کسی ہیروکی جستجو
اللہ جانے ہم کب ان کے سقراطوں کے سحر سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہیرو تلاش کریں گے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر یلغار اچانک شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا ایک منصوبہ تھا جس پر بڑی سوچ بچار اور ایک خاص پروگرام کے تحت عمل شروع کیا گیا چنانچہ مسلمان اور دہشت گردی پر بحث اب برسوں سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی اور اب پھر ایک بار ایک جرمن مسلم اسکالر نے ٹی وی پر ایک سوال کے جواب میں پرانے سہی لیکن بھولے ہوئے چند حقائق پیش کیے ہیں۔ جب اس سے دہشت گردی اور اسلام کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب میں سوال کیا کہ پہلی عالمی جنگ کس نے شروع کی تھی۔
کیا یہ جنگ مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ پھر دوسری عالمی جنگ کس نے شروع کی۔ کیا یہ بھی مسلمان تھے۔ ان غیرمسلموں نے آسٹریلیا میں وہاں کے اصل باشندوں میں سے بیس ملین قتل کر دیئے۔ کیا ان کے قاتل مسلمان تھے۔ پھر ایٹم بم کس نے گرائے ہیروشیما اور ناگاساکی پر۔ کیا یہ مسلمانوں کی حرکت تھی۔ شمالی امریکا میں ایک سو ملین لوگوں کو مار دیا گیا' کیا ان کے قاتل مسلمان تھے۔ پھر جنوبی امریکا میں بھی پچاس ملین مقامی باشندوں کو قتل کر دیا گیا پھر تقریباً 180 ملین افریقیوں کو غلام بنا کر کون لے گیا جن میں سے 88 فیصد راستے میں مر گئے اور بحر اٹلانٹک میں پھینک دیئے گئے۔
کیا یہ سب مسلمانوں نے کیا۔ نہیں وہ مسلمان نہیں تھے۔ پہلے تو آپ یہ متعین کریں کہ دہشت گردی کیا ہے۔ اگر کوئی غیرمسلم غلط کام کرتا ہے تو یہ ایک جرم ہے لیکن اگر یہی کام کوئی مسلمان کرتا ہے تو وہ دہشت گرد ہے۔ پہلے تو آپ اس دوغلی پالیسی کو بدلیں اور پھر بات کریں کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں ہے۔
مسلمانوں اور دہشت گردی کا یہ رشتہ ایک عرصہ سے چل رہا ہے۔ انگریز کہتے ہیں کہ پہلے کتے کو پاگل کہو اور پھر اسے مار دو۔ یہی فارمولا انھوں نے مسلمانوں پر بھی نافذ کیا ہے کہ پہلے انھیں دہشت گرد کہو اور پھر مار دو۔ نیویارک میں دو عمارتیں گرائی گئیں۔ اب تک ان کے گرنے کی اصل وجوہات کا تعین نہیں ہوا لیکن باوجود اس کے کہ انھیں عام مسافر ہوائی جہازوں سے بھونڈے طریقے سے گرایا گیا لیکن ان کے انہدام کو مسلمانوں کے ذمے لگا دیا گیا اور انھیں دہشت گرد قرار دے کر افغانستان اور عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ یہ کہانی پرانی ہو چکی ہے اور دنیا پر کھل چکی ہے لیکن اسی پرانے اسلام اور مسلمان دشمن منصوبے کے تحت مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری ہے اور صرف دُکھ ہی نہیں حیرت کا مقام بھی یہ ہے کہ کئی مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان مسلمان دشمنوں کے ساتھ ہے اور ہمارے جیسے کمزور ہموطنوں کو ڈراتی دھمکاتی بھی رہتی ہے۔ مجھے بیرون ملک سے بہت فون آتے ہیں کیونکہ میں نے ایک ضرورت کے تحت اپنا فون نمبر دے دیا تھا۔
ابھی کل یونان کے شہر ایتھنز سے کسی مسلمان کا فون آیا۔ میں نے پوچھا میرے پیر و مرشد سقراط کے ہموطنوں کا کیا حال ہے اور ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں اب بھی کسی پا پیادہ یا کھڑاؤں والے درویش کے قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے تو جواب ملا ان لوگوں کو عوامی سطح پر کچھ معلوم نہیں۔ انھیں صرف مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت یاد ہے۔ یہ اپنے ان فلسفیوں کو بھول چکے ہیں جنہوں نے ان کی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی۔ انھیں انسانی اوصاف سکھائے تھے لیکن یہ آج کسی سقراط اور افلاطون کی نہیں اسلحہ اور بندوق کی زبان سمجھتے ہیں اور اپنے ان یادگار زمانہ لوگوں کو دوسروں کے لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان کو یاد کریں۔
اللہ جانے ہم کب ان کے سقراطوں کے سحر سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہیرو تلاش کریں گے۔ اس پردیسی مسلمان کی باتوں سے مجھے ابن خلدون کی ایک بات یاد آئی کہ قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں وقت کی دھند میں گم ہونا شروع ہوتی ہیں تو وہ اپنے ہیرو پیدا کرتی ہیں بلکہ تخلیق اور ایجاد کرتی ہیں اور ان کے وجود میں اپنی زندگی تلاش کرتی ہیں۔
ہم پاکستانی بھی ان دنوں ایسے ہی صبر آزما اور پُرخطر حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہماری قومیت گم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا تعارف گم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر اک سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ صرف نصف صدی قبل تو ہم بہت کچھ تھے۔ دنیا ہمیں جانتی تھی اور ہمارا نام تھا۔ کل ہی تو ہم نے مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا ایٹم بم بنایا' جنگیں بھی لڑیں' شکستوں کو بھی برداشت کیا اور ان جنگوں نے ہمیں ہمارے کچھ ہیرو بھی عطا کئے۔ ہم شریفانہ گزر اوقات کرنے والے لوگ تھے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا۔
وہ طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ کروٹ لے کر اٹھا اور اس نے ہمیں الٹ پلٹ کر دیا' دبوچ لیا۔ سابقہ سامراجی حکمرانوں نے جیسے اپنی ضرورت کے لئے یہ طبقہ ہمیں دے رکھا تھا۔ جیسے اس نے دیکھا کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کچھ بننے والا ہے تو اس پاکستانی اشرافیہ بلکہ بدمعاشیہ نے ہمیں دبوچ لیا۔ ہمیں مسل ڈالا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے۔ آج ہم اچانک ہر سکھ اور ضرورت سے محروم ہو گئے ہیں۔ کرپشن کا عفریت ہمیں نکلتا جا رہا ہے۔ ہم بے بسی کی حالت میں آنکھوں میں آنسو لے کر ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں بچاؤ۔ ساتھ ہی اس عفریت کے پیٹ میں غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
امید کی کرن کہیں سے نظر آتی ہے تو یہ اشرافیہ اس پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اب تک با وسائل بھی ہیں' باہمت بھی ہیں اور درد دل بھی رکھتے ہیں۔ ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں ان کا تعارف لازم ہے یا ان کے ذریعے اپنے آپ کو اور عوام کو فریب دینا لازم ہے۔ بہرحال امیدوں کو زندہ رکھنا بھی عمل کا ایک وسیلہ ہے اور کسی ہیرو کی جستجو لازم ہے جو ہمیں زندگی دے اور آگے لے چلے۔
کیا یہ جنگ مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ پھر دوسری عالمی جنگ کس نے شروع کی۔ کیا یہ بھی مسلمان تھے۔ ان غیرمسلموں نے آسٹریلیا میں وہاں کے اصل باشندوں میں سے بیس ملین قتل کر دیئے۔ کیا ان کے قاتل مسلمان تھے۔ پھر ایٹم بم کس نے گرائے ہیروشیما اور ناگاساکی پر۔ کیا یہ مسلمانوں کی حرکت تھی۔ شمالی امریکا میں ایک سو ملین لوگوں کو مار دیا گیا' کیا ان کے قاتل مسلمان تھے۔ پھر جنوبی امریکا میں بھی پچاس ملین مقامی باشندوں کو قتل کر دیا گیا پھر تقریباً 180 ملین افریقیوں کو غلام بنا کر کون لے گیا جن میں سے 88 فیصد راستے میں مر گئے اور بحر اٹلانٹک میں پھینک دیئے گئے۔
کیا یہ سب مسلمانوں نے کیا۔ نہیں وہ مسلمان نہیں تھے۔ پہلے تو آپ یہ متعین کریں کہ دہشت گردی کیا ہے۔ اگر کوئی غیرمسلم غلط کام کرتا ہے تو یہ ایک جرم ہے لیکن اگر یہی کام کوئی مسلمان کرتا ہے تو وہ دہشت گرد ہے۔ پہلے تو آپ اس دوغلی پالیسی کو بدلیں اور پھر بات کریں کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں ہے۔
مسلمانوں اور دہشت گردی کا یہ رشتہ ایک عرصہ سے چل رہا ہے۔ انگریز کہتے ہیں کہ پہلے کتے کو پاگل کہو اور پھر اسے مار دو۔ یہی فارمولا انھوں نے مسلمانوں پر بھی نافذ کیا ہے کہ پہلے انھیں دہشت گرد کہو اور پھر مار دو۔ نیویارک میں دو عمارتیں گرائی گئیں۔ اب تک ان کے گرنے کی اصل وجوہات کا تعین نہیں ہوا لیکن باوجود اس کے کہ انھیں عام مسافر ہوائی جہازوں سے بھونڈے طریقے سے گرایا گیا لیکن ان کے انہدام کو مسلمانوں کے ذمے لگا دیا گیا اور انھیں دہشت گرد قرار دے کر افغانستان اور عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ یہ کہانی پرانی ہو چکی ہے اور دنیا پر کھل چکی ہے لیکن اسی پرانے اسلام اور مسلمان دشمن منصوبے کے تحت مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری ہے اور صرف دُکھ ہی نہیں حیرت کا مقام بھی یہ ہے کہ کئی مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان مسلمان دشمنوں کے ساتھ ہے اور ہمارے جیسے کمزور ہموطنوں کو ڈراتی دھمکاتی بھی رہتی ہے۔ مجھے بیرون ملک سے بہت فون آتے ہیں کیونکہ میں نے ایک ضرورت کے تحت اپنا فون نمبر دے دیا تھا۔
ابھی کل یونان کے شہر ایتھنز سے کسی مسلمان کا فون آیا۔ میں نے پوچھا میرے پیر و مرشد سقراط کے ہموطنوں کا کیا حال ہے اور ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں اب بھی کسی پا پیادہ یا کھڑاؤں والے درویش کے قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے تو جواب ملا ان لوگوں کو عوامی سطح پر کچھ معلوم نہیں۔ انھیں صرف مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت یاد ہے۔ یہ اپنے ان فلسفیوں کو بھول چکے ہیں جنہوں نے ان کی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی۔ انھیں انسانی اوصاف سکھائے تھے لیکن یہ آج کسی سقراط اور افلاطون کی نہیں اسلحہ اور بندوق کی زبان سمجھتے ہیں اور اپنے ان یادگار زمانہ لوگوں کو دوسروں کے لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان کو یاد کریں۔
اللہ جانے ہم کب ان کے سقراطوں کے سحر سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہیرو تلاش کریں گے۔ اس پردیسی مسلمان کی باتوں سے مجھے ابن خلدون کی ایک بات یاد آئی کہ قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں وقت کی دھند میں گم ہونا شروع ہوتی ہیں تو وہ اپنے ہیرو پیدا کرتی ہیں بلکہ تخلیق اور ایجاد کرتی ہیں اور ان کے وجود میں اپنی زندگی تلاش کرتی ہیں۔
ہم پاکستانی بھی ان دنوں ایسے ہی صبر آزما اور پُرخطر حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہماری قومیت گم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا تعارف گم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر اک سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ صرف نصف صدی قبل تو ہم بہت کچھ تھے۔ دنیا ہمیں جانتی تھی اور ہمارا نام تھا۔ کل ہی تو ہم نے مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا ایٹم بم بنایا' جنگیں بھی لڑیں' شکستوں کو بھی برداشت کیا اور ان جنگوں نے ہمیں ہمارے کچھ ہیرو بھی عطا کئے۔ ہم شریفانہ گزر اوقات کرنے والے لوگ تھے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا۔
وہ طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ کروٹ لے کر اٹھا اور اس نے ہمیں الٹ پلٹ کر دیا' دبوچ لیا۔ سابقہ سامراجی حکمرانوں نے جیسے اپنی ضرورت کے لئے یہ طبقہ ہمیں دے رکھا تھا۔ جیسے اس نے دیکھا کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کچھ بننے والا ہے تو اس پاکستانی اشرافیہ بلکہ بدمعاشیہ نے ہمیں دبوچ لیا۔ ہمیں مسل ڈالا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے۔ آج ہم اچانک ہر سکھ اور ضرورت سے محروم ہو گئے ہیں۔ کرپشن کا عفریت ہمیں نکلتا جا رہا ہے۔ ہم بے بسی کی حالت میں آنکھوں میں آنسو لے کر ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں بچاؤ۔ ساتھ ہی اس عفریت کے پیٹ میں غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
امید کی کرن کہیں سے نظر آتی ہے تو یہ اشرافیہ اس پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اب تک با وسائل بھی ہیں' باہمت بھی ہیں اور درد دل بھی رکھتے ہیں۔ ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں ان کا تعارف لازم ہے یا ان کے ذریعے اپنے آپ کو اور عوام کو فریب دینا لازم ہے۔ بہرحال امیدوں کو زندہ رکھنا بھی عمل کا ایک وسیلہ ہے اور کسی ہیرو کی جستجو لازم ہے جو ہمیں زندگی دے اور آگے لے چلے۔