پاکستان میں کھیلوں کی تباہی کاعمل تیزہو گیا

اختیارات کی جنگ، نیشنل گیمز کا انعقاد مشکل نظر آنے لگا

پاکستان کی سرزمین کو بڑی تعداد میں باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے کا اعزاز رہا ہے۔ فوٹو : ایکسپریس

نپولین جب پہلی بار قید کے بعد جزیرہ ''البا'' سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تواس کے وفادار سپاہیوں کی مختصر سی جماعت بھی اس کے ہمراہ تھی۔ اس معزول سپہ سالار کے عزائم یہ تھے کہ وہ فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرے، مگر پہلے ہی معرکے میں اس کو فرانس کے 20 ہزار جوانوں کا سامنا کرنا پڑا، نپولین دنیا کے انتہائی بہادر انسانوں میں سے ایک تھا، اس نے بے سروسامانی کے اس عالم میں حریف فوج سے ٹکڑا جانے کا فیصلہ تو کیا لیکن راستہ انوکھا اور منفرد اپنایا، جب دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے تو وہ اکیلا بالکل غیر مسلح حالت میں اپنی جماعت سے نکلا اور نہایت اطمینان کے ساتھ حریف مخالف کی صفوں کے سامنے جا کھڑا ہوا، اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولے اور اپنے سینے کو ننگاکر دیا۔اس کے بعد جذباتی انداز میں اپنے مخالف سپاہیوں جن میں سے اکثر اس کے ماتحت رہ چکے تھے سے خطاب کرتے ہوئے بولا۔ ''تم میں سے کون ہے جو اپنے باپ کے ننگے سینے پرفائر کرنے کے لئے تیار ہے''۔جذباتی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف سے ''کوئی نہیں''، ''کوئی نہیں'' کی آوازیں آنے لگیں۔ تمام سپاہی مخالف جماعت کو چھوڑکر نپولین کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، نیتجہ ظاہر ہے کہ نپولین اپنی بے سروسامانی کے باوجود فاتح رہا اور اس نے ملک فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ جما لیا۔

کسی کے پاس کتنا ہی سازوسامان کیوں نہ ہو لیکن خطرہ پیش آنے کی صورت میں اگر وہ گھبرا جائے تو اس کے اعصاب جواب دے دیں گے، وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ صورت حال کے بارے میں سوچ اور مقابلے کے لئے اپنا منصوبہ بناسکے۔ اس کے برعکس اگر وہ خطرہ کے وقت اپنے ذہن کو حاضر رکھے تو بہت جلد وہ اصل نوعیت کو سمجھ لے گا اور وہ ممکنہ خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔

اسی طرح عالمی سطح کے کھلاڑی اکثر یکساں جسمانی قوت کے مالک ہوتے ہیں، پھر ان میں ہار جیت کا سبب کیا ہوتا ہے، جو شخص جیتتا ہے وہ کیوں جیتتا ہے اور جو ہارتا ہے وہ کس بنیاد پر ہارتا ہے، یہ تھیوری امریکا کے سائنسدانوں کی ایک جماعت کاتحقیق کا موضوع رہی۔ نتیجہ کا حل ڈھونڈنے کے لئے ابتداء میں سائنسدانوں نے عالمی سطح کے بہترین کشتی لڑنے والوں پر تجربات دیکھے، انہوں نے ریسلرز کی عضلاتی طاقت اور ان کی نفسیات کا بھی بغور مشاہدہ کیا، انہوں نے پایا کہ عالمی مقابلوں میں جیتنے والے پہلوان اور ہارنے والے ریسلرز میں ایک خاص فرق ہوتا ہے مگر یہ فرق جسمانی نہیں بلکہ تمام تر نفسیاتی ہے، دراصل پہلوان کی ذہنی حالت اس کے ہار جیت کا فیصلہ کرتی ہے، ماہرین نے پایا کہ ہارنے والوں کے مقابلے میں جیتنے والا زیادہ بااصول ہوتا ہے۔ تجربہ میں بتایا گیا کہ ہارنے والا کھلاڑی مقابلہ سے پہلے ہی بددل اور پریشان تھے جبکہ جیتنے والے پر اعتماد اور مطمئن تھے۔

پاکستان کی سرزمین کو بڑی تعداد میں باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے کا اعزاز رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں مختلف کھیلوں سے وابستہ ملکی کھلاڑیوں نے بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والے ملکی اور غیر ملکی کوچز کی بھر مار اوروسائل کی کمی کے باوجود ایسے کارنامے سر انجام دیئے جس سے پاکستانی عوام کا سر فخر سے بلند ہوتا رہا۔ 1994ء میں پاکستان کرکٹ، اسکواش، ہاکی اور اسنوکر میں عالمی چیمپئن تھا تاہم اب پاکستان کو عالمی سطح پر ہونے والے ایونٹس میں اس تواتر کے ساتھ شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ کھیلوں کے حوالے سے جانے اور پہچانے جانے والے پاکستان کی پہچان اب دہشت گرد پیدا کرنے والے نرسری کی سی ہو گئی ہے۔ ملکی کھیلوں کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی اولمپکس میں گزشتہ 20 برسوں میں ایک بھی ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکے۔


حال ہی میں پاکستانی دستہ لندن اولمپکس میں خالی ہاتھ وطن واپس لوٹا ہے جس کی وجہ وسائل کی کمی کو قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ لندن اولمپکس میں حصہ لینے والے افغانستان، جمیکا سمیت کتنے ہی ملک ایسے ہیں جن کے کھلاڑیوں نے اپنے وطن میں غربت، بھوک، ننگ افلاس کے باوجود میگا ایونٹ میں میڈلز کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنے ملک کا نام روشن کیا۔

بدقسمتی سے ملکی دوسرے محکموں کی طرح ااسپورٹس کے شعبہ کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ مختلف فیڈریشنوں میں سالہا سال سے عہدوں پر بیٹھے عہدیداروں کو سیر اسپاٹوں سے ہی فرصت نہیں تو وہ کیوں ملکی کھیلوں کی بہتری کے لئے کچھ سوچیں اور اقدامات کریں گے، ان کو تو بس اتنی فکر ہوتی ہے کہ کس طرح اپنے اقتدار کو طول دینا ہے۔ عالمی سطح پر جب کوئی ملکی ٹیم ہارتی ہے تو عہدیداراس ہار کی اصل وجوہات تلاش کرنے کی بجائے اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ وطن واپسی پر شکست کا ملبہ کس پر ڈالنا ہے۔

قومی گیمز 16 تا 22 اکتوبر تک لاہور میں ہونا طے پائی ہیں لیکن پاکستان ااسپورٹس بورڈ نے ااسپورٹس پالیسی کو جواز بنا کر اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا ملکی اسپورٹس پالیسی کے حوالے سے فیصلہ سر آنکھوں پر کیونکہ اس سے برسوں سے کھیلوں کی فیڈریشنوں پر قابض عہدیداروں کو گھر کا راستہ دکھانے میں مدد ملے گی تاہم قومی سطح پر شیڈول ایونٹس کو ملتوی کروانے کا فیصلہ دانشمندانہ ہر گز نہیں ہے۔ ہمارا ملک تو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے انٹرنیشنل ٹیمیں پاکستان میں کھیلنے سے انکاری ہیں، اگرقومی سطح پر کھیلوں کے ایونٹس بھی ختم کئے جاتے رہے تو نوجوان طبقہ کھیلوں کی شکل میں صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہو جائے گا اور عالمی سطح کے کھلاڑی بھی سرزمین پاکستان سے ناپید ہوتے جائیں گے۔

mian.asghar@express.com.pk
Load Next Story