یوال نوح ہراری کی کتاب پر تبصرہ

یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اندازِبیان بہت پرکشش ہے۔ دلائل کو ایک روانی کے ساتھ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے


علی عمار یاسر November 11, 2019
تقریباً ہر اچھے بک اسٹور پر یوال نوح ہراری کی کتاب ’’سیپیئنز‘‘ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تقریباً ہر اچھے بک اسٹور پر یوال نوح ہراری کی کتاب ''سیپیئنز'' دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ابھی تک اس کمبخت کی کتاب پر پابندی کیوں نہیں لگی؟ اس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں: ایک تو یہ کہ کسی مومن صفت اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی نظر سے شاید یہ کتاب اب تک نہ گزری ہو، دوسری یہ کہ شاید ہمارے معاشرے میں کتاب پڑھنے والے طبقے میں اپنے وراثتی نقطہ نظر سے ہٹ کر کچھ اور پڑھنے کی برداشت ابھی تک موجود ہے۔ سیپیئنز انسان کے لاکھوں سالہ سفر کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے زمانہ حال تک کا قصہ بیان کرتی ہے۔ لیکن کتاب کے اختتام پر قاری کو اپنے ماضی سے آگاہی ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بارے میں ایک تشنگی سی برقرار رہتی ہے۔ اس تشنگی کے تدارک کےلیے اسی مصنف کی دوسری کتاب ''ہومو ڈیوس'' پڑھی جاسکتی ہے۔ اسی کتاب پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

ہراری کتاب کے آغاز میں کہتا ہے کہ پچھلے کئی ہزار سال سے زمانہ حال تک انسانیت کے ایجنڈے پر، اپنی بقا کو یقینی بنانے کےلیے، تین مسائل تھے: بیماری، قحط اور جنگ۔ ان تینوں عفریتوں نے تاریخ کے مختلف عرصوں میں کروڑوں انسانی جانوں پر ہاتھ صاف کیا۔ لیکن اب انسانیت نے ان تینوں پر قابو پا لیا ہے۔ اب انسانیت کے ایجنڈے میں موت کو شکست دینا شامل ہے۔ بظاہر یہ ایک ناممکن امر لگتا ہے لیکن آج کے انسان کے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جو پہلے زمانوں میں صرف دیوتاؤں کی صفت سمجھی جاتی تھیں۔ مثلاً ایک عام اینڈروئیڈ فون اور انٹرنیٹ کنکشن رکھنے والے صارف کے پاس قدیم کہانیوں میں مذکور ''جامِ جمشید'' سے لاکھوں گنا زیادہ ڈیٹا تک رسائی ہے۔

کیا انسان موت کو شکست دے سکتا ہے؟ اور انسان کا مستقبل کیا ہے؟ یہ معمہ حل کرنے کےلیے مصنف نے انسانیت کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔

الف۔ ''سیپیئنز'' یعنی انسانوں کا دنیا پر اختیار حاصل کرنا۔ اس مرحلے میں انسان نے پیداوری وسائل بشمول چرند پرند و درند کو تسخیر کیا اور اپنی بقاء کی جنگ میں جانوروں کو بے رحمی سے نہ صرف قتل کیا بلکہ اپنا مطیع و فرماںبردار بننے پر مجبور کیا۔ اسی طرح نباتات و حیوانات کو اپنے مقاصد کے حصول کےلیے اپنے حسبِ منشاء استعمال کیا۔

ب۔ دنیا کو تسخیر کر لینے کے بعد انسانیت کو ضرورت پیش آئی کہ اپنی زندگی کو کوئی معنی دیا جائے۔ اس مقصد کےلیے انسان نے مختلف کہانیاں گھڑیں۔ ان کہانیوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انسانیت نے اپنی بقاء کےلیے ایک مشترکہ جدوجہد کی، زندہ رہنے کے کچھ اصول و ضوابط مقرر کیے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ایک کہانی کی افادیت ختم ہوئی اور لوگوں کا اس پر اعتبار کم ہونا شروع ہوا تو انسانیت نے کوئی اور کہانی گھڑ لی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنی ہی گھڑی ہوئی کہانی کو انسانیت نے سچ تسلیم کرنا شروع کردیا، بلکہ اس کے تحفظ کےلیے لاکھوں انسانوں نے ایک دوسرے کا بہیمانہ قتل بھی کیا۔ مثلاً انسانوں کی ایک کثیر تعداد نے یہ کہانی گھڑی کہ سونا ایک قیمتی دھات ہے۔ حالانکہ بظاہر چمک دمک کے علاوہ سونے کا عملی طور پر ایک عام انسان کو کوئی فائدہ نہیں۔ نہ اسے کھایا جا سکتا ہے، نہ پیا جاسکتا اور نہ سونے سے کسی بیماری کا علاج ہوتا ہے۔

اس کہانی کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ انسان نے سونے کو خدمات و مصنوعات کے معاوضے کے طور استعمال کرنا شروع کردیا۔ یوں اشیاء کی قیمتوں کے ایک متفقہ معیار (اسٹینڈرڈ) پر ایک معاشرے کے لوگ عمل کرنے لگے کہ فلاں چیز کے بدلے اتنا سونا دینا پڑے گا۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اس بےفائدہ دھات کے حصول کےلیے انسانوں نے جنگیں لڑیں، قتل و غارت کی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہراری نے ان ''کہانیوں'' کے تذکرے میں مذہب، فلسفہ، وطنیت اور بادشاہت کے ساتھ ساتھ کمیونزم اور لبرل ازم کو بھی شامل کیا ہے۔

ج۔ اب ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، انسانیت دنیا پر سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے اور رفتہ رفتہ مشینیں یا روبوٹ انسانوں کی جگہ لیتے جارہے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ سائنس جتنی چاہے ترقی کر لے، کچھ نہ کچھ چیزیں ''ہمیشہ'' صرف گوشت پوشت کے انسان ہی کر سکیں گے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ''ہمیشہ'' سے مراد، بقول ابن انشاء، ''کچھ سال، مہینے، دن لوگو!'' ڈرائیونگ ہی دیکھ لیجیے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک ڈرائیونگ ایسا پیشہ تھا جس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اسے ٹیکنالوجی سے سب سے کم خطرہ ہے۔ لیکن اب یہ عالم ہے امیزون کے ٹرک اور گوگل کی گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں۔

گاڑیاں تو رہیں ایک طرف، اب بغیر پائلٹ اُڑنے والے ڈرون بھی دستیاب ہیں۔ کمپیوٹرائزڈ ٹیسٹ ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ اس مریض کو دوا کون سی دینی ہے۔ حتیٰ کہ اسٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈالر مالیت کے تجارتی سودے بھی اب روبوٹس کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہراری نے ایک بہت دلچسپ مثال دی ہے: 23 اپریل 2013 کے روز، دوپہر ایک بج کر 7 منٹ پر شامی ہیکروں نے ''ایسوسی ایٹڈ پریس'' کا آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ ہیک کرکے ٹویٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس پر حملہ ہوا ہے اور صدر اوباما زخمی ہیں۔ تجارتی کمپنیوں کے الگورتھمز، جنہیں آسانی کےلیے روبوٹ کہا جا سکتا ہے، ٹویٹس پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جب ایک معتبر ادارے نے وائٹ ہاؤس پر حملے کی خبر دی تو ان روبوٹس نے اندھادھند شیئرز بیچنا شروع کردیئے۔ کمپنیوں کو تین منٹ میں 136 ارب ڈالر کا خسارہ ہوگیا۔ ایک بج کر دس منٹ پر ایسوسی ایٹڈ پریس نے وضاحت کی کہ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا۔ روبوٹس نے خود بخود دوبارہ شیئرز خریدنے شروع کر دیئے اور صرف تین منٹ میں مارکیٹ دوبارہ پہلے والی پوزیشن پر آگئی۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں علاج معالجہ، تجارت، کھیتی باڑی، پیغامات کی ترسیل اور آمدورفت اور ان جیسے بے شمار کام مشینیں کر رہی ہوں، اُس دنیا میں سب سے قیمتی چیز انسان کا ڈیٹا ہے جسے پڑھ کر کمپیوٹر انسان کو سمجھتا اور اسی حساب سے ردِعمل بھی دیتا ہے۔ لیکن یہ سب سے قیمتی چیز انسان مفت میں بانٹے جا رہا ہے۔

بہت سے لوگ اب اس امر کی حمایت کر رہے ہیں کہ دنیا پر مشینیں حکومت کریں۔ یہ مشینیں انسان کو ویسے ہی اپنا مطیع بنا کر رکھیں جیسے انسان نے مویشیوں، پرندوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ یہ مشینیں فیصلہ کریں کہ کون سا انسان سسٹم کےلیے فائدہ مند ہے اور سسٹم کے وسیع تر مفاد میں کس کی زندگی کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ کونسی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہونی چاہیے، انسان کیا کھائے، کیا پیے اور کیسے سوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کاہل، بددیانت اور بےفائدہ انسان تلف کردیئے جائیں گے اور صرف ''سپر ہیومنز'' باقی بچیں گے جو مشینوں کی مدد سے موت کو شکست دے دیں گے۔ ویسے بڑی حد تک اب بھی مشینیں ہی ہماری زندگی کے بیشتر فیصلے کر رہی ہیں۔

بہرحال یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اندازِبیان بہت پرکشش ہے۔ دلائل کو ایک روانی کے ساتھ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پڑھنی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں