اے خاک وطن میرا فرض ادا کیوں نہیں ہوتا
ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے اس وقت بہت بڑے بڑے مسائل چیلنج کی صورت میں سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دولت، ترقی، عہدے، حق خود ارادیت یا اپنی مرضی سے جینے کے متبادل نہیں ہوسکتے، اگر اپنی مرضی سے جینے اور خود اپنی زندگی اور سوچ کے فیصلے کی آزادی ہو تو انسان فاقے بھی خوشی سے برداشت کر لیتا ہے لیکن اگر جبر ، استحصال اورگھٹن کا ماحول ہو اور اپنی مرضی سے جینے کی آزادی نہ ہو ، ذہنی سکون ، طمانیت یا اطمینان نہ ہو تو انسان کے لیے ہر طرح کے وسائل اور ترقی بھی بے معنی اور ہیچ ہوجاتے ہیں۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ملک کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اس وقت۔ جہاں کتے کے کاٹے کی دوا نہ ہونے کی وجہ سے چالیس کے قریب انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، وہاں ایک سرکاری افسرکے محل نما گھر کے گیراج میں 8 مہنگی ترین گاڑیاں، امپورٹڈ گھاس والے لان ، ولایتی پودے ، نایاب پھول، ریموٹ کنٹرولڈ دروازے، 20 پلاٹوں کی فائلیں، تجوریوں میں ہر ملک کی کرنسی کا انبار، قیمتی گھڑیاں، قیمتی پتھر، سونے کے سکے اور زیورات ، گھر کے صرف باتھ روم ہی دو مرلوں پر مشتمل اور ایک لاکر چھ فٹ لمبا سات فٹ چوڑا جسے نیب کی ٹیم کو سات گھنٹے کاٹنے میں لگے۔ اگر اس انسانی تصرف پر پھر بھی ہمارے اوسان بحال ہیں تو یہ چمتکار ہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک معمولی افسرکا یہ حال ہے تو اس ملک کے ''مگرمچھوں'' کے پاس کتنا مال ہوگا؟
کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں آج کل احتساب اور انصاف کا کتنا غلغلہ ہے۔ حالانکہ اس کا منطقی نتیجہ تو انقلاب ہونا چاہیے تھا۔ سابق صدر، سابق وزیر اعظم، سابق وفاقی وزرا، بڑے بڑے جابر افسر جیلوں میں ہیں اور سند یافتہ سابق صدر، وزیر خزانہ کب سے دبئی میں عیش کر رہے ہیں، لندن میں جائے پناہ لی ہوئی ہے، مظلوموں کا ساتھی اتنا ظلم کما کر مزے میں ہے اور ایک عام آدمی وطن عزیز میں حد کو ختم کرتی مہنگائی کے چنگل میں ہے، چھینا جھپٹی، لوٹ مار اورکرپشن بدستور زوروں پر ہے۔ آج بھی ریاست مدینہ کے نام لیوا ملک میں ایسے شتر بے مہار ادارے ایسے ہیں جن کو آئین، قانون اور اخلاق کا ذرا پاس نہیں۔
اگر ریاست کے تمام ادارے اقتدار یا منصب کو ایک مقدس امانت سمجھتے تو ہمارے ملک کا منظر نامہ ایسا نہ ہوتا، لیکن مجرموں کو ملزمان ثابت کرکے اس کے کیس کو طویل سے طویل کرکے کمزور کرنے والے قانون کے رکھوالے انصاف اور قانون کے نام پر وہ کھلواڑ کر رہے ہیں کہ جس پر ماتم کے لیے دو ہاتھ اور ایک سینہ کافی نہیں رہا اور رونے کے لیے دو آنکھیں بھی بہت کم پڑگئی ہیں۔
کراچی جسے پاکستان کی شہ رگ یا معاشی حب کہا جاتا ہے وہ چرس پینے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ اس حوالے سے پہلا نمبر نیویارک امریکا کا ہے۔ کراچی 10 کھرب کما کے دیتا ہے لیکن اس پر اس کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کیا جاتا ، کراچی کا حال سندھ کے دیہاتوں کی طرح ہوتا جا رہا ہے۔ انتظامی امور سے یکسر عاری ، قلت آب ، ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی، غلاظت اور کچرے کے ڈھیروں سے بھرا کراچی، بجلی، پانی، گیس کی قلت۔ یہ سبھی بد انتظامی اور نا اہلی کا شکارکراچی کے لیے کہہ رہی ہیں کہ اسے تجربے کار قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کراچی کا رونا کیا پورے پاکستان میں مزاحمت کا کلچر ختم اور مصلحت کا فروغ پا رہا ہے۔
