غیریقینی صورتحال کے بارے میںمزید باتیں
امریکی صدر اوبامہ تک سی آئی اے کے ایک کنٹریکٹر کو سفارت کار بتاتے نظر آئے۔
گزشتہ کالم میں حکومت کے ساڑھے چار برس میں ملک کو درپیش جس غیر یقینی صورتحال کا ذکر کیا اس پر مزید تبصرے سے پہلے ایک ہفتے میں ہونیوالے ان واقعات کا ذکر ہوجائے، جنہوںنے اس غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ وہ غیر یقینی صورتحال جو اس ملک کی سیاست پر 27 اگست تک تلوار کی طرح لٹک رہی تھی، اب 18 ستمبر تک لٹکی رہے گی۔ تاریخ پر تاریخ۔ وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف انتہائی میٹھی زبان اور ججز کے احترام میں زمین آسمان ایک کرکے اٹھارہ ستمبر تک کا وقت لینے میں کامیاب ہوگئے۔
عوام، سیاستدان، سرمایہ کار، ملکی و غیر ملکی سفارتکار اور بیرونی دنیا کے لیے صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے۔ 18 ستمبر تک ہوگا کیا؟ کیا پیپلزپارٹی کی حکومت خط لکھ دے گی؟ کیا وزیر قانون فاروق ایچ نائیک عید کی چھٹیوں میں سوئٹزر لینڈ جاکر ایسے انتظامات کر آئے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت خط بھی لکھ دے، عدالت بھی مطمئن ہوجائے اور سوئس حکام کوئی کارروائی بھی نہ کریں اور یہ قانونی جنگ جو واضح طور پر اداروں کے درمیان ایک سیاسی جنگ بن چکی ہے اپنے اختتام کو پہنچ جائے؟ کیا فاروق نائیک کو یقین ہے کہ عدالت مطمئن ہوجائے گی؟
کیا فاروق نائیک صدر زرداری کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ججز کے رویے میں تبدیلی اسی بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انا کی اس جنگ میں معاملہ محض خط لکھنے کا ہے اس کے مندرجات کا نہیں اور عدالت اس بات پر زور نہیں دے گی کہ خط میں نقات بھی اس کی منشاء کے مطابق ہوں؟ابھی یہ تمام سوالات غیر یقینی صورتحال کے غبارے میں سے کچھ ہوا نکالنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات منظر عام پر آگئے اور یہ بیانات تھے اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ارسلان افتخار کیس میں انکوائری کا اختیار نیب کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سے لے کر محترم شعیب سڈل کے ایک رکنی کمیشن کے حوالے کرنے پر۔ ارسلان افتخار نے الزام لگایا کہ نیب کمیشن غیر جانبدار نہیں اور اعلیٰ عدلیہ نے تحقیقات نیب سے لے کر شعیب سڈل کے حوالے کردیں اور ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کو کہا۔
شروع میں تو پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خاموش رہے اور فواد چوہدری جو عدلیہ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کسی بھی قسم کی براہ راست تنقید سے اجتناب کرتے ہوئے صرف یہ فرماتے رہے کہ انکوائری افسر پر اعتراض تو موسیٰ گیلانی نے بھی کیا تھا اور موسیٰ گیلانی کے ایفی ڈرین کیس میں تو وکیل استغاثہ اور انکوائری افسر ایک ہونے کے باوجود موسیٰ گیلانی کی فریاد نہ سنی گئی۔ مگر بلاول بھٹو زرداری نے کہہ دیا کہ اگر نیب محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل کرسکتی ہے تو ارسلان افتخار کا کیوں نہیں اور اس بیان سے غیر یقینی صورتحال ہے کہ غبارے میں پھر سے بھر پور ہوا بھر ڈالی۔ ایک دفعہ پھر سوئس حکام کے لکھے جانے والے خط کا، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا اور عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تعلقات کا مستقبل مزید غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے۔
بہرحال گزشتہ ہفتے کے کالم کے تسلسل میں کچھ مزید عوامل بیان کرتا چلوں جو گزشتہ ساڑھے چاربرسوں میں مسلسل غیر یقینی صورتحال کا باعث بنتے رہے۔ ایک اہم مسئلہ جمہوری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے رہا۔ اور پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں ہر دہائی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ تعلقات جمہوری حکومت اور جمہوریت دونوں کا بوریا بستر لپیٹنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان تعلقات پر سوالات کی بھر مار رہی۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جمہوری حکومت کے ماتحت کرنے کی باتیں ہوں یا جنرل کیانی اور جنرل پاشاکی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ یا کیری لوگر بل، سب پر قیاس آرائیوں کی بھرمار رہی۔
پھر میموکمیشن کا معاملہ آگیا کہ میمو درست ہے تو کہیں یہ میمو ہی حکومت کو نہ لے ڈوبے۔ قربانی تو ہوگی مگر کیا محض امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی یا ساتھ میں صدر آصف علی زرداری کی بھی۔ کہیں عدلیہ اور فوج میں موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کوئی انڈر اسٹینڈنگ تو نہیں ہوگئی۔ کیا خراب گورننس سے بیزار آکر ایک ایسے ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کو لانے کی تیاریاں تو نہیں کی جارہی کہ جسے عدلیہ اور جی ایچ کیو دونوں کاآشیرباد حاصل ہو۔ کیا وہ ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ آگیا تو سیاسی جماعتیں چپ چاپ گھر بیٹھ جائیں گی یا پھر دمادم مست قلندر ہوگا۔ ساڑھے چار سال میں یہی کچھ ہوتا رہا۔
ایسی ہی غیر یقینی صورتحال خارجہ پالیسی خاص طور سے امریکا کے ساتھ تعلقات اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے رہی۔ ممبئی واقعات نے شروع ہی میں جمہوری حکومت کو دبائو میں ڈال دیا۔ ساری دنیا پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار پر سوال اٹھانے لگی۔ بھارت نے دنیا کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی ریاستی اداروں کی طرف سے پشت پناہی کے الزامات لگائے گئے۔ سوال پیدا ہونے لگا کہ کیا پاکستان اس دباؤ سے نکل پائے گا یا نہیں۔ مگر ایک طرف سے دباؤ ختم ہوتا تو دوسری طرف سے شروع ہو جاتا۔ کبھی انڈیا کو شکایت تو کبھی چین کو' کبھی روس کو تو کبھی افغانستان کو تو کبھی امریکا کو۔ شکایت سب کو دہشت گردی کے حوالے سے اور وہ یہ کہ پاکستان کی سرزمین ان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان اس الزام کو رد کرے مگر مانے کون۔
جو ملک یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے ایک ایک انچ پر ریاستی عملداری موجود ہے۔ اس کے اس دعوے پر بھلا دنیا کیسے یقین کرے کہ وہاں دہشت گرد پناہ لیے ہوئے نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت کے چلنے میں بیرونی امداد کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ صورتحال مسلسل غیر یقینی کا باعث بنتی رہی۔ امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں پر تعلقات ظاہری طور پر دبائو کا شکار نظر آتے ہی رہے مگر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور جنرل ملن کے اس حوالے سے الوداعی بیان نے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کیا اور پھر ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ نے تو پہلے سے سرد تعلقات میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
امریکی صدر اوبامہ تک سی آئی اے کے ایک کنٹریکٹر کو سفارت کار بتاتے نظر آئے۔ یہ معاملہ مشکل سے سلجھا تو پانچ ماہ بعد ہی دو مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن' ساری دنیا پاکستان پر انگلیاں اٹھانے لگی۔ اس دباؤ میں غیر یقینی صورتحال ملکی معیشت پر مزید خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ اس غضبناک واقعہ کو چند ماہ گزرے ہی تھے کہ سلالہ کا واقعہ کہ جس میں نیٹو نے 24 پاکستانی فوجی جوانوں کو پاکستانی سرزمین پر شہید کر دیا۔ امریکا معافی مانگے گا یا نہیں۔ نیٹو سپلائی بند تو کر دی گئی ہے مگر اب کھولی جائے گی یا نہیں۔
معانی نہیں مانگی افسوس کا اظہار کیا ہے اور نیٹو سپلائی بھی کھل گئی ہے مگر مرکزی حکومت کے وزیر اطلاعات نے فرمایا کہ ایک اور ڈرون حملہ ہوا تو سپلائی پھر بند کر دیں گے۔ مطلب غیر یقینی صورتحال کا پھر سامنا۔ ڈرون حملہ ہو گیا مگر سپلائی جوں کی توں جاری رہی۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی بھی باتیں ہونے لگی ہیں مگر اب غیر یقینی صورتحال امن و امان کے حوالے سے ہے۔ طالبان نے عملی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ کامرہ بیس پر حملہ' پشاور میں دہشتگردی کے حملے اور مزید حملوں کی دھمکیاں۔ یعنی سب ایک وقت میں درست اور یقینی ہو گویا اس ملک کی قسمت میں نہیں۔
تو جناب یہ وہ تمام حالات ہیں جو کہ ساڑھے چار سال میں اس ملک کی عوام کو بھگتنے پڑے۔ ہر معاملے میں غیر یقینی صورتحال زیادہ تر حکومت کی بری سیاسی حکمت عملی اور انتہائی بری کارکردگی کی وجہ سے اور کچھ اندرونی اور بیرونی حالات کی وجہ سے۔ ایسے میں کوئی حکومت ترقی کرے تو کیسے کرے۔ عوام کے حالات میں بہتری آئے تو کیسے آئے۔ سرمایہ کار سرمایہ کس یقین دہانی کے تحت لگائے کہ جب کسی بھی معاملے میں صورتحال یقینی نہ نظر آتی ہو۔
اب ایک نیا شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ آیندہ الیکشن ہو بھی پائیں گے یا نہیں؟ الیکشن ہو گا یا سلیکشن؟ سلیکشن ہوا تو کون آن بورڈ ہو گا اور کون سڑکوں پر؟ سیاسی جماعتیں کیا کریں گی؟ عدلیہ کیا کرے گی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہو گا؟ کم از کم اگلے الیکشن تو یہ غیر یقینی صورتحال کسی بھی طرح یقینی صورتحال میں بدلتی نظر نہیں آتی مگر امید ہے کہ ناصرف الیکشن ہو جائیں بلکہ عوام اپنا حق رائے دہی بھرپور انداز میں استعمال کر کے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ جو ایوانوں میں جا کر ان کے مسائل حل کریں' اچھی گورننس کی مثال قائم کریں اور اس ملک کے عوام کو اگر معاملے میں نہیں تو چند معاملات میں ایک یقینی صورتحال مہیا کریں کیونکہ اس وقت تو آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