انسان یا حیوان
دنیا میں قدرت نے حشرات الارض شکل میں جاندار پیدا کیے، خونخوار حیوانات، جانور جیسی مخلوق پیدا کی، ان کے زندہ رہنے ...
دنیا میں قدرت نے حشرات الارض شکل میں جاندار پیدا کیے، خونخوار حیوانات، جانور جیسی مخلوق پیدا کی، ان کے زندہ رہنے کے لیے رزق بھی عطا کیا، کچھ جانوروں کو جانوروں ہی کے شکار کے ذریعے رزق عطاکیا۔ چرند پرند، رینگنے والی مخلوق سب اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کی حمد کرتے دکھائی دیں گے لیکن ان تمام جانداروں میں حضرت انسان کو اشرف ترین بناکر دنیا میں بھیجا۔ انسان کی ہدایت و تربیت کے لیے مختلف ادوار کے وقفے سے چار پیغمبروں کو الہامی کتابوںکے ساتھ انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ بالترتیب سب سے پہلے حضرت موسیٰ کو توریت، حضرت دائودکو زبور، حضرت عیسیٰ کو انجیل اور آخری درس ہدایت ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو قرآن مجید کے ساتھ دنیا میں بھیجا۔ ان چاروں الہامی کتابوں اور پیغمبروں کا بنیادی اور آفاقی مقصد انسانوں کی فلاح و بہبود اور درس ہدایت اﷲ کے بتائے راستے کے مطابق تھا۔ قرآن پاک نے ہمیں شریعت دین حنیف کی شکل میں دیا۔ سوچنے سمجھنے کا شعور پیدا کیا، انسانی برتائو کا درس دیا، اخلاق، تقویٰ، دیانت داری، بھائی چارگی کا وہ عظیم درس دیا جس سے انسان کائنات کی اشرف المخلوق کہلانے کا حق دار ہوا۔ اسی میں پیغمبروں اور الہامی کتابوں کی تعلیمات کا نچوڑ ملے گا۔ ان چار الہامی کتابوں کے علاوہ درس ہدایت کے لیے کچھ پیغمبروں پر صحیفے بھی نازل ہوئے۔
قوموں کے عروج و زوال کے مشاہدات یہ ہیں کہ جو قوم سب سے کم وقت میں زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارے گی وہی ترقی یافتہ کہلائے گی لیکن جب اس ترقی کا فسوں ٹوٹتا ہے تو زمین آتش فشاں کی طرح پھٹ جاتی ہے۔ نوع انسانی کا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ آدمی آدم کا بیٹا ہے۔ دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں چاہتا کہ بوڑھا ہو لیکن بوڑھا ہوجاتا ہے۔ لیکن مرنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا یقین پیدا ہونے پر ہے۔ مشہور برطانوی فلاسفر اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل نے موجودہ دور میں انسانیت کا خطرناک ترین دشمن ''انسان'' ہی کو قرار دیا ہے۔
آج تیزی کے ساتھ عالمی اجارہ داریوں کی شدید گرفت کی زد میں آیا ہوا سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اتنی طاقت اختیار کر چکا ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنے اشاروں پر نچا رہا ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک کو اندرونی تصادم اور بین الممالک کی جنگوں کی خوفناک دلدل میں دھکیلتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہی نہیں یہ نظام قدرتی وسائل کواپنے بدترین استحصال اور لوٹ مار کا وسیلہ بھی بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی نے خود کرہ ارض کی زندگی کو ہی دائو پر لگا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ دنیا ستر بار ختم ہوکر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔ کسی زمانے میں انسان آگ کا استعمال سیکھ کر ترقی کرتا تھا اور کبھی لوہے کی دریافت ترقی کا ذریعہ بنتی تھی۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات و واقعات نے انسان کو مجبورکردیا ہے کہ بغیر توانائی کے حصول کے ہمارا مستقبل تاریک ہے۔
خواہ غاروں کی زندگی کا دور ہو، آگ سے واقفیت ہو یا انسانی ذہن توانائی کے جدید فارمولوں سے واقفیت رکھتا ہو، ہزاروں سال کی انسانی طور طریقوں کی تاریخ کی پردہ کشائی ہے۔ قومیں ترقی کے خوش نما دعوئوں اور نئی نئی ایجادات کے پردہ زنگاری میں خود کو تباہ و برباد بھی کرتی رہی ہیں۔ اچھاانسان بننا مومن کی معراج ہے۔ آپ عام زندگی میں لوگوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کریں جس سے حیوانیت کا گمان ہوتا ہے مثلاً سڑک پر چلتے ہوئے گاڑیوں، موٹر سائیکل سواروں کا بلاوجہ ہارن بجانا، تقریبات میں کھانے پر ٹوٹ پڑنا جیسے حیوان برسوں سے بھوک سے بے تاب ہوں۔ کھانا بھی اتنی کثرت سے پلیٹوں میں بھرتے ہیں کہ پلیٹوں میں پہاڑ کا سماں لگتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد جو مقدار پلیٹوں میں ضایع ہوتی ہے اس کا منظر بھی حیوانوں کی محفل کا منظر پیش کررہی ہوگی۔ گلی محلے میں بھی آپ مختلف غیر انسانی فعل محسوس کریں گے۔
بیت الخلاء کی صفائی اور اس کے استعمال سے قطعاً ناواقف قوم حتیٰ کہ مساجد کے بیت الخلاء کا غلاظت سے بھرپور منظر کسی حیوانیت سے کم نہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو محل کی طرح سجاتے ہیں اور گھر کے باہر گھر کے کوڑے کا ڈھیر پڑوسی کے گھروں کے پاس لگا دیتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں گھروں کے باہر لگے ہوئے برساتی نالے تو عجیب خوفناک صورتحال پیش کررہے ہوتے ہیں، اتنی بارش نہیں ہوتی جتنے برساتی نالے پورے علاقے میں شور مچارہے ہوں گے۔ محفل میں بیٹھ کر بلند آواز میں باتیں کرنا کہ جو دوسرے شریک افراد کے لیے باعث تکلیف ہو۔ کسی شخص سے قرض لیں گے تو منظر سے ہی غائب ہوجائیں گے۔ معصوم بچوں و بچیوں کے ساتھ بدفعلی کا مرتکب ہونا، لائوڈ اسپیکر کا غیر ضروری استعمال فضائی آلودگی پھیلانے کے مترادف ہے۔ جھوٹ بولنے، دھوکا دہی جیسی معاشرتی برائیاں حیوانیت کے زمرے میں آتی ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اپنا کام خود کیا کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے چکی پیس پیس کر دست مبارک میں چھالے تک پڑجاتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اندرونی اور بیرونی اعضاء کے ساتھ ایک صحت مند دماغ سے نوازا ہے۔ صحت مند ذہنی صحت ایک اچھے معاشرے کی ضمانت ہے۔ مسلمان نام ہے انسانیت کی اعلیٰ مدارج طے کرنے والا، اسلامی حلیہ ڈھال لینے سے انسان مسلمان نہیں بنتا۔ انسان کا دنیا میں طویل قیام گناہوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ ہم کبھی کبھی غصے میں یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں ''تو اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے'' ''میں تیری عزت کرتا ہوں یا تجھے عزت راس نہیں آتی'' جیسے کلمات کی زبان سے ادائیگی اﷲ کی ذات کو سخت ناپسند ہے، بلاشبہ زبان کا درست یا غلط استعمال کامیابیوں اور ناکامیوں کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اﷲ تعالیٰ کسی انسان کو غریب پیدا نہیں کرتا، غریب ہوتا ہے اپنے عقل و شعور کے فقدان سے۔
مستحکم سوچ، بہتر اور مفید حکمت عملی اپنانے سے اپنی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ انسان حقیقت میں احساسات کا مجموعہ ہے۔ خوف، غم، دکھ، سکھ سب اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔ دنیا میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں آخرت میں بخشش کا سبب بن سکتی ہیں، جس کی مثال اس واقعے سے عیاں ہوتی ہے۔ ایک قافلہ اندھیری سرنگ سے گزر رہا تھا، ان کے پیروں میں کنکریاں چبھیں، کچھ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ کسی اور کو نہ چبھ جائیں، نیکی کی خاطر اٹھا کر جیب میں رکھ لیں، کچھ نے زیادہ اٹھائیں اور کچھ نے کم۔ جب یہ قافلہ اندھیری سرنگ سے باہر آیا تو دیکھا وہ کنکریاں نہیں تھیں بلکہ ہیرے تھے، جنھوں نے کم اٹھائے وہ پچھتائے کہ کم کیوں اٹھائے، جنھوں نے نہیں اٹھائے وہ اور بھی زیادہ پشیمان ہوئے۔ پس دنیا کی زندگی کی مثال اسی اندھیری سرنگ کی سی ہے اور نیکیاں یہاں کنکریوں کی مانند ہیں۔ اس زندگی میں جو نیکی کی وہ آخرت میں ہیرے جیسی قیمتی ہوگی اور انسان ترسے گا کہ اور زیادہ کیوں نہیں کیں۔
قوموں کے عروج و زوال کے مشاہدات یہ ہیں کہ جو قوم سب سے کم وقت میں زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارے گی وہی ترقی یافتہ کہلائے گی لیکن جب اس ترقی کا فسوں ٹوٹتا ہے تو زمین آتش فشاں کی طرح پھٹ جاتی ہے۔ نوع انسانی کا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ آدمی آدم کا بیٹا ہے۔ دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں چاہتا کہ بوڑھا ہو لیکن بوڑھا ہوجاتا ہے۔ لیکن مرنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا یقین پیدا ہونے پر ہے۔ مشہور برطانوی فلاسفر اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل نے موجودہ دور میں انسانیت کا خطرناک ترین دشمن ''انسان'' ہی کو قرار دیا ہے۔
آج تیزی کے ساتھ عالمی اجارہ داریوں کی شدید گرفت کی زد میں آیا ہوا سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اتنی طاقت اختیار کر چکا ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنے اشاروں پر نچا رہا ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک کو اندرونی تصادم اور بین الممالک کی جنگوں کی خوفناک دلدل میں دھکیلتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہی نہیں یہ نظام قدرتی وسائل کواپنے بدترین استحصال اور لوٹ مار کا وسیلہ بھی بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی نے خود کرہ ارض کی زندگی کو ہی دائو پر لگا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ دنیا ستر بار ختم ہوکر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔ کسی زمانے میں انسان آگ کا استعمال سیکھ کر ترقی کرتا تھا اور کبھی لوہے کی دریافت ترقی کا ذریعہ بنتی تھی۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات و واقعات نے انسان کو مجبورکردیا ہے کہ بغیر توانائی کے حصول کے ہمارا مستقبل تاریک ہے۔
خواہ غاروں کی زندگی کا دور ہو، آگ سے واقفیت ہو یا انسانی ذہن توانائی کے جدید فارمولوں سے واقفیت رکھتا ہو، ہزاروں سال کی انسانی طور طریقوں کی تاریخ کی پردہ کشائی ہے۔ قومیں ترقی کے خوش نما دعوئوں اور نئی نئی ایجادات کے پردہ زنگاری میں خود کو تباہ و برباد بھی کرتی رہی ہیں۔ اچھاانسان بننا مومن کی معراج ہے۔ آپ عام زندگی میں لوگوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کریں جس سے حیوانیت کا گمان ہوتا ہے مثلاً سڑک پر چلتے ہوئے گاڑیوں، موٹر سائیکل سواروں کا بلاوجہ ہارن بجانا، تقریبات میں کھانے پر ٹوٹ پڑنا جیسے حیوان برسوں سے بھوک سے بے تاب ہوں۔ کھانا بھی اتنی کثرت سے پلیٹوں میں بھرتے ہیں کہ پلیٹوں میں پہاڑ کا سماں لگتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد جو مقدار پلیٹوں میں ضایع ہوتی ہے اس کا منظر بھی حیوانوں کی محفل کا منظر پیش کررہی ہوگی۔ گلی محلے میں بھی آپ مختلف غیر انسانی فعل محسوس کریں گے۔