دراصل قدرت کبھی کبھی قوموں سے انتقام لینے کے لیے یا انھیں سزا دینے کے لیے ان پر ایسے منحوس یا ناکارہ حکمران مسلط کردیتی ہے جن کی نحوست صدیوں ان قوموں کا تعاقب کرتی ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ہم برسوں سے مصلحتوں، منافقتوں، مذمتوں اور مفاہمتوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں کے معاملے کیوں اور کس نے کس لیے ٹھپ کر رکھے ہیں؟ سبھی باخبر اس سے واقف ہیں اور ایک مڈل کلاس عام آدمی جس نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا برسہا برس سے اس ملک میں استحصال اور ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، دو وقت کی روٹی جس طرح وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پوری کر رہا ہے اور جس فرض شناسی سے وہ اپنا معاشرتی فریضہ سر انجام دے رہا ہے اس سے بھی سبھی آشنا ہیں لیکن کیا ہے کہ :
ہم خون کی قسطیں تو بہت دے چکے لیکن
اے خاکِ وطن تیرا قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
کے مصداق موجودہ حکومت نے تو ایک عام انسان کو نچوڑکر ہی رکھ دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ احتساب کا عمل جب معاشرے کو بے ضابطگی کی آلودگی سے صاف کرنے کے مشن سے ہٹ کر کوئی اور رخ اختیار کرنے لگے تو وہ احتساب نہیں رہتا اور نہ ہی انصاف بلکہ انتقام، بدلہ، رقابت یا جنون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
مملکت کے مسائل، گورننس، معیارات، فرائض کیا ہوتے ہیں بدقسمتی سے آج تک کسی بھی حکمران یا ارباب اختیارکو اس کا ادراک نہ ہوسکا۔ ہمارے حکمرانوں کی کم عقلی اور ذہنی پسماندگی کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ انگریزی بولنے یا ٹیڑھا منہ کرکے انگریزی بولنے والوں کو ذہین سمجھ کر اپنی کابینہ میں شامل کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ انگریزی زدہ طبقہ حکمرانوں کے قریبی افراد میں شامل ہو کر صرف اپنے اور اپنے رشتے داروں کا گھر بھرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں مملکت، معاشرہ یا وطن جائے چولہے بھاڑ میں، ذہانت کا گزر ان کے پاس سے نہیں ہوتا لیکن وہ ملک چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ناقص العقل لوگوں کوکون بتائے کہ زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں، ذہانت کی علامت نہیں۔ ذہانت، وژن، علم، صلاحیت یا گڈ گورننس کچھ اور ہی چیزیں ہوتی ہیں۔
ہماری موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے یا حاصل کیے ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس کے نظام کا پہیہ صرف نام نہاد احتساب اور رقابت کے گرد ہی گھوم رہا ہے، اس کی کوئی تعمیری سوچ، مثبت پالیسی ثمربار ہوتی نظر نہیں آرہی جس سے سب سے زیادہ نقصان ہماری معیشت اور معاشرت کو پہنچ رہا ہے۔ کاش ہمارے حکمران یہ جان پاتے کہ نظریات دل میں جگہ نہ پائیں تو قابل قبول نہیں ہوتے اور زبردستی انھیں کسی پر مسلط کردیا جائے تو باغیانہ سوچ جنم لیتی ہے، ویسے بھی رقابت کا منفی جذبہ انسان کو برے بھلے کی تمیز سے عاری کردیتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے اس وقت بہت بڑے بڑے مسائل چیلنج کی صورت میں سر اٹھائے کھڑے ہیں اور انھیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ امور ریاست کرکٹ کے آخری دس اوورز جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی حکومت کرنا بائی چانس ہے۔ اور پھر اس حوالے سے ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ جب کچھ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ تحفظ حاصل ہو جائے تو پوری قوم عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ملک کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اس وقت۔ جہاں کتے کے کاٹے کی دوا نہ ہونے کی وجہ سے چالیس کے قریب انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، وہاں ایک سرکاری افسرکے محل نما گھر کے گیراج میں 8 مہنگی ترین گاڑیاں، امپورٹڈ گھاس والے لان ، ولایتی پودے ، نایاب پھول، ریموٹ کنٹرولڈ دروازے، 20 پلاٹوں کی فائلیں، تجوریوں میں ہر ملک کی کرنسی کا انبار، قیمتی گھڑیاں، قیمتی پتھر، سونے کے سکے اور زیورات ، گھر کے صرف باتھ روم ہی دو مرلوں پر مشتمل اور ایک لاکر چھ فٹ لمبا سات فٹ چوڑا جسے نیب کی ٹیم کو سات گھنٹے کاٹنے میں لگے۔ اگر اس انسانی تصرف پر پھر بھی ہمارے اوسان بحال ہیں تو یہ چمتکار ہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک معمولی افسرکا یہ حال ہے تو اس ملک کے ''مگرمچھوں'' کے پاس کتنا مال ہوگا؟
کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں آج کل احتساب اور انصاف کا کتنا غلغلہ ہے۔ حالانکہ اس کا منطقی نتیجہ تو انقلاب ہونا چاہیے تھا۔ سابق صدر، سابق وزیر اعظم، سابق وفاقی وزرا، بڑے بڑے جابر افسر جیلوں میں ہیں اور سند یافتہ سابق صدر، وزیر خزانہ کب سے دبئی میں عیش کر رہے ہیں، لندن میں جائے پناہ لی ہوئی ہے، مظلوموں کا ساتھی اتنا ظلم کما کر مزے میں ہے اور ایک عام آدمی وطن عزیز میں حد کو ختم کرتی مہنگائی کے چنگل میں ہے، چھینا جھپٹی، لوٹ مار اورکرپشن بدستور زوروں پر ہے۔ آج بھی ریاست مدینہ کے نام لیوا ملک میں ایسے شتر بے مہار ادارے ایسے ہیں جن کو آئین، قانون اور اخلاق کا ذرا پاس نہیں۔
اگر ریاست کے تمام ادارے اقتدار یا منصب کو ایک مقدس امانت سمجھتے تو ہمارے ملک کا منظر نامہ ایسا نہ ہوتا، لیکن مجرموں کو ملزمان ثابت کرکے اس کے کیس کو طویل سے طویل کرکے کمزور کرنے والے قانون کے رکھوالے انصاف اور قانون کے نام پر وہ کھلواڑ کر رہے ہیں کہ جس پر ماتم کے لیے دو ہاتھ اور ایک سینہ کافی نہیں رہا اور رونے کے لیے دو آنکھیں بھی بہت کم پڑگئی ہیں۔
کراچی جسے پاکستان کی شہ رگ یا معاشی حب کہا جاتا ہے وہ چرس پینے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ اس حوالے سے پہلا نمبر نیویارک امریکا کا ہے۔ کراچی 10 کھرب کما کے دیتا ہے لیکن اس پر اس کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کیا جاتا ، کراچی کا حال سندھ کے دیہاتوں کی طرح ہوتا جا رہا ہے۔ انتظامی امور سے یکسر عاری ، قلت آب ، ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی، غلاظت اور کچرے کے ڈھیروں سے بھرا کراچی، بجلی، پانی، گیس کی قلت۔ یہ سبھی بد انتظامی اور نا اہلی کا شکارکراچی کے لیے کہہ رہی ہیں کہ اسے تجربے کار قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کراچی کا رونا کیا پورے پاکستان میں مزاحمت کا کلچر ختم اور مصلحت کا فروغ پا رہا ہے۔
