تعلیم اور حکومت
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا مزاج ہی اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑانے والا واقع ہوا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے...
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا مزاج ہی اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑانے والا واقع ہوا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد پوری دنیاکو بتایا گیا کہ طالبان بچوں کی تعلیم کے دشمن ہیں،وہ تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور وہ اسکولوں کو ویران کررہے ہیں،اس وجہ سے پوری دنیا نے بیک جنبش لب طالبان کو اجڈ اور گنوار کہا۔ملالہ بیرون ملک جا کرچین و سکون سے تعلیم حاصل کرنے لگی ۔ ہمارے حکمرانوں نے سمجھا شاید اب پورا ملک تعلیم یافتہ ہوگیا۔ اگر ملالہ تعلیم حاصل کررہی ہے تو گویا ملک کے تمام بچے ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ہمارے حکمران ملالہ اور تعلیم کی بانسری تو بجاتے رہے لیکن تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی مضبوط قدم نہ اٹھا سکے اور طالبان کی آڑ میں پاکستان کے ان لاکھوں بچوں کو بھول گئے جو طالبان کے علاقوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی پرامن اور محفوظ شہروں میں رہتے ہوئے بھی تعلیم کے حصول سے محروم ہیں۔
جنہوں نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا،جن کی زندگی بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک جہالت کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے گزرتی ہے،جویہ تک نہیں جانتے کہ علم کسے کہتے ہیں۔اگرطالبان اس وجہ سے تعلیم دشمن ہیں کہ وہ اسکولوں کو ویران کررہے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر ہماری حکومتیں ان سے بھی بڑی تعلیم دشمن ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے آج بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ طالبان، فوج لڑائی میں تو سیکڑوں اسکول تباہ ہوئے ہوں گے جس سے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہوئے لیکن حکومت کی وجہ سے ہزاروں اسکول ویران اور لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ویسے بھی ہر پاکستانی بچے کو تعلیم سے آراستہ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے طالبان کی نہیں۔ہمارے حکمران اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں سے 113 ویں نمبر پر ہے۔ پرائمری کے 65 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جن میں 30لاکھ سے زائد بچیاں ہیں۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد پاکستان تیسرا ملک ہے جہاں بچوں کی اکثریت اسکول جانے سے محروم ہے۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم اسپارک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کی تعداد 19.73 ملین ہے، ان میں سے ایک چوتھائی بچے اسکول نہیں جاتے،جس کی وجہ طبقاتی وجوہات اور غربت ہے۔ 2015 ء تک خطے میں سب سے زیادہ اسکول نہ جانے والے بچے پاکستان میں ہوں گے،جو انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔ پرائمری تعلیم میں 10 لڑکوں کے مقابلے میں صرف 8 لڑکیاں ہی اسکول کا رخ کرتی ہیں، مگر ان کی حالت بھی نہایت پسماندہ ہے اور .9 38 فی صد بچیاں، .2 30 فیصد بچے بنیادی تعلیم کے لیے کبھی پرائمری اسکول جا ہی نہیں سکے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اْن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسکولوں میں داخلے کے بعد پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے قبل پڑھائی چھوڑ دینے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو .8 42 فیصد بنتی ہے۔پنجاب میں 61 فیصد، سندھ میں 53 فیصد، خیبر پختونخوا میں 51 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد بچے ہی اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب کے 17 فیصد بچے کبھی اسکول نہیں گئے، خیبرپختونخوا میں ایسے بچوں کی شرح 25 فیصد، بلوچستان میں سب سے زیادہ 37 فیصد ہے۔ صوبہ بلوچستان میں 5سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد لگ بھگ 34 لاکھ ہے جن میں سے محض 11 لاکھ بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور23 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غربت و افلاس، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریوں کی وجہ سے اسکول کی تعلیم سے محروم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 216,490 ہے۔ جن میں سے بلوچستان میں 10381، پنجاب 106,435، سندھ 46,862 اور خیبرپختونخوا میں 36,029 تعلیمی ادارے ہیں۔ یوں پنجاب میں 48 فیصد ، سندھ میں 22 اور سرحد میں 17 فیصد تعلیمی ادارے ہیں جب کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی شرح صرف 5 فیصد بنتی ہے۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی پتلی ہے۔ صوبہ پنجاب میں تقریباً ساڑھے 14 ہزار سرکاری اسکول مناسب عمارتی ڈھانچے سے محروم ہیں ، جہاں طلبا و طالبات درختوں تلے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔پنجاب بھر میں لگ بھگ20 ہزار درسگاہیں پینے کے صاف پانی اور ایسی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اسی طرح چند ماہ قبل صوبہ سندھ کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس صوبے میں 6,721 گورنمنٹ اسکول ایسے ہیں جو اس وقت کام نہیں کر رہے۔جن میں سے 2,181 اسکولوں کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے،متعدد کی صرف برائے نام ہی عمارتیں قائم ہیں اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سات ہزار کے قریب ان اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل بجٹ فراہم کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ملک بھر میں مزید 1200 گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جن کی تعداد خیبرپختونخوا میں 345 اور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں 305، صوبے پنجاب میں ان گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 276 ، سندھ میں 64، بلوچستان میں 69، پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں 89 اسکول اور اسلام آباد میں 57 گھوسٹ اسکول ہیں،ان اسکولوں میں کسی بھی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان گھوسٹ اسکولوں میں اربوں روپے کی کرپشن بھی کی جاتی ہے، گھوسٹ اسکولوں میں کرپشن کے بعد پکڑے جانے کے امکانات نسبتاً کم ہوتے ہیں جب کہ اس میں منافعے بہت زیادہ ہے۔ گھوسٹ اسکول جو سرکار کی دستاویزات پر موجود ہیں اور ان کا عملہ باقاعدگی سے تنخواہیں بھی وصول کرتا ہے، حکومت کی طرف سے اسکولوں کا فنڈ بھی جاری ہے لیکن زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں، نہ ہی حکومت کی ان کی طرف کوئی توجہ ہے۔
پاکستان بھر میں ایسے بے شمار اسکول ہیں جن پر سیاست دانوں، جاگیرداروں،وڈیروں اور بااثر شخصیات کا قبضہ ہے، لیکن حکومت ان سے قبضہ چھڑانے کی کوئی سبیل ہی نہیں نکالتی۔ اس سب کچھ کے باوجود فیصلہ آپ کریں کہ تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ طالبان ہیں یا حکومت؟اگر حکومت کو واقعی ملالہ ، تعلیم اور پاکستان کے بچوں سے کچھ دلچسپی ہے تو پاکستان میں تعلیم کے تمام مسائل حل کرکے ملک میں تعلیم سے محروم رہ جانے والے لاکھوں غریب بچوں کو بھی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کو ہر قسم کی کرپشن اور خامیوں سے پاک کرکے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو ملک و ملت کی ترقی کا سبب بنے۔غریب اور امیر کے بچوں کو ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں تاکہ غریبوں میںاحساس کمتری ختم ہو اور انھیں بھی آگے بڑھنے کا موقع ملے۔یہ سب کچھ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، اس سے آنکھیں چرانے سے کام نہیں چلے گا۔