’’پب جی‘‘ کا نشہ بڑھ رہا ہے
پب جی جیسے گیم بنانے والی کمپنیاں آپ کی اور بچوں کی نفسیات سے کھیل کر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں
RAWALPINDI:
اگرچہ پاکستانیوں کی اکثریت سوشل میڈیا محض ٹرولنگ اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کےلیے استعمال کرتی ہے مگر کبھی کبھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے مسائل بھی سامنے آجاتے ہیں جو مستقبل میں کسی بڑے المیے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ آن لائن گیم ''پلے ان نان بیٹل گراؤنڈ'' یا پب جی گیم کے معاملے میں بھی ہوا ہے اور متعدد والدین اس کھیل کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔
میرا شمار شاید پاکستان کے ان گنے چنے خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو ''ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ وغیرہ جیسی لت سے اب تک محفوظ ہیں۔ اسی لیے جب ابتدا میں چند والدین نے میرے سائنس بلاگز پڑھ کر آن لائن گیم پب جی کے حوالے سے مجھ سے رابطہ کیا تو میری اس کے بارے میں معلومات صفر تھیں۔ مجھے کینڈی کرش کھیلے بھی مدت ہوچکی ہے اور میرے اسمارٹ فون میں سائنسی مواد کی کثرت کے باعث اب ڈکشنری بھی ڈیلیٹڈ ہے۔ میرا خیال تھا کہ شاید ان والدین کے بچے کچھ خود سر ہوں گے یا والدین اپنی حساس طبیعت کے باعث زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ مگر اس کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب خطرہ میرے اپنے گھر تک پہنچ چکا تھا اور فی الوقت میری اپنی بہن دس سالہ بیٹے کا اس کھیل میں جنون دیکھتے ہوئے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
سوشل میڈیا اور گوگل پر تلاش کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ کھیل انڈیا کی کئی ریاستوں میں تباہی مچا چکا ہے اور وہاں دس سے زیادہ بچے والدین کی جانب سے روکنے پر خودکشی کرچکے ہیں، جبکہ وہاں بچوں کو اس کھیل سے دور رکھنے کےلیے باقاعدہ کاؤنسلنگ اور ماہر نفسیات کی مدد بھی فراہم کی جارہی ہے۔
بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے چند والدین نے اس کھیل پر پورے ملک میں پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔ انڈیا میں اس گیم کی مقبولیت اس حد تک ہے کہ وہاں اس کےلیے ایک چیمپینئز ٹرافی بھی منعقد کی گئی، جس میں جیتنے والے کو 50 لاکھ روپے کا انعام دیا گیا۔ جس کے بعد وہاں اس گیم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور 2019 میں اب تک یہ گوگل پلے اسٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانے والا گیم ہے۔
اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے کثیر تعداد میں والدین نے اس گیم کے خلاف آواز اٹھائی اور خلیج ٹائمز کے ساتھ اپنی کہانیاں شیئر کیں۔ ان کہانیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ گیم کھیلنے کے بعد بچوں کے رویوں میں شدت اور خودسری بڑھ گئی ہے اور وہ پڑھائی سے بیزار ہونے کے علاوہ دیگر مشاغل سے دور ہوکر اب صرف اسی گیم کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کی آپس کی بات چیت کا محور بھی یہی کھیل ہوتا ہے۔ اگر انھیں اس سے روکا یا سمجھایا جائے تو وہ والدین کے سامنے خودسری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مزید سختی پر خودکشی کے بہت سے کیسز اب تک سامنے آچکے ہیں۔ یہ صورتحال ان والدین کےلیے زیادہ تشویشناک ہے جو اس کھیل یا آن لائن گیمز کے الگورتھمز کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
پب جی گیم کا پہلا گیم مارچ 2017 میں ریلیز کیا گیا جو صرف کمپیوٹر پر کھیلا جاسکتا تھا، اس کے باوجود ابتدائی 4 ماہ میں اسے تقریباً 10 ملین افراد نے کھیلا۔ جس کے بعد اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کو بنانے والی کورین کمپنی نے مارچ 2018 میں اس کا موبائل ورژن بھی جاری کیا۔ بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ والا گیم ہے، جس میں کھلاڑیوں کو ایک مخصوص فیلڈ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنا ہوتا ہے، جس کےلیے وہ مختلف طرح کے ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور آخر میں سب کو مار کر بچ جانے والا ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ اس گیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہتھیاروں کو مخصوص جگہ پر چھپانے کی سہولت دی جاتی ہے، مگر میدان جنگ کا علاقہ مسلسل سکڑ کر مختصر ہوجاتا ہے۔ یعنی وہی کھلاڑی جیتے گا جو کم وقت میں زیادہ لوگوں کو مارے اور زیادہ تباہی پھیلائے گا۔ اس طرح کے مار دھاڑ سے بھرپور گیمز جیسے فری فائر، رولز آف سروائیول بچوں میں پہلے ہی مقبول ہیں، جس کے باعث مغربی ممالک میں خونریزی کے متعدد واقعات بھی ہوچکے ہیں، لیکن انتہاپسندی کا الزام اسلام یا مسلمانوں پر لگادیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پب جی میں ایسا کیا ہے جو بچوں کے دماغوں کو مکمل مفلوج کرکے اپنی گرفت میں لے رہا ہے اور والدین کی سختی پر زندگی ختم کرنے جیسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کررہے؟
آج کی نسل نے ایک ڈیجیٹل دور میں آنکھ کھولی ہے، جہاں انھیں محنت یا مشقت کے ساتھ چیزوں کے حصول کے بجائے ہر طرح کے شارٹ کٹ دستیاب ہیں۔ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کی زندگیوں میں بھی ایک خلا ہے، جسے وہ مختلف مشاغل یا طریقوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ''زندگی میں مقاصد کی کمی'' کا یہ خلا کسی طور بھر ہی نہیں پارہا۔ اس کے بعد کی نسل یعنی آج کل کے بچے اس سے بھی بڑے مسائل اور بحرانوں کا شکار ہیں، جنھیں والدین سمجھنے سے قاصر ہیں اور سوچے سمجھے بغیر بچوں کو موبائل، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ جیسی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
اگرچہ والدین اپنے بچوں کی نفسیات سے آگاہ نہیں ہیں مگر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ الگورتھم بنانے والے افراد اور کمپنیاں ان کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ گیم میں ہر نئے اپ ڈیٹ کے ساتھ جو اضافے یا مزید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں درپردہ ان کے ذریعے بچوں کی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے اور اگلے ورژن میں اسے فراہم کرکے بچوں کو باقاعدہ اس گیم کے نشے میں مبتلا کیا جارہا ہے، جس کے باعث ناصرف ان کے مزاجوں میں تندی اور خودسری بڑھ رہی ہے بلکہ وہ گیم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
اس حوالے سے لاہور کی ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے ''والدین کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا بچہ اپنا وقت اگر کسی مخصوص گیم میں گزار رہا ہے تو اس کھیل میں ایسی کیا بات ہے؟ اس کے ساتھ ہی اگر آپ کا بچہ سادہ موبائل یا کمپیوٹر کو چھوڑ کر مہنگے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کی فرمائش کرتا ہے تو فوراً ہی اس کی خواہش پوری کرنے کے بجائے اسے دیگر مشاغل جیسے آؤٹ ڈور گیمز یا واک کی طرف متوجہ کیجئے اور بچوں کی جانب سے مسلسل کسی چیز کی ضد پر ان کی مطلوبہ چیز فراہم کرنے کے بجائے انتظار، برداشت اور صبر کی عادت ڈالئے جو مستقبل میں ایک کامیاب انسان بننے میں ان کی معاون ثابت ہوگی۔''
ایک غیر ملکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈیو کے مطابق ''آج کے بچے صرف ان چیزوں یا لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن سے انھیں بہت زیادہ خوشی چند لمحوں میں حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے شدید خوشی یا غمی اپنے کسی بھی فوری ری ایکشن پر قابو پانا ان کےلیے ممکن نہیں ہوتا۔ جس چیز سے انھیں خوشی ملتی ہے اگر انھیں اس سے روکا جائے تو ان کے اندر کا اشتعال والدین سے بدکلامی یا بدتمیزی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور زیادہ سنگین صورتحال میں وہ منٹوں میں خودکشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔''
ڈاکٹر ڈیو کے مطابق اس صورتحال کو والدین ایک دم سے کنٹرول نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسمارٹ فون یا آن لائن گیمز پر مکمل پابندی لگاسکتے ہیں۔ بلکہ اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ والدین بھلے بچوں کی ضد پوری کریں مگر ساتھ ہی انھیں وقت کا پابند کریں کہ وہ ایک یا دو گھنٹے سے زیادہ آن لائن نہیں رہیں گے۔ انھیں آؤٹ ڈور کھیلوں اور سائنس پراجیکٹ یا آرٹ وغیرہ کی طرف مائل کریں تاکہ تبدریج ان کے اندر کا اشتعال کم ہو اور اپنے عمل کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
آج کل بچے تو کیا بڑے بھی واقعات کے تسلسل کے بارے میں سوچے بغیر عمل کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہماری برداشت بہت محدود کرکے ہمیں انتہائی حد تک حساس کردیا ہے۔ اس کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اپنی زندگی میں مقاصد متعین کیجیے اور ان کے ساتھ آگے بڑھئے۔ یاد رکھئے، یہ آپ کے اپنے انتہاپسند اور غیر ذمے دارانہ رویے ہی ہیں جو بچوں میں انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہے ہیں اور پب جی جیسے گیم بنانے والی کمپنیاں آپ کی اور بچوں کی نفسیات سے کھیل کر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرچہ پاکستانیوں کی اکثریت سوشل میڈیا محض ٹرولنگ اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کےلیے استعمال کرتی ہے مگر کبھی کبھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے مسائل بھی سامنے آجاتے ہیں جو مستقبل میں کسی بڑے المیے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ آن لائن گیم ''پلے ان نان بیٹل گراؤنڈ'' یا پب جی گیم کے معاملے میں بھی ہوا ہے اور متعدد والدین اس کھیل کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔
میرا شمار شاید پاکستان کے ان گنے چنے خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو ''ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ وغیرہ جیسی لت سے اب تک محفوظ ہیں۔ اسی لیے جب ابتدا میں چند والدین نے میرے سائنس بلاگز پڑھ کر آن لائن گیم پب جی کے حوالے سے مجھ سے رابطہ کیا تو میری اس کے بارے میں معلومات صفر تھیں۔ مجھے کینڈی کرش کھیلے بھی مدت ہوچکی ہے اور میرے اسمارٹ فون میں سائنسی مواد کی کثرت کے باعث اب ڈکشنری بھی ڈیلیٹڈ ہے۔ میرا خیال تھا کہ شاید ان والدین کے بچے کچھ خود سر ہوں گے یا والدین اپنی حساس طبیعت کے باعث زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ مگر اس کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب خطرہ میرے اپنے گھر تک پہنچ چکا تھا اور فی الوقت میری اپنی بہن دس سالہ بیٹے کا اس کھیل میں جنون دیکھتے ہوئے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
مسئلہ کتنا سنگین ہے؟
سوشل میڈیا اور گوگل پر تلاش کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ کھیل انڈیا کی کئی ریاستوں میں تباہی مچا چکا ہے اور وہاں دس سے زیادہ بچے والدین کی جانب سے روکنے پر خودکشی کرچکے ہیں، جبکہ وہاں بچوں کو اس کھیل سے دور رکھنے کےلیے باقاعدہ کاؤنسلنگ اور ماہر نفسیات کی مدد بھی فراہم کی جارہی ہے۔
بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے چند والدین نے اس کھیل پر پورے ملک میں پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔ انڈیا میں اس گیم کی مقبولیت اس حد تک ہے کہ وہاں اس کےلیے ایک چیمپینئز ٹرافی بھی منعقد کی گئی، جس میں جیتنے والے کو 50 لاکھ روپے کا انعام دیا گیا۔ جس کے بعد وہاں اس گیم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور 2019 میں اب تک یہ گوگل پلے اسٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانے والا گیم ہے۔
اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے کثیر تعداد میں والدین نے اس گیم کے خلاف آواز اٹھائی اور خلیج ٹائمز کے ساتھ اپنی کہانیاں شیئر کیں۔ ان کہانیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ گیم کھیلنے کے بعد بچوں کے رویوں میں شدت اور خودسری بڑھ گئی ہے اور وہ پڑھائی سے بیزار ہونے کے علاوہ دیگر مشاغل سے دور ہوکر اب صرف اسی گیم کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کی آپس کی بات چیت کا محور بھی یہی کھیل ہوتا ہے۔ اگر انھیں اس سے روکا یا سمجھایا جائے تو وہ والدین کے سامنے خودسری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مزید سختی پر خودکشی کے بہت سے کیسز اب تک سامنے آچکے ہیں۔ یہ صورتحال ان والدین کےلیے زیادہ تشویشناک ہے جو اس کھیل یا آن لائن گیمز کے الگورتھمز کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
پب جی میں ایسا کیا ہے؟
پب جی گیم کا پہلا گیم مارچ 2017 میں ریلیز کیا گیا جو صرف کمپیوٹر پر کھیلا جاسکتا تھا، اس کے باوجود ابتدائی 4 ماہ میں اسے تقریباً 10 ملین افراد نے کھیلا۔ جس کے بعد اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کو بنانے والی کورین کمپنی نے مارچ 2018 میں اس کا موبائل ورژن بھی جاری کیا۔ بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ والا گیم ہے، جس میں کھلاڑیوں کو ایک مخصوص فیلڈ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنا ہوتا ہے، جس کےلیے وہ مختلف طرح کے ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور آخر میں سب کو مار کر بچ جانے والا ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ اس گیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہتھیاروں کو مخصوص جگہ پر چھپانے کی سہولت دی جاتی ہے، مگر میدان جنگ کا علاقہ مسلسل سکڑ کر مختصر ہوجاتا ہے۔ یعنی وہی کھلاڑی جیتے گا جو کم وقت میں زیادہ لوگوں کو مارے اور زیادہ تباہی پھیلائے گا۔ اس طرح کے مار دھاڑ سے بھرپور گیمز جیسے فری فائر، رولز آف سروائیول بچوں میں پہلے ہی مقبول ہیں، جس کے باعث مغربی ممالک میں خونریزی کے متعدد واقعات بھی ہوچکے ہیں، لیکن انتہاپسندی کا الزام اسلام یا مسلمانوں پر لگادیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پب جی میں ایسا کیا ہے جو بچوں کے دماغوں کو مکمل مفلوج کرکے اپنی گرفت میں لے رہا ہے اور والدین کی سختی پر زندگی ختم کرنے جیسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کررہے؟
آج کی نسل نے ایک ڈیجیٹل دور میں آنکھ کھولی ہے، جہاں انھیں محنت یا مشقت کے ساتھ چیزوں کے حصول کے بجائے ہر طرح کے شارٹ کٹ دستیاب ہیں۔ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کی زندگیوں میں بھی ایک خلا ہے، جسے وہ مختلف مشاغل یا طریقوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ''زندگی میں مقاصد کی کمی'' کا یہ خلا کسی طور بھر ہی نہیں پارہا۔ اس کے بعد کی نسل یعنی آج کل کے بچے اس سے بھی بڑے مسائل اور بحرانوں کا شکار ہیں، جنھیں والدین سمجھنے سے قاصر ہیں اور سوچے سمجھے بغیر بچوں کو موبائل، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ جیسی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
اگرچہ والدین اپنے بچوں کی نفسیات سے آگاہ نہیں ہیں مگر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ الگورتھم بنانے والے افراد اور کمپنیاں ان کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ گیم میں ہر نئے اپ ڈیٹ کے ساتھ جو اضافے یا مزید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں درپردہ ان کے ذریعے بچوں کی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے اور اگلے ورژن میں اسے فراہم کرکے بچوں کو باقاعدہ اس گیم کے نشے میں مبتلا کیا جارہا ہے، جس کے باعث ناصرف ان کے مزاجوں میں تندی اور خودسری بڑھ رہی ہے بلکہ وہ گیم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کیا کہتے ہیں؟
اس حوالے سے لاہور کی ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے ''والدین کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا بچہ اپنا وقت اگر کسی مخصوص گیم میں گزار رہا ہے تو اس کھیل میں ایسی کیا بات ہے؟ اس کے ساتھ ہی اگر آپ کا بچہ سادہ موبائل یا کمپیوٹر کو چھوڑ کر مہنگے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کی فرمائش کرتا ہے تو فوراً ہی اس کی خواہش پوری کرنے کے بجائے اسے دیگر مشاغل جیسے آؤٹ ڈور گیمز یا واک کی طرف متوجہ کیجئے اور بچوں کی جانب سے مسلسل کسی چیز کی ضد پر ان کی مطلوبہ چیز فراہم کرنے کے بجائے انتظار، برداشت اور صبر کی عادت ڈالئے جو مستقبل میں ایک کامیاب انسان بننے میں ان کی معاون ثابت ہوگی۔''
ایک غیر ملکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈیو کے مطابق ''آج کے بچے صرف ان چیزوں یا لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن سے انھیں بہت زیادہ خوشی چند لمحوں میں حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے شدید خوشی یا غمی اپنے کسی بھی فوری ری ایکشن پر قابو پانا ان کےلیے ممکن نہیں ہوتا۔ جس چیز سے انھیں خوشی ملتی ہے اگر انھیں اس سے روکا جائے تو ان کے اندر کا اشتعال والدین سے بدکلامی یا بدتمیزی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور زیادہ سنگین صورتحال میں وہ منٹوں میں خودکشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔''
ڈاکٹر ڈیو کے مطابق اس صورتحال کو والدین ایک دم سے کنٹرول نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسمارٹ فون یا آن لائن گیمز پر مکمل پابندی لگاسکتے ہیں۔ بلکہ اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ والدین بھلے بچوں کی ضد پوری کریں مگر ساتھ ہی انھیں وقت کا پابند کریں کہ وہ ایک یا دو گھنٹے سے زیادہ آن لائن نہیں رہیں گے۔ انھیں آؤٹ ڈور کھیلوں اور سائنس پراجیکٹ یا آرٹ وغیرہ کی طرف مائل کریں تاکہ تبدریج ان کے اندر کا اشتعال کم ہو اور اپنے عمل کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
آج کل بچے تو کیا بڑے بھی واقعات کے تسلسل کے بارے میں سوچے بغیر عمل کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہماری برداشت بہت محدود کرکے ہمیں انتہائی حد تک حساس کردیا ہے۔ اس کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اپنی زندگی میں مقاصد متعین کیجیے اور ان کے ساتھ آگے بڑھئے۔ یاد رکھئے، یہ آپ کے اپنے انتہاپسند اور غیر ذمے دارانہ رویے ہی ہیں جو بچوں میں انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہے ہیں اور پب جی جیسے گیم بنانے والی کمپنیاں آپ کی اور بچوں کی نفسیات سے کھیل کر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