عالمی سفارت کاروں کو سعودی عرب کے اقدام پر حیرت و اظہار افسوس

فیصلے کی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی،سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، سعودی جھنجلاہٹ سمجھتے ہیں،فرانس


Online October 20, 2013
روس، سعودی عرب سے ملکر کام جاری رکھیں گے، امریکی محکمہ خارجہ۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہاہے کہ انھیں سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل کی نشست مسترد کرنے کے فیصلے کی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

اس سے قبل سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے سلامتی کونسل پردہرے معیارکا الزام لگا کراس کی غیرمستقل نشست ٹھکرادی تھی۔ وزارت کاکہنا تھاکہ پہلے اقوام متحدہ کی اصلاح ہونی چاہیے، سلامتی کونسل شام اور دنیا کے دوسرے تنازعات میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میںناکام رہی ہے۔ بان کی مون نے یہ بتانے سے انکار کیاکہ آیاوہ سعودی شاہ سے اس معاملے پربات کریںگے۔ سعودی عرب کے اس غیر معمولی اقدام پر سفارتکاروںمیں حیرت اور صدمے کے تاثرات نظرآئے۔ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیرجیرارڈ اروڈنے کہاکہ ہمارا خیال ہے کہ سعودی عرب سلامتی کونسل میںبہت مثبت کردار ادا کرسکتا تھالیکن ہم سعودی عرب کی جھنجلاہٹ کوبھی سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل 2برس سے زائدعرصے سے عمل کرنے میںناکام رہی ہے۔ تاہم روس کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کوتعجب خیزقرار دیتے ہوئے کہاہے کہ سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل پرشام کے معاملے پرتنقید حیران کن ہے۔



سعودی عرب شام کے باغیوںکی حمایت کرتاہے اوراسے شکایت ہے کہ بین الاقوامی برادری نے شام کے خلاف کارروائی نہیںکی۔ کونسل پردہرے معیارکا الزام لگانے اوراصلاح کے مطالبے کے علاوہ سعودی وزارت خارجہ نے 65برس سے فلسطین کامسئلہ حل کرنے میںناکامی کابھی ذکرکیا اورکہا کہ اس کی وجہ سے متعددجنگیں ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے عالمی امن خطرے میںپڑا۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ سعودی عرب کئی برسوں سے سلامتی کونسل میںنشست حاصل کرنے کے لیے کوشاںتھا اس لیے یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کی جانب سے آیا ہوگا۔ ادھرامریکا نے سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل کی رکنیت مسترد کرنے کافیصلہ نظرانداز کردیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کاکہنا ہے کہ سلامتی کونسل کااہم کردارہے۔ مختلف ملکوںکی رائے مختلف ہوسکتی ہے۔ ترجمان نے کہاکہ سلامتی کونسل کی نشست مستردکرنے کافیصلہ سعودی عرب کااپنا ہے۔ اس فیصلے کے باوجودسعودی عرب کے ساتھ باہمی معاملات پرمل کر کام جاری رکھیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں