’’زندگی میں جو چاہا مل گیا اب دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں‘‘ ڈاکٹر سیمی نغمانہ

خاندانی میل جول سے صحیح معنوں میں لطف کوئٹہ جا کر ہی اٹھایا


Rizwan Tahir Mubeen March 30, 2017
مسلسل کام کیا، ایک دن کا بھی وقفہ نہیں، صدر شعبۂ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی ڈاکٹر سیمی نغمانہ کی کتھا

لہجے میں سلیقہ زیادہ ہے یا گفتار میں شیرینی کی افراط۔۔۔ بس، ملیے تو اِن کی باوقار شخصیت کے گرویدہ ہو جائیے۔۔۔ ایسے فرد کا میدان تدریس ہو تو زانوئے تلمذ طے کرنا کس قدر سہل ہو جاتا ہے۔ روایتی معنوں میں دیکھیے تو لفظ 'پروفیسر' کی کسی بھی کرخت تعریف پر وہ اب بھی پوری نہیں اترتیں۔۔۔ کہ اِن کی تو برہمی بھی اتنی درشت اور تلخ نہیں ہوتی، جتنا عمومی طور پر 'پروفیسر' کے لفظ سے جڑ سی گئی ہے۔۔۔ یہ صدر شعبۂ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر کا تذکرہ ہے۔

بٹوارے کے ہنگام میں ڈاکٹر سیمی کے والد صلاح الدین بسلسلۂ تعلیم علی گڑھ میںتھے۔ فوج سے وابستہ پھوپھا کو یہاں آنا تھا، چناں چہ دادا نے اِن کے والد کو پھوپھی کے ہم راہ کر دیا۔ باقی خاندان کان پور، علی گڑھ اور لکھنٔو میں رہا، چناں چہ یہاں پھوپھو کی حیثیت دادی کی سی تھی۔ والد سب سے چھوٹے تھے، ان کے سارے بہن بھائی اب فوت ہو چکے۔ علی سردار جعفری کی زوجہ سلطانہ جعفری ان کے والد کی چچا زاد بہن تھیں۔ ڈاکٹر سیمی کے والدین کی شادی راول پنڈی میں ہوئی اور وہ کچھ عرصے جہلم میں رہنے کے بعد کراچی آئے۔ اِن کے نانا بجنور سے تھے اور ریاست بہاول پور کے آب پاشی کے محکمے میں انجینئر تھے۔

ڈاکٹر سیمی نغمانہ کراچی میں پیدا ہوئیں، بچپن جمشید روڈ پہ گزرا، اس کے بعد نارتھ ناظم آباد مسکن ہوا۔ سرکاری اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ ویمن کالج (شاہ راہ لیاقت) سے ایف اے کیا، جہاں اردو کے تحریری مقابلوں میں اول آتیں۔ 1976ء میں نفسیات میں بی اے (آنرز) کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا، تو کالج کی استاد شمیم آرا ملک نے ان کا رجحان دیکھتے ہوئے کہا کہ 'صحافت' پڑھیں۔ یوں زندگی میں پہلی بار لفظ 'جرنلزم' اُن کے منہ سے سنا۔ اچھے طلبہ 'سائنس' پڑھنے والے ہی سمجھے جاتے۔ انہیں اپنے تمام بہن بھائیوں کے برعکس ادب وشاعری سے لگائو تھا، والدہ 'ادیب فاضل' تھیں، والد ان کے لیے جو کتب لاتے، موقع پا کر وہ بھی ان سے استفادہ کرلیتیں۔ والدہ کی نشست وبرخاست میں کلام غالب اور اقبال کا تذکرہ رہتا۔ اسکول میں دانستہ آرٹس چُنی، تو بڑی بہن (جو ایک کلاس آگے تھیں) کہتیں کہ مجھے اتنی شرم آتی ہے کہ جب میری سہیلیاں کہتی ہیں کہ تمہاری بہن آرٹس میں پڑھتی ہے۔

