے۔ وہ گھر جانے کے لئے تیار تھا۔ ابھی اندھیرا باقی تھا جب کیون نے اپنی ماں کی چلاتی ہوئی آواز سنی' جو اسے بھاگنے کا کہہ رہی تھی۔ گرفا کی آنکھ کچھ دیر پہلے کھلی تھی ا ور اس نے اندھیرے میں درجن بھر لوگوں کے ہیولے دیکھے تھے، جو ان کی جھونپڑی کی طرف دوڑ رہے تھے۔
کیون اورگرفا فوراً ساحل کی طرف بھاگے لیکن تیز روشنی میں دیکھ لئے گئے' جو ان کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔ روشنی کی چمک میں انہوں نے فوجی وردیوں میں ملبوس سپاہیوں کو دیکھا' جنہوں نے ان پر رائفلیں تان رکھی تھیں۔ سپاہیوں نے گرفا' کیون اور کیون کے 21 سالہ کزن کو تین سپیڈ بوٹس میں سے ایک میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ کشتیوں کو ساحل سے دھکیلا گیا اور جلد ہی انہوں نے رفتار پکڑ لی۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد افق پر پہاڑ اور گھنے جنگل پر مشتمل جزیرہ نظر آنے لگا۔ ساحل پر وردی میں ملبوس کچھ اور سپاہی بھی ان سے آ ملے۔ گرفا نے اغوا کاروں سے سوال پوچھنے کی کوشش کی' مگر وہ اس کی زبان نہیں بولتے تھے۔ سارا دن کیون اور اس کی ماں گن پوائنٹ پر ریت پر بیٹھے کپکپاتے رہے۔ وہ بچوں کو ساحل پر کھیلتے' پانی میں ڈبکیاں لگاتے اور ہنستے کھیلتے دیکھ سکتے تھے۔
کیون حیرت سے سوچ رہا تھا کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے۔ جب رات ڈھلنے لگی تو انہیں پہاڑوں کی طرف لے جایا گیا۔ تینوں مغوی گارے میں ننگے پاؤں گرتے پڑتے سپاہیوں کے پیچھے چل رہے تھے' جو ماچس کی تیلیوں سے جنگل میں راستے کا ایک حصہ روشن رکھے ہوئے تھے۔ کیون نے صرف نیکر پہن رکھی تھی ' جس میں وہ رات کو سویا تھا۔ وہ تھکے ہارے تکلیف دہ حالت میں رات بھر چلتے رہے۔ اگلی دوپہر وہ جنگل کے درمیان میں رک گئے جو کہ اتنا گھنا تھا کہ وہ سورج کو بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔
یہاں عسکریت پسندوں کا کیمپ تھا' جہاں انہیں وردی میں ملبوس مزید سپاہی دکھائی دیئے۔ ایک کمانڈر نے گرفا کو اس کی مقامی زبان میں بتایا کہ وہ ایک علیحدہ ریاست کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اگر اس کے شوہر نے ایک سو ملین ڈالر رقم تاوان کے طور پر ادا نہ کی تو وہ اسے اور کیون کو قتل کر دیں گے۔ ''اتنی رقم تو فلپائنی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے'' گرفا نے جواب دیا۔'' 10 ملین'' ، کمانڈر نے سختی سے کہا۔ گرفا نے اوپر آسمان کی طرف، جو پتوں میں تھوڑا سا نظر آ رہا تھا' اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''اگر تم اس ستارے کو حاصل کر سکتے ہو تو میرا شوہر بھی 10 ملین ڈالر حاصل کر سکتا ہے۔''
لینچ برگ میں کیون کا 50 سالہ باپ، ہیکو لنسمن نرسنگ ہوم میں دیکھ بھال کرنے والے کاریگر کی حیثیت سے اپنے کام میں مصروف تھا، جب اس کی سالی کا فون آیا، جسے فلپائن میں مقیم اس کے خاندان نے اطلاع دی تھی کہ گرفا اور کیون کو اغوا کر لیا گیاہے۔ پہلے پہل ہیکو کو یقین نہ آیا، پھر وہ سخت صدمے کی کیفیت میں چلا گیا۔ اسے FBI کی طرف سے بھی تصدیقی کال موصول ہوئی۔ انہیں اپنی تحقیقات کی خاطر آنے والے دنوں کے لیے ہیکو کے گھر رہنا تھا۔
اگلے دن دوبارہ فون کی گھنٹی بجی، اس دفعہ فلپائنی لہجہ سنائی دیا۔ ہیکوکو آدمی کی بات مشکل سے ہی سمجھ آ رہی تھی اور دوسری طرف آدمی بھی ہیکو کی جرمن لہجے والی انگریزی کو سمجھنے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔ تاہم ہیکو نے اتنا سمجھ لیا کہ اس سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہیکو کی گزر بسر خوف اور دہشت زرہ فون کالوں پر ہونے لگی۔ وہ خوفزدہ تھا کہ اگر کوئی غلط بات اس کے منہ سے نکل گئی تو اس کی بیوی اور بیٹے کی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ بعض اوقات اسے دن میں دو دو، تین تین کالیں موصول ہوتیں اور پھر کچھ دن خاموشی میں گزر جاتے۔ کبھی اس کی گرفا سے فون پر بات کرائی جاتی تھی، وہ گرفا اور کیون کو تکلیف کی وجہ سے آہ و زاری کرتے ہوئے سن سکتا تھا۔ ایک دفعہ خوف کی اذیت اور محتاط بات چیت سے تنگ آ کر وہ اغوا کاروں کے سامنے پھٹ پڑا اور انہیں بتایا کہ وہ لاکھوں ڈالر جمع نہیں کر سکتا۔ ''میں میل گبن (مشہور امریکی ادکار ) نہیں ہوں اور نہ ہی ہالی وڈ میں رہتا ہوں۔ میں دفاتر میں دیکھ بھال کا کام کرتا ہوں' بجلی کے قمقمے تبدیل کرتا ہوں اور ٹائلٹ ٹھیک کراتا ہوں۔''
کئی ہفتے گزر گئے۔ امریکی اہلکار اس بات کے قائل ہو گئے کہ گرفا اور کیون کو فلپائن کی عسکریت پسند تنظیم ابو سیاف نے پکڑ رکھا ہے۔ یہ گروپ پہلے بھی اغوا اور دوسری شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔ گھنے جنگل میں کیون اپنی ماں اور کزن کے ساتھ 5x6 کے چھڑیوں سے بنے ہوئے کیبن میں رہتا تھا' جسے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا۔ 5فٹ 8 انچ کے قد کے ساتھ کیون کیبن میں کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ قیدیوں کو دن چڑھے مختلف چیزوں کے آمیزے سے تیار شدہ کیک یا تھوڑا سا چاول کا سوپ دیا جاتا اور شام کو ان تینوں کے لئے چاول کی ایک پلیٹ دی جاتی تھی۔ بعض اوقات وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں' لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ گرفا اور کیون دونوں اسی طرح کی کوئی ناقص خوراک کھا کے بیمار پڑ گئے۔ وقت گزاری کے لئے وہ عسکریت پسندوں کو بم بناتے اور بندوقیں صاف کرتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ اپنے اردگرد جنگل میں نظر آنے والے جانوروں کو بھی دیکھتے جن میں بندر' چوہے' پرندے اور مینڈک شامل تھے۔ گرفا مینڈکوں کو اس خوف سے بھگا دیتی تھی کہ کہیں زہریلے سانپ نہ ان کے پیچھے کیبن میں آ جائیں۔ تاہم ان کو فاصلے پر گھومتے پھرتے دیکھنا اسے پسند تھا' کیونکہ یہ اسے مستقل یاد دلاتا کہ آزاد ہونا کیسا ہوتا ہے۔
کچھ دنوں بعد ایک نئے مغوی کو کیمپ میں لایا گیا۔ کیون' گرفا اور کیون کے کزن کو دوبارہ چلنے کے لئے کہا گیا اور بالآخر انہیں اسی سائزکے ایک لکڑی کے کمرے میں دھکیل دیا گیا' جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی اور اس میں مچھروں کی بھنبھناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ ایک ہفتے بعد انہوںنے کچھ فاصلے پر شدید گولہ باری کی آواز سنی۔ گرفا نے اغوا کاروں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سے جانا کہ حکومتی فوجی دوسرے کیمپ پر بمباری کر رہے ہیں اور دوسرے مغویوں کو چھڑا لیا گیا ہے۔ وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ آزادی قریب ہے۔ اڑھائی ماہ گزر گئے' تب ایک دن عسکریت پسندوں نے گرفا کو بتایا کہ اسے آزاد کیا جا رہا ہے۔ اس نے قید میں کیون کے ساتھ اپنا آخری کھانا کھایا مگر خوف نے ان کی بھوک چھین لی۔
گرفا کو زبردستی پہاڑ سے نیچے اتار کر دریا میں موجود ایک کشتی میں بٹھا دیا گیا۔ جیسے ہی کشتی چلی' اس نے سوچا کہ وہ مجھے سمندر میں غرق کر دیں گے۔ ایک دو گھنٹوں بعد کشتی ساحل سے جا لگی۔ ''تم آزاد ہو'' ، اغوا کاروں نے اسے بتایا کہ تاوان ادا کر دیا گیا ہے۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی گھروں کی طرف جا کر دروازوں پر دستک دینے لگی۔ وہ مدد کے لئے درخواست کرتی رہی' بالآخر اسے ایک ایسا شخص مل گیا جو اس کی بات سمجھ سکتا تھا۔ پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں وہ آدھی رات تک بیٹھی رہی' جب FBI کے دو اہلکار پہنچے۔ جب انہوں نے گرفا کو نام سے پکارا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گے۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب وہ محفوظ ہے۔ ہیکو اپنے گھر میں تھا جب گرفا نے اسے کال کی۔ دونوں کی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔ انہیں اگرچہ اس بات کی تسلی تھی کہ گرفا آزاد ہو گئی ہے، لیکن وہ کیون کے بار ے میں پریشان تھے کیونکہ ابھی تاوان کی کچھ رقم ادا کی گئی تھی۔ گرفا نے اپنے بیٹے کے بغیر گھر لوٹنے سے انکار کر دیا۔ اس نے عسکریت پسندوں سے بات چیت کے لئے اپنا قیام منیلا (فلپائن کا دارالحکومت) میں رکھا۔ ہیکو نے تاوان کی ادائیگی کے لئے مزید رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے خاندان کے سارے اثاثے بیچ ڈالے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے بھی دستبردار ہو گیا۔ اس نے ان کاموں میں غیر معمولی عجلت سے کام لیا' کیونکہ عسکریت پسندوں نے دھمکی دی تھی کہ انہیں اگرچند دنوں میں مزید رقم نہ ملی تو وہ کیون کا سرقلم کر دیں گے۔
گرفا کے جانے کے بعد کیون کا وقت آہستگی سے کٹنے لگا۔ دن بڑے سے بڑے ہوتے چلے گئے اور پھر اس کی ماںکے جانے کے تقریباً ایک ماہ بعد اغوا کار اس کے کزن کو بھی لے گئے۔ اسے آزاد کر دیا گیا یا قتل؟ کیون کو کچھ پتا نہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور وقفہ درمیان میں آیا۔ ایک دن کیون نے دیکھا کہ صرف ایک گارڈ پاس پھر رہا تھا۔ اسے فرار ہونے کے لئے یہ موزوں وقت لگا۔ وہ ادھر مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اسے یرغمال بنے تقریباً پانچ ماہ گزر چکے تھے۔ جب گارڈ سیڑھیوں سے اوپر گیا' کیون دروازے سے رینگتا ہوادوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جب اس نے گارڈ کے واپس آتے قدموں کی چاپ سنی' وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ رہائشی حصے سے دور رہتے ہوئے، درختوں کے پیچھے چھپ کر دریا کی طرف بھاگتا رہا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا، اسے کمزوری اور طویل قید کی وجہ سے دوڑتے ہوئے دشواری پیش آ رہی تھی۔ وہ اپنی گلابی ربڑ کے جوتوں پر گرتا پڑتا بھاگتا رہا، جو اسے اغوا کاروں نے فراہم کئے تھے، لیکن وہ کہیں نہ رکا۔ کئی گھنٹوں بعد وہ ایک دشوار گزار پہاڑی پر یہ دیکھنے کے لئے رکا کہ وہ کہاں تھا' پھر وہ سمندر کی سمت مڑ گیا۔ جزیرے سے نکلنا اس کا ہدف تھا۔ رات ڈھل چکی تھی اور پورا چاند جگمگا رہا تھا۔ کیون کو ایک خالی جھونپڑی نظر آئی، وہ تھوڑی دیر سستانے کے لئے اس میں چھپ گیا۔ وہاں بوٹوں کا ایک جوڑا نظر آیا، اس نے انہیں پھٹے ہوئے زخمی پاؤں میں پہنا ا ور دوبارہ دوڑ لگا دی۔
وہ گھاٹیوں اور پہاڑوں کے ساتھ لڑکھڑا کر بھاگتے ہوئے ساحل سے قریب تر ہو رہا تھا۔ کچھ جگہوں پر اس نے لوگوں کو کاشت کاری کرتے ہوئے د یکھا، لیکن اس خوف سے ان سے دور رہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے حامی ہو سکتے تھے۔ ابھی رات باقی تھی' جب اسے ایک کھیت پار کرتے ہوئے دیکھ لیا گیا۔ ایک کسان نے اسے پکارا تو کیون نے بھاگنا شروع کر دیا۔ لیکن آدمی کے پاس بندوق تھی' جس کی وجہ سے اسے رکنا پڑا۔ ''تم ادھر کیا کر رہے ہو؟'' کسان نے پوچھا۔ خوف کی وجہ سے تھکے ہارے کیون نے آدمی کو سب حقیقت بتا دی۔ کیون محتاط انداز میں کسان کے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر گیا، جس نے کہا کہ وہ اسے پولیس کے حوالے کرے گا۔ کیا وہ اس پر اعتبار کر سکتا تھا؟ وہ آسانی سے پولیس کے بجائے عسکرست پسندوں کو بھی بلا سکتا تھا۔ پھر کیون کو ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔
10دسمبر کو لینچ برگ میں ہیکو اپنی ڈیوٹی پر مصروف تھا جب اسے کال موصول ہوئی کہ کیون آزادہو گیا ہے۔ ہیکو نے کرسمس منانے کا سوچا بھی نہیں تھا، لیکن اس سہ پہر اس نے گرفا' کیون اور اس کے کزن، جسے آزاد کر دیا گیا تھا' کے لیے 100 ڈالر کی سجاوٹ کی چیزیں خریدیں' ایک درخت لگایا اور چاروں طرف تحائف کے ڈھیر لگا دیئے۔ کیون نے، جو اپنے آبائی شہر سے آدھی دنیا دور تقریباً اپنی زندگی ہار چکا تھا، واپس اپنے گھر میں قدم رکھا جو کرسمس کی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