کماؤ شوہر کی بیوی

لڑکی جب بارہ تیرہ برس کی ہوتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ اسے دوسرے گھر جانا ہے۔ ماں باپ، بڑی بہنوں...

03332257239@hotmail.com

لڑکی جب بارہ تیرہ برس کی ہوتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ اسے دوسرے گھر جانا ہے۔ ماں باپ، بڑی بہنوں، خالہ و ممانیوں کو بات کرتے دیکھتی ہے تو اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا موجودہ گھر عارضی ہے۔ لڑکیاں جب اور بڑی ہوتی ہیں تو ان کی سہیلیوں کی منگنیاں ہوتی ہیں۔ پھر وہ بھی سپنوں کے شہزادے کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ لڑکی چاہے فقیر کی ہو یا بادشاہ کی، اسے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کا اگلا گھر اچھا ہی ہوگا۔ لڑکی امید اور خوف کے درمیان میں ہوتی ہے۔

اسکول کی طالبات جب سیکنڈری میں پہنچتی ہیں تو ان کی پکنک، ہلے گلے عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، کبھی روبرو اور کبھی دور سے سنائی دیتے ہیں، یوں سمجھیں کہ موج میلے کی سی زندگی ہوتی ہے۔ ان کے برابر میں کھڑی استانیوں کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ غم ہے، اداسی ہے، ملال ہے، سنجیدگی ہے۔ اتنا زیادہ فرق کیوں نظر آتا ہے پندرہ اور تیس برس کی صنف نازک میں؟

شادی کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کے کیا مسائل ہوتے ہیں؟ یا یوں سمجھ لیں کہ سولہ سے بتیس سال کی عمر تک آتے آتے خواتین کن معاشرتی دکھوں سے گزرتی ہیں؟ پہلا مسئلہ ہوتا ہے کہ وقت پر لڑکی کی منگنی ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر تاخیر ہوگئی ہے تو دوسری ہم جولیوں یا کسی کزن کی تقریبات میں اس سے بڑی عمر کی سہیلی کڑھتی ہے۔ لڑکیوں میں ایک دوسرے کو جلانے یا دکھاوا کرنے اور شو مارنے کی عادت زیادہ ہوتی ہے۔ لڑکے کی ماں ہی ہمارے معاشرے میں اپنے بیٹے کی منگنی کو نکلتی ہے جب کہ لڑکی والے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لڑکے تو اپنے دوستوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ابھی منگنی کا ارادہ نہیں۔ منگنی ہوتے، شادی ہوتے اور صاحب اولاد ہوتے دوستوں کو دیکھ کر لڑکے صرف سوچتے ہیں جب کہ لڑکیوں کو یہ تاخیر جلاپا لگنے لگتی ہے۔ اب سمجھیں کہ منگنی ہوگئی تو کبھی کبھار لڑکے والے لالچی ہوں تو ان کے تقاضے اور فرمائشیں لڑکی کو دکھ پہنچاتے ہیں۔

وہ اپنے غریب ماں باپ کی حالت کو دیکھ کر خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے۔ لڑکی کا تیسرا مسئلہ نئے گھر میں جاکر وہاں رچ بس جانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ساس و نند مسئلے کھڑے کر دیتی ہیں، تو کبھی غربت تو کبھی شوہر کی بدمزاجی۔ یوں لڑکی منگنی سے شادی یا بیس سے تیس سال کی عمر تک آتے آتے ان پانچ متوقع غموں سے دوچار ہوتی ہے۔ چھٹا مسئلہ ماں بننے کا ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو رشتے داروں، عورتوں اور پڑوسنوں کے طعنے نما سوالات لڑکی کو جینے نہیں دیتے۔ اسی لیے اسکول کی طالبات ہمیں خوش نظر آتی ہیں جب وہ سب مل کر زندگی کا لطف اٹھا رہی ہوتی ہیں اور اسی لمحے میں ان کی استانی اداس نظر آتی ہے۔ شاید چھ دکھوں میں سے کوئی دکھ یا روگ انھیں لگا ہے۔ اگر دس بارہ ٹیچرز میں سے دو تین خوش ہوں تو دوسروں کی اکثریت کے سبب وہ خاموش رہتی ہیں۔ اب جو عورت ان تمام بحرانوں سے خیریت سے گزر جائے اسے کیا کرنا چاہیے؟ یہ آج کے ہمارے کالم کا موضوع ہے جس کے لیے تمہید ہی نے نصف وقت صرف کروادیا۔


لڑکی کی منگنی ہوگئی، شادی ہوگئی، سسرال اچھا ہے، ماں بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا جب کہ شوہر بااخلاق اور کماؤ ہے تو اب خاتون کی ذمے داری ہے کہ معاشرے کو کچھ لوٹائے اور رب کی احسان مند رہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ خاندان کے دوسرے مرد یعنی سسر، دیور، جیٹھ بھی کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی آمدنیاں ملاکر بھی اس خاتون کے شوہر سے کم ہوتی ہیں۔ وہ عورت جوکماؤ شوہرکی بیوی ہے اور ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے۔ اب ہم اسی عورت کی نفسیاتی کیفیت بیان کر رہے ہیں۔

کماؤ شوہر کی بیویاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ اچھی اور بری۔ صاف اور بڑے دل کی بیوی اپنے شوہر کی کمائی پر پورے خاندان کا حق سمجھتی ہے۔ وہ شکر کرتی ہے کہ اللہ نے اس کے شوہر کو یہ اعزاز بخشا ہے۔ ایسی بیوی اپنے شوہر کی آمدنی اور اخلاق کی بدولت پورے خاندان میں عزت کی مستحق قرار پاتی ہے۔ کم ظرف اور چھوٹے دل کی بیوی اس بات پر کڑھتی ہے کہ اس کے شوہر کی کمائی پر پورا گھرانہ کیوں عیش کر رہا ہے۔ وہ شوہر سے الجھتی ہے اور ساس نندوں کو طعنے دیتی ہے۔ وہ اپنے سسر، جیٹھ یا دیور کی نیم بے روزگاری یا کم آمدنیوں پر طنز کرتی ہے۔ یہ صرف جاب کرنے والے اور ایک الگ قسم کے روزگار سے وابستہ خاندان ہی کا مسئلہ نہیں۔ بعض اوقات مشترکہ کاروبار میں کوئی شخص اہم کام کر رہا ہوتا ہے۔ پورا خاندان سمجھتا ہے کہ اس شخص کی ذہانت اور محنت کی بدولت خوشحالی نظر آرہی ہے۔ اب دو قسم کی بیویاں دو قسم کی صورت حال سے دوچار ہوتی ہیں۔ ایک مسئلہ روز مرہ کے اخراجات سے متعلق ہوتا ہے۔ زیادہ آمدنی والا شخص گھر کے اکثر خرچے اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ واقعتاً اس کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ایک بڑے کنبے پر لگ رہا ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ کماؤ شوہر کی بیوی کی نند یا دیور کی شادی کا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی توقع بھی اسی بیٹے سے ہوتی ہے جو کماؤ پوت ہوتا ہے۔ ایسے میں دونوں قسم کی بیویوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ اچھی بیوی بعض اوقات اپنے جہیز میں آئی اچھی چیز بھی نند کو دے دیتی ہے۔ دوسری طرف چھوٹے دل اور چھوٹے ذہن کی بیوی اس مسئلے پر شوہر سے جھگڑتی رہتی ہے۔ بعض اوقات شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس کے شوہر کو قرض بھی لینا پڑتا ہے۔ ایسے میں لڑاکا بیوی شوہر کا جینا دوبھر کردیتی ہے۔

آج ہمارا موضوع وہ بیوی ہے جس کا شوہر زیادہ کماتا ہے۔ لیکن اس کی کمائی کا بڑا حصہ عورت کے سسرالی خاندان پر لگ جاتا ہے۔ ہم نے ابتدا میں پندرہ سالہ لڑکی کے مسائل بیان کیے کہ منگنی، شادی، پھر خوشحالی، اچھا سسرال، اچھا شوہر اور اولاد جیسے بحران سے اسے گزرنا پڑتا ہے۔ جو لڑکی تمام مراحل سے بخیروخوبی گزر گئی ہے اسے شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسے اپنے رب کی رحمت کے آگے سجدہ ریز ہونا چاہیے کہ مالک نے اسے دینے والا بنایا ہے لینے والا نہیں۔ اسے اپنی دیورانیوں، جیٹھانیوں پر نظر رکھنی چاہیے جن کے شوہر کی کم آمدنیوں نے انھیں مرعوب سا کردیا ہے۔ زیادہ بہتر صورت و سیرت و سلیقے کے باوجود ان کی یہ دبی دبی سی خواہش ہے کہ ان کا مجازی خدا بھی زیادہ کمائے۔

پوری دنیا ایک کنبہ ہے اللہ تعالیٰ کا۔ وہ رزاق ہے اور ہم سب کا پالن ہار ہے۔ وہ اسے دیتا ہے جو اس کی طرف سے سب کو دے۔ زیادہ کمانے والے کی بیوی کو اپنے شوہر کو ''امین'' سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے حوالے ایک امانت کی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو لوٹا دے۔ یہ عزت افزائی ہوتی ہے اگر بیویاں سمجھیں۔ اگر وہ دل چھوٹا کریں گی اور اسے اپنے شوہر کا کمائی کو لٹانا سمجھیں گی تو ان سے یہ اعزاز چھین لیا جائے گا۔ یہ عزت ووقار ایک شخص سے لے کر کسی دوسرے کو دے دیا جائے گا۔ عزت سے نئے گھر آنے والی بیوی کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ اپنے مجازی خدا کی آمدنی کو خدا کا فضل سمجھنا چاہیے اور اس پر دوسروں کا حق بھی۔ جو عورت یہ نہیں سمجھے گی وہ محروم کردی جائے گی۔ قدرت کی اس حکمت کو سمجھنا چاہیے بیویوں کو۔لٹانے اور اور لوٹانے کے فرق کو سمجھنا چاہیے کماؤ شوہر کی بیوی کو۔
Load Next Story