رجعت پسندی اور ترقی پسندی
کہا جاتا ہے کہ ایک پسماندہ معاشرہ ایک ترقی پسند معاشرے کی طرف پیشرفت کرتا ہے تو پسماندہ معاشرے کے ...
کہا جاتا ہے کہ ایک پسماندہ معاشرہ ایک ترقی پسند معاشرے کی طرف پیشرفت کرتا ہے تو پسماندہ معاشرے کے کچھ گروہ پوری شدت کے ساتھ اس تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں، بعض اوقات یہ مزاحمت جنگ میں بھی بدل جاتی ہے۔ مزاحمتی طاقتیں منظم اور مستحکم ہوتی ہیں تو تبدیلی کا یہ عمل سست بھی ہو سکتا ہے اور جمود کا شکار بھی ہو جاتا ہے لیکن بدتر سے بہتر کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ دنیا میں ان دو طاقتوں کو جن میں ایک ارتقا کے ساتھ چلتی ہے دوسری ارتقا کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے، ترقی پسند اور رجعت پسند کی حیثیت سے مانا جاتا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم ان دو طاقتوں کی کشمکش کا جائزہ لیں، سامراجی ملکوں کے کردار پر ایک نظر ڈالیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی کلچر کا خاتمہ ہونے لگا اور روشن خیالی اس کی جگہ لینے لگی۔ تبدیلی کا یہ عمل معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ ترقی پسندی کی اساس چونکہ منفی طاقتوں سے جنگ پر ہوتی ہے لہٰذا منفی طاقتیں اپنے قومی اور نظریاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ترقی پسند طاقتوں کو کمزور کرنے، انھیں عوام میں بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سوشلسٹ بلاک ترقی پسندی کی نمایندگی کرنے لگا اور دنیا میں تیزی سے ترقی پسندی جڑیں پکڑنے لگی تو سامراجی ملک اس تبدیلی کو اپنے اور اپنے سیاسی اور اقتصادی نظام کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے۔ اس خطرے کو روکنے کے لیے سامراجی منصوبہ سازوں اور پالیسی میکروں نے سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لیے ان طاقتوں کے خلاف ایک سخت پروپیگنڈہ مہم شروع کی جس کا ہدف ترقی پسندی کو بنایا گیا۔ ترقی پسندی کو لادینیت کا نام دے کر عوام میں اس طرز فکر کو بدنام کیا جانے لگا جس کا زیادہ اثر نوآزاد ملکوں میں ہونے لگا۔ ترقی پسندی کے خلاف پسماندہ ملکوں میں اس شدت کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مذہب پرست حلقے ترقی پسندی کے کردار پر شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔ یہ صورتحال مسلم ملکوں، خاص طور پر پاکستان، میں فکری انتشار کا باعث بن گئی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ترقی پسندی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے اسی ترقی پسندی کی راہ پر چل کر ترقی یافتہ ملک بن گئے تھے۔
متحدہ ہندوستان میں ترقی پسندی 1936ء میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور انجمن ترقی پسند مصنفین نے ادبی محاذ پر ترقی پسند ادب کو متعارف کر کے ادب برائے ادب کی جگہ ادب برائے زندگی کا نعرہ لگایا۔ اور انجمن کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کو سارے برصغیر میں پھیلا دیا جس کے نتیجے میں ادب برائے ادب کا کلچر آہستہ آہستہ دم توڑنے لگا۔ نسیم حجازی، ایم اسلم جیسے ادیب ادبی منظر سے آہستہ آہستہ غائب ہوتے گئے اور سجاد ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی، علی سردار جعفری، منٹو، فیض، کیفی اعظمی جیسے ترقی پسند ادیب برصغیر میں مقبول ہو گئے۔ لیکن مذہبی حلقوں کی جانب سے ترقی پسندی کے خلاف مہم جاری رہی اور جب اسے امریکا کی سرپرستی حاصل ہوئی تو رجعت پسندی طاقتور ہوتی گئی۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے امریکا نے جن رجعت پسند طاقتوں کو استعمال کیا یہ طاقتیں افغانستان سے روس کو نکالنے کے بعد بتدریج طاقتور ہونے لگیں جس کی انتہائی شکل دنیا کے سامنے القاعدہ اور طالبان کی شکل میں موجود ہے۔ ماضی میں ترقی پسندی کے خلاف چلنے والی تحریک اب ہمارے سامنے دہشت گردی کی شکل میں موجود ہے۔
اس تناظر میں ترقی پسندی اور رجعت پسندی کے درمیان فرق کو واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ عوام فکری انتشار سے نکل کر ترقی کے راستے پر یکسوئی کے ساتھ چل سکیں۔ ہم یہاں مختصراً رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے فرق کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ مثلاً چاند میں بڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھنا رجعت پسندی ہے اور چاند کے داغ دھبوں کو مشاہدے کی بنیاد پر وادیاں اور پہاڑ ماننا ترقی پسندی ہے۔ چاند پر ایک امریکی نیل آرم اسٹرانگ کو اترتے اور چاند کی سیر کرتے دیکھنا اور اسے انسان کا کارنامہ سمجھنا ترقی پسندی ہے اور اس سفر کو کفر سے تعبیر کرنا رجعت پسندی ہے۔ سمندری طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں اور وبائی بیماریوں کو انسانوں کے گناہ کی سزا سمجھنا رجعت پسندی ہے اور ان عوام کو موسمی تغیرات اور زیر زمین ہلچل کا نتیجہ سمجھنا ترقی پسندی ہے۔ حصول علم کو معاشروں کی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھنا ترقی پسندی ہے اور تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانا رجعت پسندی ہے۔ خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنا رجعت پسندی ہے تو خواتین کی تعلیم کی حمایت کرنا ترقی پسندی ہے۔ عورت کو چار دیواری میں بند دیکھنا رجعت پسندی ہے تو عورت کو زندگی کے ہر شعبے میں فعال دیکھنا ترقی پسندی ہے۔
زمین کو کل کائنات سمجھنا رجعت پسندی ہے زمین کو نظام شمسی کا ایک سیارہ ماننا ترقی پسندی ہے۔ مخلوط تعلیم کو گناہ سمجھنا رجعت پسندی ہے مخلوط تعلیم کو خواتین کا حق تسلیم کرنا ترقی پسندی ہے۔ سال نو منانے کو کفر کی علامت قرار دینا رجعت پسندی ہے اور سال نو منانے کو نوجوانوں کا حق ماننا ترقی پسندی ہے۔ ستاروں کو آسمان سے جڑا ہوا کہنا رجعت پسندی ہے، آسمان کو حد نگاہ قرار دینا ترقی پسندی ہے۔ غربت، بھوک، بیماری کو تقدیر کا لکھا کہنا رجعت پسندی ہے اور ان عذابوں کو معاشی نظام کی دین ماننا ترقی پسندی ہے۔ انسان کے ہر اچھے اور برے کام کو خدا کی مرضی کہنا رجعت پسندی ہے اور انسان کو اپنے ہر کام میں بااختیار ماننا ترقی پسندی ہے۔ بیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی صدی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گاؤں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ سائنس کی ترقی نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ سائنس کی ترقی اور ایجادات و نظریات کو ماننے سے انکار کرنا رجعت پسندی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو انسانوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کرنا ترقی پسندی ہے۔
یہ چند مثالیں ہم نے رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے دی ہیں۔ ترقی پسندی کو کفر اور لادینیت کا نام دینے والے اس فرق میں کہیں کفر اور لادینیت کو تلاش کر سکتے ہیں؟ اس فرق کو شاعر مشرق نے اس طرح نمایاں کیا ہے۔
تعمیر نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
آج مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جو تباہی پھیلا دی ہے یہ دراصل اقبال کے اس شعر کی تفسیر ہے رجعت پسند ماضی کو حال پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جو ایک ایسی احمقانہ کوشش ہے جسے دنیا بھی قبول نہیں کر سکتی۔رجعت پسندی مذہبی منافرت کو ہوا دینا اپنا دینی فریضہ مانتی ہے ترقی پسندی دنیا بھر کے عوام میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ رجعت پسندی فرقہ وارانہ جنگ کو جہاد کا نام دیتی ہے ترقی پسندی فرقہ وارانہ یکجہتی کو اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ رجعت پسندی اب اس قدر بے لگام ہوگئی ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کا قتل عام کر رہی ہے گلیوں بازاروں میں بے گناہ انسانوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں سے اڑا رہی ہے اور اپنے دینی بھائیوں کے اس سفاکانہ قتل عام کو دین کی خدمت کا نام دے رہی ہے۔ انسانوں کے عقائد و نظریات کی تشکیل اپنے دور کے حالات اور علم و آگہی کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اسے ہم رجعت پسندی کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ یہ عقائد و نظریات اپنے دور کے علم و آگہی کے مطابق تھے اصل رجعت پسندی علم و آگہی کے باوجود ماضی میں زندہ رہنا اور ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
عیسائی عقائد کے مطابق زمین ہی کل کائنات ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ جب گلیلو نے اپنے تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین اور نظام شمسی کے سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں تو گلیلو کو جھوٹا اور دین کا دشمن قرار دے کر اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ گلیلو کو دی جانے والی سزائے موت اور سقراط کے ہاتھوں میں تھما دیا جانے والا زہر کا پیالہ رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی وہ مثالیں ہیں جو تاریخ میں ایک المناک باب کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ کلیسائی عقائد علم و آگہی کی نفی کرتے تھے۔ گلیلو کو دین کا دشمن قرار دینے والے آج گلیلو کے سچ کے آگے سرنگوں ہیں کیونکہ سچ روشنی اور ترقی پسندی ہے اور کلیسائی عقائد جھوٹ اور رجعت پسندی تھے۔ کیا اب بھی ترقی پسندی کو لادینیت کہا جانا درست جائز اور انسان دوستی ہے؟
اتفاق کی بات یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سوشلسٹ بلاک ترقی پسندی کی نمایندگی کرنے لگا اور دنیا میں تیزی سے ترقی پسندی جڑیں پکڑنے لگی تو سامراجی ملک اس تبدیلی کو اپنے اور اپنے سیاسی اور اقتصادی نظام کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے۔ اس خطرے کو روکنے کے لیے سامراجی منصوبہ سازوں اور پالیسی میکروں نے سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لیے ان طاقتوں کے خلاف ایک سخت پروپیگنڈہ مہم شروع کی جس کا ہدف ترقی پسندی کو بنایا گیا۔ ترقی پسندی کو لادینیت کا نام دے کر عوام میں اس طرز فکر کو بدنام کیا جانے لگا جس کا زیادہ اثر نوآزاد ملکوں میں ہونے لگا۔ ترقی پسندی کے خلاف پسماندہ ملکوں میں اس شدت کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مذہب پرست حلقے ترقی پسندی کے کردار پر شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔ یہ صورتحال مسلم ملکوں، خاص طور پر پاکستان، میں فکری انتشار کا باعث بن گئی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ترقی پسندی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے اسی ترقی پسندی کی راہ پر چل کر ترقی یافتہ ملک بن گئے تھے۔
متحدہ ہندوستان میں ترقی پسندی 1936ء میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور انجمن ترقی پسند مصنفین نے ادبی محاذ پر ترقی پسند ادب کو متعارف کر کے ادب برائے ادب کی جگہ ادب برائے زندگی کا نعرہ لگایا۔ اور انجمن کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کو سارے برصغیر میں پھیلا دیا جس کے نتیجے میں ادب برائے ادب کا کلچر آہستہ آہستہ دم توڑنے لگا۔ نسیم حجازی، ایم اسلم جیسے ادیب ادبی منظر سے آہستہ آہستہ غائب ہوتے گئے اور سجاد ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی، علی سردار جعفری، منٹو، فیض، کیفی اعظمی جیسے ترقی پسند ادیب برصغیر میں مقبول ہو گئے۔ لیکن مذہبی حلقوں کی جانب سے ترقی پسندی کے خلاف مہم جاری رہی اور جب اسے امریکا کی سرپرستی حاصل ہوئی تو رجعت پسندی طاقتور ہوتی گئی۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے امریکا نے جن رجعت پسند طاقتوں کو استعمال کیا یہ طاقتیں افغانستان سے روس کو نکالنے کے بعد بتدریج طاقتور ہونے لگیں جس کی انتہائی شکل دنیا کے سامنے القاعدہ اور طالبان کی شکل میں موجود ہے۔ ماضی میں ترقی پسندی کے خلاف چلنے والی تحریک اب ہمارے سامنے دہشت گردی کی شکل میں موجود ہے۔
اس تناظر میں ترقی پسندی اور رجعت پسندی کے درمیان فرق کو واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ عوام فکری انتشار سے نکل کر ترقی کے راستے پر یکسوئی کے ساتھ چل سکیں۔ ہم یہاں مختصراً رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے فرق کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ مثلاً چاند میں بڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھنا رجعت پسندی ہے اور چاند کے داغ دھبوں کو مشاہدے کی بنیاد پر وادیاں اور پہاڑ ماننا ترقی پسندی ہے۔ چاند پر ایک امریکی نیل آرم اسٹرانگ کو اترتے اور چاند کی سیر کرتے دیکھنا اور اسے انسان کا کارنامہ سمجھنا ترقی پسندی ہے اور اس سفر کو کفر سے تعبیر کرنا رجعت پسندی ہے۔ سمندری طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں اور وبائی بیماریوں کو انسانوں کے گناہ کی سزا سمجھنا رجعت پسندی ہے اور ان عوام کو موسمی تغیرات اور زیر زمین ہلچل کا نتیجہ سمجھنا ترقی پسندی ہے۔ حصول علم کو معاشروں کی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھنا ترقی پسندی ہے اور تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانا رجعت پسندی ہے۔ خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنا رجعت پسندی ہے تو خواتین کی تعلیم کی حمایت کرنا ترقی پسندی ہے۔ عورت کو چار دیواری میں بند دیکھنا رجعت پسندی ہے تو عورت کو زندگی کے ہر شعبے میں فعال دیکھنا ترقی پسندی ہے۔
زمین کو کل کائنات سمجھنا رجعت پسندی ہے زمین کو نظام شمسی کا ایک سیارہ ماننا ترقی پسندی ہے۔ مخلوط تعلیم کو گناہ سمجھنا رجعت پسندی ہے مخلوط تعلیم کو خواتین کا حق تسلیم کرنا ترقی پسندی ہے۔ سال نو منانے کو کفر کی علامت قرار دینا رجعت پسندی ہے اور سال نو منانے کو نوجوانوں کا حق ماننا ترقی پسندی ہے۔ ستاروں کو آسمان سے جڑا ہوا کہنا رجعت پسندی ہے، آسمان کو حد نگاہ قرار دینا ترقی پسندی ہے۔ غربت، بھوک، بیماری کو تقدیر کا لکھا کہنا رجعت پسندی ہے اور ان عذابوں کو معاشی نظام کی دین ماننا ترقی پسندی ہے۔ انسان کے ہر اچھے اور برے کام کو خدا کی مرضی کہنا رجعت پسندی ہے اور انسان کو اپنے ہر کام میں بااختیار ماننا ترقی پسندی ہے۔ بیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی صدی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گاؤں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ سائنس کی ترقی نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ سائنس کی ترقی اور ایجادات و نظریات کو ماننے سے انکار کرنا رجعت پسندی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو انسانوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کرنا ترقی پسندی ہے۔
یہ چند مثالیں ہم نے رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے دی ہیں۔ ترقی پسندی کو کفر اور لادینیت کا نام دینے والے اس فرق میں کہیں کفر اور لادینیت کو تلاش کر سکتے ہیں؟ اس فرق کو شاعر مشرق نے اس طرح نمایاں کیا ہے۔
تعمیر نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
آج مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جو تباہی پھیلا دی ہے یہ دراصل اقبال کے اس شعر کی تفسیر ہے رجعت پسند ماضی کو حال پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جو ایک ایسی احمقانہ کوشش ہے جسے دنیا بھی قبول نہیں کر سکتی۔رجعت پسندی مذہبی منافرت کو ہوا دینا اپنا دینی فریضہ مانتی ہے ترقی پسندی دنیا بھر کے عوام میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ رجعت پسندی فرقہ وارانہ جنگ کو جہاد کا نام دیتی ہے ترقی پسندی فرقہ وارانہ یکجہتی کو اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ رجعت پسندی اب اس قدر بے لگام ہوگئی ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کا قتل عام کر رہی ہے گلیوں بازاروں میں بے گناہ انسانوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں سے اڑا رہی ہے اور اپنے دینی بھائیوں کے اس سفاکانہ قتل عام کو دین کی خدمت کا نام دے رہی ہے۔ انسانوں کے عقائد و نظریات کی تشکیل اپنے دور کے حالات اور علم و آگہی کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اسے ہم رجعت پسندی کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ یہ عقائد و نظریات اپنے دور کے علم و آگہی کے مطابق تھے اصل رجعت پسندی علم و آگہی کے باوجود ماضی میں زندہ رہنا اور ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
عیسائی عقائد کے مطابق زمین ہی کل کائنات ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ جب گلیلو نے اپنے تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین اور نظام شمسی کے سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں تو گلیلو کو جھوٹا اور دین کا دشمن قرار دے کر اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ گلیلو کو دی جانے والی سزائے موت اور سقراط کے ہاتھوں میں تھما دیا جانے والا زہر کا پیالہ رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی وہ مثالیں ہیں جو تاریخ میں ایک المناک باب کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ کلیسائی عقائد علم و آگہی کی نفی کرتے تھے۔ گلیلو کو دین کا دشمن قرار دینے والے آج گلیلو کے سچ کے آگے سرنگوں ہیں کیونکہ سچ روشنی اور ترقی پسندی ہے اور کلیسائی عقائد جھوٹ اور رجعت پسندی تھے۔ کیا اب بھی ترقی پسندی کو لادینیت کہا جانا درست جائز اور انسان دوستی ہے؟