بھوک سے بلبلاتے بچے ہمارے تو نہیں

آپ نے کبھی بھوک کی حقیقی تکلیف محسوس کی ہے؟ مجھے تو اعتراف ہے کہ میں نے کبھی حقیقی تکلیف۔۔۔

آپ نے کبھی بھوک کی حقیقی تکلیف محسوس کی ہے؟ مجھے تو اعتراف ہے کہ میں نے کبھی حقیقی تکلیف محسوس نہیں کی۔ شاید لڑکپن میں ایک بار جب شدید گرمیوں میں روزے آئے تھے تو ایک دو بار بغیر سحری کے روزے رکھنے پڑے، اس وقت بھوک پیاس کا حقیقی احساس ہوا تھا لیکن اس کے علاوہ کچھ یاد نہیں۔

ہر سال رمضان میں الحمدﷲ روزے رکھتے ہیں لیکن آج کل جس طرح سحری اور اس سے بڑھ کر افطاری میں مرغن غذاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، حقیقی بھوک کا احساس کم ازکم مجھے تو نہیں ہوتا۔ عموماً ہم لوگ بغیر بھوک کے یا تھوڑی سی بھوک میں عادتاً ہی کھانا کھالیتے ہیں، پھرکھانوں کے درمیان بھی ہم چگتے رہتے ہیں، جو بھی بات ہو، ہم میں سے پچاس فیصد لوگ کبھی بھوک کی حقیقی تڑپ محسوس نہیں کرتے، پھر بھلا بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ہم اس تکلیف کا کیسے اندازہ کر سکتے ہیں جو معدے اور آنتوں کے شدید مروڑ کی حالت میں ہوتی ہے۔

وہ حالت جسے دور کرنے کے لیے آدمی کو اپنے ہی جیسے انسانوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ بھوک کی اس شدید تکلیف کو کچھ لوگ برداشت بھی کرلیتے ہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں کہ ایک آدمی بغیر کچھ کھائے ہفتوں زندہ رہا اور استقامت کے ساتھ بھوک برداشت کرتا رہا مگر ... مگر جب اپنے جگر کے ٹکڑے، اپنے لعل بھوکے ہوں، جب معصوم آنکھیں آنسوؤں سے لبریز التجا کرتی ہوئی اپنے باپ کو دیکھتی ہوں، جب توتلے لہجے میں ابا سے روٹی مانگی جائے تو کوئی کہاں تک برداشت کرسکتا ہے۔ پھر اخبار میں خبر چھپتی ہے کہ ایک ماں اپنے چھوٹے بچوں سمیت نہر میں کود گئی، اور خیرپور کے سکندر نے عین عیدالاضحیٰ کے دن اپنے گلے میں پھندا ڈال لیا!!

عیدالاضحی کی چھٹیوں کے بعد ہفتے کو جب اخبار ملا تو اندرونی صفحات پر موجود اندرون سندھ کی خبروں میں سے ایک چھوٹی سی دو کالمی خبر پر نظر جم کر رہ گئی۔ اس خبر کے سامنے سب کچھ مذاق لگا۔ حکومتوں کے بلند بانگ دعوے اور لکھنے والوں کے فلسفے سب گویا ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ خبر کے مطابق تحصیل کنگری کے گاؤں نور خان لغاری میں 40 سالہ سکندر علی لغاری نے اپنے گھر کے کچے کمرے میں اس وقت خودکشی کرلی جب عید کی صبح بچوں نے اس سے کہا کہ ابا! ہمیں بھوک لگی ہے، کھانے کو کچھ دو۔ بچوں کی یہ حالت دیکھ کر وہ فوراً کمرے میں گیا اور چھت کے پنکھے میں رسہ باندھ کر گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔ وہ چھ بچوں کا باپ تھا، بچوں کی بھوک کی حالت برداشت نہ کرسکا۔ بچے اپنے باپ کی لاش سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے کہ ابا اٹھو! ہم روٹی نہیں مانگیں گے۔ یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود ہر شخص رو دیا۔

یہ خبر کیا ہے، ایک تازیانہ ہے ہم تمام مسلمانوں کے لیے جو اس پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کے ماننے کے دعوے کرتے ہیں جو فرما گئے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل بھوکے کو کھانا کھلانا ہے، اتنا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر مسکین، یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کا تقاضا کیا ہے۔


محسن انسانیتﷺ نے کبائر کے مرتکب افراد کے بارے میں بھی کھانا کھلانے پر مغفرت کی مثالیں پیش کیں، مثلاً ایک بدکار عورت کی صرف اس لیے بخشش ہوگئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا۔ حدیث میں ہے کہ جو خود پیٹ بھر کر سویا اور اس کا پڑوسی بھوکا سوگیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ اسی طرح فرمایا کہ جس بستی میں کوئی بھوکا سوجائے اس بستی پر سے اﷲ تعالی کی ذمے داری ختم... بے شک سکندر کے پڑوسی بھی بہت غریب ہوں گے، لیکن اگر اپنی ایک روٹی میں سے چند لقمے پڑوس کے بھوکے بچوں کے منہ میں چلے جاتے تو ایسا سانحہ تو نہ ہوتا۔

آج ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو خود غریب ہیں، دال دلیہ کھاتے ہیں، ہم کیا کسی کی مدد کر سکتے ہیں؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ اجتماعیت کی برکت سے ایک آدمی کا کھانا دو کو کفایت کر جاتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ سالن میں پانی زیادہ ڈال دیا کرو، تاکہ غریب پڑوسیوں کو بھی دیا جاسکے۔ تو بتائیے اگر کوئی کرنا چاہے تو کیا نہیں کرسکتا۔ سب آدھے پیٹ کھالیں یہ اس سے بہتر نہیں کہ کچھ تو حلق تک ٹھونس لیں کہ ہاضمے کے چورن کھانے پڑیں اور پاس پڑوس میں اﷲ کے بندے بھوکے پیٹ کروٹیں بدلتے رہیں۔

یہ تو غریبوں کی بات ہے، ورنہ آج 80 فیصد پاکستانی عوام دراصل غریب نہیں ہیں، یا یہ کہہ لیجیے کہ آج سے پچاس سال پہلے کے پیمانے پر غریب نہیں ہیں۔ آج ہم بھارت سے ہر شے میں پیچھے ہیں لیکن غربت وہاں زیادہ ہے۔ آج ہمارے 80 سے 90 فیصد لوگوں کے پاس اپنا ذاتی سیل فون ہے، 70 فیصد عوام کیبل دیکھتے ہیں، بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں ہجوم بڑھتا جارہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں ایک عام شادی پر بھی کتنا فضول پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور سالانہ شادی ہالز میں ہزاروں ٹن کھانا ضایع کردیاجاتا ہے۔

پھر آخر بقیہ بیس فیصد حقیقی غریبوں کی بھوک نہیں مٹ رہی تو بتائیں اس میں کس کا قصور ہے؟ صرف حکومت کا یا ہم سب کا۔ اور پھر مذکورہ واقعہ اس بابرکت دن ہوا جس دن غریب سے غریب آدمی بھی دین کے ایک حکم کو پورا کرنے کی برکت سے گوشت کھاتا ہے۔ اس دن ہوا یہ واقعہ بتارہا ہے کہ آہستہ آہستہ قربانی کی روح اور فلسفہ ہمارے ذہن سے محو ہوتا جارہا ہے۔ اور جب فریج و ڈیپ فریزر کی سال بھر میں سب سے زیادہ فروخت بقرعید پر ہونے لگے تو ایسے واقعے عجیب لگتے بھی نہیں ہیں۔

اتفاق دیکھیے کہ اسی دن یعنی 16 اکتوبر کو عیدالاضحیٰ کے ساتھ عالمی یوم خوراک بھی تھا، جو ساری دنیا میں منایا گیا۔ یہ دن بھی ہمارے آپ کی طرح پیٹ بھروں نے شروع کیا ہے۔ سکندر کی طرح سیکڑوں باپوں نے اس دن خودکشیاں کی ہوں گی، ہزاروں بچے چند لقموں کے لیے ترستے اس بے رحم دنیا سے گزر گئے ہوں گے، جب کہ ایک حالیہ جائزے کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے لاکھوں افراد کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔ غذا کو کچرے میں پھینکتا ہوا پیٹ بھرا انسان اس بات سے لاتعلق ہے کہ ٹھیک اسی لمحے بے شمار انسان بھوک سے مر رہے ہیں، مگر کسے پروا ہے۔

چلیے چھوڑیے، بہت بقراطیت جھاڑ لی، ہمارے بچے تو آئس کریم کھا رہے ہیں، باقی بھوک سے بلبلاتے بچے جانیں اور حکومت جانے، ہمیں کیا۔ یہ بتائیے ہمارے ہاں تو آج سیخ کباب بنیں گے، آپ کا مینو کیا ہے؟
Load Next Story