سماج فنکار اور تنقید … 1
جب ہم سماج یا کسی معاشرے کا ذکر کریں تو ہماری روزمرہ زندگی میں سماجی رسم و رواج اور معاشرتی رہن سہن کا۔۔۔
جب ہم سماج یا کسی معاشرے کا ذکر کریں تو ہماری روزمرہ زندگی میں سماجی رسم و رواج اور معاشرتی رہن سہن کا ذکر بھی ضرور آتا ہے جو ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتا ہے کہ ایک معاشرہ یا سماج مختلف گروہوں یا طبقات پر مبنی تجریدی ساخت نہیں ہے بلکہ انسانی تعلقات پر مبنی ہے جو خود بخود نہیں بنا ، بلکہ باضابطہ نظام کے تحت بننے والی عام فہم ساخت ہے، جس میں انفرادی اور سماجی تعلقات پنپتے ہیں جن کے تحت مختلف طریقوں سے افراد اور گروہ سماج کو کبھی واضح تو کبھی مبہم طریقے سے ارتقائی مراحل سے گزارتے ہیں اور سماج پرکئی طریقوں سے اپنے اپنے فہم و ادراک کے تحت اثر انداز ہوتے ہیں۔کسی سماج کی نفسیات یا سماجی شعور کا ارتقاء سماجی رسم و رواج اور روایات کے تحت ہی آگے بڑھتا ہے، یعنی رسم و رواج اور روایات کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو منظم طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان کی اقدار کو مخصوص معیار میں ڈھالا جاتا ہے۔
کنٹرول کرنیوالے ہمیشہ اقلیت میں ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح کی طاقت کے مالک ہوتے ہیں، چاہے وہ طاقت مذہبی علوم کی ہو یا معاشی وسائل کی ہو یا کسی بڑے عہدے کی۔ منتظمین ہی سماجی نظام کو اپنے مفادات کے تحت ڈھال رہے ہوتے ہیں۔ نظام کی باقاعدگی کا سماج کی تبدیلیوں میں بنیادی،اہم اور وسیع کردار ہوتا ہے جو افراد کو خاص سوچ اورکردار کا حامل بناتی ہے۔ اس کے لیے کسی بھی سماج میں ادب خیالیات کی ترسیل کا موثر اور کار آمد ذریعہ ہمیشہ سے رہا ہے۔
ادبی تحاریر کے تحت اچھے اور برے کرداروں کو ڈھالا جاتا ہے اور رسم و رواج کے نام پر ان خیالات کو عملی سرگرمی سے معنی کی ساخت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ معنی کو جب کبھی اپنی ضرورت کے تحت پھر نئی شکل میں ڈھالنا ہو تو اس کی منتقلی ہمیشہ مادی ساخت میں کی جاتی ہے یعنی کسی رسم و رواج کے تحت یا کسی ایسی عملی سرگرمی کے تحت جو لوگوں کے اذہان میں نئے معنی کی مادی ساخت کو پختہ کردے۔کسی بھی ساخت کی مادی اطراف کی تشکیل کے لیے ادبی خیالات کو عملی سرگرمیوں کے ذریعے کسی ثقافت کی ٹھوس مادی صورت میں ڈھالنا آسان ہوتا ہے۔
اسی طرح کسی سماج کے مروجہ رسم و رواج اور معنی کی ترسیل ایک نسل سے دوسری نسل تک ثقافتی سرگرمیوں اور روایات کے ذریعے منتقل ہوتے ہوئے نئی ساختوں میں ڈھل جاتے ہیں، جیسے رابطے کا ذریعہ ایک خط کی بجائے ای میل، انٹر نیٹ فیس بک وغیرہ بن جانے سے رابطے کے ذرائع کی تعریف میں اب خالی ڈاکخانہ یا ڈاکیہ ہی ہمارے اذہان میں نہیں آئے گا بلکہ کمپیوٹر، موبائل فون ، لیپ ٹاپ اور اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کے کئی آلات ہمارے اذہان میں معنی کی شکل اختیار کر لیں گے۔
اسی طرح جب ہم ادب و فن کی بات کرینگے تو ہمارے اذہان میں اس کا معنوی عکس آج صرف ایک شاعری کرنیوالا، افسانہ لکھنے والا، یا ناول لکھنے والا ہی ''فنکار'' کے طور پر نہیں آئیگا بلکہ اس کی کئی نئی اور پوشیدہ جہات اور نئے معنی کی تشکیل بھی ہوگی،کیونکہ فن کے زمرے میں سماجی انسان کی کیا کیا سرگرمیاں رکھی جاسکتی ہیں اس کا تعین بھی سماج کے بدلتے ہوئے رجحانات کے تحت ہوگا۔ سماج کے بدلتے رجحانات کو متعین کرنے میں تنقیدی نظریات اور تھیوریوں کا کردار بنیادی ہوتا ہے اور سماجی رجحانات کے تحت کسی فنکار کی حیثیت کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں بد قسمتی سے سماجی شعور تنقید کی افادیت سے بہرہ مند نہیں ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تنقیدی نظریات کی حیثیت شاعری یا افسانے کے مقابل اس لیے کچھ نہیں کہ تنقید کسی ''تخلیق'' کے بنا کوئی اہمیت نہیں رکھتی، یا اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ تخلیق پہلے ہے تنقید بعد میں ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تنقید سے ہمارا اس لیے تعلق نہیں کہ یہ مغربی نظریات ہیں ۔
یہ بات کرتے وقت وہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ،اُردو ادب میں نظم، غزل ، افسانہ، ڈرامہ اور ناول سب اصناف درآمد کی گئیں تھیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں اس طرح رچ بس گئی ہیں کہ اب وہ اُردو ادب معلوم ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو زبان کی اپنی عمر بہت کم تھی۔ اسی طرح تنقید اور تنقیدی نظریات بھی وقت کے ساتھ ساتھ اردو ادب کا ہی حصہ معلوم ہوں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اردو ادب میں ہونے والی شاعری، لکھے جانے والے افسانے، ڈرامے یا ناولوں کا مختلف تنقیدی نظریات کی روشنی میں جائزہ بھی لیا جائے اور ان کو ان کے اپنے پس منظر اور پیش منظرکے حوالے سے تھیورائز بھی کیا جائے، تاکہ ان کے اپنے اندر پائے جانے والے رجحانات کو مروجہ تنقیدی نظریات سے الگ نمایاں کرتے ہوئے مقامی ادب و سماج کے حوالوں سمیت استحکام بخشا جا سکے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تنقید کا کام صر ف ادب کی گمشدہ جہات کا انکشاف کرنا ہے ورنہ اپنے آپ میں تنقید کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور کچھ لوگ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ شعر کہنا ، افسانہ لکھنا، یا ناول لکھنا اس لیے بہتر ہے کہ ان کے لکھنے والے ''فنکار'' بن جاتے ہیں اور ان فنکاروں کی حیثیت اس لیے زیادہ ہے کہ تنقید اپنے وجود کے اثبات کے لیے ان کی لکھی ہوئی تحاریر کے مرہون منت ہوتی ہے۔ اسی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت سے لوگ تنقید کو کم تر درجے کی صنف سمجھتے ہوئے تنقید پر تنقید کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنی اس سرگرمی تک کا شعور نہیں رکھتے کہ تنقید کی اپنے کم درجے کے شعور کے تحت تعریف کرنے کا عمل بھی تنقیدی عمل ہے۔
اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ تنقید ادب کی گمشدہ جہتوں کا انکشاف کرتی ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے مگر اچھی تنقید اس سے بڑھ کر ادب میںپائے جانے والے ان عناصر کو بھی نمایاں کرتی ہے جو کسی سماج میںر ائج اچھے یا برے طریقے سے اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں ۔ لہذا ایسا ادب جو سماج کو پسماندگی کی جانب لے جاتا ہو، اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اس کی ان جہات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نقاد کو مذمت بھی کرنی چاہیے ، اور کسی سماج میں مختلف خیالات و نظریات کے فروغ کے لیے یا تبدیلی کے لیے تنقیدکو بطورِ ہتھیار استعمال کرنا چاہیے ، تاکہ قاری جو کسی معاشرے کا فرد بھی ہے ایسے ادب سے متاثر ہو کر اپنے سماج کی ترقی کی راہ کو مسدود نہ کرے۔
ہمارے ہاں تنقید کے حوالے سے تعصب پایا جاتا ہے در حقیقت ہماری تقلیدی فکر اور روایت تنقید کو برداشت نہیں کر پاتی، اگرچہ تنقید کسی بھی معاشرے کی ترقی اور مجموعی سماجی و سیاسی شعور کی بلندی میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بات سننا کسی بھی انسان کے لیے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ کہاں کہاں پر غلط ہے۔ مغربی تنقید اور تنقیدی نظریات کے حوالے سے بحث کرنے والے افراد مغربی پیداواری صنعتی اصناف اور کمیونی کیشن کے لیے مغرب ہی کے ایجاد کردہ آلات کے ذریعے مغربی تنقید کے خلاف بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ مغرب کی بنائی ہوئی ایسی بے شمار اشیا سے لوگ فیضاب ہو رہے ہوتے ہیں مگر تنقیدی کی بات ہو تو مغربی تنقید اور مغربی اصطلاحات کو بہت سے لوگ اس لیے تحقیر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے اذہان ان کی افادیت کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔
(جاری ہے)