دراصل قدرت کبھی کبھی قوموں سے انتقام لینے کے لیے یا انھیں سزا دینے کے لیے ان پر ایسے منحوس یا ناکارہ حکمران مسلط کردیتی ہے جن کی نحوست صدیوں ان قوموں کا تعاقب کرتی ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ہم برسوں سے مصلحتوں، منافقتوں، مذمتوں اور مفاہمتوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں کے معاملے کیوں اور کس نے کس لیے ٹھپ کر رکھے ہیں؟ سبھی باخبر اس سے واقف ہیں اور ایک مڈل کلاس عام آدمی جس نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا برسہا برس سے اس ملک میں استحصال اور ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، دو وقت کی روٹی جس طرح وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پوری کر رہا ہے اور جس فرض شناسی سے وہ اپنا معاشرتی فریضہ سر انجام دے رہا ہے اس سے بھی سبھی آشنا ہیں لیکن کیا ہے کہ :
ہم خون کی قسطیں تو بہت دے چکے لیکن
اے خاکِ وطن تیرا قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
کے مصداق موجودہ حکومت نے تو ایک عام انسان کو نچوڑکر ہی رکھ دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ احتساب کا عمل جب معاشرے کو بے ضابطگی کی آلودگی سے صاف کرنے کے مشن سے ہٹ کر کوئی اور رخ اختیار کرنے لگے تو وہ احتساب نہیں رہتا اور نہ ہی انصاف بلکہ انتقام، بدلہ، رقابت یا جنون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
مملکت کے مسائل، گورننس، معیارات، فرائض کیا ہوتے ہیں بدقسمتی سے آج تک کسی بھی حکمران یا ارباب اختیارکو اس کا ادراک نہ ہوسکا۔ ہمارے حکمرانوں کی کم عقلی اور ذہنی پسماندگی کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ انگریزی بولنے یا ٹیڑھا منہ کرکے انگریزی بولنے والوں کو ذہین سمجھ کر اپنی کابینہ میں شامل کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ انگریزی زدہ طبقہ حکمرانوں کے قریبی افراد میں شامل ہو کر صرف اپنے اور اپنے رشتے داروں کا گھر بھرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں مملکت، معاشرہ یا وطن جائے چولہے بھاڑ میں، ذہانت کا گزر ان کے پاس سے نہیں ہوتا لیکن وہ ملک چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ناقص العقل لوگوں کوکون بتائے کہ زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں، ذہانت کی علامت نہیں۔ ذہانت، وژن، علم، صلاحیت یا گڈ گورننس کچھ اور ہی چیزیں ہوتی ہیں۔
ہماری موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے یا حاصل کیے ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس کے نظام کا پہیہ صرف نام نہاد احتساب اور رقابت کے گرد ہی گھوم رہا ہے، اس کی کوئی تعمیری سوچ، مثبت پالیسی ثمربار ہوتی نظر نہیں آرہی جس سے سب سے زیادہ نقصان ہماری معیشت اور معاشرت کو پہنچ رہا ہے۔ کاش ہمارے حکمران یہ جان پاتے کہ نظریات دل میں جگہ نہ پائیں تو قابل قبول نہیں ہوتے اور زبردستی انھیں کسی پر مسلط کردیا جائے تو باغیانہ سوچ جنم لیتی ہے، ویسے بھی رقابت کا منفی جذبہ انسان کو برے بھلے کی تمیز سے عاری کردیتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے اس وقت بہت بڑے بڑے مسائل چیلنج کی صورت میں سر اٹھائے کھڑے ہیں اور انھیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ امور ریاست کرکٹ کے آخری دس اوورز جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی حکومت کرنا بائی چانس ہے۔ اور پھر اس حوالے سے ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ جب کچھ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ تحفظ حاصل ہو جائے تو پوری قوم عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے۔