جنرل پرویز مشرف پس چہ باید کرد
جاپان کی ایک کہاوت ہے کہ طاقتور آدمی کو دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی طاقت بجائےخود برہان ِقاطع ہوتی ہیں...
جاپان کی ایک کہاوت ہے کہ طاقتور آدمی کو دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی طاقت بجائے خود برہان ِقاطع ہوتی ہیں؛ دلیل یا توجیہہ کی ضرورت ہمیشہ کمزور آدمی کو پڑتی ہے۔ یہ کہاوت، پاکستان کے سابق مرد ِآہن جنرل پرویز مشرف پر صادق آتی ہے۔ جنرل مشرف جب تک برسرِاقتدار تھے انھوں نے جو چاہا، وہ کیا؛ ان کی رفتار اور گفتار سے اعتماد چھلکا پڑتا تھا۔ کوئی دلیل ان کو عدلیہ کے خلاف غیر آئینی اقدام سے نہ روک سکی۔ چوہدری شجاعت نے ہر طرح سے زور لگا کے دیکھ لیا، لیکن اکبر بگٹی اور لال مسجد فوجی آپریشن ہو کر رہا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد جنرل مشرف نے قوم سے باقاعدہ خطاب فرمایا، اور آپریشن کو ناگزیر قرار دیا۔ لیکن، یہ اس وقت کی باتیں ہیں، جب وہ چیف آف آرمی اسٹاف، صدر پاکستان اور چیف ایگزیکٹو تھے۔
آج وہ عدلیہ، اکبر بگٹی اور لال مسجد آپریشن کا فیصلہ ''اون'' کرنے سے بھی انکار ی ہیں۔ چند روز پہلے، اپنے محل نما گھر واقع چک شہزاد میں ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا کہ لال مسجد آپریشن شوکت عزیز حکومت کا فیصلہ تھا۔ قبل ازیں وزیراعظم شوکت عزیز کہہ چکے ہیں کہ لال مسجد آپریشن، فوجی آپریشن تھا جو ان کی کابینہ میں کبھی زیر ِبحث نہیں آیا۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں بھی لال مسجد آپریشن کا فیصلہ جنرل مشرف سے منسوب کیا گیا ہے۔ جنرل مشرف نے جس انداز میں یوٹرن لیا ہے اس سے ایک بات تو ماننا پڑتی ہے کہ سیاست میں بھلے وہ کامیاب نہ ہوں، لیکن سیاست دان وہ بن چکے ہیں ۔ یہ حقیقت بھی انھوں نے تسلیم کر لی ہے کہ ان کا اقتدار اور طاقت قصۂ ماضی ہیں۔
رواں سال 24 مارچ کو، جب جنرل مشرف اچانک پاکستان میں آ کودے تو 25 مارچ کو انھی سطور میں بعنوان ''جنرل پرویز مشرف بطور سیاست دان'' عرض کیا گیا تھا کہ ''اول تو جنرل پرویزمشرف کا بیرون ِ ملک نہیں جانا چاہیے تھا ، لیکن اگر وہ چلے ہی گئے تھے تو اب مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ موجودہ چیف جسٹس کی مدت ِملازمت گزر جانے دیتے، لیکن ''سیاستدان پرویز مشرف'' کے اندر جو ایک''کمانڈو پرویز مشرف''ہے ، معلوم ہوتا ہے ، وہ ان کو تنگ کر رہا تھا۔ اتنی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ انھی جج حضرات کی خدمت میں، جب وہ اپنی ضمانت کی عرضیاں گزاریں گے، جن کو کبھی انھوں نے بلاوجہ معزول کیا تھا، تو ان کے پلے کیا رہ جائے گا۔ پھر، ان کی زندگی کو انتہاپسندوں سے بھی سنگین خطرات ہیں۔ وہ انتخابی مہم چلا ہی نہیں سکیں گے، ان کی واپسی نہ صرف ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے، بلکہ فوج کو بھی آزمایش میں ڈال دے گی۔'' جہاں تک میرے علم میں ہے، وہ صرف رومن رسم الخط میں ہی اردو لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ رائے عامہ سے موصوف بے خبری بھی اس امر کی غماز ہے۔ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ نے جنرل مشرف کا الیکشن لڑنے کا ہر راستہ مسدود کر دیا۔ ورنہ وہ کم ازکم قومی اسمبلی کی دوسیٹوں پر بہ آسانی منتخب ہو سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی آناً فاناً ان کے خلاف مقدمات کھل گئے۔ دو مقدمات میں ضمانت پر وہ عبدالرشید غازی مقدمۂ قتل میں دھر لیے گئے زیادہ پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ اس مقدمہ میں بھی جنرل مشرف کی ضمانت خارج از امکان نہیں ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد یہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، ختم ہو جائے گا۔ جواب نفی میں ہے۔
جنرل مشرف کا 9 سالہ دور، ایک بھرپور دور تھا۔ زرداری دور' یا 'نوازشریف دور' سے ہر اعتبار سے بہتر دور تھا۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی قدر مستحکم تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا تھا۔ تیل، بجلی اور گیس کے قیمتوں میں توازن تھا۔ سوائے آخری ایک دو برسوں کے، امن و امان کی صورتحال بھی اطمینان بخش تھی۔ جنرل مشرف کو ایوان ِ صدر سے گارڈ آف آنر دے کر الوداع کہا گیا۔ یہ اعزاز، ماضی کے کسی فوجی حکمران کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ ان کے خلاف بدعنوانی کوئی مقدمہ بھی سامنے نہیں آیا۔ پھر عالمی درس گاہوں میں ان کا لیکچرز کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ کوئی بھی سابق حکمران، اس سے زیادہ باوقار انداز میں اپنے ملک کی خدمت نہیںکر سکا۔ لیکن ، نجانے کب اورکس لمحہ میں جنرل پرویزمشرف کو یہ گمان گزرا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان میں برسرِاقتدار آ سکتے ہیں۔ بس یہ ایک لمحہ ان کو بہا لے گیا۔ یہ لمحہ محض ایک سراب تھا۔ نہ یہاں پاکستان میں کوئی ان کی راہ دیکھ رہا تھا ، اور نہ باہرامریکا یہ ''سازش'' کر رہا تھا۔ پاکستان میں ایک سے ایک بڑھ کر حکمران ہے، جو دہشت گردی کے خلاف یہ'' بین الاقوامی جنگ'' لڑناچاہتا ہے۔
یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ 9 سال تک بلا شرکت ِ غیرے حکومت کرنے کے بعد جنرل مشرف کو قدرت نے یہ موقع بھی دیا کہ وہ ایک 'خوشگوار ماضی' بن سکیں، لیکن دوبارہ سے سیاست میں کود کر انھوں نے یہ موقع کھو دیا۔ لیکن اب جب کہ جنرل مشرف 4 سالہ جلاوطنی ترک کر کے پاکستان واپس آ چکے ہیں، بلکہ عدلیہ کے ہاتھوں انتخابی سیاست کے لیے ''تاحیات نااہل'' بھی قرار پا چکے ہیں، تو ان کے لیے مستقبل کے امکانی راستے کیا ہیں۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ جیسے ہی 'عبدالرشید مقدمہ ء قتل' میں ان کی ضمانت ہو اور ای سی ایل سے ان کا نام نکلے، وہ دوبارہ سے باہر تشریف لے جائیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف یہ راستہ اختیار کرتے ہیں، تو نواز شریف کو بظاہر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ اپنے حامیوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیں گے کہ جنرل صاحب بھاگ گئے ہیں۔ جنرل صاحب اپنے مداحوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر سکیں گے کہ مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ دو چار روز الزامات کی دھول اڑے گی اور بیٹھ جائے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف عملی سیاست میں بے شک متحرک نہ ہوں، لیکن سر ِ دست پاکستان سے باہر نہ جائیں۔ صرف اس صورت میں اور صرف اتنی دیر تک کے لیے باہر جائیں، جب کہیں ان کو لیکچر دینا ہو۔
اس طرح کوئی ان کو ''بھگوڑا'' ہونے کا طعنہ نہیں دے سکے گا، جس طرح کہ وہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو دیا کرتے تھے۔ ان کا ''کمانڈو'' کا امیج بھی برقرار رہے گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جب سے نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں، اندرون ِملک سے اور بیرون ِملک سے، جنرل پرویزمشرف کو مسلسل اس امر پر''قائل'' کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں، لیکن وہ انکاری ہیں۔ جنرل مشرف کب تک یہ اندرونی اوربیرونی دباؤ برداشت کر پاتے ہیں، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اب وہ صرف ایک ''سابق جنرل'' نہیں، ایک ''حاضرسروس سیاستدان'' بھی ہیں، لیکن عزت کا اور وقار کا راستہ یہی ہے کہ اب جب کہ وہ پاکستان واپس آ چکے ہیں ، تو حالات جیسے بھی ہیں، صبر اور حوصلے کے ساتھ ان کا سامنا کریں۔ اب اگر قید وبند کی صعوبتوں سے گبھرا کر خود بھی باہر چلے لے جاتے ہیں، تو رہی سہی ساکھ بھی راکھ بن جائے گی۔ ایران کی ایک عوامی کہاوت ہے کہ آسانیوں کے زمانے نہیں رہے، تو مصیبتوں کے زمانے بھی گزر جائیں گے ۔