ایک جپھی نے امن کا راستہ کھول دیا

عمران خان نے کرتارپور راہداری کھول کر سخت ترین دشمنوں کو بھی پاکستان اور اس کے وزیراعظم کی تعریف پر مجبور کردیا


آصف محمود November 11, 2019
ایک جپھی سے راہداری کھل سکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے کیمروں کا رخ کرتارپور زیرولائن پر لگے گیٹ کی جانب تھا، جہاں سے چند لمحوں بعد بھارتی وفد نے پاکستان داخل ہونا تھا۔ کرتارپور راہداری آج کھلنے جارہی تھی۔ گیٹ پر کھڑے پاکستان رینجرز کے جوان چاق و چوبند کھڑے تھے۔ دیگر محکموں کے نمائندے بھی یہاں موجود تھے۔ ہم بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وفد کب پاکستان میں داخل ہوگا۔۔ آج 72 برسوں بعد پاکستان اور بھارت کے بیچ ایک نیا راستہ کھلنے جارہا تھا۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب دونوں ملکوں کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں، لائن آف کنٹرول پر جوان شہید ہورہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کھلے دل کے ساتھ آج یہ راہداری کھولنے جارہا تھا۔

ہم لوگ یہاں صبح 8 بجے پہنچے تھے اور اب 12 بجنے والے تھے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ بھارتی وفد دوسری جانب پہنچ چکا ہے اور اب کسی بھی لمحے سرحد عبور کرسکتا ہے۔ اس وفد میں کچھ ایسے لوگ بھی آرہے تھے جن کو میں نے آج تک ٹی وی اسکرین پر ہی دیکھا تھا۔ بالخصوص بھارتی اداکار سنی دیول۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ بندہ جو فلموں میں ہمیشہ پاکستان کے کے خلاف زہر اگلتا رہا، اج اس کے چہرے کے تاثرات کیا ہوں گے؟ اور مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ جو دو دن پہلے تک کرتارپور راہداری کو پاکستان کی طرف سے ایک بہت بڑی سازش قرار دے رہے تھے، آج آنے والے مہمانوں کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل تھا۔

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ ہم الرٹ ہوگئے۔ گیٹ سے بھارتی وفد سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوگیا۔ بھارت کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ سب سے آگے تھے۔ جبکہ دیگر مہمان کے ان کے ساتھ تھے۔ سرحد کراس کرتے ہی پاکستانی حکام نے ان کا استقبال کیا۔ تقریباً 564 بھارتی مہمان کرتارپور راہداری کے راستے پاکستان آئے تھے۔ مہمان جیسے جیسے داخل ہورہے تھے انہیں قریب کھڑی الیکٹرانک گاڑیوں میں بٹھایا گیا اور یہ گاڑیاں انہیں لے کر امیگریشن سینٹر کی طرف چل پڑیں۔ کئی مہمان ایسے تھے جنہوں نے سرحد کراس کرتے ہی پاک سرزمین کو چھو کر پرنام کیا۔ آج وہ گورونانک کی دھرتی پر داخل ہورہے تھے، وہ بھی ویزا کے بغیر۔

جب مہمان امیگریشن سینٹر پہنچے تو وزیراعظم عمران خان بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ ان سے مہمانوں کا تعارف کروایا گیا۔ وزیراعظم عمران خان بھی الیکٹرانک گاڑی میں بیٹھ کر امیگریشن سینٹر سے گوردوارہ دربار صاحب تک پہنچے تھے۔

پاکستانی حکام کی طرف سے منموہن سنگھ، کیپٹن امریندر سنگھ اور سب سے بڑھ کر نوجوت سنگھ سدھو کا بھرپور خیرمقدم کیا جارہا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ آنے والے سنی دیول کو کسی نے لفٹ نہیں کروائی۔ وہ بھی خاموشی کے ساتھ کھڑے کارروائی مکمل ہوتی دیکھتے رہے۔ اس موقع پر اس وقت دلچسپ صورتحال بن گئی جب وزیراعظم عمران خان نے کہا وہ ہمارے سدھو صاحب کہاں ہیں؟

افتتاحی تقریب میں شرکت کےلیے آنے والوں کےلیے گوردوارہ دربار صاحب کے وسیع وعریض صحن میں کارپٹ بچھا کر ان کے اوپر سفید چادریں بچھائی گئی تھیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ساتھ سنی دیول کو بیٹھنے کی جگہ ملی تھی۔ تاہم لگتا تھا جیسے دونوں ہی ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ نہ سردار عثمان کو یہ معلوم ہوگا کہ ان کے ساتھ بیٹھا بھارتی اداکار ہے اور نہ سنی دیول کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ پاکستانی پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

