پاؤڈر کا ڈاکٹر
ہمارے نظام میں قابل اور لائق لوگوں کی جگہ بہت کم ہے۔ اگر کوئی ذہین شخص اس عظیم ملک کے نظام میں غلطی سے ...
ہمارے نظام میں قابل اور لائق لوگوں کی جگہ بہت کم ہے۔ اگر کوئی ذہین شخص اس عظیم ملک کے نظام میں غلطی سے آ ہی جائے تو اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی خوبیوں کو مثبت طریقے سے استعمال کرنے کے بجائے اسے ایک دشمن سیارے کی مخلوق قرار دیا جاتا ہے۔ اس شخص میں ایسے ایسے عیب تلاش کیے جاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر کنارہ کشی اختیار کرنے کا سوچنے لگتا ہے اور کئی بار ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ صرف ایک ہے کہ ہمارے ملکی نظام میں درمیانے یا اس سے بھی کم ذہانت کے لوگ چور دروازے سے اس نظام پر مکمل گرفت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ وہ فطری طور پر یہاں نہیں پہنچ سکتے لہٰذا وہ سب سے پہلے قابل اور اہل اشخاص کے سامنے دیوارِ چین بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ان لائق لوگوں سے بہت خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ان کی کج ذہنی فوراً سامنے آ جاتی ہے۔ وہ اپنے اس احساس کمتری کو اکثر میرٹ کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں۔ ہمارے پورے نظام میں ہر مقام پر اس کی سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر میں مثال دینا نہیں چاہتا۔
طاہر کا تعلق تحصیل مری سے تھا۔ وہ سید گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد مری کے مضافات میں ایک پرائمری اسکول میں انگریزی کے استاد تھے۔ گائوں میں اہل سادات اور اہل علم ہونے کی وجہ سے طاہر کے والد کا بڑا نام تھا۔ انگریزی زبان پر عبور ہونے کی بدولت دور دور سے بچے ان سے پڑھنے آتے تھے۔ وہ شام کو پڑھانے کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ طاہر انتہائی لائق طالبعلم تھا۔ آٹھویں جماعت میں وہ مقابلہ کا امتحان دے کر اس وقت کے صوبہ سرحد کے ایک آرمی اسکول میں داخل ہو گیا۔ اس کی قابلیت کی بدولت اسے آٹھویں ہی سے وظیفہ ملنا شروع ہو گیا۔ طاہر آہستہ آہستہ اپنے کالج کا پریفیکٹ بھی بن گیا۔ F.Sc. میں اس کے نمبر اپنے کالج میں سب سے زیادہ تھے۔ اس سال کے سالانہ فنکشن پر طاہر کو کالج کی طرف ایک طلائی تمغہ ملا جو صوبہ کے وزیر اعلیٰ نے اس کو گلے میں پہنایا۔ F.Sc. کے نتیجہ کی بدولت طاہر کو لاہور کے ایک اعلیٰ درجہ کے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔
طاہر فن تقریر پر عبور رکھتا تھا اور اس کا پسندیدہ موضوع انسانی حقوق تھا۔ وہ جب کلاس میں آتا تو زندگی کی ایک لہر اپنے ساتھ لے آتا۔ اس کی باتیں اور اس کی حس مزاح اتنی جاذبیت رکھتی تھی کہ ہر طالب علم اس سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔ کالج میں وہ جمی کے نام سے مشہور تھا۔ وہ جیسے ہی کلاس میں داخل ہوتا اس کے نام کے نعرے لگنے شروع ہو جاتے۔ سارے طالب علموں کا خیال تھا کہ وہ ملک کا ایک مایہ ناز اور قدآور ڈاکٹر بنے گا۔ اس کی منزل سب کو بہت قریب نظر آ رہی تھی۔ صرف چند سالوں میں وہ ایک عظیم ڈاکٹر بننے والا تھا۔ میڈیکل کالج کے پانچ سال ایک لمحہ میں گزر گئے۔ جمی کے والد انتہائی محدود آمدنی کے مالک تھے اور اس کے خاندان والوں کو یہ امید تھی کہ ان کا بیٹا ایک کمانے والا ڈاکٹر بنے گا اور اس کی آمدنی سے ان کے گھر میں سالوں سے پڑائو ڈالی ہوئی غربت اور مفلسی دبے پائوں واپس چلی جائے گی۔ اس کے والد کی پنشن سے گھر سسک سسک کر چلتا تھا۔
جمی کو اپنے گھر کے مشکل مالی حالات کا ادراک تھا۔ اور وہ ان کو جلد سے جلد بدلنا چاہتا تھا۔ اس کی روح میں غربت کی ایک پھانس ضرور موجود تھی جو اسے اکثر احساس دلاتی تھی کہ وہ کسی سے بھی مالی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہاسٹل میں اکثر طالب علموں کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ جمی کی پہنچ سے موٹر سائیکل بہت دور تھی۔ اس ساری صورتحال سے جمی اکثر پریشان ہو جاتا تھا مگر اس کیفیت کا علم صرف اس کے قریب ترین دوستوں کو تھا۔ باقی تمام دوستوں کے لیے وہ انتہائی خوش گوار انسان تھا۔
پھر جمی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اس نے کلاسوں میں آنا بہت کم کر دیا۔ فائنل امتحان بھی بے دلی سے دیا مگر یہ مشکل امتحان بہرحال اس نے پاس کر لیا۔ اب اس نے میو اسپتال میں ہائوس جاب کرنا شروع کر دیا۔ اس کے پرانے دوستوں نے محسوس کیا کہ جمی کا رویہ بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے چار پانچ نئے دوست بن چکے تھے۔ جمی عجیب سا ہو گیا تھا۔ اس کی طبیعت میں کرختگی اور ایک مشکل قسم کا الجھائو آ چکا تھا۔ وہ زیادہ دیر کام نہیں کر سکتا تھا۔ وارڈ میں کام کرتے ہوئے وہ ہر دو تین گھنٹے کے بعد کچھ دیر کے لیے غائب ہو جاتا تھا اور یہ اس کی عادت بن چکی تھی۔ سچ پوچھئے تو وہ کام بوجھ سمجھ کر کرتا تھا اور اس کے بعد وہ کمرے میں بند ہو جاتا تھا یا پھر تھوڑی دیر کے لیے کسی نامعلوم جگہ پر چلا جاتا تھا۔ کمرے میں اسے ملنے کے لیے عجیب سے لوگ آتے تھے۔ اس کے اکثر پرانے دوست روزگار کے لیے مختلف جگہ بکھر چکے تھے اور ان میں سے کچھ پڑھنے کے لیے امریکا اور برطانیہ کا رخ کر چکے تھے۔ جمی کے پاس ملک سے باہر پڑھنے کے وسائل نہیں تھے۔
اس کو اپنے گھر گئے ہوئے تقریباً ایک سال ہو چکا تھا۔ اس کے والد اسے ملنے کے لیے کئی بار لاہور آئے مگر جمی اپنے والد کو نہیں ملتا تھا۔ والد کے آنے کی خبر سن کر وہ ہاسٹل سے باہر چلا جاتا تھا لیکن ایک دن جمی کے والد رات گئے ہاسٹل آئے۔ جمی کمرے میں موجود تھا۔ والد نے اپنے لخت جگر کو اتنی خراب حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جمی نے کئی ہفتوں سے کپڑے نہیں بدلے تھے۔ وہ عرصے سے نہایا نہیں تھا۔ اس کے جسم پر پھوڑے اور لاتعداد داغ موجود تھے۔ جمی کے والد نے دیکھا کہ اس کے کمرے میں لاتعداد سگریٹ کے ٹکڑے ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ مسلسل سگریٹ پینے کی بدولت جمی کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں بالکل پیلی ہو چکی تھیں۔ پہلی بار اس کے والد نے محسوس کیا کہ جمی کسی بڑی مصیبت کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ فوراً جمی کو اسی کے اسپتال لے گئے۔ شاہ صاحب کو ڈاکٹر نے بتایا کہ جمی ہیروئن؍ پائوڈر پیتا ہے اور اب وہ اس کا عادی ہو چکا ہے۔ اب وہ پائوڈر کے بغیر چند گھنٹے بھی نہیں گزار سکتا۔ معائنہ کرنے والا ڈاکٹر جمی کا عزیز ترین دوست ضیاء تھا۔ اس کو اسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ پورے میڈیکل کالج میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ ڈاکٹر جمی پائوڈر پینے لگ گیا ہے۔ جب شام کو جمی کے والد اس کو ملنے کے لیے وارڈ میں پہنچے تو جمی کا بستر خالی تھا۔ اسٹاف نرس نے بتایا کہ جمی اپنے لیے دوائیاں خریدنے کے لیے باہر گیا ہے۔ جمی اس کے بعد کبھی اسپتال نہیں آیا۔
جمی کے والد اور دوستوں نے اس کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کسی کو نہ ملا۔ ڈاکٹر ضیاء ایک دن کھانے کے لیے لکشمی چوک گیا تو اسے جمی نظر آیا اور پھر ایک دم نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ضیاء اس کو ڈھونڈتا رہا۔ چوک کے نزدیک کوچوانوں کا ایک بسیرا تھا جہاں وہ اپنے ٹانگے اور گھوڑوں کو کھول کر آرام کرتے تھے۔ جمی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ضیاء وہاں پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا عزیز ترین دوست کوچوانوں کے ساتھ گھوڑوں کے درمیان لیٹا ہوا ہے۔ اس کے جسم پر گھوڑوں کی غلاظت موجود ہے اور وہ تقریباً بے ہوش ہے۔ ضیاء اسے زبردستی ہاسٹل لے آیا اور اس کو کمرے میں بند کر کے والد کو اطلاع دی۔ والد اپنے بیٹے کو مری لے گئے اور اس کا علاج کرانے کے لیے کلینک میں داخل کرا دیا۔ جمی وہاں ایک ماہ قید رہا کیونکہ اس کلینک کے ڈاکٹر ہیروئن کے مریضوں کو باہر نہیں نکلنے دیتے تھے۔ مگر جمی وہاں سے بھی بھاگ کر لاہور آ گیا۔ گزشتہ تیس سال سے جمی لاہور کی سڑکوں پر رہتا ہے۔ وہ صرف ہیروئن پیتا ہے اور اب وہ لاعلاج ہے۔ چھ فٹ کا سرخ و سپید نوجوان اب بالکل سیاہ ہو چکا ہے۔ ا س کے ہاتھ میں دو تین پلاسٹک کے لفافے ہوتے ہیں اور اس کو کوئی بھی پہچان نہیں سکتا کیونکہ وہ تقریباً ستر؍ اسی سال کا ایک بوڑھا نظر آتا ہے۔ اس کی کمر میں خم آ چکا ہے جس کی بدولت اس کا قد صرف تین چار فٹ رہ گیا ہے۔ جمی کسی پرانے دوست، عزیز یا رشتہ دار سے نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ، اسی وضع قطع کے دو چار لوگ ہوتے ہیں۔ پائوڈر ڈاکٹر جمی کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے اور ہمارے ملک کا ایک بہترین دماغ ہیروئن کی نذر ہو کر برباد ہو چکا ہے۔
ہم کون لوگ ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ ٹی وی پر ناچ ناچ کر اپنے ملک کی عظمت کے گیت گاتے ہیں مگر ملک کی نوجوان نسل پائوڈر کی بدولت عالم برزخ میں زندہ رہ رہی ہے۔ ہمارے یہ عظیم سپوت گلیوں سے نالیوں تک کے مسافر ہیں اور وہیں اچانک دم توڑ دیتے ہیں۔ ہم ڈرون حملے نہیں روک سکتے؟ ہم اپنے لوگوں کو طالبان کے ہاتھوں ذبح ہونے سے بھی نہیں بچا سکتے، مگر ہم کوشش کر کے کسی جمی کو موت کے سفر پر جانے سے تو روک سکتے ہیں؟ مگر کون روکے گا اور کیوں روکے گا؟ یہ تو ہمارے ملک کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے؟