خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ چھوٹی باتوں سے بہت بڑی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جب بھی صلح کے لیے، امن اور سلامتی کی گفتگو کے لیے مذاکرات کی میز بچھی ہے، برصغیر کے کروڑ ہا انسان سانس روک کر اس کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ ایسا کیوںنہ کریں کہ ان دونوں کی سرحدوں پر بہنے والا خون ان ہی گھروں کی دہلیز پر پھوٹتا ہے۔ مہلک اسلحے کی خریداری اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ ہونے والی بے اندازہ دولت ان ہی کا حق مار کر لٹائی جاتی ہے اور انھیں بھوک، جہالت، بیماری، غربت اور نفرت کی سوغات دی جاتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان جس قدر تنائو اور جتنی تنا تنی ہے، ہم نے جتنی جنگیں لڑیں، سیاچن کے محاذ پر دونوں کے جتنے جوانوں کے بدن برف کے جہنم زار کی نذر ہوئے، ان دو غریب ملکوں کے قیمتی وسائل شب برات کی آتش بازی اور ہولی کے راون کی طرح جل بجھے اسے ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ یہ شعر کل بھی درست تھا اور آج بھی سچا ہے کہ:
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
اب سے کچھ برس پہلے تک ہمارے جوانوں کا قتل صرف سرحدوں پر ہوتا تھا۔ لیکن پھر افغانستان کی سر زمین پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے شہروں اور ہمارے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خستہ تن اور سوختہ بدن لاشیں اٹھانا ہمارا روز مرہ ہے۔ ہم اس دہشت گردی کا نوالہ بنتے ہیں، اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ اس کا کوئی رشتہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ جوئی اور آپس کی دشمنی سے بھی ہے۔
یہ انتشار، خون خرابہ اور تیزی سے پھیلتی ہوئے معاشی کساد بازاری، مہنگائی اور غربت نے دونوں طرف کے لوگوں کی بھاری اکثریت کو مجبور کردیا ہے کہ امن کا جگنو اندھیری رات میں لمحے بھر کے لیے بھی چمک جائے تو وہ اس سے بڑی بڑی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ یہ خبر جب آئی کہ غیر وابستہ ملکوں کی تنظیم (NAM) کے اجلاس میں صدر پاکستان اور ہندوستانی وزیر اعظم کی مختصر ملاقات ہو گی تو اجلاس کے حاشیوں پر ہونے والی اس سرسری ملاقات نے بھی لوگوں کے دلوں میں بہت سی امیدیں جگا دیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سال کی ابتدا سے ہی یہ خبریں آ رہی تھیں کہ 2012ء میں ہندوستانی وزیر اعظم پاکستان کا دورہ کریں گے۔ جس میں بہت سے دیرینہ اور اہم معاملات پر پیش رفت ہوگی۔
یہ خبر ہفتوں سے آ رہی تھی کہ تہران میں ہونے والی غیر وابستہ کانفرنس کے حاشیوں پر پاکستانی صدر جناب آصف علی زرداری اورہندوستانی وزیر اعظم جناب من موہن سنگھ کی ملاقات ہونے والی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے سوا ارب سے زاید انسان جن کی خوشیاں اور جن کی آنے والی نسلوںکی زندگی، دونوں ملکوں کے بیچ امن کے قائم رہنے سے جڑی ہوئی ہے، انھیں اس ملاقات سے بہت سے امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اس ملاقات کے دوران وزیر اعظم من موہن سنگھ کے پاکستان آنے کی تاریخ کا اعلان بھی ہوگا۔
اچھی اچھی باتیں بہت سی کی گئیں۔ تمام مسئلوں کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بے شمار مسائل بہت دونوں سے موجود ہیں اس لیے ہمیں مرحلہ وار مذاکرات کے ذریعے بات آگے بڑھانی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے عام لوگوں کو خاص دلچسپی اس بات سے تھی کہ ویزا پالیسی میںکچھ نرمی ہوگی اور لوگ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے آسانی سے مل سکیں گے لیکن ابھی تک یہ محض باتیں ہی باتیں ہیںاور وعدے ہی وعدے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ چھوٹی باتوں سے بہت بڑی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان بہت سے گمبھیر مسئلے ہیں۔ کئی جنگوںنے دونوں طرف کے ہزاروں نوجوان کی زندگیاں نگل لیں۔ دونوں طرف کے کھیت ٹینکوں نے روند دیے اور گولہ باری نے سرحدوں پر جھولنے والے پیڑ راکھ کئے، ان پر جن پرندوں نے گھونسلہ بنایا تھا وہ بھی نفرت کی آگ میں جھلس گئے۔
وہ لوگ جو زندگی کے آخری برس گزار رہے ہیں اور اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں، د وستوں اور اپنی جنم بھومیوں کو دیکھنے کی حسرت رکھتے ہیں، اگر ان کو نظر میں رکھ کر دونوں ملک اپنے اپنے سخت رویوں میں کچھ نرمی کر یں تو ہزراوں نہیں لاکھوں انسانوں کو خوشیاں تقسیم ہوںگی۔ اس بات کو ہم سب ہی جانتے ہیںکہ جب دو ملکوں کے درمیان تجارت ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ عام لوگوں کو پہنچتا ہے۔ اسی طرح جب دو روٹھے ہوئے ملکوں کے لوگ آزادی سے ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں تو بہت سی غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں۔
اسی طرح دونوں طرف کے ادیب اور صحافی یہ کہتے کہتے بوڑھے ہو گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے آنے جانے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے تب ہی دونوں طرف کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کا اندازہ ہو گا اور وہ یہ جان سکیں گے کہ ان کا اصل مسئلہ بھک مری، غربت، جہالت اور بیماریاں ہیں۔ یہ بات بھی بار بار کہی گئی ہے کہ ڈاک خرچ میں ایسا ناقابل برداشت اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے بعدکسی بھی ادیب یا صحافی کے لیے اپنی کتاب ہندوستان بھیجنا یا ہندوستان سے منگانا ممکن نہیں رہا ہے۔
گزرے ہوئے 30 برسوں میں دہشتگردی نے جس طرح ہمارے خطے میں اپنے پنجے گاڑے ہیں اور ہزاروں انسانوں کو اپنا نوالہ بنایا ہے، اس کا علاج بھی یہی ہے کہ خطے کے ملکوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے، تب ہی ان کے درمیان نفرت پھیلانے والے کمزور ہوں گے اور ان سے عوامی سطح پر لڑنا ممکن ہو سکے گا۔
'نام' میں دونوں سربراہوں کی ملاقات بہت خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہوئی لیکن اس میں بھی ہندوستانی وزیر اعظم کی پاکستان آمد کے حوالے سے مبہم سی جو بات ہوئی جس نے خوش امیدوں کو مایوس کیا۔ مجھ ایسے اُمید پرستوں نے 'نام' میں ہونے والی اس مختصر ملاقات سے شاید بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھیں لیکن اچھا ہوتا کہ ہندوستانی وزیر اعظم کے پاکستان آنے کی تاریخ کا اعلان ہو جاتا اور ہم اس روز کا انتظار کرتے۔ لیکن اب اسلام آباد سے یہ خبر آگئی ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ 7 ستمبر کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔
اس ملاقات کے دوران امکان یہی ہے کہ مئی میں جس معاہدے پر دستخط ہونے کے لیے دستاویزات تیار ہوئی تھیں اور دونوں طرف کے اعلیٰ حکام کو یقین تھا کہ مئی میں ہی اس پر دستخط ہو جائیں گے لیکن ''دعائیں'' دیجیے ''ان کو'' جن کی مداخلت نے ویزا میں نرمی کے معاہدے کوکئی مہینوں کے لیے سرد خانے میں ڈال دیا۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم من موہن سنگھ دونوں کے درمیان اس برس دو ملاقاتیں ہوئی ہیںاور زرداری صاحب کے کہنے کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی کے لیے بہت سے منزلیں طے ہوئی ہیں۔ اب ہماری امیدیں 7 اور 8 ستمبر کو ہونے والی ملاقات سے ہیں جس کے بارے میں ایک بار پھر کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت کی بہت سے سہولتوں کا اعلان ہو گا اور دوسرے معاملات کو بھی سلجھانے کی کوشش کی جائے گی۔
ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اس مرتبہ ہندوستان یا پاکستان میں دہشت گردی کی 2008ء جیسی کوئی سنگین واردات نہ ہو جائے یا مئی 2012ء کی طرح ''کسی کو'' اس معاہدے پر کوئی اعتراض نہ ہو جائے۔ زرداری صاحب ہندوستان سے تعلقات کے حوالے سے مختلف مزاج رکھتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں بعض بنیادی باتیں طے پا جائیں اور وہ 'امن کے پیامبر' بن کر دنیا کے سامنے آئیں۔ امید اسی کی ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے اور ان کا 'مفاہمت' کا نسحۂ شفا یہاں بھی کام آئے گا۔
اس موقع پر ساحر لدھیانوی یاد آتے ہیں جنہوں نے جنگ کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ ان کی طویل نظم ''پرچھائیاں'' امن کے حوالے سے ایک شاندار نظم ہے۔ انھوں نے 1965ء کی جنگ اور پھر تاشقند امن معاہدے کے حوالے سے ایک نظم ''اے شریف انسانو'' لکھی تھی جس کی گونج پورے برصغیر میں سنی گئی تھی۔ ان کے چند بند دونوں ملکوں کے جنگ پسندوں کی نذر ہیں۔
خون اپنا ہویا پرایا ہو/نسلِ آدم کا خون ہے آخر/ جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں/ امنِ عالم کا خون ہے آخر/ بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر/روح تعمیر زخم کھاتی ہے/ کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے/ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے/ ٹینک آگے بڑھیں، کہ پیچھے ہٹیں/ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے/ اس لیے اے شریف انسانو!/ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے/ آپ اورہم سبھی کے آنگن میں/ شمع جلتی رہے تو بہتر ہے/ برتری کے ثبوت کی خاطر/ خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے/ گھر کی تاریکیاں مٹانے کو/گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے۔