بھارتی علماء کشمیریوں کے ساتھ نہیں ہیں 

بھارت میں بروئے کار دارالعلوم دیوبند کے سینئر علمائے کرام کی طرف سے کشمیریوں کی جدوجہد کی مخالفت افسوسناک ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid November 12, 2019
[email protected]

پہلے تو مجھے ماہنامہ ''عالمی ترجمان القرآن '' کے نائب مدیر جناب سلیم منصور خالد کا شکریہ ادا کرنا ہے جن کی مہربانی سے مجھے ہر ماہ یہ میگزین ملتا رہتا ہے ۔ جریدہ مذکور کا تقریباً ہر مضمون ہی دلکشا اور معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص کمٹمنٹ اور نظریے کا حامل و پرچارک ہوتا ہے۔

افتخار گیلانی صاحب کے تفصیلی مضامین ''ترجمان القرآن'' کے ہر شمارے کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ گیلانی صاحب مقبوضہ کشمیر کے ممتاز اخبار نویس و مصنف ہیں اور مشہور کشمیری حریت پسند بزرگ لیڈر جناب سید علی گیلانی کے قریبی عزیز بھی ۔ افتخار گیلانی صاحب نے نئی دہلی میں رہ کر برسوں سچی اور مجاہدانہ صحافت کا علَم بلند کیے رکھا ہے اور اس کی پاداش میں بھارتی تشدد بھی برداشت کیا ہے اور بھارتی جیلیں بھی کاٹی ہیں ۔

''ترجمان القرآن'' کے زیرنظر شمارے ( اکتوبر2019) میںاُن کا 9صفحات پر مشتمل مضمون پڑھ کر مَیں تو چونک اُٹھا ہُوں اور پریشان بھی ہُوں، یہ افسوسناک حقیقت جان کر کہ اکثریتی بھارتی علمائے اسلام مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم مودی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔

گیلانی صاحب لکھتے ہیں : '' ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لُوٹی تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے؟چنانچہ مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلما(ہند)کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔''

دونوں مدنی چچا، بھتیجا کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے ہے ۔ افتخار گیلانی صاحب اپنے مذکورہ مضمون میں مزید لکھتے ہیں:''بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: 'کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندوستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے'۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: 'دفعہ 370اور 35اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں''۔

کشمیریوں کے زخموں پر بھارتی مسلمان علما کی یہ نمک پاشیاں یہاں ہی نہیں ختم ہوتیں ۔گیلانی صاحب نے لکھا ہے :''اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکریٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔

مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: 'ہم 370دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں'۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: 'ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں' اور محمود مدنی صاحب نے کہا: 'ہم حکومتِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں''۔ پھر اجمیر شریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: 'کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں۔ وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے''۔خدا کا شکر ہے کہ ایسے میں معروف بھارتی دینی ماہنامہ '' الفرقان '' کے مدیر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے مذکورہ بھارتی علماء کے حکومت نواز اقدامات و بیانات کی خاصی گرفت کی ہے ۔

اس تفصیل سے تو ہم پر یہی کھلتا ہے کہ بھارت میں بروئے کار مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے اہم اور نمایاں علما کشمیریوں کے دکھوں کو اپنا دکھ درد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ایسے میں مولانا وحیدالدین خان صاحب بھارتی حکومت کی پشت پناہی کرنے (اور کشمیریوں کی مخالفت میں) پیچھے کیوں رہتے؟افتخار گیلانی صاحب کہتے ہیں: ''چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینئر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر رائے معلوم کی جائے۔ (استفسار پر) مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: 'کشمیری 'امن' کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ اُن کی گزشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی'۔

رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟ تو مولانا نے فرمایا: 'انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں'۔جب اُن سے پوچھا گیا: 'جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خود بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں'۔ اس سوال پر مولانا غصے سے لال پیلے ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ ''

دہلی کی مشہور و معروف تاریخی شاہی مسجد کے امام بھی مقبوضہ کشمیریوں کے ہمنوا نہیں ہیں ۔چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ''کشمیری مسلمانوں نے کبھی اُن کا ساتھ نہیں دیا''۔ اس پر افتخار گیلانی نے موصوف کی گوشمالی کرتے ہُوئے بجا لکھا ہے :'' محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے:گزشتہ 60برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر شہید بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانشوروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔''

ایسے مایوس کن ماحول میں جماعتِ اسلامی ہند کا وجود غنیمت ہے ۔ اس ضمن میں حسینی صاحب کے ستمبر میں جاری کردہ بیانات اور اکتوبر کے آغاز میں کی گئی پریس کانفرنس جرأت و ہمت کی غماز ہے ۔ حسینی صاحب کے ساتھ کچھ دیگر بھارتی علما ایسے بھی ہیں جنھوں نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی ہے ۔افتخار گیلانی نے ان علما کی نشاندہی کرتے ہُوئے بتایا ہے : '' مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا ہے کہ دفعہ370 کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندوستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے''۔شکر ہے کوئی تو بھارتی مسلمان عالمِ دین کشمیریوں کے حق میں نعرہ زَن ہُوا ہے ۔ویسے بھارت میں بروئے کار دارالعلوم دیوبند کے سینئر علمائے کرام کی طرف سے کشمیریوں کی جدوجہد کی مخالفت افسوسناک ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں