دیوان امرت رائے ادبی وسماجی خدمات
پاکستان بننے سے پہلے سندھی ہندوؤں کا سیاسی ، سماجی اور ادبی دنیا کے علاوہ معاشی ترقی میں بڑا ہاتھ تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے سندھی ہندوؤں کا سیاسی ، سماجی اور ادبی دنیا کے علاوہ معاشی ترقی میں بڑا ہاتھ تھا اور جب پاکستان وجود میں آیا تو کافی تعداد میں وہ ہندوستان چلے گئے جس کی وجہ سے مذکورہ کاموں میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا ۔
لاڑکانہ ضلع کی ایک شخصیت دیوان امرت رائے جن کا ادبی نام سام تھا ، انھوں نے 31 سال کی عمر میں بطور شاعر بڑی مقبولیت حاصل کی اور اس کے علاوہ وہ سیاست اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور ایک دن انھیں سندھ کی مقبول شخصیت کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ وہ اپنی زندگی اور کاموں کو فلسفیانہ طریقے پر چلاتے جس کی تحریروں میں بھی فلسفے کا رنگ چھلکتا تھا۔
ان کی شاعری اور نثر عام فہم اور سادہ تھی وہ سندھی، ہندی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں شاعری کرتے تھے، ان کی چھپی ہوئی کتابوں پر یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بھی تبصرے شایع ہوتے رہتے تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد تقریباً 12 سے اوپر تھی جو ساری کی ساری اس وقت ناپید ہیں مگر ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں مگر کوئی بھی ایسا ادارہ یا شخص نہیں ہے جو انھیں تلاش کرکے دوبارہ شایع کروا سکے۔
امرت رائے سام کا دیوان سام 1936 میں شایع ہوا جس کے بعد یہ سلسلہ 1956 اور 1973 تک جاری رہا جس کی چھپائی اقبال پرنٹنگ پریس لاڑکانہ نے کی تھی۔ ہر دیوان تقریباً 250 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کی باقی کتابوں میں Philosphy of Life، Autum Bagh ، تمثیل کہانیاں پر مشتمل تھے۔ دل جو جام، صدائے ابہارپور، توں ائیں میں وغیرہ بھی ہیں۔ ان کی کتابوں میں دیوان سام نے بڑی شہرت حاصل کی۔ سام کی بیوی جو ایک مشہور لیڈی ڈاکٹر تھیں اور ادب سے بھی گہرا تعلق تھا۔
سرلا دیوی ان کا نام تھا انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد مریضوں کی خدمت کرنا بنا لیا تھا، وہ میونسپل کمیٹی کی طرف سے چلنے والے اسپتال میں کام کرتی تھیں مگر لوگوں نے اس اسپتال کا نام سرلا سے منسوب کر دیا تھا۔ سرلا کی کتاب جیتا مڑن جی ڈائری شایع ہوئی جس میں اس نے اپنی روزانہ زندگی کے بارے میں بتایا ہے، جو کچھ ان کے مشاہدات میں آیا اور جن تجربوں سے وہ گزری تھیں سب بیان کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس ڈائری نما کتاب میں ان واقعات، مشاہدات اور تجربات کے بارے میں اپنی رائے بھی دی ہے، جس سے زندگی کا فلسفہ چھلکتا ہے۔
امرت رائے کی کتابوں میں The Temple of Joy، The Vision of Life ، The Dialogues in Ashram ، The Model Village ، If Truth at Last be told ، وغیرہ اہم تحریریں ہیں جنھیں بین الاقوامی طور پر شہرت اور مقبولیت ملی۔ خاص طور پر یورپ میں ان کتابوں کی وجہ سے انھیںبہت سراہا گیا۔ وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری سے متاثر تھے جس کی وجہ سے ان کی شاعری اور طبیعت میں صوفیانہ رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔
امرت سام 3 جون 1903 میں گاؤں طیب میں اپنے والد حشم راج کے گھر پیدا ہوئے۔ طیب گاؤں تعلقہ رتو دیرو کے قریب کچھ کلو میٹر پر ہے جوکسی زمانے میں بڑا اہم گاؤں تھا۔ ان کی فیملی کو سنگھیانی کے نام سے جانا جاتا تھا جو بڑی خوشحال تھی جس کی وجہ سے طیب گاؤں میں بڑی اچھی لکڑی کے کام سے بنائی ہوئی حویلیاں تھیں اور وہاں بڑا بیوپار چلتا تھا۔ سام نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور پھر اینگلو، ورنیکیولر اسکول رتو ڈیرو میں داخلہ لے لیا جہاں سے انھوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے شکار پور چلے گئے۔
جب انگریزوں کے خلاف ملک چھوڑنے والی تحریک چلی تو انھوں نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے انھوں نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ بعد میں اس نے شکارپور میں نیشنل اسکول بنانے کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔
وہ سیاسی طور پر متحرک تھے اور جب Non-Cooperation Movemnet انگریزوں کے خلاف شروع ہوئی تو اس میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا اور یہ زمانہ تھا 1919 کا۔ جب کہ 1920 میں انھوں نے فرانس کے دانشور Mosipal Richard سے شملہ میں ملاقات کی اور اس کے ساتھ 10 دن تک ساتھ رہے۔ وہ دانشور اس وقت ایک کتاب ''حضرت عیسیٰ کا صلیب پر چڑھنا'' لکھ رہے تھے جو سام کی ذہانت سے بے حد متاثر ہوئے اور کتاب کے لیے اس سے بہت ساری تجاویز اور صلاح لی۔
سام نے رچرڈ کو سندھ آنے کی دعوت دی جس پر وہ سندھ آئے اور پورا سندھ دیکھا اور سندھ کی تہذیب، تمدن، آب و ہوا، گاؤں کی زندگی، زرعی خوشحالی، مہمان نوازی وغیرہ سے بڑے متاثر ہوئے۔ سام آہستہ آہستہ سیاسی زندگی سے دور ہونے لگے اور ادبی دنیا میں قدم رکھا اور ان کا فلسفے سے بڑا لگاؤ تھا
انھوں نے 1930 میں اکبر آشرم کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد یہ تھا کہ سندھ میں ہندو، مسلم اورکرسچن ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے مذہب کو نہ چھیڑیں۔
اسے مرکز بنانے سے یہ ہوا کہ ہندو، مسلم اور عیسائی ایک دوسرے کے قریب آگئے، ان میں اتحاد پیدا ہوا اور مل جل کر سماجی مسائل کا حل نکالا۔ اس مرکز میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو بھی اہمیت دی جاتی تھی جس کے لیے وقفے وقفے کے بعد پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے۔ اس مرکز کی طرف سے ایک میگزین New Age کے نام سے انگریزی اور سندھی زبانوں میں شایع ہوتا تھا۔ سام ایک انگریزی رسالے Social Message Reformer میں لکھتے رہتے تھے جس کے ذریعے اپنے پیغامات دیا کرتے۔ انھوں نے مزید نئی نسل کو آگے لانے کے لیے Young Builder اور Theosophi نام سے 1931 میں تنظیمیں بھی قائم کیں۔
امرت ہندوستان کے علاوہ کئی علاقوں میں گھومنے کے بعد 1934 میں اپنے گاؤں طیب واپس آکر اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ گاؤں میں ہاریوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اور سماجی خدمات سرانجام دینے کے ارادے سے ایک Cooperative Store کے قیام کو عمل میں لائے۔ اس اسکیم کے تحت ہاریوں کو اس اسٹور سے سستے داموں پر زرعی دوائیں، معیاری بیج دیا جاتا تھا جس سے زرعی پیداوار میں کافی مدد ملی۔ امرت نے گاؤں میں ایک ریسرچ فارم قائم کیا جہاں پر وہ نئی اجناس متعارف کروانے کے لیے تجربے کیا کرتے تھے۔
امرت کو شاعری کی وجہ سے سندھ کا ٹیگورکہا جاتا تھا اور نثر کا خلیل جبران بھی کہتے تھے۔ان کا اکبر آشرم1973 تک چلتا رہا اور اس پلیٹ فارم سے ان کی بیوی کی کتاب جیتا مڑن جی ڈائری بھی 1965 میں شایع کیا گیا تھا۔ ملکوں کی سیر کرنا بھی ان کا ایک شوق تھا۔
سام نے دو شادیاں کی تھیں اور جب پاکستان وجود میں آیا تو پہلی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ ہندوستان چلی گئی جب کہ وہ خود اپنی دوسری بیوی سرلا کے ساتھ پاکستان میں ہی رہ گئے۔ انھوں نے دوسری شادی 1938 میں کی تھی۔ سام کے پاس 3 ہزار ایکڑ زرخیز زمین تھی، وہ بڑی خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ ان کا گھر دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ کوئی حسین محل ہے۔ ڈیری فارم میں 30 کے قریب بڑی اچھی نسل کی بھینسیں ہوتی تھیں، سام کو گاڑی چلانے کا بڑا جنون تھا اور انھوں نے ہمیشہ لگژری گاڑیاں اپنے پاس رکھیں جس میں مرسڈیز بھی شامل تھی۔ جرمنی کی کمپنی سے 1935 میں ایک Benz گاڑی 3 ہزار روپے میں خریدی تھی اور اس گاڑی جیسی صرف بھٹو فیملی کے پاس ہوتی تھی۔
اچھے گھوڑے اور اونٹ پالنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو لوکل زمینداروں نے پاکستان سے جانے والے ہندوؤں کی املاک پر ناجائز قبضہ کرنا شروع کردیا جس میں امرت کی ملکیت بھی شامل تھی۔ وہ گاؤں سے لاڑکانہ شہر شفٹ ہوگئے اور وہاں پر انھوں نے یتیم بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مرکز کھولا، اس کے علاوہ ان کی بیوی نے اپنے بنگلے میں مشاعرہ اور موسیقی کے پروگرام منعقد کرنا شروع کیا۔ اس موقع پرکہانیاں بھی پڑھی جاتی تھیں۔
گاؤں سے لاڑکانہ آنے کے بعد وہ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے تھے اور دوسرا یہ کہ ان کی بڑھتی ہوئی عمر نے اسے جسمانی اور دماغی طور پر کمزور کردیا تھا۔ اس کے باوجود وہ اپنے گھر پر یتیم بچوں کو بھی پالتے تھے جس میں ایک بچے گردھاری کو اپنا بیٹا بنالیا تھا جو ان کے ساتھ آخر تک رہا۔ انھوں نے سرل بھون ٹرسٹ بنایا تھا جس پر ان کی وفات کے بعد قبضہ کرلیا گیا۔ ان کا انتقال 12 فروری 1988 میں لاڑکانہ میں ہوا۔