دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 3دنوں میں2لاکھ مسلمانوں کا قتل عام
1948ء میں حیدرآباد دکن میں ہونے والا قتل عامچھپانے کے لئے بھارتی حکمرانوں نے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔
بھارت کے بابائے قوم موہن داس کرم چندگاندھی نے کہا تھا ''کسی بھی معاشرہ کو اقلیتوں کے ساتھ اس کے سلوک کی بنیاد پر پرکھا جا سکتاہے۔''
بھارتی قوم اپنے اس رہنما کو دنیا میں عدم تشدد کے نظریہ کے سب سے بڑے علمبردار کے طورپر پیش کرتی ہے تاہم گاندھی کی حقیقی اور معنوی اولاد، دونوں نے اپنے بزرگ کی آنکھ بند ہوتے ہی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ایسے بدترین سلوک کاسلسلہ شروع کیا کہ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اس کی مثال ملتی ہو۔ یہاں کی ہندواکثریت ملک میں موجود باقی اقلیتوں سے دشمنی کے ایسے بخار میں مبتلا ہوئی کہ وہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
بھارت کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کے ایک قتل عام کی کہانیاں دہرائی گئیں، 1969ء کے گجرات فسادات، 1980ء کے اترپردیش فسادات، 1983ء کے آسام فسادات، 1987ء کے میرٹھ فسادات،1989ء کے بھاگلپور(بہار) فسادات، 1990ء کے سری نگرفسادات(جنوری میں بھی ہوئے اور فروری میں بھی، دسمبر92ء اور جنوری93ء میں ہونے والے ممبئی فسادات،1993ء کے سوپور(مقبوضہ کشمیر) فسادات اور پھر فروری2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات۔
یہ وہ واقعات ہیں جو دنیا کی نظروں میں کسی نہ کسی طرح آگئے، ان میں ہونے والے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام نے دنیا کی سب بڑی جمہوریت کے منہ پر کالک مَل دی تاہم 1948ء میں حیدرآباد دکن میں ہونے والا قتل عام اس قدر بڑا تھا کہ 565 نوابی ریاستوں کے مجموعہ بھارت کے حکمرانوں نے اسے دبانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔ وہ اس حقیقت کا دنیا پر منکشف ہونا برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کے ساتھ باقی طبقات نے بھی اسے چھپانے کو قومی مفاد کا تقاضا سمجھا۔
بھارتی دارالحکومت دہلی کے نہرو میموریل اور لائبریری میں چھپائی گئی سندر لال کمیشن رپورٹ کے مطابق سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن ایک سال بعد ہی ستمبر اور اکتوبر1948ء میںایک اور قتلِ عام ہوا جس میں کم ازکم 40ہزار مسلمان شہید کر دئیے گئے۔ (بعض دیگر رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار سے 2 لاکھ تھی) کچھ کو بھارتی فوجیوں نے صفوں میں کھڑا کر کے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔
اس کی تفصیلات کو اب تک راز میں رکھا گیا۔ یہ قتلِ عام بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدر آباد میں ہوا۔ حیدر آباد ان پانچ سو سے زائد ریاستوں میں سے ایک تھی جن کو برطانوی راج میں خودمختار ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ تقسیم ہند پر تمام ریاستیں بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام عثمان علی خان ( آصف جاہ ہفتم) کا کہنا تھا کہ وہ خودمختار ہی رہیں گے۔ بھارت کا حصہ بنیں گے نہ پاکستان کا۔ بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔اس پر فریقین کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وسط بھارت میں ایک مسلمان ریاست کو خودمختار رہنے دیا جائے۔
اس کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے ایسی خبریں پھیلانا شروع کردیں کہ نظام حیدرآباد اپنی رضاکار فوج کے ذریعے معصوم شہریوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کررہاہے۔ مورخین ایسی خبروں کو بھارت کی طرف سے جارحیت کا پہلا مرحلہ قراردیتے ہیں۔ جس کے بعد وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے حیدرآباد میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے کہ جب وزیر اعظم نہرو نے فوج کو حیدر آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔ اس کارروائی کو 'پولیس ایکشن' کہا گیا لیکن اصل میں یہ فوج کی کارروائی تھی۔ اس کا تکنیکی نام ''آپریشن پولو'' یا '' آپریشن کیٹرپلر'' رکھا گیا اگر بھارتی حکومت اسے ملٹری ایکشن کا نام دیتی تو اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیتی کہ ایک ریاست دوسری ریاست پر چڑھائی کررہی ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے جنگی پراپیگنڈہ کے طورپر نظام حیدرآباد کی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہ پراپیگنڈہ آنے والے برسوں میں شائع ہونے والی کتابوں میں بھی شامل ہوا۔
آپریشن کرنے والے جنرل جے این چودھری نے اپنی کتاب' آمرڈڈویژن ان پولو آپریشن'' میں لکھا ہے'' نظام کی باقاعدہ فوج کی تعداد22ہزارتھی، ان کے پاس جدیدترین اسلحہ بھی تھا حتیٰ کہ ٹینک بھی۔ الگ سے دس ہزار کی تعداد میں ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جو ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھی۔ پولیس اور کسٹم اہلکاروں کی تعداد بھی دس ہزار تھی جن کے پاس جدیدرائفلیں اور سٹین گنیں تھیں۔ رضاکارفوج کی تعداد دو لاکھ تھی جن میں سے 20فیصد کے پاس جدید گنیں، رائفلیں اور پستول تھے۔ باقیوں کے پاس نیزے، تلواریں اور میزائل لوڈڈ گنیں تھیں۔'' نظام کی فوج اور رضاکاروں کی استعداد کے بارے میں جنرل چودھری نے لکھا '' اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ تھے تاہم جدید جنگی فن کے اعتبار سے تربیت یافتہ نہیں تھے۔ کمانڈرانچیف ال ادروس غیرفعال اور غیرمفید شخص تھے۔ وہ اپنی ہی فوج کی خفیہ معلومات افشا کردیتے تھے۔''
11ستمبر1948ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر پوری ریاست حیدرآباد میں سوگ کی کیفیت تھی۔ تاہم ریاستی عوام نہیں جانتے تھے کہ سوگ کا سلسلہ اگلے کئی برسوں تک پھیل جائے گا، حیدآبادی مسلمانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ انھیں اپنے ہزاروں پیاروں کے قتل کا سوگ بھی مناناپڑے گا۔بھارت کی طرف سے نظام حیدرآباد کی عسکری قوت کا جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا، اس کی حقیقت اس وقت کھل گئی جب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کی اور اسے کہیں سے بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرناپڑا۔ یوں 13ستمبر1948ء کو شروع ہونے والا آپریشن پانچ دن بعد 18ستمبر کو ختم ہوگیا اور ریاست پر بھارتی پرچم لہرادیا گیا۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ آپریشن تین دن میں ختم ہو گیا تھا۔ ریاست میں داخل ہونے والی بھارتی فوج نے لوٹ مار، قتل عام اور جنسی زیادتیوں کاسلسلہ شروع کر دیا۔ بھارتی جریدے ''انڈیاٹوڈے'' نے اعتراف کیا کہ یہ ظلم زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ محقق پانڈو رنگا ریڈی کے مطابق زیادہ ترلوٹ مار مسلمان تاجروں کی ہوئی، بعدازاں انھیں قتل کر دیا گیا۔
پانڈو نے ہی نہرومیموریل میوزیم اور لائبریری( تین مورتی، نئی دہلی) سے درخواست کی کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندرلال رپورٹ دیکھنے کا موقع فراہم کرے ۔ لائبریری والوں نے کئی مہینوں تک اس درخواست کو فائلوں میں دبائے رکھا بعدازاں پانڈو سے کہا کہ رپورٹ لائبریری میں موجود نہیں ہے۔یہ جنوری 2013ء کی بات ہے تاہم جولائی میں ایک مورخ ایم ڈی سیف اللہ نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کی ایک نقل حاصل کرہی لی۔ اس کے اوپر ''کانفیڈینشل'' لکھا ہوا تھا۔ اس کے ایک باب میں لکھاگیاتھا ''ہم انتہائی محتاط اندازے کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران پوری ریاست میں ستائیس ہزار سے چالیس ہزار لوگوں کو قتل کیاگیا۔
اس قتل عام کے بعد وزیر اعظم نہرو نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھے کہ وہ حیدر آباد جائیں اور تحقیقات کریں۔ اس ٹیم کی قیادت کانگریس کے سینئر رکن پنڈت سندر لال نے کی۔ اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا، لیکن ان کی مرتبہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔کیونکہ مورخین کہتے ہیں کہ اس وقت کی حکومت کمیٹی کے کام سے خوش نہیں تھی، بالخصوص پٹیل نے ذاتی طورپر اس کے ارکان کو مسترد کردیاتھا۔ سردار پٹیل نے رپورٹ پر اپنی ناراضی کا اظہار قاضی عبدالغفار کے نام اپنے ایک مکتوب میں یوںکیا: ''مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں ظاہر کیاہے کہ آپ کو بھارتی حکومت نے خیرسگالی کے دورے پر ریاست حیدرآباد بھیجا تھا۔ کم ازکم میں ایسے کسی مشن سے آگاہ نہیں ہوں جسے بھارتی حکومت نے بھیجا ہو۔ جہاں تک مجھے علم ہے،آپ وہاں جاناچاہتے تھے، اور اس کا انتظام کیاگیاتھا کہ آپ بھارتی حکومت کے خرچ پر وہاں جائیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بھارتی حکومت نے کوئی خیرسگالی مشن ریاست حیدرآباد میں بھیجا ہو۔''
بہرحال ٹیم کے ارکان نے ہرگاؤں میں بچ جانے والے مسلمانوں پر کی گئی زیادتی کے احوال ریکارڈ کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں بھارتی حکومت نے ریاست حیدرآباد میں ایک خیرسگالی دورے پر بھیجا۔ ہم اپنا ٹاسک پورا کرنے کے بعد اب اپنی رپورٹ جمع کرارہے ہیں۔
وفد جس میں سینئر کانگریسی رہنماپنڈت سندرلال، نیشنلسٹ رہنما قاضی عبدالغفار اور مولانا عبداللہ مصری شامل تھے، 29نومبر کوحیدرآباد اور21دسمبر1948ء کو واپس دہلی پہنچا۔ اس دوران ہم نے ریاست کے16اضلاع میں سے 9اضلاع کا دورہ کیا۔ سات ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بھی گئے۔21اہم قصبات اور 23 دیہاتوں میں گئے۔ قریباً 500لوگوں کے انٹرویوز کئے۔ ان میں سے 109 وہ افراد تھے جن کے دیہاتوں میں ہم نہ پہنچ سکے تھے۔
ان سب ملاقاتوں اور انٹرویوز کا بنیادی مقصد یہاں کے مختلف طبقات کے درمیان تعلقات کی ازسرنو استواری تھی۔ لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور آپس میں امن وسکون رہنے کو یقینی بنائیں۔ ہم نے انھیں سمجھایا کہ ریاست حیدرآباد میں بھی ایک ایسی حکومت ہوگی جو مذہب، ذات پات سے بالاتر ہوکر سب کو مساوی آزادی اور شہری حقوق فراہم کرے گی۔ فوجی حکومت کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ حکومتی پالیسی نافذ کرے۔ہم نے اپنی پوزیشن واضح کی کہ ہم وہ کمیشن نہیں ہیں کہ جو پولیس ایکشن سے پہلے اور بعد کے واقعات کی تفتیش کرے لیکن ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دورے کے دوران جو ہم نے دیکھا ''جو ہے اور جیسے ہے'' کی بنیادپر رپورٹ میں شامل کریں۔
ریاست حیدرآباد کے 16اضلاع ہیں، جن میں 22000 دیہات ہیں۔ان میں سے صرف تین اضلاع تھے جو فسادات اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہے۔ چار اضلاع ایسے تھے جہاں حالات بہت خراب ہوئے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا جو آٹھ اضلاع میں ہوا۔ عثمان آباد، گلبرگا، بدار اور نندید ایسے اضلاع تھے جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ ان چاروں اضلاع میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کم ازکم18ہزار تھی۔ باقی چاراضلاع اورنگ آباد، بیر، نالگندا اور میداک میں ہلاک ہونے والوں کی تعدادکم ازکم 5ہزارتھی۔
ہم بہت محتاط اندازے کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری ریاست میں 27سے40ہزار مسلمانوں کو پولیس ایکشن کے دوران یا بعد میں ہلاک کیاگیا۔ ہم نے ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کی کہ اورنگ آباد، بیر، نالگندا اور میداک ایسے اضلاع تھے جو نظام حیدرآباد کے رضاکاروں کے گڑھ تھے۔قاسم رضوی( حیدرآباد دکن کے ایک پرجوش سیاست دان اورنظام حیدرآباد کی قائم کردہ رضاکارملیشیا کے بانی سربراہ) کا آبائی شہر لاتر مسلمان تاجروں سے بھرا ہواتھا، یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ قتل عام کاسلسلہ قریباً بیس روز تک جاری رہا۔ یہاں کی 10ہزار آبادی میں سے صرف تین ہزار باقی بچی تھی۔قریباً ایک ہزار کا قتل عام ہوا جب کہ باقی لوگ جان بچا کر بھاگ گئے۔ ان کے کاروبار مکمل طورپر تباہ وبرباد ہوگئے۔
شدید متاثرہ علاقوں میں بعض ایسی جگہوں پر جانے کا اتفاق بھی ہوا جہاں قتل عام کرنے والوں نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ شوارپور کے ایک کنویں سے چالیس بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جن بچوں کو قتل نہیں کیا گیا ، انھیں مجبور کیاگیا کہ وہ دیکھیں کیسے ان کے پیاروں کو قتل کیا جارہاہے۔ عورتوں کو ریپ کانشانہ بنایا جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو اغوا کرکے شولاپور اور ناگپور لے جایاگیا،جن میں سے ایک بڑی تعداد نے خودکشی کرلی تھی۔ اس کے علاوہ لوٹ مار بھی کی گئی، گھروں کو آگ لگادی گئی، مساجد کو شہید کر دیا گیا، مسلمانوں کو زبردستی ہندوبننے پر مجبورکیاگیا۔ لوگوں کو قتل کرکے ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے۔ کروڑوں روپوں کی جائیداد لوٹی گئی یاتباہ وبرباد کردی گئی۔ اس سب کچھ کا نشانہ وہ مسلمان تھے جو دیہاتی علاقوں کی بے بس اور بے سہارا اقلیت تھے۔ ایسے شواہد اور گواہیاں ملیں کہ ایک ہندو تنظیم کے تربیت یافتہ مسلح افراد شولاپور اور دوسرے بھارتی شہروں سے یہاں آن پہنچے۔ ان کے علاوہ کمیونسٹ افراد نے بھی قتل عام میں پورا حصہ لیا۔
' 'ہمارے پاس ٹھوس ثبوت تھے کہ کئی مواقع پر بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے بھی مسلمانوں سے زیادتی میں حصہ لیا۔ان دوروں میں ہمیں معلوم ہوا کہ کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔'' حتیٰ کہ بعض مقامات پر فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہندوؤں کو قتل وغارت گری اور لوٹ مار کے لئے مجبوربھی کیا۔ ایک ضلعی ہیڈکوارٹر میں انتظامیہ کا سربراہ جو بذات خود ہندوتھا ، نے بھی بتایا کہ فوج نے خود بھی مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا تھا۔
ایک دوسرے ضلع میں منصف ہاؤس میں گھس کر فوجیوں نے نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ تحصیل دار کی بیوی کی عصمت دری بھی کی۔بہت سی جگہوں سے یہ شکایات سننے کو ملیں کہ فوجیوں نے نقدی، سونا اور چاندی خود رکھ لیا جبکہ گھروں کا باقی سامان عام ہندوبلوائیوں میں تقسیم کردیا۔بعض جگہوں پر ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں جہاں بعض ہندوؤں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے مسلمان ہمسائیوں کی جان بچائی اور انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی۔ ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک خاص پیشہ کے حامل ہندوؤں نے اپنے ہم پیشہ مسلمانوں کو پناہ دی۔ مثلاً ہندوجولاہوں نے مسلمان جولاہوںکو پناہ دی۔اسی طرح بعض ہندوؤں نے مسلمان خواتین اور لڑکیوں کی برآمدگی میں بھی تعاون کیا۔
14سے 15ستمبر تک یہاں شدیدبارش ہوئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی یوں جانیں بچ گئیں کہ وہ جنگلوں میں چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں بارش کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے ان جنگلوں میں گھس نہ سکی تھیں ۔
پروفیسر ولفرڈ کینٹویل سمتھ ایک عظیم مستشرق گزرے ہیں۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے اندازسیاست کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور اور ایف سی کالج لاہور میں اسلامی تاریخ کے لیکچرار رہے۔ انھوں نے ایک جریدے'' دی مڈل ایسٹ جرنل'' جلد 4 میں (1950ء میں) ایک مضمون لکھا، جس کاعنوان '' حیدرآباد: مسلمانوں کے لئے ایک المیہ'' تھا۔ اس میں انھوں نے بھی تسلیم کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان قتل اور ہزاروں بے گھر کئے گئے۔ جو بچ گئے وہ سخت خوف کا شکار ہوئے۔ 'پولیس ایکشن' کے بعد کی کہانی بھی بہت سنگین تھی''۔انھوں نے اپنے مضمون میں کچھ دیگررپورٹس کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق ریاست حیدرآباد میں قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد50ہزار سے زائد تھی جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد 2لاکھ تھی۔ انھوں نے بھی اپنے مضمون میں پنڈٹ سندرلال کی رپورٹ کا ذکر کیاہے۔
سندرلال اور ان کی ٹیم کے مطابق ایک طرف جہاں مسلمانوں کو بھارتی فوج نے غیر مسلح کردیا تھا تو دوسری طرف ہندو برادری کو غیر مسلح نہیں کیا گیا۔ 'کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے مسلمان مردوں کو مکانوں سے نکالا اور اور ان کو قتل کیا۔' اس خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔
پانڈو کاکہناہے کہ حیدرآباد کا مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ میں زندہ ہے، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ 1956ء میں ریاست حیدرآباد کو ریاست آندھرا میں ضم کردیاگیا اور اسے آندھراپردیش کانام دے دیاگیا۔ پانڈو کہتے ہیں کہ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ حیدرآباد کو نقشہ سے مٹادیاجائے۔ میراخیال ہے کہ 1969ء میں جب تلنگانا ریاست قائم کرنے کا مطالبہ سامنے آیا، اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس مطالبے سے اتفاق نہ کیا کیونکہ کیس اقوام متحدہ میں تھا، اور تلنگانا سارے کا سارا اسی علاقے میں قائم ہوناتھا جو ریاست حیدرآباد کا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد بھارت میں سب سے پہلے ستمبر1948ء میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی تھی۔اور اس کا نفاذ اس وقت ہوا جب 36000بھارتی فوجی حیدرآبادمیں داخل ہوئے تھے۔کیونکہ بھارتی حکومت کو خطرہ تھا کہ جب اقلیتوں کے علاقے پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ان کی طرف سے ردعمل ظاہر ہوسکتاہے۔
سندر لال رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 'کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ ایک جگہ ہم نے گیارہ لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔'رپورٹ میں کہا گیا ہے 'ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے۔'ان میں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ذبح کیاگیا۔ جارح بھارتی فوج نے مسلمانوں سے ہتھیار چھین کر یہاں کی ہندوآبادی کو فراہم کئے جنھوں نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام میں کردار اداکیا۔انھوں نے بھارتی فوجیوں کے ایما پر لوٹ مار میں بھی خوب حصہ لیا۔
اسی دوران نظام حیدرآباد نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا، تاہم عالمی ادارے نے اس کا نوٹس لینے سے انکار کردیا۔ یوں مسئلہ آنے والے برسوں میں بھی موجود رہا۔
چونکہ حکومت کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی، بہت ہی کم لوگ اس قتلِ عام کے بارے میں جانتے ہیں۔ ناقدین بھارتی حکومتوں پر اس بارے میں رپورٹ کو شائع نہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔ کنیہا لال مانک لال منشی (کے ایم منشی) ریاست حیدرآباد میں بھارتی حکومت کے ایجنٹ جنرل تھے، انھوں نے اپنی یادداشتیں The End of an Eraکے عنوان سے لکھیں تاہم انھوں نے بھی 1948ء کے اس قتل عام کا کہیں ذکر نہیں کیا۔
کے ایم منشی نے برصغیر میں آزادی کی تحریک میں اہم کردار اداکیا، ریاست گجرات سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم کے شعبے میں ان کی خدمات بہت نمایاں تھیں۔ وہ فکشن اور نان فکشن کے میدان میں بڑا نام رکھتے تھے۔ درجنوں ناول لکھے اور ڈرامے بھی۔ انھیں بھارت میں بہت زیادہ احترام حاصل ہے لیکن اب ان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ انھوں نے کیوں یہ اہم حقائق چھپائے؟ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ان کی طر ف سے حقائق چھپانا دراصل قومی مفاد میں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) کے رہنما پی سندرایا نے بھی تلنگانہ کے لوگوں کی جدوجہد پر ایک کتاب لکھی لیکن انھوں نے مسلمانوں کی مشکلات کا ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔
سندرلال رپورٹ کے شائع نہ کرنے کے حوالے سے کوئی سرکاری موقف نہیں دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اب یہ رپورٹ دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھی گئی ہے۔ گزشتہ اڑھائی عشروں کے درمیان اس رپورٹ کے اقتباسات کو مختلف لوگوں کے پاس پہنچے اور انھوں نے ان اقتباسات کا اپنے مضامین کا حصہ بنایا۔1988ء میں ایک ممتاز سکالر ڈاکٹر عمر خالدی کی ایک کتاب"Hyderabad After the Fall" منظرعام پر آئی۔اس میں سندرلال رپورٹ کے کچھ حصے شامل کئے گئے تھے۔ ڈاکٹرعمرخالدی میساچیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (امریکا) سے وابستہ ہیں۔ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، اور برطانیہ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی بے شمار کتب اب تک شائع ہوچکی ہیں جو زیادہ تر بھارتی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ہیں۔
اس رپورٹ کو کس طرح چھپایا اور دبایا گیا ، یہ بذات خود بڑی افسوسناک کہانی ہے۔ حال ہی میں یہ رپورٹ پوری کی پوری سامنے آئی تو''فرنٹ لائن'' جیسے ایک دوجرائد نے ہی اسے دوچار روز کے لئے موضوع بحث بنایا تاہم باقی ہرطرف خاموشی دیکھنے کو ملی۔ بھارت کے بعض حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس رپورٹ کو عام کیا جائے تاکہ لوگ اس کو پڑھ کر اس واقعے کے بارے میں مزید جان سکیں۔ تاہم من موہن سنگھ حکومت نے سختی سے لب بند کررکھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حیدرآباد دکن کے اخبارات بھی مجبور ہیں کہ وہ اس موضوع پر کچھ شائع نہ کریں۔ سندرلال رپورٹ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ایک حقیقت ہے، پورے بھارت میں کسی ایک فرد نے بھی اسے غلط قرارنہیں دیا لیکن یہ کیساجبر ہے کہ پورے ملک میں حتیٰ کہ ریاست حیدرآباد میں بھی کوئی فرد اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی جرات نہیں کررہا۔ حال ہی میں ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی نے حیدرآباد کے قتل عام پر ایک رپورٹ شائع کی ہے، لیکن اس کے بعد بھی بھارت میں کہیں حرکت نظر نہیں آئی۔
قاسم رضوی پر الزام اور حقیقت
حیدرآباد آپریشن میں بھارتی فوج کے کردار پر پردہ پوشی کرنے والا طبقہ اس قتل عام کا بنیادی ذمہ دار نظام حیدرآباد کے قریبی ساتھی قاسم رضوی کو قراردیتاہے۔ یادرہے کہ قاسم رضوی مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بھی تھے۔ اوریہ وہی جماعت ہے جس کے سربراہ نواب بہادریارجنگ بھی رہے ہیں۔ ایک بھارتی مورخ نریندرا لوتھر کا کہناہے کہ قاسم رضوی کی وجہ سے جتنا ریاست حیدرآباد کو نقصان پہنچا، شاید ہی کسی دوسرے نے پہنچایا ہو۔انہی کی وجہ سے ''پولیس ایکشن'' کرنا پڑا۔
ایک مورخ پی وی کیٹ بھی ہیں، جنھوں نے اپنی کتاب "Marathwada Under the Nizams" میں قاسم رضوی کو ایسا متعصب مسلمان قراردینے کی کوشش کی جو ہندوؤں کو مسلمانوں کا غلام رکھنے کا علمبردار تھا۔ پی آر راؤ بھی اپنی کتاب "History and Culture of Andhra Pradesh" میں قاسم رضوی پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے ایک متعددمسلمانوں بالخصوص مسلم رہنما شعیب اللہ خان کو محض اس وجہ سے قتل کرادیاتھا کہ وہ رضوی کے رضاکاروں کے مخالف تھے اور ریاست حیدرآباد کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔
پی وی کیٹ نے رضاکاروں پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ریپ، جلاؤگھیراؤ، قتل اور لوٹ مار کرتے رہے۔ اسی قبیل کے دوسرے ہندو مورخین ، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا بھی کہناہے کہ قاسم رضوی کی تقریروں سے جہاں حیدرآباد کی ہندو آبادی کی دلآزاری ہوتی تھی وہاں ان تقریروں سے بھارتی حکمران اور فوج میں بھی اشتعال پھیلا۔یہ مورخین ایک بھونڈا جواز یہ بھی تراشتے ہیں کہ چونکہ قاسم رضوی نے یہ تاثردیاتھا کہ ریاست حیدرآباد کا ہرمسلمان رضاکار ہے، اسی لئے آپریشن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قاسم رضوی کو حیدرآباد کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دینا بڑی بدیانتی ہے۔ اگر قاسم رضوی متعصب اور زہریلے انسان ہوتے تو ان کی قائم کردہ رضاکارملیشیا میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کیوں موجود ہوتی۔ حقیقت ہے کہ قاسم رضوی ایسے تمام لوگوں کے دشمن تھے جو حیدرآباد ریاست کی سالمیت کے خلاف تھے۔ قاسم رضوی نے 13ستمبر1948ء کو گوشہ محل سٹیڈیم میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے لئے ایک بڑی تعزیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہزاروںحاضرین کو واضح الفاظ میں خبردار کیاکہ بھارت ریاست حیدرآباد پر چڑھائی کرنے والا ہے۔
اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ (وطن کا دفاع کرتے ہوئے ) اپنے ملک (حیدرآباد) میںکسی بھی غیرمسلم کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کا کہنا تھا ''یادرکھئے! ہماری جنگ بھارت کے ساتھ ہے، ہندوؤں کے ساتھ نہیں۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں پر حملہ نہیں کرنا کیونکہ اللہ ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا جو ظلم کرتے ہیں۔'' قاسم رضوی پرلگائے جانے والے الزامات اس وقت ازخود غلط ثابت ہوجاتے ہیں جب سندرلال رپورٹ کا مطالعہ کرلیاجائے۔ انھیں ایک جارح کردار کے طورپر پیش کرنے والے بذات خود متعصب ہیں۔ اور تاریخ نے ایسے مصنفین اور مورخین کو اپنے دامن میں جگہ دینے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
بھارتی دانش ور اور اخبارات کیا کہتے ہیں؟
اس قدر بڑے قتل عام کے بارے میں ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی اور دوبھارتی اخبارات وجرائد میں رپورٹس شائع ہونے کے بعد بھی بھارتی دانشور عین اسی طرح خاموش ہیں جس طرح حکمران۔ ستم تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار بھی مسلمانوں کے اس قتل عام پر بولنے سے گریز کررہے ہیں۔ ان کا رویہ بھی اس 80سالہ ہندو بزرگ برگلانراسنگھ راؤ جیسا ہے جس کا تعلق حیدرآباد ریاست سے ہی تھا، اس نے مسلمانوں کے قتل عام کے سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں لیکن وہ اس موضوع پر بولنے سے کترا رہاتھا۔ اس کا کہناتھا '' ہم اس ملک میں بہت سے تنازعات اور مسائل کے درمیان جی رہے ہیں، ایسے میں اب میں کچھ بول کر ایک نئی مصیبت نہیں کھڑی کرناچاہتا۔''
گزشتہ برس بھارتی اخبار'' دی پائنیر'' نے حیدرآباد قتل عام کی ذمہ داری سردار پٹیل پر عائد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نہرو مسئلے کا حل براستہ اقوام متحدہ چاہتے تھے۔ اس مسئلے پر انھوں نے سردار پٹیل کوکابینہ کے اجلاس میں ڈانٹ پلائی تھی اور انھیں ایک متعصب ہندو قراردیاتھا۔نہرو نے سردار پٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا'' میں آپ کی تجاویز کا حصہ نہیں بنوں گا۔'' نہروکی یہ بات سن کر سردارپٹیل ششدر رہ گئے، پھر انھوں نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات سمیٹے اور کانفرنس روم سے باہر نکل گئے۔ اس کے بعد سردارپٹیل کبھی کابینہ کے اجلاس میں نہیں گئے تھے۔ نہرو اور ان کی پھر کبھی نہ بن سکی۔ نہرو ان سے اس قدر ناراض تھے کہ انھوں نے سردارپٹیل کی آخری رسومات میں نہ صرف خود شرکت نہ کی بلکہ بھارتی صدر راجندرپرشاد کو بھی روکاتھا۔ البتہ حکومتی سیکرٹریوں سے کہاتھا کہ وہ اپنے خرچ پر ہی پٹیل کی آخری رسومات میں شرکت کرسکتے ہیں۔
ریاست حیدآباد... قیام سے قتل عام تک
ریاست حیدرآباد مغل بادشاہت کے خاتمے پر نظام الملک آصف جاہ نے1724ء میں قائم کی تھی۔ یہاں کے حکمران مسلمان تھے لیکن آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ 1798ء میں حیدرآباد پہلی ریاست تھی جو سبسڈری الائنس کی پالیسی کے تحت برطانوی راج کی حفاظت میں آگئی تھی۔برطانیہ نے 1947ء میں برصغیر سے نکلتے ہوئے حیدرآباد سمیت دیگر نوابی ریاستوں کو پیشکش کی کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی سے بھی الحاق کرسکتے ہیں۔تیسرا آپشن بھی تھا کہ وہ خودمختار بھی رہ سکتی ہیں۔اس وقت ساتویں نظام میرعثمان علی کی سربراہی میں ریاست حیدرآباد برصغیر پاک وہند کی سب سے زیادہ خوشحال ریاست تھی۔ وہ اسلامی مساوات کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والے شخص تھے ۔ اکثرکہاکرتے تھے کہ ان کی ریاست میں مسلمان اور ہندو دوآنکھوں کی مانند ہیں۔ان کی ریاست کا رقبہ 82مربع میل سے زائد تھا۔آبادی ایک کروڑ60لاکھ تھی جس میں سے 85فیصد آبادی ہندوتھی۔ ریاست کی اپنی فوج، ائرلائن، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم، ریلوے نیٹ ورک، پوسٹل سسٹم ، کرنسی اور ریڈیوبراڈکاسٹنگ سروس تھا۔ نظام نے دیگر565ریاستوں کے برعکس اپنی ریاست کو خودمختار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ریاست کے نظام نے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ ریاست حیدرآباد کو برٹش کامن ویلتھ کا حصہ بنالے تو یہ درخواست مسترد کردی گئی۔ اس کے بعد بھارتی وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نظام سے درخواست کی کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیں تاہم نظام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا بلکہ15 اگست1947ء کو اپنی خودمختاری کا اعلان کردیااور مکہ مسجد میں نمازشکرانہ کا اہتمام کیا۔ یادرہے کہ اسی روز بھارت نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کیاتھا۔
بھارتی قیادت کوپسندنہیں تھا کہ ملک کے قلب میں ایک خودمختارریاست قائم رہے اور وہ بھی مسلمانوں کی حکمرانی میں۔ چنانچہ سردار پٹیل نے گورنرجنرل لارڈماؤنٹ بیٹن سے اس مسئلہ پرملاقات کی۔دوسری طرف بھارتی قیادت نے حیدرآباد کوبزورقوت بھارت کاحصہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ لارڈماؤنٹ بیٹن نے سردارپٹیل کو نصیحت کی کہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے، طاقت استعمال نہ کی جائے۔ مذاکرات کی میز بھی سجائی گئی ۔ نظام نے اپنا تین رکنی وفد دہلی بھیجا۔ مذاکرات کا نتیجہ یوں نکلا کہ 29نومبر1947ء کو ایک معاہدہ طے پاگیا جس کے مطابق ایک سال کے لئے ریاست کے مقام کو جوں کا توں رکھاجائے گا۔
ایک طرف یہ معاہدہ ہوا، دوسری طرف بھارت نے ریاست حیدرآباد کو جانے والے تمام راستے بند کردئیے جس کی وجہ سے اس کا اردگرد کے تمام علاقوں سے رابطہ مکمل طورپر منقطع ہوگیا۔بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ ریاست حیدرآباد کی ہرقسم کی ناکہ بندی کرنے سے ریاستی حکمران بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور ہوجائیں گے۔ تاہم نظامِ حیدرآباد اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے۔البتہ وہ اب بھی برٹش کامن ویلتھ کا حصہ بننے کو تیارتھے۔ بھارتی خطرناک عزائم کو محسوس کرتے ہوئے نظام نے امریکی صدر ٹرومین اور اقوام متحدہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کو کہالیکن ان کی بات پر کسی نے غور نہ کیا۔یوں بھارت کو شہہ مل گئی ریاست حیدرآباد کو بزورقوت اپنے ساتھ شامل کرنے کی۔ کم ازکم چالیس ہزار اور بعض رپورٹس کے مطابق دو لاکھ افراد کو ہلاک، خواتین کی عصمت دری کرنے کے بعد یہاں پر بھارتی پرچم لہرادیاگیا۔
