یوم اقبال اور پیام اقبال
علامہ اقبال بلند نگاہی، انسانیت پروری اور ایمان کی مکمل پیروی کے ترجمان ہیں۔
علامہ اقبال سے ہمیں پہلی مرتبہ غائبانہ تعارف کا شرف اس وقت حاصل ہوا جب ہم لغوی معنوں میں بھی طفل مکتب تھے۔ یہ غالباً سن 1940 کی دہائی کا آخری دور تھا جب ہمارے زمانہ طالب علمی کا آغاز ہو رہا تھا۔
یہ دستور تھا کہ درس گاہ میں صبح کے وقت پڑھائی کی شروعات روزانہ باقاعدگی کے ساتھ علامہ اقبال کی مقبول عام دعا سے ہوا کرتی جسے عبادت کا سا درجہ حاصل تھا۔ سب طالب جب یہ دعا بیک آواز انتہائی انہماک اور دل سوزی کے ساتھ جھوم جھوم اور لہک لہک کر پڑھتے تھے تو ان پر وجد کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی تھی جسے الفاظ کے ذریعے بیان کرنا ممکن نہیں۔
اس دعا کی سحر انگیزی کا عالم یہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ تب سے لے کر آج تک ازبر ہے اور لوح قلب و ذہن میں جوں کا توں محفوظ ہے۔ علامہ کے کلام کی سب سے نمایاں خوبی اس کی جادوئی اثر پذیری ہے۔ سات عشرے گزر جانے کے بعد بھی یہ دعا اسی سحر انگیز تاثر کے ساتھ ہمارے ذہن کے پردے سے اتر کر آج بھی ہمارے لبوں پر آب رواں کی طرح بدستور جاری و ساری ہے:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
خدا شاہد ہے کہ اس دل سوز اور جاں گداز دعائے درویش کے نورانی اثرات نے اس خاکسار و گنہگار کی زندگی کے تاریک ترین گوشوں میں شعور وآگہی کی جوت جگا دی ہے۔ یہ اقبال اور ان کی پرتاثیر شاعری کا کمال ہے۔ اقبال واقعی اسم بامسمی کہلانے کے حق دار ہیں۔ اقبال، اقبال ہیں۔ منفرد اور یگانہ۔ ان کا رنگ اور آہنگ اچھوتا اور نرالا ہے۔ ان کا کلام بے مثل اور بے بدل ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ:
اقبال بڑا اپریشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتارکا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا
درحقیقت ان کی انتہائی عاجزی و انکساری کا بہترین اظہار اور آئینہ دار ہے۔ علاوہ ازیں اس شعرکے پہلے مصرعے میں نہایت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے الفاظ ''اپریشک'' بمعنی مبلغ اور من بمعنی دل و موہ لینا بمعنی کھینچ لینا ان کی ہندی دانی کی جانب بھی واضح اشارہ کرتے ہیں۔
اقبال پسندی اور اقبال سے عقیدت ہمیں اپنے والد مرحوم سے ورثے میں ملی جو اقبال کے ان خوش نصیب پرستاروں میں شامل ہیں جنھیں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے تاریخی جلسے میں نہ صرف علامہ کی زیارت کا موقع میسر آیا بلکہ کلام شاعر بزبان شاعر سننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ کلام اقبال کا خاصہ بڑا حصہ قبلہ والد صاحب کو حفظ تھا جسے وہ عالم بے خودی میں بسا اوقات اپنی مترنم آواز میں سنایا کرتے تھے۔چنانچہ جوں ہم بڑے ہوتے گئے توں توں علامہ اقبال اور اقبالیات سے ہماری دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی۔ تاہم ہمیں آج بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کہ اس معاملے میں پیرانہ سالی کے باوجود ہماری حیثیت آج بھی طفل مکتب سے زیادہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کار دشوار کی جانب خود علامہ نے یوں اشارہ فرمایا ہے:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
مصور پاکستان علامہ اقبال کی شخصیت، کلام و پیام اور افکار کا تذکرہ بھی بڑا مشکل کام ہے چہ جائیکہ ان کا احاطہ کرنا جوکہ ناممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ ان کے بارے میں اتنا زیادہ لکھے جانے کے باوجود ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی غیر معمولی شخصیت ہے جو ہمہ گیر اور کثیر الجہات ہے۔ وہ ایک عظیم انسان ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ مفکر و فلسفی اور بے ثقل قادر الکلام اور منفرد لب و لہجے و اسلوب کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا دعویٰ اردو کے علاوہ فارسی زبان تک وسیع ہے جس کا لوہا تمام اہل زبان مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں تحریر کیے گئے ان کے مقالات بھی ان کی سوچ اور اپروچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پورا ایران اور فارسی داں طبقہ ان کی فارسی شاعری کی عظمت و ندرت اور انداز بیاں کا قدر شناس اور معترف ہے۔
علامہ اقبال بلند نگاہی، انسانیت پروری اور ایمان کی مکمل پیروی کے ترجمان ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کے شدید ناقد اور اسلام اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے علمبردار ہیں۔ اس حوالے سے وہ شاعر مشرق کے لقب سے زیادہ شاعر اسلام کی حیثیت سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔ اس زاویے سے ان کی شناخت سب سے الگ اور سب سے انوکھی ہے۔ حق پرستی ان کا جزو ایمان اور طرہ امتیاز ہے۔ ان کے بقول:
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ان کے کلام میں ایک قلندرانہ سرمستی و سرشاری ہے جو بزرگان دین سے ان کے قلبی تعلق اور لگاؤ کا ثمر ہے۔ یہ بھی کیا عجیب حسن اتفاق ہے کہ اس مرتبہ ان کا یوم پیدائش سرکار دو عالمؐ کی ولادت مبارکہ سے متصل ہے جن کی ذات اقدس سے بے پایاں عقیدت اور اتھاہ محبت کے حوالے سے علامہ کا یہ شعر بہترین ترجمانی کا آئینہ دار اور شاہکار ہے:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال کو ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرنے کا بڑا دکھ تھا جس کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار اپنے اس درد بھرے شعر میں کیا ہے:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
وطن عزیز اس وقت جس سیاسی گروہ بندی کا شکار اور سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس کے حوالے سے علامہ کا درج بالا شعر صدائے بیداری (Wake Up Call) کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے علامہ کا درج ذیل شعر بھی فوری توجہ کا حامل اور بلاتاخیر عملی اقدام کا طلب گار ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر