جمہوریت نہیں چل سکتی
ہم بار بار اپنے ہی ملک کے جمہوری نظام پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ جمہوریت نہیں چل سکتی
بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں موٹروے کے منصوبے پر غور شروع ہوا۔ خیال تھا کہ کراچی سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے پشاور اور پشاور سے براستہ واخان وسط ایشیاء تک سڑک بنائی جائے، تاکہ اندرون ملک صنعتوں اور کھیتوں سے سامان تجارت براستہ سڑک کم وقت اور کم خرچ میں ان ممالک تک پہنچایا جائے اور وہاں تیار ہونے والی اشیاء اندرون ملک لاکر مقامی آبادی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ لیکن پہلے تو سالہاسال تک یہ منصوبہ کاغذی ہی رہا پھر جب کئی عشروں بعد میاں صاحب کے دور میں اس پر کام شروع ہوا تو پیٹ سے۔ جی ہاں! نہ ساحلی شہروں کراچی یا گوادر سے اور نہ سرحدی شہروں چمن، گلگت یا طورخم سے، بلکہ عین درمیان میں یعنی لاہور سے اسلام آباد تک۔ کیا اس سے ملک کو کوئی تجارتی یا مالی فائدہ ہوا؟ جو منصوبہ برآمدات بڑھانے اور درآمدات پر اٹھنے والی لاگت کم کرنے کےلیے 70 کی دہائی میں بنایا گیا تھا وہ ہنوز پورا نہیں ہوسکا۔
جب کبھی ہمارے ملک میں ڈینگی کا حملہ ہوتا ہے (جو کہ اکثر ہوتا رہتا ہے) تو ہم مچھر مارنے کےلیے اسپرے کرتے ہیں، مچھروں سے بچنے کےلیے پورے بازوؤں کی قمیضیں پہنتے ہیں، پلیٹلیٹس بڑھانے کےلیے مختلف جوسز و دیگر غذائیں استعمال کرتے ہیں، اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز بناتے ہیں، ڈینگی کے مریضوں کے علاج کےلیے خصوصی طبی عملہ بھرتی کرتے ہیں اور گھر گھر جاکر شہریوں کو ڈینگی سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کی تنبیہ کرنے کےلیے بھی ہزاروں کارکنان بھرتی کرتے ہیں۔ گویا ہم اس مسئلے کا علاج بھی عین پیٹ، یعنی درمیان سے شروع کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کوشش تو کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والے مچھر مرجائیں اور ان کی پیدا کردہ بیماری ختم ہوجائے لیکن وہ گندگی، وہ کوڑا، گلیوں بازاروں میں جابجا کھڑا پانی اور دیگر تمام ایسے جوہڑ و نالے وغیرہ جو مچھروں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں، ہم نے ان کا قلع قمع کرنے کا کبھی کوئی ملک گیر پروگرام وضع کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا۔
مچھر، مکھیاں، کوے، چیلیں اور کتے وغیرہ آج ہمارے معاشرے کا شناختی نشان بن چکے ہیں لیکن چڑیا، ہُد ہُد، طوطا، مینا، کوئل، بٹیر، مرغابی، تیتر اور دیگر طیور ہائے دلنشیں اب ہم سے روٹھتے جارہے ہیں، کیونکہ ہم بہت گندا معاشرہ ہیں اور وہ صفائی پسند پرندے۔
ہم میٹرو کے کرائے، پٹرول، بجلی اور گندم کی بوری پر سبسڈی دیتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز، رمضان اور اتوار بازار سجا کر کم قیمت اشیائے خورونوش عوام الناس تک پہنچانے کےلیے اربوں روپے کا بجٹ ان اشیاء پر سبسڈی دینے اور ان کا نظام چلانے کےلیے مختص کرتے ہیں۔ یعنی قوم اور ملک کے معاشی مسائل کا بھی پیٹ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ہم اپنے ملک کی معیشت کو بھی دائیں یا بائیں، پہلے یا آخری کونے سے درست کرنے کا منصوبہ نہیں بناتے بلکہ عین درمیان سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں کھاد کے دو چار مزید کارخانے لگالیں تاکہ مہنگے داموں درآمدی کھاد خریدنے سے کسان کی کمر نہ ٹوٹے اور کسان اور صنعتکار کو بجلی و گیس کمرشل یونٹ کے بجائے عام ریٹ پر دینا شروع کردیں اور توانائی و پانی کی کمی دور کرنے کے منصوبوں پر ساری توجہ مرکوز کردیں تو کیا تمام صنعتی و زرعی اشیاء کی پیداواری لاگت خودبخود کم نہیں ہوجائے گی؟ یوں حکومت کو عوام کو سبسڈی دینے کےلیے خود میدان میں آنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور عوام کو مہنگائی کے عفریت سے مستقل نجات بھی مل جائے گی۔
بلاشبہ یہ سب کہنا آسان ہے لیکن کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ سب کرنے کےلیے بہت وقت اور وسائل درکار ہیں۔ لیکن اگر ہم واقعی اپنے ملک اور اس کی معیشت کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مسائل کو بنیاد سے حل کرنا ہوگا۔ مسائل کے عبوری حل ڈھونڈنے والے کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتے۔ اگر انسان درست سمت میں چلنا شروع کردے تو دیر سے سہی مگر منزل پر بہرحال پہنچ ہی جاتا ہے۔
یاد کریں مشرف اور زرداری دور میں لوڈ شیڈنگ کہاں پہنچ چکی تھی؟ زرداری صاحب کی حکومت مہنگے ترین رینٹل پاورز کے منصوبوں کے ذریعے مسئلے کا فوری اور عبوری حل تلاش کررہی تھی لیکن میاں شہباز شریف کی انتھک محنت نے صرف 5 سال کے محدود عرصے میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ 80 فیصد تک حل کردیا۔ تاہم انہوں نے بھی پن، شمسی و پون چکیوں والے سستے ذرائع پیداوار کی نسبت قدرے مہنگے تھرمل و دیگر منصوبوں پر زیادہ انحصار کیا، لیکن موجودہ حکومت ایک بار پھر ڈیم بنانے اور بجلی پیدا کرنے کے دیگر منصوبے لگانے کی ضرورت سے بے نیاز چہلک بلیہ کھیلنے میں مصروف ہے۔ جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کی توانائی کی ضروریات بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر غفلت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ ہم ایک بار پھر زرداری مشرف عہد میں واپس چلے جائیں۔
ہمیں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی ضرورت تو ہے لیکن یہ صحت کے مسائل کے حل کا بنیادی نسخہ نہیں ہے۔ جب تک ہم قوم کو پینے کا صاف پانی، سانس لینے کےلیے صاف ہوا، گندگی سے پاک ماحول اور زوال سے ناآشنا مثبت سمت میں گامزن اور ٹھوس بنیادوں پر استوار معیشت نہیں دیں گے، تب تک ہمارا ملک صحتمند افراد اور صحتمند قوم سے محروم ہی رہے گا، اور اس محرومی کو دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے پیٹ کی فکر چھوڑ دیں۔ اس وہم کو تیاگ دیں کہ ہمارا اور ہمارے ملک کا پیٹ خراب ہے، ہر مسئلے کو درمیان سے پکڑ کر اس کا حل تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کوئی سفر سڑک کے درمیان سے شروع نہیں ہوا کرتا۔ گاڑی ہمیشہ اسٹیشن سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ مسائل جلد حل کرنے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی زہرآلود وجود کو عین وسط سے سرجری کرکے زہر سے پاک کردیا جائے اور جسم کے باقی حصے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جب تک ہم مسائل کو بنیاد سے حل کرنا شروع نہیں کریں گے اور آخری حد تک حل کرتے نہیں چلے جائیں گے تب تک ہم اسی طرح مسائل کی دلدل میں دھنسے رہیں گے۔ ہر طرف ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے اور ہر طرف سے مایوس ہوتے رہیں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیاں ہمیں پانی مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے آبی ذرائع گندگی سے بھرچکے ہیں اور ہمارا ترسیلِ آب کا نظام بھی فرسودہ ہوچکا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے جمہوری رہنما غیرجمہوری رویے رکھتے ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوری رہنما پیدا کرنے والی نرسریاں ختم کردی ہیں اور اسٹوڈنٹ یونینز کی عدم موجودگی میں بھی جو تھوڑے بہت جمہوری رہنما ہمیں میسر آتے ہیں، ہم ان کا بھی سانس بند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور انہیں احمق، ناسمجھ، سئکیورٹی رسک اور خود کر برتر مخلوق سمجھتے ہوئے انہیں کام کرنے ہی نہیں دیتے اور ان کے ہر کام کے عین درمیان میں کود پڑتے ہیں۔ یعنی ہم بار بار خود ہی اپنے ہی ملک کے جمہوری نظام کے عین پیٹ پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ جمہوریت نہیں چل سکتی، اس کا تو پیٹ خراب ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب کبھی ہمارے ملک میں ڈینگی کا حملہ ہوتا ہے (جو کہ اکثر ہوتا رہتا ہے) تو ہم مچھر مارنے کےلیے اسپرے کرتے ہیں، مچھروں سے بچنے کےلیے پورے بازوؤں کی قمیضیں پہنتے ہیں، پلیٹلیٹس بڑھانے کےلیے مختلف جوسز و دیگر غذائیں استعمال کرتے ہیں، اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز بناتے ہیں، ڈینگی کے مریضوں کے علاج کےلیے خصوصی طبی عملہ بھرتی کرتے ہیں اور گھر گھر جاکر شہریوں کو ڈینگی سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کی تنبیہ کرنے کےلیے بھی ہزاروں کارکنان بھرتی کرتے ہیں۔ گویا ہم اس مسئلے کا علاج بھی عین پیٹ، یعنی درمیان سے شروع کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کوشش تو کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والے مچھر مرجائیں اور ان کی پیدا کردہ بیماری ختم ہوجائے لیکن وہ گندگی، وہ کوڑا، گلیوں بازاروں میں جابجا کھڑا پانی اور دیگر تمام ایسے جوہڑ و نالے وغیرہ جو مچھروں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں، ہم نے ان کا قلع قمع کرنے کا کبھی کوئی ملک گیر پروگرام وضع کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا۔
مچھر، مکھیاں، کوے، چیلیں اور کتے وغیرہ آج ہمارے معاشرے کا شناختی نشان بن چکے ہیں لیکن چڑیا، ہُد ہُد، طوطا، مینا، کوئل، بٹیر، مرغابی، تیتر اور دیگر طیور ہائے دلنشیں اب ہم سے روٹھتے جارہے ہیں، کیونکہ ہم بہت گندا معاشرہ ہیں اور وہ صفائی پسند پرندے۔
ہم میٹرو کے کرائے، پٹرول، بجلی اور گندم کی بوری پر سبسڈی دیتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز، رمضان اور اتوار بازار سجا کر کم قیمت اشیائے خورونوش عوام الناس تک پہنچانے کےلیے اربوں روپے کا بجٹ ان اشیاء پر سبسڈی دینے اور ان کا نظام چلانے کےلیے مختص کرتے ہیں۔ یعنی قوم اور ملک کے معاشی مسائل کا بھی پیٹ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ہم اپنے ملک کی معیشت کو بھی دائیں یا بائیں، پہلے یا آخری کونے سے درست کرنے کا منصوبہ نہیں بناتے بلکہ عین درمیان سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں کھاد کے دو چار مزید کارخانے لگالیں تاکہ مہنگے داموں درآمدی کھاد خریدنے سے کسان کی کمر نہ ٹوٹے اور کسان اور صنعتکار کو بجلی و گیس کمرشل یونٹ کے بجائے عام ریٹ پر دینا شروع کردیں اور توانائی و پانی کی کمی دور کرنے کے منصوبوں پر ساری توجہ مرکوز کردیں تو کیا تمام صنعتی و زرعی اشیاء کی پیداواری لاگت خودبخود کم نہیں ہوجائے گی؟ یوں حکومت کو عوام کو سبسڈی دینے کےلیے خود میدان میں آنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور عوام کو مہنگائی کے عفریت سے مستقل نجات بھی مل جائے گی۔
بلاشبہ یہ سب کہنا آسان ہے لیکن کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ سب کرنے کےلیے بہت وقت اور وسائل درکار ہیں۔ لیکن اگر ہم واقعی اپنے ملک اور اس کی معیشت کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مسائل کو بنیاد سے حل کرنا ہوگا۔ مسائل کے عبوری حل ڈھونڈنے والے کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتے۔ اگر انسان درست سمت میں چلنا شروع کردے تو دیر سے سہی مگر منزل پر بہرحال پہنچ ہی جاتا ہے۔
یاد کریں مشرف اور زرداری دور میں لوڈ شیڈنگ کہاں پہنچ چکی تھی؟ زرداری صاحب کی حکومت مہنگے ترین رینٹل پاورز کے منصوبوں کے ذریعے مسئلے کا فوری اور عبوری حل تلاش کررہی تھی لیکن میاں شہباز شریف کی انتھک محنت نے صرف 5 سال کے محدود عرصے میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ 80 فیصد تک حل کردیا۔ تاہم انہوں نے بھی پن، شمسی و پون چکیوں والے سستے ذرائع پیداوار کی نسبت قدرے مہنگے تھرمل و دیگر منصوبوں پر زیادہ انحصار کیا، لیکن موجودہ حکومت ایک بار پھر ڈیم بنانے اور بجلی پیدا کرنے کے دیگر منصوبے لگانے کی ضرورت سے بے نیاز چہلک بلیہ کھیلنے میں مصروف ہے۔ جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کی توانائی کی ضروریات بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر غفلت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ ہم ایک بار پھر زرداری مشرف عہد میں واپس چلے جائیں۔
ہمیں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی ضرورت تو ہے لیکن یہ صحت کے مسائل کے حل کا بنیادی نسخہ نہیں ہے۔ جب تک ہم قوم کو پینے کا صاف پانی، سانس لینے کےلیے صاف ہوا، گندگی سے پاک ماحول اور زوال سے ناآشنا مثبت سمت میں گامزن اور ٹھوس بنیادوں پر استوار معیشت نہیں دیں گے، تب تک ہمارا ملک صحتمند افراد اور صحتمند قوم سے محروم ہی رہے گا، اور اس محرومی کو دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے پیٹ کی فکر چھوڑ دیں۔ اس وہم کو تیاگ دیں کہ ہمارا اور ہمارے ملک کا پیٹ خراب ہے، ہر مسئلے کو درمیان سے پکڑ کر اس کا حل تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کوئی سفر سڑک کے درمیان سے شروع نہیں ہوا کرتا۔ گاڑی ہمیشہ اسٹیشن سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ مسائل جلد حل کرنے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی زہرآلود وجود کو عین وسط سے سرجری کرکے زہر سے پاک کردیا جائے اور جسم کے باقی حصے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جب تک ہم مسائل کو بنیاد سے حل کرنا شروع نہیں کریں گے اور آخری حد تک حل کرتے نہیں چلے جائیں گے تب تک ہم اسی طرح مسائل کی دلدل میں دھنسے رہیں گے۔ ہر طرف ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے اور ہر طرف سے مایوس ہوتے رہیں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیاں ہمیں پانی مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے آبی ذرائع گندگی سے بھرچکے ہیں اور ہمارا ترسیلِ آب کا نظام بھی فرسودہ ہوچکا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے جمہوری رہنما غیرجمہوری رویے رکھتے ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوری رہنما پیدا کرنے والی نرسریاں ختم کردی ہیں اور اسٹوڈنٹ یونینز کی عدم موجودگی میں بھی جو تھوڑے بہت جمہوری رہنما ہمیں میسر آتے ہیں، ہم ان کا بھی سانس بند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور انہیں احمق، ناسمجھ، سئکیورٹی رسک اور خود کر برتر مخلوق سمجھتے ہوئے انہیں کام کرنے ہی نہیں دیتے اور ان کے ہر کام کے عین درمیان میں کود پڑتے ہیں۔ یعنی ہم بار بار خود ہی اپنے ہی ملک کے جمہوری نظام کے عین پیٹ پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ جمہوریت نہیں چل سکتی، اس کا تو پیٹ خراب ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