’’اقبال اور نانک ‘‘

ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے راستے سے اس تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Amjadislam@gmail.com

یوں تو دنیا میں جتنے بھی مشاہیر ، فلسفی ، دانشور، مفکر اور اہلِِ فکر و نظر آئے ہیں سبھی نے کسی نہ کسی رنگ میں مابعد الطبعیات اور اُس سے متعلق موضوعات پر کچھ نہ کچھ کہا ہے کہ اس کرہ زمین پر انسانی زندگی''خدا، کائنات اور انسان'' کی مثلث کے گرد ہی گھومتی اور اسی سوال کے اندر سے پھوٹتی ہے، دنیا کے تمام مذاہب نہ صرف اسی تکون کے زاویوں کو ملاتے ہیں بلکہ اپنے اپنے طریقے سے ان میں ربط اور معانی ہی ڈھونڈتے اور دکھاتے رہتے ہیں، کسی ایک خاص مذہبی گروہ یا اعتقاد سے اوپر اُٹھ کر دیکھا جائے تو ایک صاحبِ دل کے بقول ربِ کائنات ایک بہت بلند پہاڑ کی بوٹی کی طرح ہے جب کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے راستے سے اس تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔

کسی کا راستہ لمبا ہے کسی کا چھوٹا ، کسی کا آسان اور کسی کا دشوار گزار ، کسی کا ہموار اور کسی کا پتھریلا مگر ہر کوئی اپنے راستے کو ہی نہ صرف بہترین بلکہ واحد بھی سمجھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہابیل قابیل، دیوی دیوتائوں اور ڈارون سے لے کرسٹیفن ہاکنگز تک یہ تصور بھی عام چلا آرہا ہے کہ یہاں پہنچ کر کسی شخص یا قوم کی زندگی اور کائنات کے بارے میں عقل اور سمجھ رک ہوجاتی ہے وہاں وہ اپنے اپنے یا تو کوئی خدا تخلیق کرلیتے ہیں یا سرے سے اُس کے وجود سے ہی انکار کردیتے ہیں۔

کہا منصور نے خدا ہوں میں

ڈارون بولا، بوزنا ہوں میں

ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست

فکر ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست

خد ا کے وجود کے ماننے والوں میں بھی دو گروہ زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک وہ جو توحید اور خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے اور دوسرے وہ جو اسے مظاہر فطرت کے تحسینی استعاروں کی شکل میں دیکھتا اور جانتا ہے، ان گروہوں کے کچھ ماننے و الے اور اُن کے بعض مذہبی رہنما اپنے عقیدے کو سچا اور بہتر دکھانے کے لیے تعصب اور تشدد پر بھی اُتر آتے ہیں مگر غور اور کھلے دل سے دیکھا جائے تو ہر مذہب بنیادی طور پر امن، نیکی ، بھائی چارے اور اخلاقیات ہی کی بات کرتا ہے ۔

سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کے حوالے سے آج کل کرتار پور راہداری کے افتتاح اور اسے منسلک کئی پہلوئوں پر پاک بھارت میڈیا اور اہل سیاست کی حد تک بہت تبصرے ہورہے ہیں جہاں عمومی طور پر انسانیت اور باہمی محبت کے حوالے سے اس عمل کو بہت سراہا جارہا ہے وہاں کچھ لوگ اسے ایک سیاسی سلسلے کا رنگ دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

سیاست بلاشبہ اس پورے منظر نامے کا ایک حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے عوام اور ان میں شامل مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے و الوں کے بہت سے مذہبی مقامات اُن علاقوں میں آگئے ہیں جہاں اُن کی اکثریت نہیں تھی یعنی اب وہ وہاں تک آزادی اور سہولت سے آجا نہیں سکتے، سو جب پاکستان کی موجودہ حکومت اور ا سکی لیڈرشپ نے کرتار پور بارڈر کو ایک خاص طریقے سے کھول کر سکھ مذہب کے ماننے والوں کو بابا گورونانک جی کے استھان کی رسائی دی ہے تو اس کا ایک رشتہ پاک بھارت سابقہ اور موجودہ سیاسی تعلقات سے بھی یقینا منسلک اور متعلق ہے۔

اب اگر بھارت اس پر تنقید کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اُن کی سکھ اقلیت کئی حوالوں سے اُن کے لیے بہت اہم ہے اور اس کا پاکستان کی طرف جھکائو ایساہے وہ سماجی یا مذہبی حوالے سے ہی کیوں نہ ہو انھیں قابلِ قبول نہیں کہ اس کا براہ راست اثر سکھوں کی پاکستان سے محبت اور مسلمانوں سے قربت کی شکل میں بڑھے گا اور اس کا بالواسطہ اثر بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی باعثِ تقویت ہوگا کہ اس قربت اور دوستی کی وجہ سے انتہا پسند ذہنیت رکھنے اور ہندوتوا کا مسلمان دشمنی کے حوالے سے پرچار کرنے والی مودی حکومت کو اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے میں دقت ہوگی کہ یوں سکھوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے عیسائی اور خود اُن کے ہم مذہب لوگ بھی پاکستان سے بھائی چارے کی باتیں کرنے لگ جائیں گے لیکن ا فسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ بھی اپنے ذاتی مفادات اور تعصبات کی وجہ سے اس مشترکہ اور قومی سطح پر بہتری کے امکان کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ ایک ایسے عمل کی بھی مخالفت کر رہے ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لاتا اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دیتا ہے ۔

علامہ اقبال نے آج سے تقریباً ایک سو برس قبل اسی باہمی محبت، کشادہ دلی، حق و انصاف اور توحید پر ستی کے حوالے سے ''نانک'' کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جس میں بابا نانک کا براہ راست ذکر تو صرف نظم کے آخری اشعار میں ہے اگر پوری کی پوری نظم اپنی افکار و خیالات کو پیش کرتی ہے جن کا اصل مرکز محبت، رواداری اور توحید پرستی ہے وہ کہتے ہیں۔

قوم نے پیغام گو تم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

آہ بدقسمت رہے آواز حق سے بے خبر


غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا

ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا

شمعِ حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی

بارشِ رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی

آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

برہمن سر شار ہے اب تک مئے پندار میں

شمعِ گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نورِ ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

اتفاق سے 9 نومبر کے دن ہی جو علامہ اقبال کا تسلیم شدہ جنم دن بھی ہے اسی مردِ کامل یعنی بابا گورونانک کے ماننے والوں کے لیے بھی ایک نئے دن کا آغا ز ہوا ہے کہ 72 برس کے بعد وہ آزادی سے کرتار پور آجا سکیں گے جہاں بابا جی نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے، سو اس کا استقبال محبت اورسچے دل سے کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story