نگینے ۔۔۔۔۔ آب گینے

امیتھسٹ جس کے پاس ہو اسے دھاتوں کے کاروبار میں بہت فائدہ رہتا ہے اور اس پتھر کا پہننا عارضی پیاس کو دور کرتا ہے۔


درنجف کی عظمت میں اور کوئی پتھر اس کے ہم رتبہ نہیں۔فوٹو : فائل

KARACHI: بلور (Crystal)

اس کو انگریزی میں (Crystal)کرسٹل اور عربی میں حجرالبلورکہتے ہیں۔ یہ مشہور اور خوش نما پتھر ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ منجمند پانی ہے اسی لیے انگریزی میں اسے کرسٹل کہتے تھے، جس کا مصدر ایک لفظ ہے جس کے معنی برف کے ہیں۔ اس مزہ پھیکا اور سرد وخشک ہے۔ تراشنے سے قبل اس کی صفائی اور چمک نمک کے مانند ہوتی ہے۔ بلور سے مختلف برتن، فانوس، دوربین اور دیگر طرح طرح کی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کا استعمال دنیا میں اس قدم عام ہوگیا ہے کہ بلور کے کام کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ اصل ہے۔ اس میں(Hardness) 7 ہے اور اس کے اندرسیلیکون ڈائی آکسائیڈ اور بریلم موجود ہے۔

بلور کی حیرت انگیز صفات:
زمانہ قدیم میں لوگ کرسٹل کو اس لیے پہنتے تھے کہ اس سے بے خوابی کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا تھا، اس کو نظر کے سامنے رکھنے سے امراض چشم کو فائدہ ہوتا ہے، بینائی میںاضافہ ہوتا ہے، آنکھوں میں چمک بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پھٹکری سرہانے رکھ کر سونے سے سکون کی نیند آتی ہے اور برے تصورات اور پریشان کن خوابوں سے نجات ملتی ہے، اس کو لاکٹ کی طرح عورت کے پستانوں پر لٹکانے سے دودھ میں کمی کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اوردودھ بڑھ جاتا ہے۔ اس کی انگوٹھی عسرالبول ُیشاب کی کمی) کے عارضے میں فائدہ مند ہے، اس کو پاس رکھنے سے دانتوں کا درد ختم جاتا رہتا ہے۔ جوبچے سوتے میں دانت پیستے ہیں اور چونک کر اٹھ جاتے ہیں انہیں گلے میں لٹکانے سے خوف ختم ہو جاتا ہے اور بچہ چین سے سوتا ہے۔



بلور کا طبی نقطہ نظر:
کرسٹل کا مزاج سرد وخشک ہوتا ہے، اس کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔ طبی طریق پر اس کا استعمال انسانی جسم کے لیے کئی امراض کا شافی علاج سمجھا جاتا ہے، اس کا سرمہ آنکھ کی سفیدی اور پلکوں کی خارش دور کرتا ہے، یہ آنکھ کا جالا کاٹتا ہے۔ بچوں کے رعشے کو دور کرتا ہے، کالی کھانسی اور دمے کے مرض میں مفید قرار دیا گیا ہے، گردے اور مثانے میں موجود پتھری کو خارج کردیتا ہے، گردے کے درد میں شفا دیتا ہے۔ پرانے سر درد میں اس کا استعمال فائدہ دیتا ہے۔ جس عورت کا دودھ سوکھ گیا ہو ، اس کو چھاتی پر ملنے سے دودھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

بلور کو زمردی رنگ دینا:
سونا مکھی، اصلی روغن گائو، گائے کے پتے کے پانی میں سب کو خوب کھرل کرلیں اور بلور مصفا جِلا کئے ہوئے پر یہ آمیزہ مل کر تین گھنٹے تک بلور تک محفوظ رکھیں۔ جب خشک ہو جائے تو زنگار اور سونا مکھی کو کھرل کرکے اس پر لیپ کردیں اور پھر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں، بعد میں تانبے کی ڈبیوں میں رکھ کر لیموں کا عرق اس میں ڈال دیں اور چولھے کے قریب گرم جگہ پر رکھ دیں، تین دن تک گرم جگہ پر رکھنے کے بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔ بلور مثل زمرد کے ہو جائے گا۔