بیت الخلاء کی صفائی اور اس کے استعمال سے قطعاً ناواقف قوم حتیٰ کہ مساجد کے بیت الخلاء کا غلاظت سے بھرپور منظر کسی حیوانیت سے کم نہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو محل کی طرح سجاتے ہیں اور گھر کے باہر گھر کے کوڑے کا ڈھیر پڑوسی کے گھروں کے پاس لگا دیتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں گھروں کے باہر لگے ہوئے برساتی نالے تو عجیب خوفناک صورتحال پیش کررہے ہوتے ہیں، اتنی بارش نہیں ہوتی جتنے برساتی نالے پورے علاقے میں شور مچارہے ہوں گے۔ محفل میں بیٹھ کر بلند آواز میں باتیں کرنا کہ جو دوسرے شریک افراد کے لیے باعث تکلیف ہو۔ کسی شخص سے قرض لیں گے تو منظر سے ہی غائب ہوجائیں گے۔ معصوم بچوں و بچیوں کے ساتھ بدفعلی کا مرتکب ہونا، لائوڈ اسپیکر کا غیر ضروری استعمال فضائی آلودگی پھیلانے کے مترادف ہے۔ جھوٹ بولنے، دھوکا دہی جیسی معاشرتی برائیاں حیوانیت کے زمرے میں آتی ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اپنا کام خود کیا کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے چکی پیس پیس کر دست مبارک میں چھالے تک پڑجاتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اندرونی اور بیرونی اعضاء کے ساتھ ایک صحت مند دماغ سے نوازا ہے۔ صحت مند ذہنی صحت ایک اچھے معاشرے کی ضمانت ہے۔ مسلمان نام ہے انسانیت کی اعلیٰ مدارج طے کرنے والا، اسلامی حلیہ ڈھال لینے سے انسان مسلمان نہیں بنتا۔ انسان کا دنیا میں طویل قیام گناہوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ ہم کبھی کبھی غصے میں یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں ''تو اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے'' ''میں تیری عزت کرتا ہوں یا تجھے عزت راس نہیں آتی'' جیسے کلمات کی زبان سے ادائیگی اﷲ کی ذات کو سخت ناپسند ہے، بلاشبہ زبان کا درست یا غلط استعمال کامیابیوں اور ناکامیوں کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اﷲ تعالیٰ کسی انسان کو غریب پیدا نہیں کرتا، غریب ہوتا ہے اپنے عقل و شعور کے فقدان سے۔
مستحکم سوچ، بہتر اور مفید حکمت عملی اپنانے سے اپنی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ انسان حقیقت میں احساسات کا مجموعہ ہے۔ خوف، غم، دکھ، سکھ سب اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔ دنیا میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں آخرت میں بخشش کا سبب بن سکتی ہیں، جس کی مثال اس واقعے سے عیاں ہوتی ہے۔ ایک قافلہ اندھیری سرنگ سے گزر رہا تھا، ان کے پیروں میں کنکریاں چبھیں، کچھ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ کسی اور کو نہ چبھ جائیں، نیکی کی خاطر اٹھا کر جیب میں رکھ لیں، کچھ نے زیادہ اٹھائیں اور کچھ نے کم۔ جب یہ قافلہ اندھیری سرنگ سے باہر آیا تو دیکھا وہ کنکریاں نہیں تھیں بلکہ ہیرے تھے، جنھوں نے کم اٹھائے وہ پچھتائے کہ کم کیوں اٹھائے، جنھوں نے نہیں اٹھائے وہ اور بھی زیادہ پشیمان ہوئے۔ پس دنیا کی زندگی کی مثال اسی اندھیری سرنگ کی سی ہے اور نیکیاں یہاں کنکریوں کی مانند ہیں۔ اس زندگی میں جو نیکی کی وہ آخرت میں ہیرے جیسی قیمتی ہوگی اور انسان ترسے گا کہ اور زیادہ کیوں نہیں کیں۔