یوم اساتذہ یوم احتجاج میں کیوں کر بدل گیا…
معماران قوم کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے
وطن عزیزمیں گذشتہ دنوں ''یوم اساتذہ'' منایا گیا جس کی مناسبت سے ملک کے کونے کونے میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
کہیں یہ تقریبات اربابِ اختیار کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاجی تھیں، تو کہیں استاد کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ریلیوں، کانفرنسوں اور سیمینارز کی صورت میں منعقد ہوئیں۔ مختلف تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے ان تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں اساتذہ کے ''تعمیر ملت'' کے کردارکو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے حقوق وضع کرتے ہوئے ان کے دفاع کے حوالے سے مطالبات کئے گئے۔ پاکستان میں یہ دن منانے کا آغاز 2005ء سے ہوا۔ آغاز کے چند سال تو اسے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا، مگر پھر اساتذہ کو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی سوجھی۔ اگرچہ اس مقصد کیلئے وہ 2005ء سے پہلے بھی میدان عمل میں رہے لیکن اب 5 اکتوبر کا دن انہوں نے اس مقصد کیلئے مخصوص کرلیا۔ حالانکہ اس دن کو اساتذہ سے عقیدت، ان کی صلاحیتوں کے اعتراف اور خراج تحسین پیش کرنے سے منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اجالے کے سفر پر گامزن کیا۔
اس روز سیمینارز ، واک اور ایسی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے حکام بالا تک وطن عزیز کے لاکھوں اساتذہ کی آواز پہنچائی جاتی اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ '' استاد کے مسائل کا حل جلسوں، مظاہروں، قراردادوں، سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہونے والے مطالبات، دعووں اور وعدوں میں نہیں بلکہ انہیں عملی جامہ پہنانے میں پوشیدہ ہے'' ۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر ہر سال بہت سے وعدوں کے ساتھ اہداف کا تعین کیئے جانے کے ساتھ اساتذہ کو بہت سے سہانے سپنے دکھائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگیاں بدلنے کی باتیں اور حالات بدلنے کے وعدے کئے جاتے ہیں، مگر یہ سلسلہ محض الفاظ کی جادوگری تک محدود رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اساتذہ ''یوم توقیر اساتذہ'' کو کبھی ''یوم سیاہ''، کبھی ''غلام ٹیچر ڈے'' اور کبھی ''یومِ تحفظ اساتذہ'' کے طور پر منانے پر مجبور ہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر ہمیں ایک بہترین قوم کی تشکیل درکار ہے تو اساتذہ کے مسائل اور مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کے ازالے کو اولیت دینا ہوگی۔
اساتذہ کے مسائل کیا ہیں، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس موضوع پر چیخنا چلانا تو کئی دہائیوں سے جاری ہے، تاہم یہ بات دہرا دینا لازمی ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی اور معاشی طور پر مضبوط نہ ہونا اساتذہ کے اہم ترین بنیادی مسائل ہیں۔ جس شخص نے نسلِ نو کی تربیت کرنی اور ایک سلجھا ہوا معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حکومت کی طرف سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اساتذہ میں ماضی کے اساتذہ جیسی خوبیاں نہیں ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے ہماری تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا تو اپنا فرض اس بھرپور طریقے سے نبھایا کہ صرف پڑھایا ہی نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کیا۔ ہمیں صرف کتابی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ دینی، اخلاقی، روحانی، جسمانی، ذہنی، معاشرتی اور ہر طرح کی تربیت سے بھی ہمکنار کیا۔ زمانے کے اتار چڑھائو سے لے کر اپنے احتساب تک، ہماری کردار سازی میں انہوں نے اپنا پورا حق یوں اداکیا کہ بے اختیار انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کا نام ہی نہیں، خیال بھی آئے تو ہم بے اختیار احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں کہ ہمیں وہ استاد ملے جن کی تربیت پر ہمیں فخر ہے۔ استاد محترم مرحوم محمد اشرف صاحب، مرزا یوسف، ناہید اعجاز، نواز چیمہ، محمد امین، قاری حق نواز، مظہر بیگ اور طاہر عزیز، میں کس کس کا نام لے کر اپنی قسمت پر ناز کروں؟۔ وجہ یہی تھی کہ تب معاشی بوجھ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ''معاشی دھماکوں'' میں ایسے جکڑے کہ اپنا بھی ہوش نہ رہا۔
استاد کو قوم کا معمار کہا اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ استاد کا پیشہ ایسا ہے جس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک ایسی صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کا دارومدار ہے۔ معلمین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماً غیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ حق دار ہیں۔ قومیں جب بھی عروج حاصل کرتی ہیں تو اپنے اساتذہ کی تکریم کی بدولت ہی حاصل کرتی ہیں۔کسی قوم پر زوال آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اساتذہ کی تکریم چھوڑ دینا ہے۔ ہمارے ملک میں استاد کی مجموعی صورتحال ، معاشرے اور ارباب اختیار کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو اساتذہ سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتے ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ آج اس پیشے کو اس حد تک نظروں سے گرا دیا گیا ہے کہ دورانِ تعلیم ہر طالبعلم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب تو دیکھتا ہے مگر پیشہ پیغمبری کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد جب کسی فرد کو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تب وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اساتذہ کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں اچھے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہیں، حالانکہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اساتذہ کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ سکولوں میں طلبہ سیکھنے اور عمل کے مراحل سے گزرتے ہیں تو اس میں بھی بنیادی کردار استاد کا ہی ہوتا ہے۔ طلبہ اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ والدین کے بجائے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں استاد ایک محسن کی حیثیت رکھتا تھا لیکن آج وہ اپنے آپ کو ملازم سمجھنے لگا ہے۔ آج وہ اپنے حقوق کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پورے پاکستان میں نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی کم و بیش تعداد 16 لاکھ ہے۔ اگر ان 16 لاکھ معمارانِ قوم کی آواز پر کان دھرے جائیں تو قوم کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔ پاکستان میں اس پیشے کی حالت زار یہ ہے کہ اوسطاً ہر سال تعلیمی اداروں میں سینکڑوں اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ سرائے کے مہمانوں کی طرح وقت گزارتے اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد تدریس کا پیشہ ترک کرکے اعلیٰ مشاہروں پر غیر سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عدلیہ اور بیوروکریسی کے لئے ہر سال مراعاتی پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ اساتذہ کے لئے یہ مراعات محض الفاظ کے گورکھ دھندے تک محدود ہیں۔ دوسری جانب انہیں انتقامی، انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر تبادلوں اور غیر تدریسی ڈیوٹیوں کی وجہ سے بے شمار تکلیف دہ مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں معیار تعلیم کی اصلاح و بہتری کی کوششیں کیسے کارگر ثابت ہوسکتی ہیں؟۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں فرق ختم کیا جائے اور انہیں ترقی اور وسائل کے یکساں مواقع دیئے جائیں، جبکہ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جائے۔ نیز ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو اساتذہ کی ملازمتوں کو محفوظ اور پرکشش بنانے، ان کی تنخواہوں، ترقیوں اور دیگر مراعات کے تعین کے لئے پالیسی سازی کرنے کے ساتھ رہائشی کالونیاں بھی بنائی جائیں۔ ارباب اختیار اگر اساتذہ کی الجھنیں دور کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پر توجہ دے سکیںگے کیونکہ باتیں ، دعوے اور وعدے تو بہت ہوچکے ... ہورہے ہیں ... اور ہوتے رہیں گے ... مگر اساتذہ کی تکریم پر محفلیں سجانے کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک ان کے مسائل حل نہ کئے جائیں۔ اس امر کے لیے فقط سنجیدہ کوششوں اور اسی مناسبت سے معاشرے میں آگہی اور ارباب اختیار میں احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم ہم اپنی اپنی سطح پر معلم کو اس کا حقیقی مقام و مرتبہ دلانے کے لئے کردار ادا کرسکیں۔
کہیں یہ تقریبات اربابِ اختیار کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاجی تھیں، تو کہیں استاد کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ریلیوں، کانفرنسوں اور سیمینارز کی صورت میں منعقد ہوئیں۔ مختلف تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے ان تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں اساتذہ کے ''تعمیر ملت'' کے کردارکو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے حقوق وضع کرتے ہوئے ان کے دفاع کے حوالے سے مطالبات کئے گئے۔ پاکستان میں یہ دن منانے کا آغاز 2005ء سے ہوا۔ آغاز کے چند سال تو اسے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا، مگر پھر اساتذہ کو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی سوجھی۔ اگرچہ اس مقصد کیلئے وہ 2005ء سے پہلے بھی میدان عمل میں رہے لیکن اب 5 اکتوبر کا دن انہوں نے اس مقصد کیلئے مخصوص کرلیا۔ حالانکہ اس دن کو اساتذہ سے عقیدت، ان کی صلاحیتوں کے اعتراف اور خراج تحسین پیش کرنے سے منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اجالے کے سفر پر گامزن کیا۔
اس روز سیمینارز ، واک اور ایسی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے حکام بالا تک وطن عزیز کے لاکھوں اساتذہ کی آواز پہنچائی جاتی اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ '' استاد کے مسائل کا حل جلسوں، مظاہروں، قراردادوں، سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہونے والے مطالبات، دعووں اور وعدوں میں نہیں بلکہ انہیں عملی جامہ پہنانے میں پوشیدہ ہے'' ۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر ہر سال بہت سے وعدوں کے ساتھ اہداف کا تعین کیئے جانے کے ساتھ اساتذہ کو بہت سے سہانے سپنے دکھائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگیاں بدلنے کی باتیں اور حالات بدلنے کے وعدے کئے جاتے ہیں، مگر یہ سلسلہ محض الفاظ کی جادوگری تک محدود رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اساتذہ ''یوم توقیر اساتذہ'' کو کبھی ''یوم سیاہ''، کبھی ''غلام ٹیچر ڈے'' اور کبھی ''یومِ تحفظ اساتذہ'' کے طور پر منانے پر مجبور ہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر ہمیں ایک بہترین قوم کی تشکیل درکار ہے تو اساتذہ کے مسائل اور مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کے ازالے کو اولیت دینا ہوگی۔
اساتذہ کے مسائل کیا ہیں، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس موضوع پر چیخنا چلانا تو کئی دہائیوں سے جاری ہے، تاہم یہ بات دہرا دینا لازمی ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی اور معاشی طور پر مضبوط نہ ہونا اساتذہ کے اہم ترین بنیادی مسائل ہیں۔ جس شخص نے نسلِ نو کی تربیت کرنی اور ایک سلجھا ہوا معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حکومت کی طرف سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اساتذہ میں ماضی کے اساتذہ جیسی خوبیاں نہیں ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے ہماری تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا تو اپنا فرض اس بھرپور طریقے سے نبھایا کہ صرف پڑھایا ہی نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کیا۔ ہمیں صرف کتابی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ دینی، اخلاقی، روحانی، جسمانی، ذہنی، معاشرتی اور ہر طرح کی تربیت سے بھی ہمکنار کیا۔ زمانے کے اتار چڑھائو سے لے کر اپنے احتساب تک، ہماری کردار سازی میں انہوں نے اپنا پورا حق یوں اداکیا کہ بے اختیار انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کا نام ہی نہیں، خیال بھی آئے تو ہم بے اختیار احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں کہ ہمیں وہ استاد ملے جن کی تربیت پر ہمیں فخر ہے۔ استاد محترم مرحوم محمد اشرف صاحب، مرزا یوسف، ناہید اعجاز، نواز چیمہ، محمد امین، قاری حق نواز، مظہر بیگ اور طاہر عزیز، میں کس کس کا نام لے کر اپنی قسمت پر ناز کروں؟۔ وجہ یہی تھی کہ تب معاشی بوجھ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ''معاشی دھماکوں'' میں ایسے جکڑے کہ اپنا بھی ہوش نہ رہا۔
استاد کو قوم کا معمار کہا اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ استاد کا پیشہ ایسا ہے جس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک ایسی صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کا دارومدار ہے۔ معلمین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماً غیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ حق دار ہیں۔ قومیں جب بھی عروج حاصل کرتی ہیں تو اپنے اساتذہ کی تکریم کی بدولت ہی حاصل کرتی ہیں۔کسی قوم پر زوال آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اساتذہ کی تکریم چھوڑ دینا ہے۔ ہمارے ملک میں استاد کی مجموعی صورتحال ، معاشرے اور ارباب اختیار کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو اساتذہ سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتے ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ آج اس پیشے کو اس حد تک نظروں سے گرا دیا گیا ہے کہ دورانِ تعلیم ہر طالبعلم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب تو دیکھتا ہے مگر پیشہ پیغمبری کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد جب کسی فرد کو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تب وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اساتذہ کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں اچھے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہیں، حالانکہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اساتذہ کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ سکولوں میں طلبہ سیکھنے اور عمل کے مراحل سے گزرتے ہیں تو اس میں بھی بنیادی کردار استاد کا ہی ہوتا ہے۔ طلبہ اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ والدین کے بجائے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں استاد ایک محسن کی حیثیت رکھتا تھا لیکن آج وہ اپنے آپ کو ملازم سمجھنے لگا ہے۔ آج وہ اپنے حقوق کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پورے پاکستان میں نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی کم و بیش تعداد 16 لاکھ ہے۔ اگر ان 16 لاکھ معمارانِ قوم کی آواز پر کان دھرے جائیں تو قوم کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔ پاکستان میں اس پیشے کی حالت زار یہ ہے کہ اوسطاً ہر سال تعلیمی اداروں میں سینکڑوں اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ سرائے کے مہمانوں کی طرح وقت گزارتے اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد تدریس کا پیشہ ترک کرکے اعلیٰ مشاہروں پر غیر سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عدلیہ اور بیوروکریسی کے لئے ہر سال مراعاتی پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ اساتذہ کے لئے یہ مراعات محض الفاظ کے گورکھ دھندے تک محدود ہیں۔ دوسری جانب انہیں انتقامی، انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر تبادلوں اور غیر تدریسی ڈیوٹیوں کی وجہ سے بے شمار تکلیف دہ مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں معیار تعلیم کی اصلاح و بہتری کی کوششیں کیسے کارگر ثابت ہوسکتی ہیں؟۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں فرق ختم کیا جائے اور انہیں ترقی اور وسائل کے یکساں مواقع دیئے جائیں، جبکہ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جائے۔ نیز ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو اساتذہ کی ملازمتوں کو محفوظ اور پرکشش بنانے، ان کی تنخواہوں، ترقیوں اور دیگر مراعات کے تعین کے لئے پالیسی سازی کرنے کے ساتھ رہائشی کالونیاں بھی بنائی جائیں۔ ارباب اختیار اگر اساتذہ کی الجھنیں دور کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پر توجہ دے سکیںگے کیونکہ باتیں ، دعوے اور وعدے تو بہت ہوچکے ... ہورہے ہیں ... اور ہوتے رہیں گے ... مگر اساتذہ کی تکریم پر محفلیں سجانے کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک ان کے مسائل حل نہ کئے جائیں۔ اس امر کے لیے فقط سنجیدہ کوششوں اور اسی مناسبت سے معاشرے میں آگہی اور ارباب اختیار میں احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم ہم اپنی اپنی سطح پر معلم کو اس کا حقیقی مقام و مرتبہ دلانے کے لئے کردار ادا کرسکیں۔