گردش لیل و نہار
ان دنوں جو موضوع ملک کے سیاسی افق پر اچانک چھا جانے والی کالی گھٹا کی مانند گرج اور چمک رہا ہے۔۔۔
ان دنوں جو موضوع ملک کے سیاسی افق پر اچانک چھا جانے والی کالی گھٹا کی مانند گرج اور چمک رہا ہے وہ ہے کراچی کی ایک نشست NA-256 پر نادرا (NADRA) کا یہ انکشاف کہ یہاں 77 ہزار ووٹ ایسے کاسٹ ہوئے ہیں جن کا محکمے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ''نادرا'' کے نقطہ نظر سے یہ ووٹ ممکنہ طور پر جعلی یا بوگس ہوسکتے ہیں لیکن اس انکشاف سے جو مسائل پیدا ہوئے ان کا ختم ہوجانا یا کیا جانا مذکورہ نشست پر دوبارہ الیکشن کروانے کے فیصلے سے بھی ممکن نہ ہوگا۔
کیونکہ ایک نشست پر بوگس ووٹوں کی حیران کن اور بحیثیت نتیجہ فیصلہ کن تعداد نے مئی 2013 میں منعقد ہونے والے الیکشن پر ایک سوالیہ (؟) نشان آویزاں کردیا ہے جب کہ کچھ روز قبل کراچی ہی کی ایک اور نشست NA-258 کے تصدیقی عمل کے بعد بھی کم وبیش ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا تھا کہ ہزاروں ووٹ انگوٹھے کے نشان سے مماثلت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا عمران خان کا یہ مطالبہ کہ چیف جسٹس الیکشن میں کی جانب والی مبینہ دھاندلی پر سوموٹو ایکشن لیں ورنہ۔۔۔۔ورنہ وہ اور ان کے حامی آنے والے دنوں میں سڑکوں پر ہوں گے، احتجاج کریں گے۔ جب کہ تمام ٹی وی چینلز، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث زور شور سے جاری ہے۔ اور اپنی اپنی بصیرت و بصارت کے مطابق معاملے پر نیز اس کے حل پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
گویا جتنے ذہن اتنی سوچیں اور جتنے منہ اتنی باتیں والا محاورہ اپنے عروج پر ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اب جب کہ مرکز سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں اور وزیر اعظم سے لے کر صدر مملکت تک چناؤ کا عمل مکمل ہوچکا ہے، صوبوں اور مرکز کی کابینہ تکمیل پاچکی ہیں اور تمام حکومتوں نے اپنی اپنی جگہ کام کرنا شروع کردیا ہے تو اس سارے عمل کو کیسے اور کیونکر دہرایا جائے؟ زیادہ سے زیادہ یہ ممکن ہے کہ "NADRA" سے مزید نشستوں کی اکیڈمک چھان بین کروا لی جائے تاکہ معلوم ہو کہ مئی 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کا حقیقی تناسب کیا تھا؟ 100 فیصد، 90 فیصد یا کتنا؟ اور بعداز تصدیق، دھاندلی ثابت ہوجانے پر آیندہ ہونے والے ہر ضمنی الیکشن جب کہ جنرل الیکشن کے لیے ایک مضبوط، مربوط اور نقائص سے پاک حکمت عملی وضع کی جائے۔
فوج کی نگرانی سمیت ایسے تمام اقدامات کیے جائیں کہ الیکشن کی شفافیت میں اضافہ ممکن ہوسکے بلکہ الیکشن مکمل شفاف ہوں۔میری ناقص رائے میں تو اس مشکل وقت میں جب ملک کو بہت سارے اور بہت سنگین مسائل درپیش ہیں۔ مئی کے الیکشن پر ضرورت سے زیادہ بحث کرنا اسے FOCUS کرنا اور اسے سرے سے ہی متنازعہ قرار دینا ملک کے مفاد میں کسی طور نہ ہوگا۔پاکستان ترقی کے لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت آخری نمبر پر آتا ہے یا اس سے کچھ درجہ پہلے مجھے صحیح صورت حال کا علم نہیں۔ لیکن ہماری قوم اور اس کے چنیدہ حکمراں اخلاقی تنزلی، معاشرتی گراؤٹ، قومی استحصال، کرپشن، جھوٹ، ظلم، اقربا پروری، قومی تعصبات میں پہلے نمبر پر آتے ہیں میں اپنے تئیں اور اپنے سمیت بالکل ایسا ہی سمجھتا ہوں۔
شاید یقین کی حد تک کیونکہ پچھلے کئی سال سے سپریم کورٹ بلوچستان اور ملک کے دیگر صوبوں سے لاپتہ افراد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔چیف جسٹس سمیت دیگر ججز متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر وہ مجرم ہیں تو ازروئے قانون ان پر مقدمات قائم کیے جائیں انھیں ملکی قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ البتہ انھیں لاپتہ رکھنا یا کردینا الگ سے ایک جرم ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ تعاون پر آمادہ نظر نہیں آتا۔تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے ایک برطانوی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی پاکستان میں کارروائیاں جاری رہیں گی۔ بوجوہ علما کی گرفتاری، مدارس پر پابندی اور طرز حکومت۔ (i) ہم اپنے حملے جاری رکھیں گے۔ (ii) بم بلاسٹ و خودکش حملے کرتے رہیں گے۔ (iii) معصوم لوگوں کا قتل عام، اغوا، ٹارگٹ کلنگ بھی جاری رہے گی لیکن مذاکرات بھی کریں گے اگر حکومت جنگ بندی میں پہل کرتے ہوئے ہمارے گرفتار دہشت گردوں اور قاتلوں کو رہا کرے تو۔
سمجھ سے بالاتر ہے، احاطہ خرد سے باہر ہے کہ حکومت، طالبان مذاکرات آخر کن شرائط پر ہورہے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ میری رائے میں حکومت کو سوچنے اور مزید غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ دو ممالک کے درمیان (Back Door Diplomacy)نہیں ہے۔
جہاں دو سیکریٹریز مل کر دو حکومتوں کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ طالبان ہیں جن کا ایجنڈا ''چٹ بھی میری' پٹ بھی میری'' ہے۔ لہٰذا یہ بڑے تحمل اور بردباری سے کرنے والا فیصلہ ہے۔ جس پر ملک کے امن و امان اور سلامتی کا انحصار بھی ہے اور دارومدار بھی۔
بالآخر نیب (NAB) کے چیئرمین کا تقرر ممکن ہوا اور قرعہ فال نکلا چوہدری قمر الزماں کے نام اور حکومت و اپوزیشن ہمیشہ کی طرح اس ایک معاملے میں متفق ہوگئے جس کے درست ہونے سے دونوں کی بقاء کو خطرات لاحق تھے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی ہوگئی اور دونوں کو تحفظ بھی مل گیا۔ توقع ہے کہ نئے چیئرمین نیب حکومت اور اپوزیشن کی تمام تر توقعات پر پورا اتریں گے۔
صرف چار ماہ کی قلیل مدت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مہنگائی کو جو عزت و احترام ملک میں دیا وہ نہ تو زرداری دے سکے نہ مشرف حکومت دے سکی۔ عوام کے لیے وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ''نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن''۔
آخر کار سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑا اور حکومت کا بھاری بھرکم بوٹ عوام کی گردن سے ہٹانا پڑا تو سانس کا نظام کچھ بحال ہوا جب کہ حکومت کی ''مہنگائی بڑھاؤ، غریب مٹاؤ'' پالیسی نے آخر کار رنگ دکھانا شروع کردیا۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں فیصل آباد کی ایک صوبائی نشست جو PML-N کے MPA خواجہ اسلام کی جعلی ڈگری کی وجہ سے خالی ہوئی تھی PTI نے جیت لی۔ جب کہ فیصل آباد PML-N کا گڑھ مانا جاتا ہے اور پچھلے الیکشن میں نتائج کی رو سے یہ درست بھی ہے۔ لیکن یہ شکست عوامی ردعمل کی ابتداء ہے۔
لیکن میں آج سوچ رہا ہوں کہ جانے اب کے بہار آئے گی کہ نہیں؟ صحن گلشن میں کوئی ہنگامہ برپا ہوگا کہ نہیں؟ گل و بلبل اپنی داستان پارینہ دہرائیں گے یا نسیم سحر کے جھونکے ادھ کھلی، شرمائی ہوئی کلیوں کے گھونگھٹ الٹیں گے کہ نہیں؟ یا بہار مختصر ہوگی کہ وہ ایک نوخیز حسینہ کی طرح آمادہ رقص تو ہوگی لیکن ابھی اس کے احمریں ہونٹوں سے گیت کا پورا بول بھی نہیں نکلے گا کہ دفعتاً وقت کا بوڑھا دیوتا برہم ہوکر پردہ گرادے گا۔ فانوس بجھا دے گا اور کسی ذی روح کو معلوم تک نہ ہوگا کہ کب سرما کی ٹھٹھرتی ہوئی دیوی رخصت ہوئی اور کب مہنگائی۔ جی ہاں! مہنگائی کی جھلستی ہوئی گرمی اپنے نیم عریاں انداز میں بڑھ کر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ لیکن جانے دیجیے اب آنے والے ایام پر آنسو بہانے کا بھی تو کوئی فائدہ نہیں۔