جامعہ کراچی میں جس برس داخلہ ہوا، تو 'آنرز' کے داخلے تجرباتی بنیاد پر شعبے کے بہ جائے کُلیے (فیکلٹی) میں ہوئے اور حتمی شعبے کا تعین ایک سال بعد نمبروں کی بنیاد پر ہوا۔ انہوں نے نفسیات کے لیے خوب محنت کی، لیکن بمشکل اے گریڈ لے پائیں، جب کہ 'صحافت' پر توجہ نہ دینے کے باوجود بہترین نمبر حاصل کیے۔ یوں 'شعبۂ صحافت' کی طالبہ ہوئیں اور پھر 'آنرز' میں ٹاپ کیا۔ ڈاکٹر سیمی کے بھی کئی نام وَر لوگ ہم جماعت رہے، جن میں مظہر عباس، اخلاق احمد، یوسف خان، اطہر جمال ابڑو، اسپورٹس صحافی ظفر اقبال وغیرہ نمایاں ہیں۔ کہتی ہیں کہ مظہر عباس بے حد غیر سنجیدہ ہوتے تھے، اب انہیں کہتی ہیں کہ 'کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی تمہاری تعریف بھی کرنا پڑے گی۔'

ایم اے فائنل میں واحد طالبہ تھیں، جس نے اختیاری 'ریسرچ رپورٹ' جمع کرائی، اس کے اگلے دن سے مہر سلطانہ کے ماہ نامہ 'روپ' میں مدیر کے فرائض ادا کیے، یہ سلسلہ چھے ماہ رہا۔ کہتی ہیں کہ 'زندگی میں مسلسل کام کیا ہے، ایک دن کا بھی وقفہ نہیں۔' 1981ء کے آخر میں شعبۂ صحافت، جامعہ کراچی سے تدریسی سفر کا آغاز ہوا، جو 1984 تک رہا۔ زکریا ساجد اساتذہ کی عملی صحافت پر زور دیتے، چناں چہ 'جنگ' میں خواتین کے صفحے کی ادارت سے منسلک رہیں، اخبار کو جب ان کی تدریسی سرگرمیوں پر اعتراض ہوا، تو انہوں نے اخبار سے رخصت لی، پھر شادی ہوئی، تو بلوچستان چلی گئیں۔ رشتہ طے ہونے کے بعد ہونے والے شریک حیات طاہر محمود نے بلوچستان یونیورسٹی میں تدریس کی اسامی کا فارم بھیجا۔ وہ خود بھی بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ میں تدریس سے وابستہ تھے۔ ڈاکٹر سیمی شادی سے پہلے اپنی امی اور بھائی کے ہمراہ کوئٹہ جا کر انٹرویو دے آئیں، 1984ء میں ان کا انتخاب ہو گیا، 1985ء میں شادی کے بعد کوئٹہ اگٓئیں اور جنوری 1987ء میں انہوں نے جامعہ بلوچستان میں 'شعبۂ اِبلاغیات' کی بنیاد رکھی، جہاں 23 قیمتی سال نذر کیے۔ بطور لیکچرر تقرر ہوا اور ترقی کرتے ہوئے رئیس کلیہ فنون بنیں۔ 2010ء میں جامعہ اردو سے منسلک آگئیں، پھر وہاں بھی 'ڈین' آرٹس ہوئیں ۔ 2015ء میں جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئیں۔

ان کے ددھیا سسر محمد ایوب ڈاکٹر تھے، جو 1919ء میں قرول باغ، دلّی سے بلوچستان آئے۔ 1935ء کے زلزلے میں سرکاری امداد پہنچنے میں وقت لگا، تب تک وہ مستونگ میں ایک امدادی اسپتال قائم کر چکے تھے۔ برطانوی حکومت نے 'ڈاکٹر خان صاحب' کا خطاب دیا۔ مسلم لیگ (کوئٹہ) کے صدر رہے، 1965ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی، جب مسلم لیگ پر دوسرے لوگ غالب آئے، تو وہ بزنجو صاحب کی جماعت میں چلے گئے۔ بلوچستان میں شوہر کے نانا میاں محمد اسحق بھی ڈاکٹر تھے اور شاعر بھی کرتے، انہوں نے ندائے ناشط کے نام سے اخبار بھی نکالا۔ ننھیا ساس بھی ڈاکٹر تھیں۔ سسرال میں تعلیم کی یہ بڑھوتری انہیں اپنی قسمت پر نازاں کرتی ہے۔ پھپھیا ساس 1925ء میں پیلی بھیت سے خواتین کا رسالہ ''حرم'' نکالتی تھیں، جس میں ننھیا ساس، ساس اور سسرال کی دیگر خواتین لکھتی تھیں۔

باقی ہندوستان کے برعکس بلوچستان میں طباعت واشاعت کے حقوق کافی تاخیر سے 1938ء میں دیے گئے۔ اس لیے یہاں کے اخبارات دلی، کراچی، جیکب آباد اور لاہور وغیرہ سے شایع ہوتے، مگر اس سے پہلے ہی یہاں کی خواتین دشت صحافت میں تھیں۔ شادی کے بعد کنبے بھر کے میل جول اور رکھ رکھائو سے خوب متاثر ہوئیں، کہتی ہیں کہ 'خاندانی زندگی سے صحیح معنوں میں لطف کوئٹہ جا کر ہی اٹھایا۔'

ڈاکٹر سیمی کے شوہر طاہر محمود جامعہ کراچی شعبۂ خرد حیاتیات کے طالب علم رہے۔ حبیب پبلک اسکول کراچی کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ دونوں بیٹوں کے لیے ایسا اسکول چاہتے تھے، جہاں معیاری تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کے مواقع ہوں، چناں چہ انہوں نے خاندانی رِیت کے تحت چھٹی جماعت کے بعد دونوں بیٹوں کو کیڈٹ کالج مستونگ بھیجا۔ بچوں سے دوری ان کے لیے تکلیف دہ تھی، لیکن انہیں وقت ملا اور ایک ہی سال میں ادھوری 'پی ایچ ڈی' مکمل کر لی۔ بڑے بیٹے مصطفیٰ محمود نے ہمدرد یونیورسٹی، کراچی سے ایم بی بی ایس کیا، آغاخان اسپتال میں ہائوس جاب کی۔ اب یونیورسٹی ہاسپٹل گولوے (آئرلینڈ) میں ہیں۔ ان کی شادی ہو چکی ہے، ایک پوتا ہے، جب کہ چھوٹے بیٹے رافع محمود نے 'زیبسٹ' کراچی سے میڈیا سائنسز میں ماسٹرز کیا اور اب روزنامہ 'ایکسپریس ٹریبیون'سے وابستہ ہیں۔

بیٹی کی کمی کے بارے میں دریافت کیا، تو گویا ہوئیں کہ ہر اس چیز کی خواہش ہوتی ہے جو نہ ہو، جن گھروں میں بیٹیاں ہوں، اُن پر رشک آتا ہے۔ گھر میں بہو آنے کے بعد معلوم ہوا کہ بیٹیوں کی موجودگی سے مائوں کو کتنی مدد ملتی ہے۔ امورِ خانہ داری کے علاوہ کبھی مہمان آئیں، تو ان کی خاطرمدارت یا کہیں آنا جانا ہو، کافی سہولت رہتی ہے۔ تاہم انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ شاید بیٹیوں کی تربیت بیٹوں کے مقابلے میں مشکل ہے۔ اگر ان کی بیٹی ہوتی تو شاید انہیں زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا۔ ڈاکٹر سیمی نے کوئٹہ میں کراچی کو بہت یاد کیا، پلٹ کر یہ حالت دیکھی، تو بہت افسوس ہوا۔ کہتی ہیں بلوچستان میں اکثر گھروں میں اردو دوسری، بلکہ تیسری زبان ہوتی ہے، اس کے باوجود آج وہاں کا طالب علم یہاں سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔

اِن کے ذخیرہ کتب میں مختلف موضوعات کی ہزاروں کتب ہیں۔ کراچی لوٹتے ہوئے کتابوں سے بھری الماریاں کوئٹہ چھوڑ آئیں، کہ ان کی ضرورت وہاں والوں کو زیادہ تھی۔ کچھ کتابیں لے بھی آئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کو گھر قرار دیتی ہیں کہ اب بھی 'مالک' کی طرح وہاں جاتی ہوں، وائس چانسلر مُصر ہیں، کہ حالات ٹھیک ہو گئے، آپ واپس آجائیں۔'

امورخانہ داری اور باغ بانی کا شوق ہے، کراچی میں کوئٹہ جتنی وسیع جگہ میسر نہ ہوئی تو باغ بانی کا شوق کچھ محدود ہوا۔ پہناوا شلوار قمیص اور رنگ نیلا من کو بھاتا ہے۔ محققین میں ضمیر نیازی، اساتذہ میں ڈاکٹر انعام الرحمن اور شاعری میں ابن انشا کی گرویدہ ہیں۔ کتابوں میں مشتاق احمد یوسفی، صدیق سالک، اختر حسین رائے پوری، کرنل محمد خان اور ضمیر جعفری کی تصنیفات، ادب میں قرۃ العین حیدر اور الطاف فاطمہ دل لبھاتے ہیں۔۔۔ ناول ''آخر شب کے ہم سفر'' (قرۃ العین حیدر) کا سَحر جکڑ لیتا ہے۔ اب شوق پورے کرنے کا وقت نہیں ملتا، اس لیے کتابیں بھی صرف ضرورتاً پڑھ پاتی ہیں۔ فلمیں بھی شاذو نادر ہی دیکھتی ہیں۔ 'دل سے' 'آندھی' 'ویر زارا' اور 'رین کوٹ' پسند آئیں۔ کسی زمانے میں سنجیو کمار کی کلا کاری پسند رہی۔ گائیکی میں فریدہ خانم، ریشماں، طاہرہ سید کے علاوہ نورجہاں متاثر کرتی ہیں۔ بچوں کی کام یابیاں مسرت دیتی ہے، دکھ ، جانے والوں کا ستاتا ہے، 1990ء میں والد کا انتقال جیون کا دکھ بھرا واقعہ ہے۔ 2004ء میں والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ دونوں سانحات کے وقت کوئٹہ میں تھیں۔ ''زندگی جب تک ہے، فکریں تو رہتی ہیں۔'' شوہر کی صحت اور اپنے شعبے کی ترقی کے لیے زیادہ فکر مند ہیں۔

اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن تنگیٔ وقت دامن گیر ہے، شاید ریٹائرمنٹ کے بعد ہی وقت مل سکے۔ مقالے کے انگریزی ترجمے پر کام جاری ہے، چار ابواب مکمل کر چکی ہیں۔ ساتھ ہی متعدد طالب علموں کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کرا رہی ہیں، تحقیقی معیار پر سمجھوتا نہیں کرتیں، خود کو مشکل سپروائزر قرار دیتی ہیں کہ خود بھی محنت کرتی ہوں اور دوسروں سے بھی کراتی ہوں۔ ہرکام سوچ سمجھ کے کرتی ہیں۔ اس لیے کوئی پچھتاوا نہیں۔ کہتی ہیں 'خوش قسمت ہوں، زندگی میں جو چاہا، مل گیا، اب دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔

٭آواز اونچی ہونا ضروری نہیں!
جامعہ بلوچستان میں کچھ خود سر طالب علموں نے دیکھا کہ کراچی سے ایک 'لڑکی' آئی ہے، ایک دن انہوں نے کچھ کاغذات پر جبراً دستخط کرانا چاہے۔ یہ ایک استاد کے نام پر بینک سے قرض لینے کے حوالے سے ایک تصدیق نامہ تھا، جو اُن استاد کی مرضی کے بغیر تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے سختی سے انکار کیا اور کاغذ پھاڑ کر پھینک دیا۔ 'ٹیچر سوسائٹی' اور قائم مقام وائس چانسلر بھی اُن کا ساتھ نہ دے سکے، یہ 1989ء کی بات ہے، اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے، ڈاکٹر سیمی نے جامعہ سے اس لڑکے کے عدم اخراج کی صورت میں شکایت اکبر بگٹی تک لے جانے کا انتباہ کیا، چناں چہ اسے نکالاکیا گیا۔ ساتھ ہی وہاں دھونس دھمکی سے کام لینے والوں کو بھی واضح پیغام گیا۔ دیگر اساتذہ کہتے کہ آپ کو دیکھ کر ہمیں حوصلہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر سیمی کا ماننا ہے کہ اگر حق بہ جانب ہوں تو ہر مشکل نیا اعتماد دیتی ہے۔ آواز اونچی ہونا ضروری نہیں، آپ کی بات میں وزن ہے، تو لوگ سننے پر مجبور ہو جائیں گے۔

٭''ہم الطاف حسین پر ہنستے تھے!''
جامعہ کراچی میں 'آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن' (اے پی ایم ایس او) کی داغ بیل ان کی آنکھوں دیکھی ہے، کہتی ہیں کہ ہم الطاف حسین پر ہنسا کرتے تھے کہ چار لوگ 'منچ' پر ہوتے، تو چار ہی لوگ سننے کے لیے بیٹھے ہوتے۔ آتے جاتے ہم ان کو پھلانگ کر گزر جاتے، تو پتا چلتا کہ اچھا، یہ ان کا ''جلسہ'' ہو رہا ہے۔ 'اے پی ایم ایس او' میں ان کے بہت سے ہم جماعت شامل تھے، جو انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے، ان میں زیادہ تر سابقہ مشرقی پاکستان سے آنے والے طلبا تھے۔ 'اے پی ایم ایس او' بننے کی وجوہات سے سو فی صد اتفاق کرتی ہیں کہ 'خود ہم سے بھی جامعہ میں کہا جاتا، کہ آپ کا تعلق لکھنٔو سے ہے تو آپ وہاں جائیے۔ سیاسی طور پر بالیدہ لوگ کہتے کہ آپ خود کو سندھی کہیے، اپنی سرزمین تو آپ چھوڑ آئے، شناخت اور قومیت کے لیے تو جغرافیہ ضروری ہے۔ آپ کا توجغرافیہ نہیں، گویا آپ کی کوئی تاریخ بھی نہیں۔ اس کے ساتھ متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ افراد کو ملازمتوں کے مسائل تھے، سرکاری ملازمت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم چھے بہن بھائیوں کو اہلیت کے باوجود صرف مجھے سرکاری ملازمت ملی، وہ بھی بلوچستان جا کر! متوسط طبقے کے 'اردو گو' افراد سخت محنتی ہوتے تھے، یہ تباہی تو بہت بعد میں آئی، جس میں نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر لگا دیا گیا۔ حقوق کی اِس جدوجہد میں فائدے سے زیادہ نقصان سمیٹنے پڑے۔

٭سرمایہ دارانہ الجھنیں بڑا مسئلہ ہیں!
''11ستمبر کے واقعات کے بعد دنیا سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آنے والی الجھنیں بڑے مسائل ہیں۔ جیسے سرمائے کی ریل پیل کی وجہ سے ذرایع اِبلاغ میں اِن کا کردار بڑھ گیا ہے، جو شایع اور نشر ہونے والے مواد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اب ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیوں کر درمیانی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ معاشرے کی صورت گری کی اب کیا کیفیت ہو گی؟ کیا مدیر کی جگہ سرمایہ دار لے لے گا؟ کیا لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سوچنے والوں کا کردار صفر ہو جائے گا؟ کیا اچھی کتابیں چھپنا بند ہو جائیں گی اور کیا اچھی فلمیں بننا بند ہو جائیں گی؟ اب نئے عہد میں ہمیں یہ سوالات درپیش ہیں۔''

٭ڈاکٹر انعام الرحمن کی اصول پسندی
ڈاکٹر انعام الرحمن بہت مشاق، منظم اور قابل استاد تھے، اتنے اصول پسند تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جامعہ کے اصرار کے باوجود ایک دن بھی وہ یہاں نہ ٹھیرے، اور پھر روحانیت دنیا کے راہی بن گئے، سیمی نغمانہ نے ڈاکٹر انعام کی آہنی شخصیت میں گنجائش پیدا کی، خلاف معمول ان کی توجہ اور وقت لیا، ورنہ عموماً طالب علم ان کے قریب نہ جاتے تھے۔ 1983ء میں انہوں نے ہی اصرار کر کے سیمی نغمانہ کی رجسٹریشن پی ایچ ڈی میں کرائی، موضوع ''پبلک اوپینئن اِن پولیٹکل ڈیولپمنٹ اِن پاکستان 1958ء تا 1971ء'' تجویز کیا، لیکن سپروائزر نہ بنے، حالاں کہ اسی موضوع پر 1947ء تا 1957ء ڈاکٹر انعام کا پی ایچ ڈی تھا۔ زکریا ساجد نے یہ ذمے داری اٹھائی، جب وہ بلوچستان چلی گئیں، تو زکریا ساجد نے کہا آپ جہاں ہیں وہاں کا حق زیادہ ہے، بلوچستان کی صحافت پر کام نہیں ہوا، یوں ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع ''بلوچستان میں صحافت کی تاریخ'' قرار پایا۔

٭'گُم شدہ' جامعہ کراچی
ڈاکٹر سیمی نغمانہ 'گُم شدہ' جامعہ کراچی کو بہت یاد کرتی رہیں۔ اُس زمانے میں شہر بھر کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ایک یہی جامعہ تھی۔ طرح طرح کے رجحانات اور پس منظر کے طالب علم یہاں کا رخ کرتے، جس سے سیکھنے اور مشاہدے کے مواقع ملتے۔ اُس وقت جامعہ کراچی، ایک منفرد مواقع کا حامل ادارہ تھا۔ وہ ماحول طلبا کی صلاحیتوں کو مانجھ دیتا اور پھر طلبا اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے پہچانے جاتے۔ اساتذہ بہت وقت دیتے، طلبا کا جم غفیر اِن کے گرد رہتا، خامیوں پر توجہ ہوتی، خوبیوں کے تذکرے ہوتے۔ کہیں طلبا کی تحریریں ٹھیک ہو رہی ہیں تو کہیں نصیحت و سرزنش کی جا رہی ہے۔ طلبا 'الجامعہ' کے نام سے باقاعدہ رسالہ نکالتے، 'صحافت' کے طلبا بھی اپنے جرائد نکالتے، ہفتۂ طلبا منایا جاتا۔ کہتی ہیں کہ 'ہم وہ خوش قسمت نسل سے تھے، جس نے طلبہ یونین کے لگاتار چار چنائو دیکھے۔ جن کا سیاسی تربیت میں اہم کردار رہا۔ وہ زیادہ تر اپنی تعلیم پر توجہ دیتیں، سیاسی سوجھ بوجھ زیادہ نہ تھی۔ طلبا یونین کے پہلے انتخاب میں انہوں نے جمعیت کو ووٹ دیا، کہ انہوں نے داخلہ کرایا، جب کہ بعد میں انفرادی بنیاد پر حق رائے دہی کا تعین کیا۔

٭کوئٹہ سے واپسی
بلوچستان سے واپسی کا موضوع چھِڑا تو گویا ہوئیں کہ محبتوں والے شہر کو نفرتوں کی آگ میں لپٹتے دیکھا، تو یقین نہ آیا۔ دھمکیاں ضرور ملتی تھیں، لیکن کبھی ایسا نہ لگا کہ مجھے بھی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن پھر اس خوف کا غلبہ ہوا تو فوراً کراچی واپسی ہوئی۔ انہیں آنا تو تھا، لیکن یہ نہ سوچا تھا کہ اس کا سبب خطرات بنیں گے۔ جامعہ بلوچستان میں 'ڈین' (Dean) کی مسند پر تھیں، تو طالب علموں سے براہ راست رابطہ کم ہوا، 2008ء یا 2009ء میں ایک تنازع نمٹانے ''شعبۂ تعلیم'' گئیں، جہاں بی ایڈ کرنے والی اسکول کی اساتذہ سراپا احتجاج تھیں کہ 'ہمیں پشتون استاد سے نہیں پڑھنا، یہ متعصب ہیں۔' مجھے لگتا تھا کہ میرے سمجھانے سے سب مان جاتے ہیں، لیکن اس مسئلے کو حل کرانے میں ناکامی سے انہیں پریشان کُن صورت حال کا اندازہ ہوا، یوں انہوں نے رخت سفر باندھ لیا۔

٭جب جامعہ کراچی میں بندوق چلی!
کسی بھی مادر علمی کی طرح جامعہ کراچی میں بھی یہ تصور محال تھا کہ پولیس داخل ہو، آج تو رینجرز کی چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔ 1981ء کے بعد صورت حال خراب ہونے لگی، تو اُس وقت ڈاکٹر سیمی یہاں پڑھانا شروع کر چکی تھیں، ماحول میں تشدد در آیا تھا اور 'اسٹن گن' کا استعمال ہونے لگا تھا۔ پہلے ایسی باتیں گردش کرتی رہتی تھیں کہ فلاں، فلاں جگہ اسلحہ چھپایا یا ذخیرہ کیا گیا ہے۔۔۔ 'تھنڈر اسکواڈز' کا چرچا ہوتا، پھر انہوں نے دیکھا کہ پہلی بار جامعہ کے اندر نہ صرف پولیس آئی، بلکہ آنسو گیس بھی چلی۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے ڈاکٹر سیمی نے بتایا کہ 'جامعہ کے ڈاک خانے کے عقب میں ایک کیفے ہوتا تھا جہاں چائے اور بن کباب ملتا تھا، وہیں پہلی بار انہوں نے ایک طالب علم کو پستول نکال کر دوسرے پر تانتے ہوئے دیکھا، وہ جمعیت کی غنڈا گردی کا زمانہ تھا۔ پھر سلام اللہ عرف ٹیپو نے پہلی بار 'آرٹس لابی' میں آکر بندوق چلائی۔۔۔ وہی سلام اللہ جنہیں پی آئی اے کا طیارہ اغواکرنے کے بعد شہرت حاصل ہوئی۔'

٭''اب آپ جیل جائیں گی۔۔۔''
جامعہ کراچی کے طالب علم مصطفین کاظمی کی گرفتاری کے خلاف روزانہ احتجاج کے سلسلے میں ایک دن شعبۂ صحافت میں جلسہ تھا، سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری ان کے ہم جماعت تھے، جنہیں یہ مظاہرہ کنڈکٹ کرنا تھا، اُس روز ہجوم زیادہ بپھرا ہوا تھا، لہٰذا ان کی پراعتماد گفتار کی بنا پر یہ ذمہ انہیں سونپا گیا، مگر اسی ہجوم نے آگے چل کر وائس چانسلر کی مسند نذر آتش کر دی! اُس وقت احسان رشید شیخ الجامعہ تھے۔ اگلے روز 'ڈان' اخبار میں یہ خبر چار کالم میں لگی، جس میں تقریر کرنے والوں میں اُن کا نام بھی شایع ہوا، حالاں کہ انہوں نے صرف کنڈکٹ کیا تھا۔ اخبار میں نام چھپنے پرگھر میں خوب ڈانٹ کھائی کہ 'اب آپ جیل جائیں گی اور خاندان کا نام خوب ''روشن'' کریں گی۔'

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں