ایران امریکا تعلقات کا نیا آغاز
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ تین سے چھ ماہ کے عرصے میں اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں کے...
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ تین سے چھ ماہ کے عرصے میں اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ چاہتے ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بات چیت کے دوران صدر روحانی کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کے حل کو ایران اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کا ''نقطہ آغاز'' سمجھتے ہیں اور انھیں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایرانی صدر نے کہا ہے کہ اگر وہ اور امریکی صدر ملتے ہیں تو نظر مستقبل پر ہو گی۔ حسن روحانی کے مطابق ہمیں ایک نقطہ آغاز کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں یہ جوہری معاملہ ہی وہ نقطۂ آغازِ ہے۔ ادھر امریکی صدر اوباما نے صدر روحانی کے اس معتدل رویے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے نیویارک میں جان کیری سے بھی ملاقات کی۔ پچھلے 30 سال میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی یہ پہلی ملاقات ہے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ ایرانی ہم منصب سے یہ اچھی ملاقات رہی۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملاقات آخری نہیں ہوتی نہ ہی آیندہ کسی ملاقات کے امکان کو رد کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں اصولی طور پر کوئی مسئلہ حائل نہیں،یہ اچھی شروعات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایرانی روزنامے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ روحانی نے برسوں سے ''جمی برف توڑ دی'' اور جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقعہ پر عالمی طاقتوں کی طرف سے جوہری پروگرام پر جلد سمجھوتہ کرنے کے ساتھ ساتھ سابق صدر احمدی نژاد کے مؤقف کے برعکس یہودیوں کے قتل عام ہولو کاسٹ کی بھی مذمت کی۔
صدر باراک اوباما اور صدر حسن روحانی کے درمیان نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر ٹیلی فون پر رابطہ ہوا۔ یہ 30 سال میں دونوں ملکوں کے درمیان پہلا رابطہ ہے۔اس موقعہ پر دونوں رہنمائوں نے جوہری تنازعے کے سیاسی حل کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ امریکی صدر نے حسن روحانی سے کہا کہ ایرانی ایٹمی مسئلے کا ''پرامن حل'' ممکن ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ تنازعات کا جامع حل چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کو ایران کے ساتھ امن عمل کے لیے ٹاسک دے دیا ہے۔ معنی خیز اتفاق کا راستہ مشکل ہے لیکن نئی ایرانی حکومت کے ساتھ پیش رفت کا ''نادر موقعہ ہے''۔ باراک اوباما کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ 1979ء کے بعد دونوں ملکوں کے سربراہوں میں پہلا براہ راست رابطہ ہے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے بارے میں معاہدہ تین ماہ کے اندر ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں ایران اور امریکا کے درمیان نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں اعلیٰ سطح کا اجلاس نیویارک میں ہوا جس میں جان کیری اور جاوید ظریف نے شرکت کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے براہ راست دوطرفہ تبادلہ خیال کیا جس کی صدارت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کر رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ پارٹیاں اکتوبر میں دوبارہ جنیوا میں مذاکرات میں حصہ لیں گی۔
ایرانی صدر کی گفتگو اور امریکی صدر اور وزیر خارجہ کا ردعمل حیران کن حد تک ناقابل یقین ہے۔ امریکا اور ایران کی لڑائی نے اس خطے کو تہہ بالا کر دیا بلکہ دنیا بحرانوں کے لپیٹ آ گئی جس میں سب سے نمایاں دہشت گردی ہے جس کے بارے میں حال ہی میں امریکا نے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر پھیلنے والی دہشت گردی نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کا بلکہ دنیا کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے جب کہ حقائق یہ ہیں کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے 1950ء کی دہائی میں اسلامی دنیا میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت فرقہ واریت کواتنی ہوا دی کہ مسلمانوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنے کو باعث ثواب سمجھ لیا۔ یہ دنیا کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہو گی کہ ایران امریکا تعلقات دشمنی سے دوستی میں بدل جائیں۔ ان دونوں کے درمیان دشمنی نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا۔ امریکا نے عراق کے صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی جو آٹھ سال جاری رہی جس میں دونوں طرف کے تقریباً دس لاکھ افراد کام آئے۔ اس جنگ میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکا کا خیال تھا کہ ایران پر جنگ مسلط کرنے سے ایرانی انقلاب کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن وہ ناکام ہوا۔ پھر اس نے ایران کے اندر کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ کے ذریعے سازشیں کرائیں۔ اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ آخر میں معاشی پابندیوں کا نسخہ آزمایا گیا، اس سے ایرانی معیشت کو بڑا نقصان ہوا لیکن ایران نے امریکا کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔
امریکا اور اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی دھمکیاں تو دیتے رہے لیکن حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے جسے ایران مخالف عناصر نورا کشتی سے تعبیر کرتے رہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ایران پر حملے کی صورت میں عالمی جنگ شروع ہو جاتی۔ ایران نے ردعمل کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ اسرائیل کو نشانہ بنانا تھا۔ انھی وجوہات کی بنا پر امریکی فوجی کمانڈروں نے اپنی سیاسی قیادت کو ایران پر حملے سے روکا۔ ایرانی انقلاب کو ختم کرنے کے لیے امریکا نے جنگ سے لے کر ہر طریقہ آزمایا۔ کسی انقلاب کو ختم کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ نوزائیدہ انقلاب پر جنگ مسلط کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس ملک کے اندر انقلاب مخالف عناصر کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں معاشی پابندیاں لگاکر اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ لیکن ایران کے معاملے میں ایک اور چالاکی بھی کی گئی کہ اس کے انقلاب کو ایک مسلکی انقلاب کا نام دے کر مسلم دنیا کو ڈرایا گیا۔ ایرانی انقلاب کا چہرہ مذہبی ہے لیکن اس نے تیل کے کنوئوں کو اپنی ملکیت میں لے کر امریکا یورپ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا خاتمہ کر دیا اور یہ ایران کا ناقابل معافی جرم تھا۔
ایران امریکا مصالحت کے حوالے سے اکتوبر کا آخر اور نومبر کا شروع اہم وقت ہے۔
سیل فون:0346-4527997۔
ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے نیویارک میں جان کیری سے بھی ملاقات کی۔ پچھلے 30 سال میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی یہ پہلی ملاقات ہے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ ایرانی ہم منصب سے یہ اچھی ملاقات رہی۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملاقات آخری نہیں ہوتی نہ ہی آیندہ کسی ملاقات کے امکان کو رد کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں اصولی طور پر کوئی مسئلہ حائل نہیں،یہ اچھی شروعات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایرانی روزنامے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ روحانی نے برسوں سے ''جمی برف توڑ دی'' اور جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقعہ پر عالمی طاقتوں کی طرف سے جوہری پروگرام پر جلد سمجھوتہ کرنے کے ساتھ ساتھ سابق صدر احمدی نژاد کے مؤقف کے برعکس یہودیوں کے قتل عام ہولو کاسٹ کی بھی مذمت کی۔
صدر باراک اوباما اور صدر حسن روحانی کے درمیان نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر ٹیلی فون پر رابطہ ہوا۔ یہ 30 سال میں دونوں ملکوں کے درمیان پہلا رابطہ ہے۔اس موقعہ پر دونوں رہنمائوں نے جوہری تنازعے کے سیاسی حل کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ امریکی صدر نے حسن روحانی سے کہا کہ ایرانی ایٹمی مسئلے کا ''پرامن حل'' ممکن ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ تنازعات کا جامع حل چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کو ایران کے ساتھ امن عمل کے لیے ٹاسک دے دیا ہے۔ معنی خیز اتفاق کا راستہ مشکل ہے لیکن نئی ایرانی حکومت کے ساتھ پیش رفت کا ''نادر موقعہ ہے''۔ باراک اوباما کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ 1979ء کے بعد دونوں ملکوں کے سربراہوں میں پہلا براہ راست رابطہ ہے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے بارے میں معاہدہ تین ماہ کے اندر ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں ایران اور امریکا کے درمیان نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں اعلیٰ سطح کا اجلاس نیویارک میں ہوا جس میں جان کیری اور جاوید ظریف نے شرکت کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے براہ راست دوطرفہ تبادلہ خیال کیا جس کی صدارت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کر رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ پارٹیاں اکتوبر میں دوبارہ جنیوا میں مذاکرات میں حصہ لیں گی۔
ایرانی صدر کی گفتگو اور امریکی صدر اور وزیر خارجہ کا ردعمل حیران کن حد تک ناقابل یقین ہے۔ امریکا اور ایران کی لڑائی نے اس خطے کو تہہ بالا کر دیا بلکہ دنیا بحرانوں کے لپیٹ آ گئی جس میں سب سے نمایاں دہشت گردی ہے جس کے بارے میں حال ہی میں امریکا نے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر پھیلنے والی دہشت گردی نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کا بلکہ دنیا کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے جب کہ حقائق یہ ہیں کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے 1950ء کی دہائی میں اسلامی دنیا میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت فرقہ واریت کواتنی ہوا دی کہ مسلمانوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنے کو باعث ثواب سمجھ لیا۔ یہ دنیا کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہو گی کہ ایران امریکا تعلقات دشمنی سے دوستی میں بدل جائیں۔ ان دونوں کے درمیان دشمنی نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا۔ امریکا نے عراق کے صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی جو آٹھ سال جاری رہی جس میں دونوں طرف کے تقریباً دس لاکھ افراد کام آئے۔ اس جنگ میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکا کا خیال تھا کہ ایران پر جنگ مسلط کرنے سے ایرانی انقلاب کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن وہ ناکام ہوا۔ پھر اس نے ایران کے اندر کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ کے ذریعے سازشیں کرائیں۔ اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ آخر میں معاشی پابندیوں کا نسخہ آزمایا گیا، اس سے ایرانی معیشت کو بڑا نقصان ہوا لیکن ایران نے امریکا کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔
امریکا اور اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی دھمکیاں تو دیتے رہے لیکن حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے جسے ایران مخالف عناصر نورا کشتی سے تعبیر کرتے رہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ایران پر حملے کی صورت میں عالمی جنگ شروع ہو جاتی۔ ایران نے ردعمل کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ اسرائیل کو نشانہ بنانا تھا۔ انھی وجوہات کی بنا پر امریکی فوجی کمانڈروں نے اپنی سیاسی قیادت کو ایران پر حملے سے روکا۔ ایرانی انقلاب کو ختم کرنے کے لیے امریکا نے جنگ سے لے کر ہر طریقہ آزمایا۔ کسی انقلاب کو ختم کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ نوزائیدہ انقلاب پر جنگ مسلط کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس ملک کے اندر انقلاب مخالف عناصر کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں معاشی پابندیاں لگاکر اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ لیکن ایران کے معاملے میں ایک اور چالاکی بھی کی گئی کہ اس کے انقلاب کو ایک مسلکی انقلاب کا نام دے کر مسلم دنیا کو ڈرایا گیا۔ ایرانی انقلاب کا چہرہ مذہبی ہے لیکن اس نے تیل کے کنوئوں کو اپنی ملکیت میں لے کر امریکا یورپ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا خاتمہ کر دیا اور یہ ایران کا ناقابل معافی جرم تھا۔
ایران امریکا مصالحت کے حوالے سے اکتوبر کا آخر اور نومبر کا شروع اہم وقت ہے۔
سیل فون:0346-4527997۔