بھٹو کی آرٹسٹ روح
وہ اگر چاہتے تو اپنے پرکھوں کی جاگیر کے روایتی نواب بن کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکتے تھے۔
لاہور:
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے تازہ بیان کی گونج مقامی ، قومی و بین الاقوامی اور سوشل میڈیا میں سنائی دے رہی ہے ۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ ''پاکستان آکر ایسے قتل ہونا نہیں چاہتا ، جس سے عوام کی فلاح و بہبود کا بھی کوئی پہلو نہ نکلتا ہو''۔
یہ الفاظ تو سب کی سماعتوںسے ٹکرائے لیکن ان الفاظ کی کڑواہٹ کسی نے محسوس نہیں کی ۔ اُس کے جملوں سے وہ جذبہ عیاں ہوتا ہے جس کے لیے وہ کام کرنا چاہتا ہے ۔ اُس کے لیے وہ مرنے مٹنے کو تیار ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اُس کا یہ بیان پاکستان میں گالی بن جانے والی سیاست اور یہاں رائج نظام کو للکار ہے ۔ وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ معاشرہ اب ایسی تباہی سے دوچار ہے کہ جس کی ذہنی عمارت کے درو دیوار کو اداراتی و گروہی سیاست دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرچکی ہے ۔
اس نظام کے موجودہ روپ کی سرے سے نفی ہی ان بند دماغوں کے باب روشن کرسکتی ہے ۔ جس کے لیے ذہنی انقلاب اولین شرط ہے ۔ جونیئر کی یہ سوچ سندھ کے ایک اور اعلیٰ دل و دماغ شخصیت جی ایم سید کی ترجمانی کرتے نظر آتی ہے ، جس نے کئی سال قبل کہا تھا کہ '' عملی انقلاب سے قبل ذہنی انقلاب لازمی امر ہے ، ورنہ انقلاب سوائے چہروں کی تبدیلی کے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں دے سکے گا''۔
پاکستان میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ قائم کردہ موجودہ نیا پاکستان دیکھ کر جی ایم سید کے الفاظ اور جونیئر بھٹو کے فلسفہ آرٹ پر مبنی دانش کے آگے کم از کم میرا سر تو تسلیم ِ خم ہے ۔ واقعی ہمارے معاشرے کو اگر دیمک نے چاٹ کر کھوکھلا نہیں بھی کردیا تو بھی اُس کے ذہن کو ایک بھیانک زنگ ضرور لگ چکا ہے ۔ اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہوگئی ہیں ۔ یہاں ہمیں ایک ایسی گاڑی میں بٹھادیا گیا ہے جس کی منزل کا نہ ڈرائیور کو پتا ہے اور نہ ہی مسافروں کو ۔ اُس کے باوجود سب اس سفر پر بلا چوں و چرا چلے جاتے رہنے پر مجبور ہیں۔
اس سفر سے انکار تو دور کی بات ہے اس سفر اور منزل سے متعلق سوال کرنے کی ہمت بھی کسی میں نظر نہیں آتی۔ ایسے میں جونیئر بھٹو اس کھوکھلے معاشرے کو آئینہ دکھانا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنا موجودہ چہرہ دیکھیں اور اپنی پست حالت کا اندازہ کریں ۔ کوہ ِ ہمالیہ سے کابل ، قلات اور کراچی تک پھیلی ہزارہا سال سے تہذیبوں کی ماں کہلانے والی وہ سندھو تہذیب کیوں پستی کی گہرائیوں میں گم ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں کا معاشرہ جسے دنیا کی امامت کرنی تھی وہ کیوں دوسروں کی امامت میں کھڑی صفوں میں بھی حقارت کی علامت بن گیا ہے ؟
بھٹو کا نام آتے ہی ذہن میں پاکستان بالخصوص سندھ کی روایتی سیاست کا وہ منظر تیرنے لگتا ہے جو 72سال کے اس ملک میں جاری پرماری قوتوں کے غیر جمہوری تسلط کے خلاف ایک مضبوط آواز رہی ہے ، کبھی وہ ذوالفقار علی بھٹو بن کر تو کبھی بے نظیر بھٹو بن کر اسمبلیوں پر پڑے تالے کھولنے کا باعث بنی ہے تو کبھی جوان مرد مرتضی ٰ بھٹو اور نوجوان شاہنواز بھٹو بن کر ملک میں انقلاب کی راہیں ہموار کرتے نظر آتی ہے ۔ اس کا مقصد صرف اور صرف پِسے ہوئے غریب و نادار طبقے کی رہنمائی و خدمت کرنا اور تکالیف کا خاتمہ رہا ہے ۔
ہم جب بھٹو خاندان پر نظر ڈالتے ہیں تو اُن کے عوامل میں عوامی خدمت کا یہی جذبہ کارفرما نظر آتا ہے ۔ بھٹو خاندان میں ذوالفقار بھٹو جونیئر کے پردادا سر شاہنواز بھٹو سے عوامی خدمت کے اس جذبے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، جب وہ اپنے ارد گرد دریائے سندھ جیسے عظیم دریا کے ہوتے ہوئے بھی سندھ کی سرزمین کو زراعت کے شعبے میں کمزور اور اناج میں خود کفیل نہیں دیکھتا تو اُسے بڑی تکلیف ہوتی ہے، اسی لیے اُس نے سکھر بیراج جیسا وسیع و شاندار منصوبہ تیار کیا ۔ بے حد کوششوں اور پے پناہ جدوجہد کے بعد بالآخر انگریز سرکار سے یہ منصوبہ منظور کروایا ۔
دوسری جانب جھونا گڑھ کے دیوان کی حیثیت سے وہاں کے لوگوں کی فلاح بہبود کے لیے کوششیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ پھر بطور رُکن ِ بمبئی اسمبلی سندھ سمیت وہ وہاں کے عوام کے لیے بھی اُسی جذبہ سے کام کرتا رہا ۔ اُن کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو پاکستان میں عوام کی خدمت کے لازوال کردار ہیں ۔ اُنہیں عوام کی فلاح و بہبود جمہوری آئینی نظام میں نظر آئی اور اُس کی سربلندی کے لیے انھوں نے دن رات ایک کردیے ، یہاں تک کے اپنی جانیں بھی قربان کردیں ۔
جب کہ جونیئر بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو اور چچا شاہنواز بھٹو کو عوام کے دکھوں کا مداوا پرماری قوتوں سے مزاحمت پر مبنی انقلاب میں نظر آیا تو وہ اُس راہ پر ثابت قدمی سے بڑھے اور اپنی جانوں کے نذرانے دیے ۔ لیکن ان تمام بزرگوں کی کوششوں اور قربانیوں کے باوجود یہاں آج بھی عوام کی فلاح و بہبود دیوانے کا خواب بنی ہوئی ہے ۔ اسی تناظر میں جونیئر بھٹو نے عوام کی خدمت کا طریقہ آرٹ کے لافانی اظہار میں تلاش کیا اور اُسے اپنا مشن بنالیا ۔
تخلیق ِ کائنات اور تخلیق ِ انسان بذات خود آرٹ کا ایک شاہکار ہے ۔ جسے اللہ رب العزت نے تخلیق کیا اور خدا نے خود کو ''الخالق'' کے صفاتی نام سے متعارف کرایا ۔ پھر انسان کو جب زمین پر بھیجا گیا تو اُسے زراعت سے پوشاک تک ، شکار سے توبہ تک اور سونے سے نہانے و تدفین تک ، ہر عمل میں تخلیق یعنی آرٹ کو اُتم رکھا گیا ۔ آرٹ خود میں ایک وسیع مفہوم و معنی رکھتا ہے جو فہم و فراست اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے ذریعے اظہار کا روپ دھارتا ہے ۔ اس کے اظہار کا ہر روپ حسین ہے ۔ تخلیق جسے آرٹ یا ہنر کہا جاتا ہے ، یہ وہ عنصر ہے جو کائنات کی بناوٹ ، اُس میں موجود بیلنس ، کشش اور حرکات و سکنات کی رمز سے مخلوقات کی بناوٹ اُن کے مراحل ، طرز اور اُن کی اہمیت و کار کو اُجاگر کرتا ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں انبیاء ، اوتار اور اولیاء سمیت بڑے بڑے فلسفی بھی عوام کی اصلاح کے لیے اپنے پیغام کو اسی آرٹ کی کسی نہ کسی صورت میں ہی پھیلاتے نظر آتے ہیں ۔ آرٹ بنیادی طور پر لاطینی زبان کا لفظ ہے ، جس کے سادہ معنی' انسانی جذبات کا اظہار' ہے ۔یہ ذہنی و جسمانی ہنرو احساسات کے اظہار کے تمام طریقوں کو سمونے کی اہلیت اور وسعت رکھتا ہے ۔ طبعیات ، کیمیات کا علم ہو یا علم ریاضی ، مصوری ہو یا زراعت ، شاعری ہو یا ڈرامہ ، فن ِ تحریر ہو یا فن ِ خطابت یہاں تک کہ علم سائنس اور سیاسیات کو بھی آرٹ اپنے اندر سمونے کا داعی ہے ۔ آرٹ کے مختلف شعبوں کا مقصد عوام کی خوشیوں ، خوشحالی اور فلاح و بہبود اور معاشرے کی تعمیر و تجدید کے لیے جستجو کا جذبہ ہی ہے ۔ یہی جذبہ انسان کو بھی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتا ہے ۔