بھارتی قوم اپنے اس رہنما کو دنیا میں عدم تشدد کے نظریہ کے سب سے بڑے علمبردار کے طورپر پیش کرتی ہے تاہم گاندھی کی حقیقی اور معنوی اولاد، دونوں نے اپنے بزرگ کی آنکھ بند ہوتے ہی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ایسے بدترین سلوک کاسلسلہ شروع کیا کہ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اس کی مثال ملتی ہو۔ یہاں کی ہندواکثریت ملک میں موجود باقی اقلیتوں سے دشمنی کے ایسے بخار میں مبتلا ہوئی کہ وہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
بھارت کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کے ایک قتل عام کی کہانیاں دہرائی گئیں، 1969ء کے گجرات فسادات، 1980ء کے اترپردیش فسادات، 1983ء کے آسام فسادات، 1987ء کے میرٹھ فسادات،1989ء کے بھاگلپور(بہار) فسادات، 1990ء کے سری نگرفسادات(جنوری میں بھی ہوئے اور فروری میں بھی، دسمبر92ء اور جنوری93ء میں ہونے والے ممبئی فسادات،1993ء کے سوپور(مقبوضہ کشمیر) فسادات اور پھر فروری2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات۔
یہ وہ واقعات ہیں جو دنیا کی نظروں میں کسی نہ کسی طرح آگئے، ان میں ہونے والے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام نے دنیا کی سب بڑی جمہوریت کے منہ پر کالک مَل دی تاہم 1948ء میں حیدرآباد دکن میں ہونے والا قتل عام اس قدر بڑا تھا کہ 565 نوابی ریاستوں کے مجموعہ بھارت کے حکمرانوں نے اسے دبانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔ وہ اس حقیقت کا دنیا پر منکشف ہونا برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کے ساتھ باقی طبقات نے بھی اسے چھپانے کو قومی مفاد کا تقاضا سمجھا۔
بھارتی دارالحکومت دہلی کے نہرو میموریل اور لائبریری میں چھپائی گئی سندر لال کمیشن رپورٹ کے مطابق سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن ایک سال بعد ہی ستمبر اور اکتوبر1948ء میںایک اور قتلِ عام ہوا جس میں کم ازکم 40ہزار مسلمان شہید کر دئیے گئے۔ (بعض دیگر رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار سے 2 لاکھ تھی) کچھ کو بھارتی فوجیوں نے صفوں میں کھڑا کر کے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔
اس کی تفصیلات کو اب تک راز میں رکھا گیا۔ یہ قتلِ عام بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدر آباد میں ہوا۔ حیدر آباد ان پانچ سو سے زائد ریاستوں میں سے ایک تھی جن کو برطانوی راج میں خودمختار ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ تقسیم ہند پر تمام ریاستیں بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام عثمان علی خان ( آصف جاہ ہفتم) کا کہنا تھا کہ وہ خودمختار ہی رہیں گے۔ بھارت کا حصہ بنیں گے نہ پاکستان کا۔ بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔اس پر فریقین کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وسط بھارت میں ایک مسلمان ریاست کو خودمختار رہنے دیا جائے۔
اس کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے ایسی خبریں پھیلانا شروع کردیں کہ نظام حیدرآباد اپنی رضاکار فوج کے ذریعے معصوم شہریوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کررہاہے۔ مورخین ایسی خبروں کو بھارت کی طرف سے جارحیت کا پہلا مرحلہ قراردیتے ہیں۔ جس کے بعد وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے حیدرآباد میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے کہ جب وزیر اعظم نہرو نے فوج کو حیدر آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔ اس کارروائی کو 'پولیس ایکشن' کہا گیا لیکن اصل میں یہ فوج کی کارروائی تھی۔ اس کا تکنیکی نام ''آپریشن پولو'' یا '' آپریشن کیٹرپلر'' رکھا گیا اگر بھارتی حکومت اسے ملٹری ایکشن کا نام دیتی تو اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیتی کہ ایک ریاست دوسری ریاست پر چڑھائی کررہی ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے جنگی پراپیگنڈہ کے طورپر نظام حیدرآباد کی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہ پراپیگنڈہ آنے والے برسوں میں شائع ہونے والی کتابوں میں بھی شامل ہوا۔
آپریشن کرنے والے جنرل جے این چودھری نے اپنی کتاب' آمرڈڈویژن ان پولو آپریشن'' میں لکھا ہے'' نظام کی باقاعدہ فوج کی تعداد22ہزارتھی، ان کے پاس جدیدترین اسلحہ بھی تھا حتیٰ کہ ٹینک بھی۔ الگ سے دس ہزار کی تعداد میں ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جو ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھی۔ پولیس اور کسٹم اہلکاروں کی تعداد بھی دس ہزار تھی جن کے پاس جدیدرائفلیں اور سٹین گنیں تھیں۔ رضاکارفوج کی تعداد دو لاکھ تھی جن میں سے 20فیصد کے پاس جدید گنیں، رائفلیں اور پستول تھے۔ باقیوں کے پاس نیزے، تلواریں اور میزائل لوڈڈ گنیں تھیں۔'' نظام کی فوج اور رضاکاروں کی استعداد کے بارے میں جنرل چودھری نے لکھا '' اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ تھے تاہم جدید جنگی فن کے اعتبار سے تربیت یافتہ نہیں تھے۔ کمانڈرانچیف ال ادروس غیرفعال اور غیرمفید شخص تھے۔ وہ اپنی ہی فوج کی خفیہ معلومات افشا کردیتے تھے۔''
11ستمبر1948ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر پوری ریاست حیدرآباد میں سوگ کی کیفیت تھی۔ تاہم ریاستی عوام نہیں جانتے تھے کہ سوگ کا سلسلہ اگلے کئی برسوں تک پھیل جائے گا، حیدآبادی مسلمانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ انھیں اپنے ہزاروں پیاروں کے قتل کا سوگ بھی مناناپڑے گا۔بھارت کی طرف سے نظام حیدرآباد کی عسکری قوت کا جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا، اس کی حقیقت اس وقت کھل گئی جب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کی اور اسے کہیں سے بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرناپڑا۔ یوں 13ستمبر1948ء کو شروع ہونے والا آپریشن پانچ دن بعد 18ستمبر کو ختم ہوگیا اور ریاست پر بھارتی پرچم لہرادیا گیا۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ آپریشن تین دن میں ختم ہو گیا تھا۔ ریاست میں داخل ہونے والی بھارتی فوج نے لوٹ مار، قتل عام اور جنسی زیادتیوں کاسلسلہ شروع کر دیا۔ بھارتی جریدے ''انڈیاٹوڈے'' نے اعتراف کیا کہ یہ ظلم زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ محقق پانڈو رنگا ریڈی کے مطابق زیادہ ترلوٹ مار مسلمان تاجروں کی ہوئی، بعدازاں انھیں قتل کر دیا گیا۔
پانڈو نے ہی نہرومیموریل میوزیم اور لائبریری( تین مورتی، نئی دہلی) سے درخواست کی کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندرلال رپورٹ دیکھنے کا موقع فراہم کرے ۔ لائبریری والوں نے کئی مہینوں تک اس درخواست کو فائلوں میں دبائے رکھا بعدازاں پانڈو سے کہا کہ رپورٹ لائبریری میں موجود نہیں ہے۔یہ جنوری 2013ء کی بات ہے تاہم جولائی میں ایک مورخ ایم ڈی سیف اللہ نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کی ایک نقل حاصل کرہی لی۔ اس کے اوپر ''کانفیڈینشل'' لکھا ہوا تھا۔ اس کے ایک باب میں لکھاگیاتھا ''ہم انتہائی محتاط اندازے کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران پوری ریاست میں ستائیس ہزار سے چالیس ہزار لوگوں کو قتل کیاگیا۔
اس قتل عام کے بعد وزیر اعظم نہرو نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھے کہ وہ حیدر آباد جائیں اور تحقیقات کریں۔ اس ٹیم کی قیادت کانگریس کے سینئر رکن پنڈت سندر لال نے کی۔ اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا، لیکن ان کی مرتبہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔کیونکہ مورخین کہتے ہیں کہ اس وقت کی حکومت کمیٹی کے کام سے خوش نہیں تھی، بالخصوص پٹیل نے ذاتی طورپر اس کے ارکان کو مسترد کردیاتھا۔ سردار پٹیل نے رپورٹ پر اپنی ناراضی کا اظہار قاضی عبدالغفار کے نام اپنے ایک مکتوب میں یوںکیا: ''مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں ظاہر کیاہے کہ آپ کو بھارتی حکومت نے خیرسگالی کے دورے پر ریاست حیدرآباد بھیجا تھا۔ کم ازکم میں ایسے کسی مشن سے آگاہ نہیں ہوں جسے بھارتی حکومت نے بھیجا ہو۔ جہاں تک مجھے علم ہے،آپ وہاں جاناچاہتے تھے، اور اس کا انتظام کیاگیاتھا کہ آپ بھارتی حکومت کے خرچ پر وہاں جائیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بھارتی حکومت نے کوئی خیرسگالی مشن ریاست حیدرآباد میں بھیجا ہو۔''
بہرحال ٹیم کے ارکان نے ہرگاؤں میں بچ جانے والے مسلمانوں پر کی گئی زیادتی کے احوال ریکارڈ کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں بھارتی حکومت نے ریاست حیدرآباد میں ایک خیرسگالی دورے پر بھیجا۔ ہم اپنا ٹاسک پورا کرنے کے بعد اب اپنی رپورٹ جمع کرارہے ہیں۔
وفد جس میں سینئر کانگریسی رہنماپنڈت سندرلال، نیشنلسٹ رہنما قاضی عبدالغفار اور مولانا عبداللہ مصری شامل تھے، 29نومبر کوحیدرآباد اور21دسمبر1948ء کو واپس دہلی پہنچا۔ اس دوران ہم نے ریاست کے16اضلاع میں سے 9اضلاع کا دورہ کیا۔ سات ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بھی گئے۔21اہم قصبات اور 23 دیہاتوں میں گئے۔ قریباً 500لوگوں کے انٹرویوز کئے۔ ان میں سے 109 وہ افراد تھے جن کے دیہاتوں میں ہم نہ پہنچ سکے تھے۔
ان سب ملاقاتوں اور انٹرویوز کا بنیادی مقصد یہاں کے مختلف طبقات کے درمیان تعلقات کی ازسرنو استواری تھی۔ لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور آپس میں امن وسکون رہنے کو یقینی بنائیں۔ ہم نے انھیں سمجھایا کہ ریاست حیدرآباد میں بھی ایک ایسی حکومت ہوگی جو مذہب، ذات پات سے بالاتر ہوکر سب کو مساوی آزادی اور شہری حقوق فراہم کرے گی۔ فوجی حکومت کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ حکومتی پالیسی نافذ کرے۔ہم نے اپنی پوزیشن واضح کی کہ ہم وہ کمیشن نہیں ہیں کہ جو پولیس ایکشن سے پہلے اور بعد کے واقعات کی تفتیش کرے لیکن ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دورے کے دوران جو ہم نے دیکھا ''جو ہے اور جیسے ہے'' کی بنیادپر رپورٹ میں شامل کریں۔
ریاست حیدرآباد کے 16اضلاع ہیں، جن میں 22000 دیہات ہیں۔ان میں سے صرف تین اضلاع تھے جو فسادات اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہے۔ چار اضلاع ایسے تھے جہاں حالات بہت خراب ہوئے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا جو آٹھ اضلاع میں ہوا۔ عثمان آباد، گلبرگا، بدار اور نندید ایسے اضلاع تھے جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ ان چاروں اضلاع میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کم ازکم18ہزار تھی۔ باقی چاراضلاع اورنگ آباد، بیر، نالگندا اور میداک میں ہلاک ہونے والوں کی تعدادکم ازکم 5ہزارتھی۔
ہم بہت محتاط اندازے کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری ریاست میں 27سے40ہزار مسلمانوں کو پولیس ایکشن کے دوران یا بعد میں ہلاک کیاگیا۔ ہم نے ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کی کہ اورنگ آباد، بیر، نالگندا اور میداک ایسے اضلاع تھے جو نظام حیدرآباد کے رضاکاروں کے گڑھ تھے۔قاسم رضوی( حیدرآباد دکن کے ایک پرجوش سیاست دان اورنظام حیدرآباد کی قائم کردہ رضاکارملیشیا کے بانی سربراہ) کا آبائی شہر لاتر مسلمان تاجروں سے بھرا ہواتھا، یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ قتل عام کاسلسلہ قریباً بیس روز تک جاری رہا۔ یہاں کی 10ہزار آبادی میں سے صرف تین ہزار باقی بچی تھی۔قریباً ایک ہزار کا قتل عام ہوا جب کہ باقی لوگ جان بچا کر بھاگ گئے۔ ان کے کاروبار مکمل طورپر تباہ وبرباد ہوگئے۔
شدید متاثرہ علاقوں میں بعض ایسی جگہوں پر جانے کا اتفاق بھی ہوا جہاں قتل عام کرنے والوں نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ شوارپور کے ایک کنویں سے چالیس بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جن بچوں کو قتل نہیں کیا گیا ، انھیں مجبور کیاگیا کہ وہ دیکھیں کیسے ان کے پیاروں کو قتل کیا جارہاہے۔ عورتوں کو ریپ کانشانہ بنایا جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو اغوا کرکے شولاپور اور ناگپور لے جایاگیا،جن میں سے ایک بڑی تعداد نے خودکشی کرلی تھی۔ اس کے علاوہ لوٹ مار بھی کی گئی، گھروں کو آگ لگادی گئی، مساجد کو شہید کر دیا گیا، مسلمانوں کو زبردستی ہندوبننے پر مجبورکیاگیا۔ لوگوں کو قتل کرکے ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے۔ کروڑوں روپوں کی جائیداد لوٹی گئی یاتباہ وبرباد کردی گئی۔ اس سب کچھ کا نشانہ وہ مسلمان تھے جو دیہاتی علاقوں کی بے بس اور بے سہارا اقلیت تھے۔ ایسے شواہد اور گواہیاں ملیں کہ ایک ہندو تنظیم کے تربیت یافتہ مسلح افراد شولاپور اور دوسرے بھارتی شہروں سے یہاں آن پہنچے۔ ان کے علاوہ کمیونسٹ افراد نے بھی قتل عام میں پورا حصہ لیا۔
' 'ہمارے پاس ٹھوس ثبوت تھے کہ کئی مواقع پر بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے بھی مسلمانوں سے زیادتی میں حصہ لیا۔ان دوروں میں ہمیں معلوم ہوا کہ کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔'' حتیٰ کہ بعض مقامات پر فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہندوؤں کو قتل وغارت گری اور لوٹ مار کے لئے مجبوربھی کیا۔ ایک ضلعی ہیڈکوارٹر میں انتظامیہ کا سربراہ جو بذات خود ہندوتھا ، نے بھی بتایا کہ فوج نے خود بھی مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا تھا۔
ایک دوسرے ضلع میں منصف ہاؤس میں گھس کر فوجیوں نے نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ تحصیل دار کی بیوی کی عصمت دری بھی کی۔بہت سی جگہوں سے یہ شکایات سننے کو ملیں کہ فوجیوں نے نقدی، سونا اور چاندی خود رکھ لیا جبکہ گھروں کا باقی سامان عام ہندوبلوائیوں میں تقسیم کردیا۔بعض جگہوں پر ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں جہاں بعض ہندوؤں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے مسلمان ہمسائیوں کی جان بچائی اور انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی۔ ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک خاص پیشہ کے حامل ہندوؤں نے اپنے ہم پیشہ مسلمانوں کو پناہ دی۔ مثلاً ہندوجولاہوں نے مسلمان جولاہوںکو پناہ دی۔اسی طرح بعض ہندوؤں نے مسلمان خواتین اور لڑکیوں کی برآمدگی میں بھی تعاون کیا۔
14سے 15ستمبر تک یہاں شدیدبارش ہوئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی یوں جانیں بچ گئیں کہ وہ جنگلوں میں چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں بارش کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے ان جنگلوں میں گھس نہ سکی تھیں ۔
پروفیسر ولفرڈ کینٹویل سمتھ ایک عظیم مستشرق گزرے ہیں۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے اندازسیاست کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور اور ایف سی کالج لاہور میں اسلامی تاریخ کے لیکچرار رہے۔ انھوں نے ایک جریدے'' دی مڈل ایسٹ جرنل'' جلد 4 میں (1950ء میں) ایک مضمون لکھا، جس کاعنوان '' حیدرآباد: مسلمانوں کے لئے ایک المیہ'' تھا۔ اس میں انھوں نے بھی تسلیم کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان قتل اور ہزاروں بے گھر کئے گئے۔ جو بچ گئے وہ سخت خوف کا شکار ہوئے۔ 'پولیس ایکشن' کے بعد کی کہانی بھی بہت سنگین تھی''۔انھوں نے اپنے مضمون میں کچھ دیگررپورٹس کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق ریاست حیدرآباد میں قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد50ہزار سے زائد تھی جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد 2لاکھ تھی۔ انھوں نے بھی اپنے مضمون میں پنڈٹ سندرلال کی رپورٹ کا ذکر کیاہے۔
سندرلال اور ان کی ٹیم کے مطابق ایک طرف جہاں مسلمانوں کو بھارتی فوج نے غیر مسلح کردیا تھا تو دوسری طرف ہندو برادری کو غیر مسلح نہیں کیا گیا۔ 'کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے مسلمان مردوں کو مکانوں سے نکالا اور اور ان کو قتل کیا۔' اس خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔
پانڈو کاکہناہے کہ حیدرآباد کا مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ میں زندہ ہے، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ 1956ء میں ریاست حیدرآباد کو ریاست آندھرا میں ضم کردیاگیا اور اسے آندھراپردیش کانام دے دیاگیا۔ پانڈو کہتے ہیں کہ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ حیدرآباد کو نقشہ سے مٹادیاجائے۔ میراخیال ہے کہ 1969ء میں جب تلنگانا ریاست قائم کرنے کا مطالبہ سامنے آیا، اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس مطالبے سے اتفاق نہ کیا کیونکہ کیس اقوام متحدہ میں تھا، اور تلنگانا سارے کا سارا اسی علاقے میں قائم ہوناتھا جو ریاست حیدرآباد کا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد بھارت میں سب سے پہلے ستمبر1948ء میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی تھی۔اور اس کا نفاذ اس وقت ہوا جب 36000بھارتی فوجی حیدرآبادمیں داخل ہوئے تھے۔کیونکہ بھارتی حکومت کو خطرہ تھا کہ جب اقلیتوں کے علاقے پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ان کی طرف سے ردعمل ظاہر ہوسکتاہے۔
سندر لال رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 'کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ ایک جگہ ہم نے گیارہ لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔'رپورٹ میں کہا گیا ہے 'ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے۔'ان میں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ذبح کیاگیا۔ جارح بھارتی فوج نے مسلمانوں سے ہتھیار چھین کر یہاں کی ہندوآبادی کو فراہم کئے جنھوں نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام میں کردار اداکیا۔انھوں نے بھارتی فوجیوں کے ایما پر لوٹ مار میں بھی خوب حصہ لیا۔
اسی دوران نظام حیدرآباد نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا، تاہم عالمی ادارے نے اس کا نوٹس لینے سے انکار کردیا۔ یوں مسئلہ آنے والے برسوں میں بھی موجود رہا۔
چونکہ حکومت کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی، بہت ہی کم لوگ اس قتلِ عام کے بارے میں جانتے ہیں۔ ناقدین بھارتی حکومتوں پر اس بارے میں رپورٹ کو شائع نہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔ کنیہا لال مانک لال منشی (کے ایم منشی) ریاست حیدرآباد میں بھارتی حکومت کے ایجنٹ جنرل تھے، انھوں نے اپنی یادداشتیں The End of an Eraکے عنوان سے لکھیں تاہم انھوں نے بھی 1948ء کے اس قتل عام کا کہیں ذکر نہیں کیا۔
کے ایم منشی نے برصغیر میں آزادی کی تحریک میں اہم کردار اداکیا، ریاست گجرات سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم کے شعبے میں ان کی خدمات بہت نمایاں تھیں۔ وہ فکشن اور نان فکشن کے میدان میں بڑا نام رکھتے تھے۔ درجنوں ناول لکھے اور ڈرامے بھی۔ انھیں بھارت میں بہت زیادہ احترام حاصل ہے لیکن اب ان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ انھوں نے کیوں یہ اہم حقائق چھپائے؟ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ان کی طر ف سے حقائق چھپانا دراصل قومی مفاد میں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) کے رہنما پی سندرایا نے بھی تلنگانہ کے لوگوں کی جدوجہد پر ایک کتاب لکھی لیکن انھوں نے مسلمانوں کی مشکلات کا ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔
سندرلال رپورٹ کے شائع نہ کرنے کے حوالے سے کوئی سرکاری موقف نہیں دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اب یہ رپورٹ دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھی گئی ہے۔ گزشتہ اڑھائی عشروں کے درمیان اس رپورٹ کے اقتباسات کو مختلف لوگوں کے پاس پہنچے اور انھوں نے ان اقتباسات کا اپنے مضامین کا حصہ بنایا۔1988ء میں ایک ممتاز سکالر ڈاکٹر عمر خالدی کی ایک کتاب"Hyderabad After the Fall" منظرعام پر آئی۔اس میں سندرلال رپورٹ کے کچھ حصے شامل کئے گئے تھے۔ ڈاکٹرعمرخالدی میساچیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (امریکا) سے وابستہ ہیں۔ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، اور برطانیہ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی بے شمار کتب اب تک شائع ہوچکی ہیں جو زیادہ تر بھارتی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ہیں۔
اس رپورٹ کو کس طرح چھپایا اور دبایا گیا ، یہ بذات خود بڑی افسوسناک کہانی ہے۔ حال ہی میں یہ رپورٹ پوری کی پوری سامنے آئی تو''فرنٹ لائن'' جیسے ایک دوجرائد نے ہی اسے دوچار روز کے لئے موضوع بحث بنایا تاہم باقی ہرطرف خاموشی دیکھنے کو ملی۔ بھارت کے بعض حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس رپورٹ کو عام کیا جائے تاکہ لوگ اس کو پڑھ کر اس واقعے کے بارے میں مزید جان سکیں۔ تاہم من موہن سنگھ حکومت نے سختی سے لب بند کررکھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حیدرآباد دکن کے اخبارات بھی مجبور ہیں کہ وہ اس موضوع پر کچھ شائع نہ کریں۔ سندرلال رپورٹ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ایک حقیقت ہے، پورے بھارت میں کسی ایک فرد نے بھی اسے غلط قرارنہیں دیا لیکن یہ کیساجبر ہے کہ پورے ملک میں حتیٰ کہ ریاست حیدرآباد میں بھی کوئی فرد اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی جرات نہیں کررہا۔ حال ہی میں ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی نے حیدرآباد کے قتل عام پر ایک رپورٹ شائع کی ہے، لیکن اس کے بعد بھی بھارت میں کہیں حرکت نظر نہیں آئی۔
قاسم رضوی پر الزام اور حقیقت
حیدرآباد آپریشن میں بھارتی فوج کے کردار پر پردہ پوشی کرنے والا طبقہ اس قتل عام کا بنیادی ذمہ دار نظام حیدرآباد کے قریبی ساتھی قاسم رضوی کو قراردیتاہے۔ یادرہے کہ قاسم رضوی مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بھی تھے۔ اوریہ وہی جماعت ہے جس کے سربراہ نواب بہادریارجنگ بھی رہے ہیں۔ ایک بھارتی مورخ نریندرا لوتھر کا کہناہے کہ قاسم رضوی کی وجہ سے جتنا ریاست حیدرآباد کو نقصان پہنچا، شاید ہی کسی دوسرے نے پہنچایا ہو۔انہی کی وجہ سے ''پولیس ایکشن'' کرنا پڑا۔
ایک مورخ پی وی کیٹ بھی ہیں، جنھوں نے اپنی کتاب "Marathwada Under the Nizams" میں قاسم رضوی کو ایسا متعصب مسلمان قراردینے کی کوشش کی جو ہندوؤں کو مسلمانوں کا غلام رکھنے کا علمبردار تھا۔ پی آر راؤ بھی اپنی کتاب "History and Culture of Andhra Pradesh" میں قاسم رضوی پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے ایک متعددمسلمانوں بالخصوص مسلم رہنما شعیب اللہ خان کو محض اس وجہ سے قتل کرادیاتھا کہ وہ رضوی کے رضاکاروں کے مخالف تھے اور ریاست حیدرآباد کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔
پی وی کیٹ نے رضاکاروں پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ریپ، جلاؤگھیراؤ، قتل اور لوٹ مار کرتے رہے۔ اسی قبیل کے دوسرے ہندو مورخین ، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا بھی کہناہے کہ قاسم رضوی کی تقریروں سے جہاں حیدرآباد کی ہندو آبادی کی دلآزاری ہوتی تھی وہاں ان تقریروں سے بھارتی حکمران اور فوج میں بھی اشتعال پھیلا۔یہ مورخین ایک بھونڈا جواز یہ بھی تراشتے ہیں کہ چونکہ قاسم رضوی نے یہ تاثردیاتھا کہ ریاست حیدرآباد کا ہرمسلمان رضاکار ہے، اسی لئے آپریشن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قاسم رضوی کو حیدرآباد کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دینا بڑی بدیانتی ہے۔ اگر قاسم رضوی متعصب اور زہریلے انسان ہوتے تو ان کی قائم کردہ رضاکارملیشیا میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کیوں موجود ہوتی۔ حقیقت ہے کہ قاسم رضوی ایسے تمام لوگوں کے دشمن تھے جو حیدرآباد ریاست کی سالمیت کے خلاف تھے۔ قاسم رضوی نے 13ستمبر1948ء کو گوشہ محل سٹیڈیم میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے لئے ایک بڑی تعزیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہزاروںحاضرین کو واضح الفاظ میں خبردار کیاکہ بھارت ریاست حیدرآباد پر چڑھائی کرنے والا ہے۔
اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ (وطن کا دفاع کرتے ہوئے ) اپنے ملک (حیدرآباد) میںکسی بھی غیرمسلم کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کا کہنا تھا ''یادرکھئے! ہماری جنگ بھارت کے ساتھ ہے، ہندوؤں کے ساتھ نہیں۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں پر حملہ نہیں کرنا کیونکہ اللہ ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا جو ظلم کرتے ہیں۔'' قاسم رضوی پرلگائے جانے والے الزامات اس وقت ازخود غلط ثابت ہوجاتے ہیں جب سندرلال رپورٹ کا مطالعہ کرلیاجائے۔ انھیں ایک جارح کردار کے طورپر پیش کرنے والے بذات خود متعصب ہیں۔ اور تاریخ نے ایسے مصنفین اور مورخین کو اپنے دامن میں جگہ دینے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
بھارتی دانش ور اور اخبارات کیا کہتے ہیں؟
اس قدر بڑے قتل عام کے بارے میں ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی اور دوبھارتی اخبارات وجرائد میں رپورٹس شائع ہونے کے بعد بھی بھارتی دانشور عین اسی طرح خاموش ہیں جس طرح حکمران۔ ستم تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار بھی مسلمانوں کے اس قتل عام پر بولنے سے گریز کررہے ہیں۔ ان کا رویہ بھی اس 80سالہ ہندو بزرگ برگلانراسنگھ راؤ جیسا ہے جس کا تعلق حیدرآباد ریاست سے ہی تھا، اس نے مسلمانوں کے قتل عام کے سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں لیکن وہ اس موضوع پر بولنے سے کترا رہاتھا۔ اس کا کہناتھا '' ہم اس ملک میں بہت سے تنازعات اور مسائل کے درمیان جی رہے ہیں، ایسے میں اب میں کچھ بول کر ایک نئی مصیبت نہیں کھڑی کرناچاہتا۔''
گزشتہ برس بھارتی اخبار'' دی پائنیر'' نے حیدرآباد قتل عام کی ذمہ داری سردار پٹیل پر عائد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نہرو مسئلے کا حل براستہ اقوام متحدہ چاہتے تھے۔ اس مسئلے پر انھوں نے سردار پٹیل کوکابینہ کے اجلاس میں ڈانٹ پلائی تھی اور انھیں ایک متعصب ہندو قراردیاتھا۔نہرو نے سردار پٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا'' میں آپ کی تجاویز کا حصہ نہیں بنوں گا۔'' نہروکی یہ بات سن کر سردارپٹیل ششدر رہ گئے، پھر انھوں نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات سمیٹے اور کانفرنس روم سے باہر نکل گئے۔ اس کے بعد سردارپٹیل کبھی کابینہ کے اجلاس میں نہیں گئے تھے۔ نہرو اور ان کی پھر کبھی نہ بن سکی۔ نہرو ان سے اس قدر ناراض تھے کہ انھوں نے سردارپٹیل کی آخری رسومات میں نہ صرف خود شرکت نہ کی بلکہ بھارتی صدر راجندرپرشاد کو بھی روکاتھا۔ البتہ حکومتی سیکرٹریوں سے کہاتھا کہ وہ اپنے خرچ پر ہی پٹیل کی آخری رسومات میں شرکت کرسکتے ہیں۔
ریاست حیدآباد... قیام سے قتل عام تک
ریاست حیدرآباد مغل بادشاہت کے خاتمے پر نظام الملک آصف جاہ نے1724ء میں قائم کی تھی۔ یہاں کے حکمران مسلمان تھے لیکن آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ 1798ء میں حیدرآباد پہلی ریاست تھی جو سبسڈری الائنس کی پالیسی کے تحت برطانوی راج کی حفاظت میں آگئی تھی۔برطانیہ نے 1947ء میں برصغیر سے نکلتے ہوئے حیدرآباد سمیت دیگر نوابی ریاستوں کو پیشکش کی کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی سے بھی الحاق کرسکتے ہیں۔تیسرا آپشن بھی تھا کہ وہ خودمختار بھی رہ سکتی ہیں۔اس وقت ساتویں نظام میرعثمان علی کی سربراہی میں ریاست حیدرآباد برصغیر پاک وہند کی سب سے زیادہ خوشحال ریاست تھی۔ وہ اسلامی مساوات کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والے شخص تھے ۔ اکثرکہاکرتے تھے کہ ان کی ریاست میں مسلمان اور ہندو دوآنکھوں کی مانند ہیں۔ان کی ریاست کا رقبہ 82مربع میل سے زائد تھا۔آبادی ایک کروڑ60لاکھ تھی جس میں سے 85فیصد آبادی ہندوتھی۔ ریاست کی اپنی فوج، ائرلائن، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم، ریلوے نیٹ ورک، پوسٹل سسٹم ، کرنسی اور ریڈیوبراڈکاسٹنگ سروس تھا۔ نظام نے دیگر565ریاستوں کے برعکس اپنی ریاست کو خودمختار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ریاست کے نظام نے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ ریاست حیدرآباد کو برٹش کامن ویلتھ کا حصہ بنالے تو یہ درخواست مسترد کردی گئی۔ اس کے بعد بھارتی وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نظام سے درخواست کی کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیں تاہم نظام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا بلکہ15 اگست1947ء کو اپنی خودمختاری کا اعلان کردیااور مکہ مسجد میں نمازشکرانہ کا اہتمام کیا۔ یادرہے کہ اسی روز بھارت نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کیاتھا۔
بھارتی قیادت کوپسندنہیں تھا کہ ملک کے قلب میں ایک خودمختارریاست قائم رہے اور وہ بھی مسلمانوں کی حکمرانی میں۔ چنانچہ سردار پٹیل نے گورنرجنرل لارڈماؤنٹ بیٹن سے اس مسئلہ پرملاقات کی۔دوسری طرف بھارتی قیادت نے حیدرآباد کوبزورقوت بھارت کاحصہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ لارڈماؤنٹ بیٹن نے سردارپٹیل کو نصیحت کی کہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے، طاقت استعمال نہ کی جائے۔ مذاکرات کی میز بھی سجائی گئی ۔ نظام نے اپنا تین رکنی وفد دہلی بھیجا۔ مذاکرات کا نتیجہ یوں نکلا کہ 29نومبر1947ء کو ایک معاہدہ طے پاگیا جس کے مطابق ایک سال کے لئے ریاست کے مقام کو جوں کا توں رکھاجائے گا۔
ایک طرف یہ معاہدہ ہوا، دوسری طرف بھارت نے ریاست حیدرآباد کو جانے والے تمام راستے بند کردئیے جس کی وجہ سے اس کا اردگرد کے تمام علاقوں سے رابطہ مکمل طورپر منقطع ہوگیا۔بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ ریاست حیدرآباد کی ہرقسم کی ناکہ بندی کرنے سے ریاستی حکمران بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور ہوجائیں گے۔ تاہم نظامِ حیدرآباد اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے۔البتہ وہ اب بھی برٹش کامن ویلتھ کا حصہ بننے کو تیارتھے۔ بھارتی خطرناک عزائم کو محسوس کرتے ہوئے نظام نے امریکی صدر ٹرومین اور اقوام متحدہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کو کہالیکن ان کی بات پر کسی نے غور نہ کیا۔یوں بھارت کو شہہ مل گئی ریاست حیدرآباد کو بزورقوت اپنے ساتھ شامل کرنے کی۔ کم ازکم چالیس ہزار اور بعض رپورٹس کے مطابق دو لاکھ افراد کو ہلاک، خواتین کی عصمت دری کرنے کے بعد یہاں پر بھارتی پرچم لہرادیاگیا۔