بلور کو نیلمی رنگ دینا:
بلور کشمیری، بلا داغ، حسب ضرورت لے کر خوب مجلیٰ ومصفٰی کرلیں اور سان پر نگینہ ساز سے پہلو بنوا کر ترشوالیں۔ اب سنگ سلیمانی پیس لیں، بعد میں یہ پسا ہوا سنگ سلیمانی کھٹے لیموں کے عرق میں پھر پیسیں اور نگینہ پر مل کر خشک ہونے کو رکھ دیں۔ جب پوری طرح خشک ہوجائے تو اسے شیشے کی گرم بھٹی(جس میں شیشہ کی چوڑیاں بنتی ہیں) کے اندر ایک گھنٹہ کے لیے رکھ دیں اور ایک گھنٹے بعد نکالیں، اگر صحیح اور پورے ایک گھنٹے کے بعد نکالیں گے تو نیلم کا نہایت عمدہ اعلیٰ رنگ آجائے گا۔



بلور کو یاقوتی رنگ دینا:
بلور کشمیری کو صاف شفاف کرلیں۔ مجیٹھ (ایک سرخ رنگ کی جڑی بوٹی، جسے توڑا جائے تو اندر سے بھی سرخ ہوتی ہے) کو پیس کر کپڑے میں چھان لیں، تھوڑا سا موم ملا کر آگ پر گداز کریں۔ اس کے بعد اس میں انار کے پھولوں کا عرق دو تولہ ڈالیں۔ پھر موم کو سب اجزاء کے ساتھ ملا کر پکائیں۔ پانی بالکل خشک ہو کر ایک دم سرخ رنگ رہ جائے تو بلور کے نگینہ کو گرم کرلیں، اس قدر کہ ہاتھ پر رکھنے سے ہاتھ نہ جلے۔ اس نگینے کو دوا بنے ہوئے آمیزے میں ڈبو دیں او ر جس برتن میں نگینہ رہے، اس برتن کو گرم بھوبھل میں دبا دیں، بار بار یہ عمل کرنے سے بلور یاقوتِ رمانی کی طرح دمک اٹھے گا لیکن ہلکی آگ کا خاص طور پر خیال رکھا جائے، زیادہ گرم اور زیادہ سرد رہنے پر بلور رنگ نہیں پکڑے گا۔

بلور کو برنج دمشقی رنگ دینا:
تانبے کا برادہ اور اس کے وزن کا ایک چوتھائی جست نرم لے کر منقے کے شیرے میں حل کرلیں، پھر اس کی ٹکیہ بنا کر کسی کورے سکورے میں رکھ کر آتش دان میں آگ جلا دیں، یہ جل کر سیاہ اور سخت ہو جائے گا۔ بعد میں اس کو پیس کر دوا کے مجموعی وزن سے تین حصہ پسا ہوا شیشہ انگلی سے ملا دیں۔ پھر کھٹائی میں رکھ کر نہایت تیز آنچ میں اس قدر گداز کریں کہ تمام اجزاء باہم مخلوط ہو جائیں۔ بس برنگ دمشقی تیار ہوگا۔اگر صحیح گداز کیا گیا تو بلور برنج دمشقی عمدہ تیار ہوگا۔



کٹیہلا (Amethyst)
اس پتھرکو اردو میں کٹیہلااو انگریزی میں(Amethyst) امیتھسٹ کہتے ہیں اور یہ اسی نام سے مشہور ہے۔ یہ پتھر زیادہ تر گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے لیکن نیل گوں سرخ بھی نکل آتا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ ارغوانی رنگ کا پتھر ہے، اس کو عقیق کی قسم شمار کیا جاتا ہے۔ بعض ماہرین اس پتھر کو ارغوانی رنگ کا بھیکم بھی کہتے ہیں، اس کی7(Hardness) ہے اور اس میں سیلیکون ڈائی آکسائیڈ موجود ہے۔ اس پتھر کو کئی زیورات میں جڑا جاتا ہے، اس پر نقش کاری بھی کی جا سکتی ہے ۔

جائے پیدائش:
سب سے اچھا ایمے تھسٹ ہندوستان، ایران، اسپین، برازیل، سائبیریا، سراندیپ، امریکا، چین، آئرلینڈ، سری لنکا اور افریقا میں پایا جاتا ہے ۔

شناخت:

یہ عقیق سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اس کا رنگ نیلا، یا ارغوانی ہوتا ہے، بعض بے رنگ بھی ہوتے ہیں۔ اس پتھر کو گرمی پہنچائی جائے تو سفید یا دودھیا ہو جاتا ہے۔
امیتھسٹ کی اقسام: امیتھسٹ کی اقسام درج ذیل بتائی جاتی ہیں
1۔ انڈین امیتھسٹ: یہ بھارت میں ملتا ہے اور اس کا رنگ ہلکا ارغوانی ہوتا ہے۔
2۔ ہسپانوی امیتھسٹ: یہ قسم اسپین میں پائی جاتی ہے اس کی رنگت بھی عمدہ اور ارغوانی ہوتی ہے۔ 3۔ سیلونی امیتھسٹ: یہ سیلون میں پایا جاتا ہے۔
4۔ سائیبرین امیتھسٹ: امیتھسٹ کی یہ قسم سائبیریا میں پائی جاتی ہے۔



امیتھسٹ کی حیرت انگیز صفات:
امیتھسٹ جس کے پاس ہو اسے دھاتوں کے کاروبار میں بہت فائدہ رہتا ہے اور اس پتھر کا پہننا عارضی پیاس کو دور کرتا ہے، ذائقے کی حس کو بڑھاتا ہے، اس میں نشہ کو دور کرنے کی بھی طاقت ہے اور اس پتھر کے نام کی وجہ تسمیہ بھی یہ ہی ہے کیوںکہ زمانہ قدیم میں شرابی اس پتھر کو اپنی گردن میں لٹکاتے تھے تاکہ زیادہ نشہ نہ ہو۔ اس پتھر کے پہننے سے خیالات، جذبات اور تصورات پاکیزہ ہوتے ہیں، قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے، اسے پہننے والے کے اعصاب بیدار رہتے ہیں۔ یہ پتھر خود شناسی کا جوہر پیدا کرتا ہے، اس کو پہننے والا اپنے اندر ایک نئی زندگی محسوس کرتا ہے، جولوگ ادراک ماورائے حواس کی مشقیں کرتے ہیں، ان کے لیے اس پتھر کا پہننا بہت فائدہ مند ہوتا ہے، اس کا پہننا اعصابی تنائو کو ختم کرتا ہے، طبیعت میں بے چینی کی کیفیت کو دور کرتا ہے۔

امیتھسٹ کا طبی نقطۂ نظر:
طبی طریق پر امیتھسٹ کا استعمال بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اس کا کشتہ نشے کی شدت کو زائل کرتا ہے۔ تھکاوٹ اور سانس پھولنا اس کے استعمال سے دور ہو جاتا ہے۔ خناق اور کالی کھانسی میں اس کا کشتہ اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، پٹھوں کی تقویت کے لیے فائدہ مند ہے، بچوں کو متعدی امراض سے بچاتا ہے، پولیو کے حملے کوروکتا ہے، اس کا استعمال ہڈیوں میں فاسفورس اور کیلشیم کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ عورتوں کے لیے اس پتھر کا استعمال مفید ہوتا ہے، رحم کی مختلف شکایات کو دور کرتا ہے، رحم کے ورم اور سوزش کوختم کرتا ہے، تناسلی اعضاء کو قوت دیتا ہے، مثانے کی شکایات کو رفع کرتا ہے۔ اس کا استعمال تشنگی کی زیادتی کو دور کرتا ہے۔