یہ آرٹ خدا کا معجزہ ہے، جونوح و داؤد علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کو عطا ہوا ۔ یہ آرٹ ہی ہے جس نے موہن جو دڑو کو سولائیزڈ زندگی کے تمام شعبوں میں مساوات کے باعث ایک بے مثال و شاندار اور عظیم تہذیب بنادیا ۔ یہ موہن جو دڑوکے قدیم آرٹ کا اثر ہے کہ سندھ میں زندگی کے تمام شعبوں میں آرٹ رواں نظر آتا ہے ۔ یہاں ویدانیت اور وحدانیت کے سنگم سے جڑے تصوف کے آرٹ کے ذریعے تمام مذاہب و نظریات کو اپنے رنگ میں ڈھال کر انسان کو اُتم رکھنے والے تصوف کے مرکب کی حامل تہذیب کی تعمیر بھی یہاں کے آرٹ کی ایک زندہ و جاوداں مثال ہے۔
سندھ کے اسی خمیر سے پیدا ہونے والے جونیئر بھٹو نے بھی بھٹائی کی' سورمیوں 'اور موہن جو دڑو کے آثارات سے ملنے والی ڈانسنگ گرل ''سمبارا '' کی طرح نرتک و آرٹ کو اپنے خیالات کی تشہیر کا ذریعہ بنایا ہے ۔
جونیئر بھٹو اگر چاہتا تو اپنے اجداد کا نام و طریقہ اپنا کر پاکستان کے اقتدار کی بہتی گنگا میں آرام سے ہاتھ دھوسکتا تھا ۔ جہاں آج کل کئی بلکہ ہزارہا لوگوں کے لیے بھٹو کا نام روزی روٹی بن چکا ہے ۔ وہاں بھٹو کے حقیقی وارث کو اس نام و شناخت سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ۔ وہ اپنی شناخت سینٹرل ایشیا کی اس دھرتی اور لبنان کی مشترکہ میراث بتانے مین فخر محسوس کرتا اور اپنی شناخت اپنے بل پر پیدا کرنا چاہتا ہے ، جوکہ صرف ایک آرٹسٹ کی ہی خواہش ہوتی ہے ۔ یہی سوچ اُس کے آباؤ اجداد میں بھی تھی ۔
وہ اگر چاہتے تو اپنے پرکھوں کی جاگیر کے روایتی نواب بن کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن انھوں نے عوام کی خدمت کا راستہ اپنایا اور عوام کے حقوق کی پاداش میں سارے کے سارے غیر طبعی موت کے مہمان بن گئے ۔ جس کے پیچھے در اصل وہی آرٹسٹ روح کارفرما رہی ہے جو مختلف زاویوں اور مختلف پلیٹ فارموں پر جلوہ گر ہوتی رہی ہے ۔ دور ِ حاضر میں بھٹو کی یہ آرٹسٹ روح میر مرتضیٰ بھٹو کی اولاد میں نمایاں نظر آتی ہے ۔
ایک طرف فاطمہ بھٹو ہے جو تحریر و زور ِ قلم سے دنیا میں اپنی ایک علیحدہ پہچان بنا چکی ہے تو دوسری طرف جونیئر ذوالفقار علی بھٹو ہے جو آرٹ کے مختلف شعبوں اور رنگوں سے دنیا کے کینواس پر ہمارے معاشرے کی بھیانک تصویر بناتا ہے اور ساتھ ہی تدارک کے لیے اپنے فہم و تصور سے ایک بہتر اور عوامی حقوق کے حامل معاشرے کی تعمیر کے فن پارے تخلیق کرکے آگاہی کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی تربیت میں مصروف ہے ۔
آرٹ کا اظہار اگر لیونارڈو جیسے مصور کے ہاتھوں سے ہو تو مونالیزا کی دلفریب مسکراہٹ اور ممتا کے جذبوں کا پاک و شاہکار فن پارے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ صحافی سوچ سے ہو تو مارک ٹیلی کی ایشیائی ایڈونچر صورتحال کی داستانیں رقم ہوتی ہیں ۔ کسی کمہار کے ہاتھوں سے ہو تو مٹی بھی شوکیس و گھروں کی زینت بن جاتی ہے ۔ لوہار کے ہاتھوں سے ہو تو حفاظتی تلوار اور درو دیوار کی مضبوطی کا سامان بن جاتا ہے ۔ کسان کے ہاتھوں سے ہو تو پتھریلی زمین پر رقص کرتا سبزہ اور بھوک مٹانے کا ثمر پیدا ہوجاتا ہے ۔
اگر کسی فلسفی کے علم سے ہو تو ذہنوں کو سیراب کرتا ہے اور اگر چارلی چپلن جیسے اداکار کے فن سے ہو تو لاکھوں دکھی ، مایوس و پریشان افراد کے لیے مسکراہٹوں کا باعث بن جاتا ہے لیکن اگر یہی اظہار علم و فن کے مشترکہ اظہار سے ہو تو اسٹیٹسکو اور رائج سماجی و طبقاتی نظام و سامراجیت کے لیے للکار بن جاتا ہے ۔ اور جونیئر بھٹو ہمارے معاشرے کے لیے ایسی ہی ایک للکار ہے جو انسانی مساوات کو لاحق خطرات سے پُر معاشرے کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے ۔
یہ وہی بھٹکتی ہوئی آرٹسٹ کی روح ہے جو آرٹ کے اظہار کو عوامی خدمت و انسانی اقدار کی ترغیب بننے کی پاداش میں کبھی زہر کا پیالہ بن جاتی ہے تو کبھی منصوری اناالحق کی صداؤں کے لیے سولی بن جاتی ہے ، مگر پھر بھی یہ کسی نہ کسی روپ میں بار بار جلوہ گر رہتی ہے ۔ سینٹرل ایشیا کے تصوفی وجود کے مثالی مسکن سندھ کی نفی اور لبنان کی جبرانی بغاوت کا مرکب یہ ذوالفقار جونیئر اس کا تاریخی اظہار ہے ۔ جو کبھی مغرب کی شاہراہوں و بازاروں میں بلھے شاہ کی طرح بے خود ہوکر ناچتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی سچل کی سرمستی میں یار منانے کے لیے جنسی فرق تک کو مٹانے نکل پڑتا ہے اور کبھی تو میڈیائی مسخری سے چھپ چھپاکر خاموشی سے امریکا سے بھٹ شاہ کی چوکھٹ پر انسانی برابری کے لیے مصروف ِ عمل رہنے کا عزم کرنے پہنچ جاتا ہے ۔
یہ سندھ کے خمیر سے پیدا ہونیوالے بھٹو کی وہ بے چین آرٹسٹ روح ہے جو امریکا میں رہنے اور ایڈنبرگ یونیورسٹی و سان فرانسسکو انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنے کے لیے بھی اپنے ہی معاشرے میں موجود انسانی طبقاتی تضادات و تفرقات کو ہی موضوع بناتا ہے اور اس کے لیے عملی طور پر آرٹ کے اس انالحقی اظہار کے طریقے کو اپناتا ہے جو کبھی بغداد میں منصور حلاج نے اپنایا ، یا دہلی کی گلیوں میں سرمد شہید اختیار کیے ہوئے تھا یا پھر ایران میں مولانا رومی و شمس تبریز کا طریقہ رہا ۔ یا پھر ہماری اور جونیئر بھٹو کی اس دھرتی پر بلھے شاہ اور سچل سرمست نے اپنائے رکھا ۔
قدیم زمانے میں جب تخت و تاج مذہب کا لبادہ اوڑھے اقتداری قوتوں کو زمینی خدا بنے ہوئے تھے اور عوام کو اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کی آزادی تو چھوڑیں سوال کرنے کی بھی آزادی نہیں تھی ، اُس وقت یہ آرٹ ہی تھا جس کے ذریعے عوام کے احساسات کی ترجمانی کی گئی اور آرٹ کے مختلف اظہاروں سے عوام کی ذہنی تربیت کی گئی ۔ خصوصاً 16ویں صدی میں پرنٹنگ کے انقلاب کے ذریعے دنیا میں انسانی آزادی و ترقی میں آرٹ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ اس لیے بات طریقے و پلیٹ فارم کی نہیں بلکہ اصل میں کام اور نیت کی ہونی چاہیے ۔ دنیا میں دم توڑتے طبقاتی تضادات پر مبنی نظام اگر ہمارے مشرقی و مسلم معاشرہ کہلانے والے خطے میں اس قدر طاقتور اور عروج پر ہے تو کیوں ہے ؟
اُس کے پیچھے جو محرکات کارفرما ہیں وہ ہیں علم اور ذہنی پختگی کی کمی اور انسانی برابری کی حقیقی فضیلت سے عدم آگاہی ۔ صدیوں سے سیاسی و حکومتی پلیٹ فارم جب اس میں ناکام ثابت ہورہے ہوں یا پھر اس طبقاتی نظام کا حصہ بن چکے ہوں تو آرٹ ہی وہ بہتر و مؤثر پلیٹ فارم ہے جہاں سے انسانی برابری کے اس تاریخی مؤقف کی تبلیغ و ترغیب کے فرائض سرانجام دیے جاسکتے ہیں ۔ اور بھٹو کی آرٹسٹ روح جونیئر کے روپ میں یہی کام سرانجام دینا چاہتی ہے ۔