حساس قومی ایشوز اورہماری ذمے داری
ذرائع ابلاغ خواہ نشری ہوں یا تحریری، جمہوریت کا اہم ترین ستون شمار ہوتے ہیں اور کسی بھی ملک اور معاشرے کی...
ذرائع ابلاغ خواہ نشری ہوں یا تحریری، جمہوریت کا اہم ترین ستون شمار ہوتے ہیں اور کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی وخوشحالی میں ذرائع ابلاغ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں میڈیا جہاں ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے وہاں اسی قوت نے میڈیا پر بڑی ذمے داریاں بھی عائد کردی ہیں، لہٰذا میڈیا کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس وقت پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں دو اہم موضوعات زیر بحث ہیں جن میں ایک نئے آرمی چیف کی تقرری ہے جبکہ دوسرا یہ ہے کہ آیا طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا جنگ۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری ایک انتہائی حساس موضوع ہے لہٰذا راقم نہایت ادب اور احترام کے ساتھ تمام ذرائع ابلاغ کے نمائندوں خصوصاً ٹی وی ٹاک شوز کے میزبانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس موضوع پر گفتگو اور تبصروں سے احتراز کریں، کیونکہ اسی میں ملک کی بہتری ہے۔ اس حساس معاملے کو متنازعہ بنانے یا زیر بحث لانے سے نہ صرف اس منصب بلکہ ملکی سلامتی پر مامور اداروں کی بھی توہین ہوتی ہے۔ میری درخواست ہے کہ اگر کچھ کہا بھی جائے تو صرف یہ کہ اس حساس منصب پر جس کی بھی تعیناتی ہو وہ سفارش، دوستی، رشتے داری اور پسند ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو۔
جہاں تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے موضوع کا تعلق ہے تو اس سال 9 ستمبر کو اس معاملے پر ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، جس میں شریک تمام چھوٹی بڑی جماعتوںنے متفقہ طور پر یہ طے کیا تھا کہ ملک کو انتشار سے بچانے اور امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، لہٰذا اب جبکہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس حوالے سے تھوڑا سا انتظار کرلیں۔ آخر حکومت اور عسکری اداروں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے اور تیز گام چلانے کی کیاضرورت ہے؟ جو جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ حکومت جلد سے جلد مذاکرات شروع کرے وہ اپنا ایک اجلاس کرکے اس حوالے سے اپنی تجاویز اور سفارشات حکومت کے حوالے کردیں، کیونکہ یہ انتہائی پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ حکومت اور عسکری اداروں کو مذاکرات کے حوالے سے بہت سے امور پر نگرانی رکھنی ہے اور ہمیں عجلت کا مظاہرہ کرکے حکومت اور عسکری اداروں کی رٹ کو زک نہیں پہنچانی چاہیے۔
اس وقت ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، اقتصادی و معاشی صورتحال کے حوالے سے ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت انتہائی تیزی سے گرتی جارہی ہے، ملک کو درجنوں دیدہ و نادیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہمیں ڈس رہا ہے۔ اختلاف رائے یقینا ہم سب کا جمہوری وآئینی حق ہے لیکن موجودہ نازک حالات کا تقاضا ہے کہ خدارا ان حالات میں حکومت اور عسکری اداروں کی رٹ کو داؤ پر نہ لگایا جائے۔ حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کی رٹ کو زک نہ پہنچائی جائے۔ غیر ضروری اور بے جا تبصرے اور تنقید سے ملکی سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں کے مورال میں بھی فرق آسکتا ہے، جس کا اس وقت ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں، حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ سرجوڑ کر بیٹھیں اور وہ فیصلے کریں جو ملک اور قوم کے لیے بہترین ہوں، کوئی اور آپ کا ساتھ دے یا نہ دے ، خدا کی قسم ایم کیو ایم کے لاکھوں کارکنان آپ کا بھرپور طریقے سے ساتھ دیں گے۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں صوبائی وزیر قانون سمیت متعدد افراد کی شہادت، درجنوں افرادکے زخمی ہونے اور بچیوں کے ایک اسکول کو بارود سے اڑانے کے المناک واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر ملک کے چاروں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہتر رہی۔ اس کا سہرا انتظامیہ، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے سرجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے، مساجد، امام بارگاہوں، بزرگان دین کے مزارات پر بموں سے حملے ہوئے، بچیوںکے اسکول بموں سے اڑائے جاتے رہے، ایسے میں ایم کیوایم واحد جماعت ہے جس نے اس دہشت گردی کی سب سے زیادہ کھل کرمذمت کی۔
ایم کیوایم واحد جماعت ہے جودوغلی یا منافقانہ سیاست نہیں کرتی بلکہ حق پرستانہ سیاست کرتی ہے۔ ایم کیو ایم کا فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی ہے، وہ جن مقاصد کے لیے جدوجہد کررہی ہے، ان میں ملک کو فلاحی ریاست بنانا، عوام کو انصاف فراہم کرنا، کرپشن، بدعنوانی، سرکاری خزانے کی لوٹ مار کا خاتمہ کرنا، غریب و متوسط طبقے کے پڑھے لکھے، دیانتدار، فرض شناس افراد کی حکومت قائم کرنا اور ملک میں ایسا فلاحی و جمہوری نظام لانا ہے جہاں رشتوں، دوستی یاری، پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے نہ ہوں، کسی بھی حکومتی یا سرکاری یا غیر سرکاری پوزیشن پر تقرری اقرباپروری کی بنیاد پر نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر کی جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی بحرانوں سے نجات دلائے، ملک میں قومی یکجہتی فروغ پائے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔ اللہ، پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
اس وقت پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں دو اہم موضوعات زیر بحث ہیں جن میں ایک نئے آرمی چیف کی تقرری ہے جبکہ دوسرا یہ ہے کہ آیا طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا جنگ۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری ایک انتہائی حساس موضوع ہے لہٰذا راقم نہایت ادب اور احترام کے ساتھ تمام ذرائع ابلاغ کے نمائندوں خصوصاً ٹی وی ٹاک شوز کے میزبانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس موضوع پر گفتگو اور تبصروں سے احتراز کریں، کیونکہ اسی میں ملک کی بہتری ہے۔ اس حساس معاملے کو متنازعہ بنانے یا زیر بحث لانے سے نہ صرف اس منصب بلکہ ملکی سلامتی پر مامور اداروں کی بھی توہین ہوتی ہے۔ میری درخواست ہے کہ اگر کچھ کہا بھی جائے تو صرف یہ کہ اس حساس منصب پر جس کی بھی تعیناتی ہو وہ سفارش، دوستی، رشتے داری اور پسند ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو۔
جہاں تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے موضوع کا تعلق ہے تو اس سال 9 ستمبر کو اس معاملے پر ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، جس میں شریک تمام چھوٹی بڑی جماعتوںنے متفقہ طور پر یہ طے کیا تھا کہ ملک کو انتشار سے بچانے اور امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، لہٰذا اب جبکہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس حوالے سے تھوڑا سا انتظار کرلیں۔ آخر حکومت اور عسکری اداروں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے اور تیز گام چلانے کی کیاضرورت ہے؟ جو جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ حکومت جلد سے جلد مذاکرات شروع کرے وہ اپنا ایک اجلاس کرکے اس حوالے سے اپنی تجاویز اور سفارشات حکومت کے حوالے کردیں، کیونکہ یہ انتہائی پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ حکومت اور عسکری اداروں کو مذاکرات کے حوالے سے بہت سے امور پر نگرانی رکھنی ہے اور ہمیں عجلت کا مظاہرہ کرکے حکومت اور عسکری اداروں کی رٹ کو زک نہیں پہنچانی چاہیے۔
اس وقت ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، اقتصادی و معاشی صورتحال کے حوالے سے ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت انتہائی تیزی سے گرتی جارہی ہے، ملک کو درجنوں دیدہ و نادیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہمیں ڈس رہا ہے۔ اختلاف رائے یقینا ہم سب کا جمہوری وآئینی حق ہے لیکن موجودہ نازک حالات کا تقاضا ہے کہ خدارا ان حالات میں حکومت اور عسکری اداروں کی رٹ کو داؤ پر نہ لگایا جائے۔ حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کی رٹ کو زک نہ پہنچائی جائے۔ غیر ضروری اور بے جا تبصرے اور تنقید سے ملکی سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں کے مورال میں بھی فرق آسکتا ہے، جس کا اس وقت ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں، حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ سرجوڑ کر بیٹھیں اور وہ فیصلے کریں جو ملک اور قوم کے لیے بہترین ہوں، کوئی اور آپ کا ساتھ دے یا نہ دے ، خدا کی قسم ایم کیو ایم کے لاکھوں کارکنان آپ کا بھرپور طریقے سے ساتھ دیں گے۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں صوبائی وزیر قانون سمیت متعدد افراد کی شہادت، درجنوں افرادکے زخمی ہونے اور بچیوں کے ایک اسکول کو بارود سے اڑانے کے المناک واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر ملک کے چاروں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہتر رہی۔ اس کا سہرا انتظامیہ، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے سرجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے، مساجد، امام بارگاہوں، بزرگان دین کے مزارات پر بموں سے حملے ہوئے، بچیوںکے اسکول بموں سے اڑائے جاتے رہے، ایسے میں ایم کیوایم واحد جماعت ہے جس نے اس دہشت گردی کی سب سے زیادہ کھل کرمذمت کی۔
ایم کیوایم واحد جماعت ہے جودوغلی یا منافقانہ سیاست نہیں کرتی بلکہ حق پرستانہ سیاست کرتی ہے۔ ایم کیو ایم کا فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی ہے، وہ جن مقاصد کے لیے جدوجہد کررہی ہے، ان میں ملک کو فلاحی ریاست بنانا، عوام کو انصاف فراہم کرنا، کرپشن، بدعنوانی، سرکاری خزانے کی لوٹ مار کا خاتمہ کرنا، غریب و متوسط طبقے کے پڑھے لکھے، دیانتدار، فرض شناس افراد کی حکومت قائم کرنا اور ملک میں ایسا فلاحی و جمہوری نظام لانا ہے جہاں رشتوں، دوستی یاری، پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے نہ ہوں، کسی بھی حکومتی یا سرکاری یا غیر سرکاری پوزیشن پر تقرری اقرباپروری کی بنیاد پر نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر کی جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی بحرانوں سے نجات دلائے، ملک میں قومی یکجہتی فروغ پائے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔ اللہ، پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