درِ نجف:
اس پتھر کی رنگت سفید اور چمک بلوریں ہوتی ہے۔ نجف اشرف عراق میں نکلتا ہے، اس لیے اس کو درنجف کہتے ہیں۔ اس لیے اس زمین کو بڑی فضلیت وشرف حاصل ہے۔ اس کی عظمت میں اور کوئی پتھر اس کے ہم رتبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیداوار بہت زیادہ رکھی ہے اورقیمت بھی اس کی ہر شخص کی دست رس میں ہے تاکہ امیر و غریب اسے پہن سکے۔



درنجف کی اقسام: اس کی دو ہی اقسام ہیں
1۔بَرّی:۔ اس پتھر میں چمک کم ہوتی ہے۔
2۔بحری:۔ اس کی یہ قسم انتہائی صاف، شفاف اور بہت زیادہ چمک دمک رکھتی ہے، اسے درنجف کی اعلی ترین قسم قرار دیا جاتا ہے۔
در نجف کی حیرت انگیز صفات: اس پتھرکوجو بھی شخص پہن لے، اسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ طبیعت میں جوش اور مسرت پیدا کرتا ہے، مزاج میں بشاشت پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک نظر نواز سنگ پارہ ہے، اسے دیکھنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے، امراض چشم اور آنکھوں میں درد کی علامات دور کرتا ہے، مصائب وآلام سے نمٹنے کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔

موئے نجف (Rut Quartz)
بلوری چمک کا سفید، گرے، ہلکا پیازی رنگ کا دیدہ زیب قدرتی خوش نما شفاف پتھر ہے۔ اس میں قدرت نے بالوں کے مثل متوازی وغیر متوازی سیاہ، پیلی، سنہری لکیریں ڈال رکھی ہوتی ہیں، جو کہ باہر سے بالوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ یہ دنیا میں بہت سے ممالک میں نکلتا ہے، پاکستان میں بھی یہ بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔

اس کو روٹائیل کوارٹز بھی کہا جاتا ہے، یہ جتنا صاف شفاف ہو اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ پہلے پہل یہ صرف کالے رنگ کی وینز میں دست یاب تھا اور چوں کہ اس کو صوفیائے کرام بہت زیادہ پسند کرتے تھے اس کے بارے میں مشہور تھا اور ہے کہ اس میں پائے جانے والے بال حضرت علی ؑ کے بالوں کا عکس ہیں یا اس میں پائے جانے والے بال رسول خدا ؐ کی ریش مبارک کے بال ہیں، اس لیے بہت زیادہ لوگ اس کو پسند کرتے تھے اور تبرکاً اپنے گلے یا ہاتھ میں پہنتے تھے، حال آںکہ اگر ذرا سا بھی غور کیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ ان میں سے کچھ وینز بہت باریک ہوتی ہیں اور کچھ کافی موٹی جب کہ اگر یہ بال ہوتے تو ایک سائز میں ہوتے اور پھر اس نظریے کی نفی اس وقت اور زیادہ پختہ ہوگئی جب سنہرے اور سبز بالوں والے موئے نجف بھی دریافت ہوگئے۔ اس پتھر کی ہارڈنیس بھی 7 ہے اور بنیادی طور پر یہ بھی سیلیکون ڈائی آکسائیڈ ہے۔ مزاج میں معتدل ہے اور اس پتھر کے اثرات بھی درنجف سے ملتے جلتے ہیں۔

اس پتھر پر نظر رکھنا اس کا استعمال کرنا خداوندِعالم کی طرف رجحان بڑھاتا ہے، صحت وتندرستی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ دل کو کشادہ کرتا ہے اور کسی بھی قسم کے خوف سے دور رکھتا ہے، خصوصاً ایسے بچے جو رات کو سوتے میں ڈر جاتے ہیں یا چونک کر اٹھ بیٹھتے ہیں یا سوتے میں دانت پیستے ہیںیا رات کو سوتے میں بستر گیلا کردیتے ہیں، ان کے گلے میں ڈالنے سے ان امراض سے شفا ہوتی ہے اس کے علاوہ نفسیاتی امرا ض میں بہ طور لاکٹ استعمال کرنا مفید ہے۔ موئے نجف صوفیائے کرام اور درویش بڑی عقیدت سے استعمال کرتے ہیں، اسے زیادہ تر مسلم ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |