وزیر اعظم نواز شریف کی امریکا یاترا

اس وقت جب ہم یہ کالم سپرد قلم کر رہے ہیں، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف براستہ لندن انکل سام کے دیس پہنچ چکے ہیں۔۔۔


Shakeel Farooqi October 21, 2013
[email protected]

COLOMBO: اس وقت جب ہم یہ کالم سپرد قلم کر رہے ہیں، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف براستہ لندن انکل سام کے دیس پہنچ چکے ہیں اور 23 اکتوبر بروز بدھ ان کی صدر امریکا بارک اوباما سے ملاقات طے ہے۔ اگرچہ ہماری وزارت خارجہ کے حلقوں کی جانب سے بھی یہ عندیہ دیا جاچکا ہے کہ اس سربراہی ملاقات سے بہت زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کا یہ دورہ امریکا پانچ سال کی طویل مدت کے بعد ممکن ہورہا ہے۔ اس اعتبار سے بہرحال اس دورے کی مخصوص اہمیت کو کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاک امریکا تعلقات کی تاریخ برسوں پرانی ہے۔ ان تعلقات کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب پاکستان کے اولین عوامی وزیر اعظم لیاقت علی خان ایک بہت بڑے وفد کے ساتھ امریکا گئے تھے ۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ لیاقت علی خان نے روسی کیمپ کو نظرانداز کرکے امریکا کا انتخاب کیا تھا جوکہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روسی قیادت کی سردمہری کی وجہ سے لیاقت علی خان کا دورہ روس کافی عرصے تک کھٹائی میں پڑا رہنے کے بعد ممکن نہ ہوسکا ۔

اس پس منظر میں معروضی حالات کے پیش نظر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے پاس اس وقت کی دوسری سپرپاور امریکا کے انتخاب کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت کے حمایتی سوویت بلاک کے مدمقابل پاکستان کے حق میں توازن قائم کرنے کے لیے دوسرے پاور بلاک امریکا کے ساتھ تعلقات کا قیام قطعی ناگزیر تھا کیونکہ بصورت دیگر پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ لیاقت علی خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا کام نہایت باوقار انداز میں انجام دیا جس کی بنیاد انھوں نے Trade not aid کے اصول پر رکھی۔ افسوس کہ پاکستان مخالف قوتوں نے لیاقت علی خان کی جان لے لی اور پاک امریکا تعلقات اس نہج پر پروان نہ چڑھ سکے جوان کی خواہش تھی۔

اس کے بعد پاک امریکا تعلقات میں وقتاً فوقتاً بڑے نشیب و فراز آئے مگر marriage of convenience کی صورت میں دونوں ممالک کے تعلقات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بھارت کی عیاری دیکھیے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس نے ایک نئی کروٹ لی اور امریکا کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں اور ہرجائی امریکا نے بھی اسے بہ رضا و رغبت قبول کرلیا مگر پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع اور افغانستان کے حالات کے باعث امریکا کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کو نظرانداز کردے۔ ادھر پاکستان کے معروضی حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم نواز شریف کے موجودہ دورہ امریکا کو اگر ناگزیر کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ البتہ اس دورے کے بارے میں مختلف حلقے مختلف چہ مے گوئیاں کر رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے اقتصادی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہم امریکا کو یکسر نظرانداز کردیں۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم کشکول کو توڑنے کی شدید خواہش کے باوجود کشکول اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ادھر امریکا کا بھی ہمارے بغیر گزارہ نہیں ہے، خصوصاً ان حالات میں جب اسے 2014 میں افغانستان سے انخلاء کا مسئلہ درپیش ہے۔

چناں چہ نواز شریف کی امریکا یاترا کے شروع ہونے سے قبل ہی اسے پاکستان کو 1.6 ارب ڈالر کی خطیر رقم خاموشی سے دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ دریں اثنا پاکستان کو امریکا کی جانب سے اتحادی سپورٹ فنڈز کے تحت 32 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم بھی مل گئی ہے۔ یہ رقم کولیشن سپورٹ فنڈ کے پرانے واجبات کی مد میں ملی ہے جس سے حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مدد حاصل ہوگی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے موجودہ دورہ امریکا کے دوران ڈیولپمنٹ ایجنڈہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگی جس میں دو طرفہ تعاون کے فروغ کے علاوہ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے اہم معاملات اور موضوعات نمایاں طور پر شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ علاقے میں امن واستحکام کے فروغ کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

دو طرفہ مذاکرات میں پاکستان پر ڈرون حملوں کا مسئلہ سر فہرست ہوگا۔ پاکستان پر عرصہ دراز سے مسلسل جاری 330 ڈرون حملوں میں 400 عام شہریوں سمیت تقریباً 2200 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان حملوں کے خلاف پورے ملک اور خصوصاً شمالی علاقہ جات میں بے حد غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف امریکا کے راستے لندن میں مختصر قیام کے دوران میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ یہ معاملہ امریکی صدر سے ملاقات کے دوران اولیت کے ساتھ اٹھائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ حملے پاکستان کی سالمیت اور علاقائی خودمختاری کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے اس پر کیا ردعمل سامنے آئے گا۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ان حملوں کا ایشو اٹھانا بھی یقینا ایک جرأت مندانہ قدم ہے جسے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ پوری پاکستانی قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی امریکا کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے سابقہ دور حکومت میں بھی جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔

دوسری جانب امریکی حکومت کو میاں نواز شریف کی نئی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی جاننے میں گہری دلچسپی ہے۔ امریکی یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت اس محاذ پر اس کا کتنا اور کس طرح سے ساتھ دے سکتی ہے۔ امریکیوں کا سب سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ حکومت پاکستان کی طالبان کے ساتھ مجوزہ ڈائیلاگ کا خاکہ یا Modalities کیا ہوں گی۔ بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سربراہی مذاکرات میں امریکی پاکستانیوں کی بات کم سنیں گے اور اپنی بات زیادہ سنائیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران گیس پائپ لائن کے معاملے میں امریکا ان مذاکرات میں پاکستان پر دباؤ ڈالے گا جب کہ پاکستان سائیڈ کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ اس معاملے میں امریکا کا کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گا اور ایران کے ساتھ زرداری حکومت کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس دورے میں پاکستان کے نئے آرمی چیف کے تقرر کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی کلیئرنس بھی حاصل کی جائے گی۔ اس معاملے میں ہمارا کہنا صرف اس قدر ہے کہ بہتر ہوتا کہ نئے فوجی سربراہ کا اعلان اس دورے سے قبل ہی کردیا جاتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں