اردو کانفرنس کی گہما گہمی اور بقرعید
کیسی کیسی ادبی سرگرمیوں میں ادیب دانشور، ادب کے قارئین مصروف تھے۔ ایکسپریس اردو کانفرنس کی گہما گہمی۔ ترکی، تاشقند...
کیسی کیسی ادبی سرگرمیوں میں ادیب دانشور، ادب کے قارئین مصروف تھے۔ ایکسپریس اردو کانفرنس کی گہما گہمی۔ ترکی، تاشقند، ہندوستان، بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ادیبوں کی رونق۔ اور ہاں روس سے فیضؔ صاحب کی سوانح نگار اور غالبؔ کی مترجم لڈمیلاولیسیلیوا کی آمد۔ ایک جھلک اردو کانفرنس میں دکھائی۔ دوسری جھلک فیض گھر میں نظر آئی۔ مگر دیکھتے دیکھتے یہ ساری سرگرمیاں پس منظر میں چلی گئیں۔ بقر عید سر پہ آن کھڑی ہوئی۔ ہندوستان سے آئے ہوئے مہمان شمیم حنفی سے بحوالہ کانفرنس ادب پر گفتگو کرنے کے لیے زبان کھولی تھی۔ وہ بولے کہاں کی رباعی کہاں کی غزل۔ میں تو اس بیل کو دیکھ رہا ہوں جو سجا بنا کھڑا ہے اور گیارہ لاکھ اس کی قیمت لگی ہے اور بیل کا مالک کہہ رہا ہے کہ اب میں عمرہ کروں گا اور پھر حج پر جائوں گا۔ بکروں، دنبوں، بیلوں، اونٹوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر کیسا کیسا خریدار نظر آ رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر فلمی اداکارائیں ہیں۔
ہم نے کہا کہ بہرحال عید قربان کی برات کا دولہا گیارہ لاکھ والا بیل ہے۔ یہ جو بکرے دُنبے دولہا بنے پِھر رہے ہیں انھیں کے دم سے تو عید قربان کی رونق ہے۔ مگر گیارہ لاکھ روپے کیا بیچتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انشاء اللہ خاں کا یہ شعر ہے؎
یہ عجب مزہ ہے یارو کہ بروزِ عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
ایک تن جلا بولا کہ خوب شعر ہے۔ آج کے ظالم زمانے کے حسب حال ہے۔
ہم نے کہا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ انشاء اللہ خاں کوئی ہمارے زمانے کا شاعر نہیں ہے۔ گزرے زمانے کا شاعر ہے۔
وہ بولا ''ہوا کرے۔ شعر ہمارے آپ کے حسب حال ہے۔''
آگے ہمارے بولنے کی گنجائش کہاں رہی۔ انشاء اللہ خاں نے اپنے زمانے میں شاعری میں نثر میں بہت کمال دکھلائے۔
ان ہی کمالات میں سے یہ شعر بھی ہے۔ ہر عید قرباں پر ہمیں یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔ بلکہ یہ شعر تو عید قرباں کی روایت کا حصہ بن گیا ہے۔ مگر باریک بین اسی میں سے اپنے زمانے کے حساب سے معنی نکال لیتے ہیں۔
ارے یہاں تو پہلے یہ قتلام کا میلہ لگا ہوا تھا۔ قاتلوں کی پانچوں انگلیاں خون میں تربتر تھیں اور پھر وہی لے ثواب الٹا۔ وہاں سے بچ نکلے تو اب بکرا منڈی میں آ کر کُشتہ ہوئے۔ بکرے پہ چھری تو بعد میں پھرے گی۔ اس سے پہلے بکرا خریدنے والا مہنگائی کی چھری تلے آ گیا۔ وہاں سے ابھی جانبر نہ ہوئے تھے کہ قصائی کی چھری ذبح کرنے پر تل گئی اور کہتے ہیں کہ اب کے تو قصائی دس ہزار پندرہ ہزار کے محاورے میں بات کر رہے ہیں۔ ہاں جو بقر عید کی خوشی میں قصائی بن گئے ہیں ان کی اُجرت کچھ کم ہو تو ہو۔
مطلب یہ کہ فی زمانہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ذبح کون ہوا بکرا یا بکرے کا خریدار۔ یا دونوں۔ خیر یہ کہانی تو چلتی ہی رہے گی اور یہ اب کا قصہ تو نہیں ہے۔ کب سے ہم عیدالاضحیٰ مناتے چلے آ رہے ہیں۔ سال کے سال ہم اس رسم کو دہراتے ہیں۔ نہ ہم بدلے ہیں نہ بکرے بدلے ہیں۔ ہر برس بکروں مینڈھوں کے مہنگا ہونے پر شور مچاتے ہیں مگر ہار جھک مار کر پھر بکرا خریدتے ہیں اور اس کے گلے پر چھری پھیرتے ہیں۔ بکروں نے بھی صبر کر لیا ہے اور سوچ لیا ہے کہ اس سالانہ قربانی سے انھیں مفر نہیں ہے۔ تو یہ تو ہوتا رہے گا۔
تو پھر ذرا پیچھے مڑ کر نظر ڈال لیں کہ وہ جو اردو کانفرنس ہو رہی تھی اس میں آگے کیا ہوا تھا اور اس کانفرنس سے آگے کیا ہوا تھا۔ اس اردو کانفرنس میں اردو زبان کے معاملات و مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو ہوئی۔ وہ ابتدائی سیشن تھا اور اختتامی سیشن۔ ابتدائی سیشن پر اس کالم میں سرسری بات ہو ہی چکی ہے۔ اختتامی سیشن میں موضوع تھا ''ہندوستان میں اردو'' مطلب یہ کہ تقسیم کے بعد ہندوستان میں اردو کا حال احوال کیا ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے تو آغاز اس سے کیا کہ ہندوستان کی زبانوں میں ہندی اول نمبر پر ہے۔ اردو اس طویل لسانی فہرست کے کتنی آخر میں آتی ہے۔ باقی جو انھوں نے استدلال کیا وہ اپنی جگہ مگر بہرحال نتیجہ تو وہی نکلنا تھا جو ان کے اولین بیان سے برآمد ہونا تھا۔ اصغر ندیم سید نے اس چکر کو چھوڑ کر موٹی موٹی باتیں کیں۔ یعنی عملی سطح پر ہندوستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے ہندوستان کا سب سے مقبول ذریعہ ترسیل و اظہار یعنی فلم۔ مکالموں کی زبان اردو۔ گانوں کی زبان اردو۔ مگر لیبل لگا ہوا ہے ہندی کا اور مارکیٹ میں فی زمانہ مال کی نکاسی ہوتی ہے لیبل کے زور پر۔ ایسی اور انھوں نے کتنی مثالیں پیش کیں۔ ایک مثال ہم سے سن لیجیے۔ کملیشور ہندی کے مشہور لکھنے والے۔ ان کی کہانیوں پر مشتمل ایک خصوضی نمبر بمبئی سے نکلا۔ ہم وہ کہانیاں پڑھتے چلے گئے اور اس کے ساتھ حیرانی بڑھتی چلی گئی۔ جب ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ اس خصوصی نمبر میں جو آپ کی کہانیاں شایع ہوئی ہیں کیا یہ آپ کی اپنی زبان ہے یا اردو رسالہ کے ایڈیٹر نے اس میں اپنا قلم لگایا ہے۔ بولے کہ نہیں اس میں کسی کا قلم نہیں لگا۔ یہ میری اپنی زبان ہے۔ میں نے کہا مگر وہ تو اردو ہے۔ بولے، یہ مجھے پتہ نہیں کہ وہ اردو ہے یا ہندی۔ میں نے تو اپنی اس زبان میں یہ کہانیاں لکھی ہے جو ہماری مین پوری میں بولی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ پھر تو وہ اردو ہوئی۔
مطلب یہ کہ ہندوستان میں اردو چل رہی ہے اور خوب چل رہی ہے۔ اب یہ بیچنے والوں پر ہے کہ یہ مال زمانہ کا رنگ دیکھتے ہوئے کونسا لیبل لگا کر بیچ رہے ہیں۔
زبیر رضوی ہندوستان کے سیاسی معاملات و مسائل کے شناور ہیں۔ انھوں نے اس سارے پس منظر میں رکھ کر اس مسئلہ کو دیکھا اور بات کی۔ مگر شمیم حنفی نے سب سے الگ اپنی راہ نکالی۔ وہ اردو کو ہندوستان اور پاکستان کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تقسیم اپنی جگہ ہندوستان پاکستان اپنی جگہ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ''فراق، فیض، بیدی، منٹو، قرۃ العین حیدر ایک ہی فضا میں سانس لینے والے۔ انھوں نے یہ ساری زمین اور زمانے، اس کے سب اندھیرے اجالے آپس میں بانٹ لیے ہیں۔ ان کی میراث ایک ہے۔''
اور اردو کا معاملہ جس کے یہ لکھنے والے نمایندے ہیں یہ ہے کہ جب تک وہ کشادہ ظرفی کی حامل رہی فکری اور لسانی دونوں سطحوں پر تو اس نے ''ہندوستان میں سب سے زیادہ کثرت سے سمجھی جانے والی زبانوں کی حیثیت یعنی لنگوا فرینکا کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔'' لیکن اب وقت کے بہائو نے اس کے لیے مشکلیں پیدا کی ہیں اور ''برصغیر کی لسانی سیاست نے اردو کے بارے میں طرح طرح کی غلط گمانیاں پھیلائی ہیں۔'' اور یہ کہ ''دونوں طرف اردو کے جمہوری اور سیکولر مزاج کو نظر انداز کرنے کی روش'' اختیار کر لی گئی ہے۔
آخر میں کہتے ہیں کہ ''بے شک اردو ہماری اجتماعی تاریخ کی سب سے قیمتی اور روشن تجربے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر اس طاقتور تجربے کو بچائے رکھنا شاید بہت آسان نہیں ہے۔ عبداللہ حسین کی اداس نسلوں کے مقدر میں ابھی اور اداس ہونا باقی ہے۔
......مستقبل کی گٹھری میں کیا کچھ ہو گا اس کے تعین کا انحصار ایک مابعد جدید مفکر کے قول کے مطابق ہمارے منطقی شعور اور دماغ سے زیادہ ہمارے جذبات پر ہو گا۔ بیشک یہ سچائی اس لائق ہے کہ اسے گرہ میں باندھ لیا جائے۔''