بھارتی فلموں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والا سنی دیول آج اسی دھرتی پر سر جھکائے بیٹھا تھا، یقیناً اس کے دل و دماغ میں اپنے بولے ہوئے ڈائیلاگ ایک اسکرین کی طرح چل رہے ہوں گے۔ اس کا جھکا ہوا سر اور آنکھوں میں نظر آنے والا احترام اور تقدس بتارہا تھا کہ اس کی پاکستان سے متعلق جو سوچ اور نظریات تھے، وہ غلط ہیں۔ پاکستانی تو محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ آج اس دن بھی ہمیں گلے لگارہے ہیں، ہمارا سواگت کررہے ہیں، جب بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کی بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے پاکستان آنے سے قبل ڈیرہ بابا نانک پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان ضرور جائیں گے، وہ ان کا دوسرا گھر ہے۔

سنی دیول نے یہاں کسی سے زیادہ بات چیت نہیں کی، بس جو لوگ انہیں جانتے تھے ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے رہے۔ اور سنی دیول بابا گورونانک کے در پر ایک گنہگار کی طرح سر جھکائے سب سے ملتا رہا۔ لگتا تھا یہ وہ سنی دیول نہیں ہے جو فلموں میں پاکستان کے خلاف باتیں کرتا ہے۔ اس کا لوہے کا ہاتھ آج نرم پڑ چکا تھا، چوڑے شانے آج جھکے ہوئے تھے۔

عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلاف سہی، مگر اس نے کرتارپور راہداری کھول کر سخت ترین دشمنوں کو بھی پاکستان اور اس کے وزیراعظم کی تعریف پر مجبور کردیا۔

اس تقریب میں کئی لوگوں نے تقریریں کیں۔ وزیراعظم عمران خان کا خطاب بھی بہت اچھا تھا۔ مگر مجھے نوجوت سنگھ سدھو کے الفاظ بہت بھلے لگے۔ سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان شیر ہیں، جو محبت میں نفع نقصان نہیں دیکھتے۔ سکندر نے ڈرا کر دنیا جیتی، عمران خان نے دل دے کر دنیا جیتی۔ عمران خان دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ایک جپھی سے راہداری کھل سکتی ہے تو جپھیاں ڈالنے سے باقی مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کچھ لوگ عمران خان جیسے ہوتے ہیں جو اتہاس بنایا کرتے ہیں۔ سکھ قوم دیکھنے میں ایک فیصد ہے لیکن دبدبا زیادہ ہے۔ سدھو کا کہنا تھا کہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں سکھ قوم عمران خان کو جہاں لے جائے گی آپ کو پتہ نہیں لگے گا۔ سکھ قوم کی آواز بن کر بول رہا ہوں، عمران خان کی خاطر دل کا نذرانہ لے کر آیا ہوں۔ سابق بھارتی کرکٹر نے کہا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنے والد کے گھر تک نہ جاسکے۔ سکھوں کی چار نسلیں اپنے والد کے گھر آنے کےلیے ترستی رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں 14 کروڑ سکھوں کے دلوں کی آواز بن کر بول رہا ہوں۔ پاک بھارت تقسیم کے وقت لوگ خون میں لت پت ہوئے۔ پاکستان کے نیک وزیراعظم نے کرتارپور راہداری کھولی۔ سب نفع نقصان دیکھتے رہے۔ یہ پہلا ببر شیر وزیراعظم ہے، جس نے دل کی بات سنی۔ سدھو نے مزید کہا بہت سے سیاسی رہنما دیکھے جن کے دل چڑیا کی طرح ہوتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کا دل بہت بڑا ہے۔ سکھوں کی 4 نسلوں نے جو سپنا دیکھا تھا وہ عمران خان نے پورا کردیا۔

تقریب ختم ہونے کے بعد بھارتی مہمانوں نے گوردوارہ صاحب میں ماتھا ٹیکا اور اپنی مذہبی رسومات ادا کیں، جس کے بعد بھارتی وفد کی واپسی شروع ہوگئی۔ واپس جانے والوں میں سے جہاں کئی چہرے خوشی سے چمک رہے تھے، وہیں کچھ چہروں میں دکھ اور ملال تھا، افسردگی تھی۔ شاید انہیں اس مقدس مقام سے اتنی جلدی واپس جانے کا دکھ تھا یا پھر وہ پاکستان دشمنی میں ماضی میں جو زہر اگلتے رہے، اس پر پشیمان ہورہے تھے۔ تاہم یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ راہداری اپنے سینوں میں پاکستان کے خلاف نفرت اور بغض پالنے والے بھارتی انتہاپسندوں کو کس قدر نرم کر پاتی ہے۔ اور حقیقی معنوں میں یہ کوریڈور امن کا کوریڈور ثابت ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں