نوبیل اعزازاورہماری خوش فہمیاں
سویڈن میں قائم نوبیل اکادمی کی وجہ سے ہر برس اکتوبر کامہینہ نوبیل اعزازات کی بہار لے کر آتاہے۔
سویڈن میں قائم نوبیل اکادمی کی وجہ سے ہر برس اکتوبر کامہینہ نوبیل اعزازات کی بہار لے کر آتاہے۔مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اعزازات دیے جاتے ہیں۔ان اعزازات کے لیے نامزد امیدواروں پر بہت کچھ کہا اور لکھاجاتاہے۔لہٰذا رواں مہینے میں نوبیل انعام کابہت تذکرہ رہا۔اس کی ایک وجہ پاکستانی کم عمرطالبہ ملالہ کانوبیل کے امن انعام کے لیے نامزد ہونا تھا۔ملالہ کے حوالے سے بعد میں بات ہوگی،پہلے یہاں نوبیل کے ان اعزازات کے حوالے سے کچھ بتانا چاہوں گا۔
1833ء کو سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں پیدا ہونے والے الفریڈ نوبیل کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔انھیں شاعری،ادب،طب،سائنس جیسے شعبوں میں دلچسپی تھی۔یہ خود بھی ماہرکیمیادان،انجینئراورسب سے بڑھ کر ڈائنامائٹ کے موجد تھے۔انھوں نے یہ ایجاد انسانی خدمت کے لیے کی تھی،مگر یہ انسان کی تخریبی سوچ کے لیے معاون ثابت ہوئی،یہی وجہ تھی، پھر انھوں نے اپنی تمام تر ذہانت اورسرگرمیوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا،آج تک نوبیل اکادمی ان کے مقاصد کو فروغ دے رہی ہے۔
الفریڈ نوبیل کوکئی زبانیں بولنے پر مہارت حاصل تھی۔انھوں نے اس اعزاز کو مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کے نام منسوب کیا۔یہ فزکس، کیمسٹری،میڈیسن،اکنامک سائنسز،امن اورادبیات کے شعبوں میں دیاجاتاہے۔113برس سے دیے جانے والے اس اعزاز کودینے کی ابتدا1901میں ہوئی تھی۔دنیابھر میں اس اعزاز کوحاصل کرنے والے کو معزز سمجھاجاتاہے۔
کسی بھی شعبے میں نوبیل اعزاز دیاجائے،اس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہوتی ہے،بالخصوص ادب کا شعبہ بہت توجہ حاصل کرتاہے۔2013میں ادب کے نوبیل اعزاز کے لیے بہت ساری قیاس آرائیاں کی گئیں۔پانچ ادیبوں کے نام بہت زیادہ گونجتے رہے،جن میں فلپ روتھ،ہاروکی موراکامی، جون فوسس،جوائس کیرول اوٹس اورآسیہ جبار شامل تھیں۔ان کے علاوہ بھی کئی نام اس فہرست میں شامل رہے،لیکن سرفہرست نام جاپانی ناول نگار ''ہاروکی موراکامی ''کا تھا۔
''ہاروکی مو راکامی''گزشتہ کئی برس سے نوبیل کے اس ادبی اعزاز کے لیے نامزد ہوتے رہے،مگر ابھی تک اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں،لیکن اس ناول نگار کی ناکامی صرف یہیں تک محدود ہے،ورنہ یہ دنیا بھر میں پڑھا جانا والا ایک معروف اور ریکارڈ فروخت ہونے والا ناول نگار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ناول نگار کے مداحوں کو یقین ہے ،ایک دن یہ نوبیل اعزاز حاصل کرلے گا۔''ہاروکی موراکامی''جاپان سمیت دنیا کے کئی بڑے ادبی اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔
نوبیل اعزازات کے حوالے سے کئی دلچسپ نکات بھی ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔جیسے کہ 1901سے لے کر 2013تک انفرادی حیثیت میں یہ اعزاز حاصل کرنے والوں کی تعداد 110 ہے ،جب کہ 4مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی اعزاز کے لیے مشترکہ طور پر دو ادیب مستحق قرار پائے۔106برس میں یہ اعزاز دیا گیا جب کہ7برس ان کااجرانھیں ہوا ،جس کی وجہ پہلی اوردوسری جنگ عظیم تھی۔
سب سے کم عمراعزاز یافتہ ادیب کا نام ''رُوڈیارڈ کیپلنگ''ہے،جن کاتعلق برطانیہ سے تھا،انھیں 1907کو 42برس کی عمر میں نوبیل ادبی اعزاز دیاگیا۔اسی طرح اس اعزاز کو حاصل کرنے والے عمررسیدہ ادیب کانام''ڈورس لیسنگ''تھا اوران کاتعلق بھی برطانیہ سے تھا۔انھیں یہ اعزاز 2007کو88برس کی عمر میں دیاگیا۔
فرانس کے معروف ادیب''ژاں پال سارتر''وہ واحد ادیب ہیں،جنھیں نوبیل ادبی اعزاز دیاگیا،مگر انھوں نے اس کو وصول کرنے سے انکار کردیا۔اسی طرح روسی ادیب ''بورس پاسٹرنک''بھی واحد ایسے ادیب تھے جنھیں 1958میں یہ اعزاز دیاگیا،ابتدائی طورپر انھوں نے اس کوقبول تو کرلیامگر پھر اپنے ملک کی طرف سے سیاسی دباؤ کے تحت اسے لینے سے انکار کردیا۔ادب کے شعبے میں یہ اعزاز حاصل کرنیوالی عورتوں کی تعداد صرف 13ہے۔رواں برس کی اعزاز یافتہ کینیڈین افسانہ نگار ''ایلس منرو''اس فہرست میں تازہ اضافہ ہیں۔
نوبیل ادبی اعزاز حاصل کرنیوالے 25زبانوں کے مصنّفین ہیں۔ان میں سب سے زیادہ نوبیل ادبی اعزازات حاصل کرنیوالے ادیبوں کا تعلق برطانیہ سے تھا۔اس کے بعد بالترتیب پانچ زبانوں کے ادیب بھی یورپی ممالک سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ان کے علاوہ صرف ایک مسلمان ادیب نے یہ اعزاز حاصل کیا،ان کا نام ''نجیب محفوظ''تھا،ان کاتعلق مصر سے تھا۔
نوبیل ادبی اعزاز دینے والوں کے اپنے متعین کردہ اصول ہیں۔انہو ں نے کچھ ایسے بھی فیصلے کیے، جن پر اعتراض کیاجاسکتاہے۔ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کو کبھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ایسی کئی معروف شخصیات ہیں جنھیں اس اعزاز کے لیے کبھی نامزد نہیں کیا گیااورنہ ہی کوئی انعام دیاگیا۔
پاکستان سے بالخصوص کسی ادیب کی نوبیل اعزاز کے لیے نامزدگی نہیں ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں دارالتراجم کا نہ ہونا ہے۔ساری دنیا میں تخلیق ہونے والا ادب اپنی قومی زبانوں سے باہر نکل کر بین الاقوامی زبانوں میں منتقل کیاجاتاہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادیب بہت زیادہ نمایاں نہیں ہوپائے۔کیا سعادت حسن منٹو یافیض احمد فیض نوبیل ادبی اعزاز نہیں حاصل کرسکتے تھے؟ اسی طرح نہ ہی دیگر ممالک کاادب باقاعدہ طورپر ہمارے ہاں ترجمہ کیاگیا،جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بین الاقوامی رجحانات کااندازہ ٹھیک سے نہیں کیاجاسکا،مگر ان حالات کے باوجود کچھ ایسے لوگ موجود ہیں،جنھوں نے انفرادی حیثیت میں یہ ذمے داری نبھانے کی کوشش کی۔
الفریڈ نوبیل کے حوالے سے اردو زبان میں باقر نقوی ایک معتبر حوالہ بن چکے ہیں۔انھوں نے سب سے پہلے الفریڈ نوبیل کی شخصیت اورزندگی پر کتاب لکھی۔ ادب، امن، حیاتیات میں 1901سے لے کر 2000تک اعزازات حاصل کرنے والی شخصیات کامختصر تعارف اوران کے خطاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا،صرف یہی نہیں بلکہ ایسا ترجمہ کیاکہ پڑھنے والا دنیا بھر کے دانشوروں اورذہین لوگوں کی ان باتوں میں کھوکر یہ بھی بھول بیٹھا کہ یہ ترجمہ ہے اوریہ تمام مضامینِ خیال دیگر زبانوں کے ہیں۔الفریڈ نوبیل کی شخصیت اورنوبیل کے اعزازیافتگان اردو پڑھنے والوں کے لیے اب اجنبی نہیں رہے ،مگر اس قدر معیاری کام کی بھی اُس طرح قدر نہیں کی گئی،جس طرح کی جانی چاہیے۔
اب رہ گئی بات ملالہ کی تو سب سے پہلے عرض کردوں کہ ملالہ کو نوبیل امن اعزاز دلوانے کے طرف داروں کو یہ تو پتا چل چکاہوگا، وہ اس کی حق دار نہیں تھی۔دوسری بات یہ اعزاز حاصل کرنا کوئی کرکٹ میچ کی ٹرافی نہیں ہے،جس کے لیے آپ اتنے جذباتی ہوجائیں،یہ ان ہی لوگوں کو ملے گا،جنھوں نے خود کو ریاضت کی بھٹی میں پکایاہوگا،جن کے کریڈٹ پر انسانیت کی بھلائی کے لیے بہت کچھ ہوگا۔
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِِ جگر کہاں
کاش اتنے ہی پُرزور اورجذباتی طریقے سے کسی نے عبدالستار ایدھی کے لیے صدا بلند کی ہوتی،جوکئی دہائیوں سے مسلسل انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔جن کی بوسیدہ قمیض کی جیب میں صرف انسانیت سے محبت کے کھرے سکے ہیں۔کاش اس کے لیے ڈاکٹر ادیب رضوی کانام لیاجائے،مگر کیاکریں،جذباتیت کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔
میری ادنیٰ گزارش ہے اگر آپ کو انگریزی یااردوزبان پڑھنا آتی ہے اورآپ نے ابھی تک نوبیل اعزازات حاصل کرنے والوں کی زندگیوں کامطالعہ نہیں کیا،توبرائے مہربانی ان کی جدوجہد کا مطالعہ کیجیے۔اس موضوع پر بے شمار کتابیں دستیاب ہیں ۔ ہماری علمی تاریخ کاایک ایسانام ،جسے ہم بھول چکے ہیں اورشاید کبھی اس شخصیت پربات بھی نہیں کریں گے،جو فزکس کے شعبے میںنوبیل اعزاز حاصل کرکے بہت پہلے، پاکستان کی حاضری نوبیل اعزاز یافتگان میں لگا چکے،جنھوں نے یہ اعزاز حاصل کرتے وقت پاکستان کاروایتی لباس زیب تن کیااوراردو میں تقریر کی۔یہ شخصیت ''ڈاکٹر عبدالاسلام''کی ہے،کیا ہمیں وہ یاد ہیں؟گزشتہ دنوں امن انعام کے لیے ملالہ کاوظیفہ پڑھنے والے پاکستانی میڈیا نے یادگار کے طورپر ہی سہی، ان کاذکر کیا ہوتا۔
نوٹ: اس کالم میں شایع شدہ تمام اعدادوشمار نوبیل اکادمی کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کیے گئے۔
1833ء کو سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں پیدا ہونے والے الفریڈ نوبیل کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔انھیں شاعری،ادب،طب،سائنس جیسے شعبوں میں دلچسپی تھی۔یہ خود بھی ماہرکیمیادان،انجینئراورسب سے بڑھ کر ڈائنامائٹ کے موجد تھے۔انھوں نے یہ ایجاد انسانی خدمت کے لیے کی تھی،مگر یہ انسان کی تخریبی سوچ کے لیے معاون ثابت ہوئی،یہی وجہ تھی، پھر انھوں نے اپنی تمام تر ذہانت اورسرگرمیوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا،آج تک نوبیل اکادمی ان کے مقاصد کو فروغ دے رہی ہے۔
الفریڈ نوبیل کوکئی زبانیں بولنے پر مہارت حاصل تھی۔انھوں نے اس اعزاز کو مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کے نام منسوب کیا۔یہ فزکس، کیمسٹری،میڈیسن،اکنامک سائنسز،امن اورادبیات کے شعبوں میں دیاجاتاہے۔113برس سے دیے جانے والے اس اعزاز کودینے کی ابتدا1901میں ہوئی تھی۔دنیابھر میں اس اعزاز کوحاصل کرنے والے کو معزز سمجھاجاتاہے۔
کسی بھی شعبے میں نوبیل اعزاز دیاجائے،اس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہوتی ہے،بالخصوص ادب کا شعبہ بہت توجہ حاصل کرتاہے۔2013میں ادب کے نوبیل اعزاز کے لیے بہت ساری قیاس آرائیاں کی گئیں۔پانچ ادیبوں کے نام بہت زیادہ گونجتے رہے،جن میں فلپ روتھ،ہاروکی موراکامی، جون فوسس،جوائس کیرول اوٹس اورآسیہ جبار شامل تھیں۔ان کے علاوہ بھی کئی نام اس فہرست میں شامل رہے،لیکن سرفہرست نام جاپانی ناول نگار ''ہاروکی موراکامی ''کا تھا۔
''ہاروکی مو راکامی''گزشتہ کئی برس سے نوبیل کے اس ادبی اعزاز کے لیے نامزد ہوتے رہے،مگر ابھی تک اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں،لیکن اس ناول نگار کی ناکامی صرف یہیں تک محدود ہے،ورنہ یہ دنیا بھر میں پڑھا جانا والا ایک معروف اور ریکارڈ فروخت ہونے والا ناول نگار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ناول نگار کے مداحوں کو یقین ہے ،ایک دن یہ نوبیل اعزاز حاصل کرلے گا۔''ہاروکی موراکامی''جاپان سمیت دنیا کے کئی بڑے ادبی اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔
نوبیل اعزازات کے حوالے سے کئی دلچسپ نکات بھی ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔جیسے کہ 1901سے لے کر 2013تک انفرادی حیثیت میں یہ اعزاز حاصل کرنے والوں کی تعداد 110 ہے ،جب کہ 4مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی اعزاز کے لیے مشترکہ طور پر دو ادیب مستحق قرار پائے۔106برس میں یہ اعزاز دیا گیا جب کہ7برس ان کااجرانھیں ہوا ،جس کی وجہ پہلی اوردوسری جنگ عظیم تھی۔
سب سے کم عمراعزاز یافتہ ادیب کا نام ''رُوڈیارڈ کیپلنگ''ہے،جن کاتعلق برطانیہ سے تھا،انھیں 1907کو 42برس کی عمر میں نوبیل ادبی اعزاز دیاگیا۔اسی طرح اس اعزاز کو حاصل کرنے والے عمررسیدہ ادیب کانام''ڈورس لیسنگ''تھا اوران کاتعلق بھی برطانیہ سے تھا۔انھیں یہ اعزاز 2007کو88برس کی عمر میں دیاگیا۔
فرانس کے معروف ادیب''ژاں پال سارتر''وہ واحد ادیب ہیں،جنھیں نوبیل ادبی اعزاز دیاگیا،مگر انھوں نے اس کو وصول کرنے سے انکار کردیا۔اسی طرح روسی ادیب ''بورس پاسٹرنک''بھی واحد ایسے ادیب تھے جنھیں 1958میں یہ اعزاز دیاگیا،ابتدائی طورپر انھوں نے اس کوقبول تو کرلیامگر پھر اپنے ملک کی طرف سے سیاسی دباؤ کے تحت اسے لینے سے انکار کردیا۔ادب کے شعبے میں یہ اعزاز حاصل کرنیوالی عورتوں کی تعداد صرف 13ہے۔رواں برس کی اعزاز یافتہ کینیڈین افسانہ نگار ''ایلس منرو''اس فہرست میں تازہ اضافہ ہیں۔
نوبیل ادبی اعزاز حاصل کرنیوالے 25زبانوں کے مصنّفین ہیں۔ان میں سب سے زیادہ نوبیل ادبی اعزازات حاصل کرنیوالے ادیبوں کا تعلق برطانیہ سے تھا۔اس کے بعد بالترتیب پانچ زبانوں کے ادیب بھی یورپی ممالک سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ان کے علاوہ صرف ایک مسلمان ادیب نے یہ اعزاز حاصل کیا،ان کا نام ''نجیب محفوظ''تھا،ان کاتعلق مصر سے تھا۔
نوبیل ادبی اعزاز دینے والوں کے اپنے متعین کردہ اصول ہیں۔انہو ں نے کچھ ایسے بھی فیصلے کیے، جن پر اعتراض کیاجاسکتاہے۔ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کو کبھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ایسی کئی معروف شخصیات ہیں جنھیں اس اعزاز کے لیے کبھی نامزد نہیں کیا گیااورنہ ہی کوئی انعام دیاگیا۔
پاکستان سے بالخصوص کسی ادیب کی نوبیل اعزاز کے لیے نامزدگی نہیں ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں دارالتراجم کا نہ ہونا ہے۔ساری دنیا میں تخلیق ہونے والا ادب اپنی قومی زبانوں سے باہر نکل کر بین الاقوامی زبانوں میں منتقل کیاجاتاہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادیب بہت زیادہ نمایاں نہیں ہوپائے۔کیا سعادت حسن منٹو یافیض احمد فیض نوبیل ادبی اعزاز نہیں حاصل کرسکتے تھے؟ اسی طرح نہ ہی دیگر ممالک کاادب باقاعدہ طورپر ہمارے ہاں ترجمہ کیاگیا،جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بین الاقوامی رجحانات کااندازہ ٹھیک سے نہیں کیاجاسکا،مگر ان حالات کے باوجود کچھ ایسے لوگ موجود ہیں،جنھوں نے انفرادی حیثیت میں یہ ذمے داری نبھانے کی کوشش کی۔
الفریڈ نوبیل کے حوالے سے اردو زبان میں باقر نقوی ایک معتبر حوالہ بن چکے ہیں۔انھوں نے سب سے پہلے الفریڈ نوبیل کی شخصیت اورزندگی پر کتاب لکھی۔ ادب، امن، حیاتیات میں 1901سے لے کر 2000تک اعزازات حاصل کرنے والی شخصیات کامختصر تعارف اوران کے خطاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا،صرف یہی نہیں بلکہ ایسا ترجمہ کیاکہ پڑھنے والا دنیا بھر کے دانشوروں اورذہین لوگوں کی ان باتوں میں کھوکر یہ بھی بھول بیٹھا کہ یہ ترجمہ ہے اوریہ تمام مضامینِ خیال دیگر زبانوں کے ہیں۔الفریڈ نوبیل کی شخصیت اورنوبیل کے اعزازیافتگان اردو پڑھنے والوں کے لیے اب اجنبی نہیں رہے ،مگر اس قدر معیاری کام کی بھی اُس طرح قدر نہیں کی گئی،جس طرح کی جانی چاہیے۔
اب رہ گئی بات ملالہ کی تو سب سے پہلے عرض کردوں کہ ملالہ کو نوبیل امن اعزاز دلوانے کے طرف داروں کو یہ تو پتا چل چکاہوگا، وہ اس کی حق دار نہیں تھی۔دوسری بات یہ اعزاز حاصل کرنا کوئی کرکٹ میچ کی ٹرافی نہیں ہے،جس کے لیے آپ اتنے جذباتی ہوجائیں،یہ ان ہی لوگوں کو ملے گا،جنھوں نے خود کو ریاضت کی بھٹی میں پکایاہوگا،جن کے کریڈٹ پر انسانیت کی بھلائی کے لیے بہت کچھ ہوگا۔
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِِ جگر کہاں
کاش اتنے ہی پُرزور اورجذباتی طریقے سے کسی نے عبدالستار ایدھی کے لیے صدا بلند کی ہوتی،جوکئی دہائیوں سے مسلسل انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔جن کی بوسیدہ قمیض کی جیب میں صرف انسانیت سے محبت کے کھرے سکے ہیں۔کاش اس کے لیے ڈاکٹر ادیب رضوی کانام لیاجائے،مگر کیاکریں،جذباتیت کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔
میری ادنیٰ گزارش ہے اگر آپ کو انگریزی یااردوزبان پڑھنا آتی ہے اورآپ نے ابھی تک نوبیل اعزازات حاصل کرنے والوں کی زندگیوں کامطالعہ نہیں کیا،توبرائے مہربانی ان کی جدوجہد کا مطالعہ کیجیے۔اس موضوع پر بے شمار کتابیں دستیاب ہیں ۔ ہماری علمی تاریخ کاایک ایسانام ،جسے ہم بھول چکے ہیں اورشاید کبھی اس شخصیت پربات بھی نہیں کریں گے،جو فزکس کے شعبے میںنوبیل اعزاز حاصل کرکے بہت پہلے، پاکستان کی حاضری نوبیل اعزاز یافتگان میں لگا چکے،جنھوں نے یہ اعزاز حاصل کرتے وقت پاکستان کاروایتی لباس زیب تن کیااوراردو میں تقریر کی۔یہ شخصیت ''ڈاکٹر عبدالاسلام''کی ہے،کیا ہمیں وہ یاد ہیں؟گزشتہ دنوں امن انعام کے لیے ملالہ کاوظیفہ پڑھنے والے پاکستانی میڈیا نے یادگار کے طورپر ہی سہی، ان کاذکر کیا ہوتا۔
نوٹ: اس کالم میں شایع شدہ تمام اعدادوشمار نوبیل اکادمی کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کیے گئے۔